عدالت کا قیام، مردو زن کی ایک مقدس ذمے داری
فکرونظر • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
شاید اب تک ذہنوں میں یہ سوال اُبھر چکا ہو گاکہ کیا عدالت کا قیام صرف مردوں کی ذمے داری ہے؟ باالفاظ ِدیگر کیا خداوند ِعالم نے عدالت کے قیام کا تقاضا صرف مردوں سے کیا ہے؟ یا اِس سلسلے میں خواتین بھی جوابدہ ہیں؟ کیونکہ آیت ِقرآن تو تمام لوگوں کو عدالت کے قیام کا ذمے دار قرار دے رہی ہے۔
اپنے گردو پیش کی دنیا پر نگاہ ڈالتے ہی، آسانی کے ساتھ ہم یہ بات جان لیتے ہیں کہ عدالت کے قیام کے لیے عورتوں کی توانائیاں بھی ضروری ہیں کیونکہ عورتیں بھی فکری، ذاتی اور اجتماعی پہلوئوں سے اِس سلسلے میں مؤثر واقع ہوتی ہیں۔
یہ بات بہت آسانی کے ساتھ سمجھی جا سکتی ہے کہ عدل و انصاف کے قیام کے سلسلے میں عورت کا معاشرتی کردار بھی قابلِ اہمیت ہے اور جس طرح مرد اِس سلسلے میں ذمے دار ہے اُسی طرح عورت پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ البتہ اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم مردوں اور عورتوں کے کردار کو ایک دوسرے سے جدا کریں اور ہر ایک کے کردار کا علیحدہ علیحدہ مخصوص دائرے میں رکھ کر اُس کا جائزہ لیں۔ بلکہ ہم معاشرے میں ایسی ذمے داریاں بھی دیکھتے ہیں جو مرد وں اور عورتوںکے درمیان مشترک ہیں اور اِن دونوں میں سے ہر کوئی بڑھ کر اُنھیں ادا کر سکتا ہے۔
ہر چند کچھ ذمے داریاں صرف عورت سے مخصوص ہیں، لیکن بہت سے مواقع پر عدالت کے قیام کے سلسلے میںمرد و زن میں سے ہر ایک دوسرے ہی کی مانند مؤثر ہو سکتا ہے۔ بے شک وہ مخصوص کردار جوجنسیت کی بنیاد پر استوار ہیں عمومی اور اجتماعی کرداروں کو ختم نہیں کر سکتے۔
اسلامی سیاست کے میدان میںعورت کا حق
بعض لوگ عورت کے اجتماعی کردار کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہیں۔ کچھ لوگ عورت کی ذمے داری کو صرف اور صرف اپنے بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال تک محدود کر دیتے ہیں اور اُس کے کسی اجتماعی کردار کو قبول نہیں کرتے۔ البتہ یہ انحراف دوسرے اجتماعی پہلوئوں میں بھی بخوبی نمایاں ہے۔جیسے کہ کبھی لوگوں کا ایک گروہ اپنی تمام سرگرمیوں کو صرف کسی ایک میدان میں مرکوز کر دیتا ہے اور اپنے معاشرتی فرائض اور ذمے داریوں سے بہت دور ہو جاتا ہے ۔ البتہ یہ ایک دیرینہ مشکل ہے۔
اِسی طرح آج بھی ہم کچھ لوگوں کو یہ کہتے ہوئے پاتے ہیں کہ علمائے دین کو سیاسی مسائل میں دخل نہیں دینا چاہیے، کیونکہ اُن کی ذمے داری صرف دینی مسائل تک محدود ہے۔درست ہے کہ علمائے دین کا فریضہ دینی مسائل کی تحقیق اور اُن کے بارے میں غور و فکر ہے، لیکن سیاسی رہنمائی کے سلسلے میں اُن کی انسانی ذمے داری کس طرح فراموش کی جا سکتی ہے؟
اگرعلما کا کردار صرف ایک پہلو میںمحدود ہو جائے، تو بے شک معاشرتی زندگی میںاُن کے انسانی پہلو ختم ہو جائیں گے۔ اِسی لحاظ سے اگر ہم عورت کی ذمے داریوں کے دائرے کو بھی محدود کریں، تو اُس کے انسانی کردار کے بارے میں سوال اٹھے گا۔
ہم معاشرتی زندگی میں عورت کے انسانی کردار کو کسی صورت بھی معمولی نہیں سمجھتے۔ لہٰذا ہمارا عقیدہ ہے کہ دوسرے تمام مذاہب کی مانند اسلام کے نقطۂ نظر سے بھی تمام انسانوں کو عدل و انصاف کے قیام کی دعوت دی گئی ہے اور اِس کے معنی یہ ہیں کہ تمام انسانوں کو حتیٰ الامکان اِس سلسلے میں کوشش اور جد و جہد کرنی چاہیے۔
ہر انسان کچھ خاص توانائیوں کا مالک ہوتا ہے۔ جن کے تحت وہ اقتصادی، سیاسی یاسماجی پہلوئوں میں سے کسی ایک پہلو میں عدالت کے قیام کے لیے مددگار ہو سکتا ہے۔ ایسے شخص پر واجب ہے کہ وہ اپنی توانائیوںکو کام میں لائے اور انسانی یا اسلامی معاشرے کی زندگی کے کسی مسئلے کو حل کرے۔
یہ گفتگو واضح کرتی ہے کہ اجتماعی زندگی میں عورت کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اجتماعی مسائل میں عورت کی شرکت کی صورتوں کے بارے میں مختلف نظریات کا اظہار کیا گیا ہے۔
کیا عورت ایک کلیدی عنصرکے طور پر عدالت کی خدمت گزار بن سکتی ہے؟ کیا وہ اِس حوالے سے کسی خاص کردار کی حامل ہے؟ کیا اسلام عورت کے لیے ایسے کردار کو جائز سمجھتا ہے؟
ہمارے خیال میں، اسلام نے عورت کے لیے ایسے کردار کو حرام قرار نہیں دیا ہے، کیونکہ وہ تمام افراد جو اجتماعی مسائل میں عورت کے حصہ لینے کے مخالف ہیں، وہ اِس (مخالفت کے)سلسلے میں اخلاقی مسائل کا سہارا لیتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ عورت کا میدانِ عمل میں داخل ہونایا اجتماعی مسائل میں شریک ہونا، اُس کے اخلاقی انحطاط کا سبب بنتا ہے، اور ہر ایسا عمل جس کے نتیجے میں عورت میں اخلاقی خرابی پیدا ہو، اسلام کے نقطۂ نگاہ سے حرام ہے۔