عورت اور قیادت
فکرونظر • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
پیغمبر اسلامؐ سے ایک حدیث روایت کی جاتی ہے، جس میں عورت کی سربراہی کی مذمت کی گئی ہے۔ یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔ اِس حدیث کا متن کہتا ہے:
لاٰ یُفْلَحُ قَوْمٌ وَلِیَتْھُمْ اِمْرَاَۃٌ ۔
وہ قوم فلاح نہیں پاسکتی جس کی سربراہ عورت ہو۔
مسلمان اور اکثر فقہا اِس حدیث کو مسلَّمات کی صف میں قرار دیتے ہیں، جبکہ اِس کی سند مکمل نہیں۔
قرآنِ مجید میں عورت کی سربراہی کا ذکر
یہ حدیث قرآنِ مجید میں عورت کی سربراہی کے ذکر سے ٹکراتی ہے۔ یہ سربراہ عورت ملکۂ سبا ہے۔ اگر واقعا ً اسلام عورت کے کردار کو محدود کرتا ہے اور اُسے قیادت کے لیے مناسب نہیں سمجھتا، تو پھر کیوں قرآنِ کریم میں خداوند ِعالم نے ایک ایسی عورت کا تعارف کرایا ہے جو ایک سرزمین پر حکمراں ہے اور دوراندیشی اور مسائل کا سامنا کرنے کے حوالے سے جس کا طائر ِ فکر مردوں سے زیادہ بلند پرواز ہے؟ آیت میں ہے:
قَالَتْ يٰٓاَيُّہَا الْمَلَؤُا اِنِّىْٓ اُلْقِيَ اِلَيَّ كِتٰبٌ كَرِيْمٌ اِنَّہٗ مِنْ سُلَيْمٰنَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ اَلَّا تَعْلُوْا عَلَيَّ وَاْتُوْنِيْ مُسْلِـمِيْنَ قَالَتْ يٰٓاَيُّہَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِيْ فِيْٓ اَمْرِيْ مَا كُنْتُ قَاطِعَۃً اَمْرًا حَتّٰى تَشْہَدُوْنِ ۔
(ملکہ ٔسبا نے) کہا کہ میرے زعمائے سلطنت ! میری طرف ایک بڑا محترم خط بھیجا گیا ہے، جوسلیمان کی طرف سے ہے اور اِس کا مضمون یہ ہے کہ : شروع کرتا ہوں اﷲ کے نام سے جو بڑا رحمان ا و ررحیم ہے۔ دیکھو میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو اور اطاعت گزار بن کر چلو۔زعمائے مملکت ! میرے مسئلے میں رائے دو کہ میں تمہاری رائے کے بغیر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ (سورئہ نمل ۲۷ - آیت ۲۹ تا ۳۲)
جیسا کہ نظر آرہا ہے، یہ عورت ایک حکمراں ہے لیکن مطلق العنان نہیں ہے، اپنی رائے ٹھونسنے والی نہیں ہے ۔ جب اِس کے پاس حضرت سلیمانؑ کا خط پہنچا تو اِس نے اپنی مملکت کے سرکردہ افراد کو جمع کیا اور وہ خط جو اُن کے لیے ایک طرح کے انتباہ اور دھمکی کی حیثیت رکھتا تھا، اُن سب کو پڑھ کر سنایا ۔ اور اُن سے درخواست کی کہ وہ اپنی تجاویز اور مشوروں سے آگاہ کریں۔یوں اِس نے عملاً بتایا کہ میں مستبد نہیں ہوں اور اپنی رائے تم لوگوں پر مسلط کرنا نہیں چاہتی، ہر چند میں تمہاری حکمراں ہوں لیکن اِس موقع پر جب عوام اور مملکت کے مستقبل کا مسئلہ درپیش ہے، تو لازم ہے کہ سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد سے مشورہ کیا جائے، تاکہ کوئی مناسب رائے سامنے آسکے۔
لوگوں نے اِس کے جواب میں کیا کہا؟
قَالُوْانَحْنُ اُولُوْاقُوَّۃٍ وَّاُولُوْا بَاْسٍ شَدِيْدٍوَّالْاَمْرُ اِلَيْكِ فَانْظُرِيْ مَاذَا تَاْمُرِيْنَ۔
اِن لوگوں نے کہا کہ ہم صاحبانِ قوت اور ماہرین جنگ و جدال ہیں اور اختیار بہرحال آپ کے ہاتھ میں ہے، آپ بتائیں کہ آپ کا حکم کیا ہے ۔ (سورئہ نمل ۲۷۔ آیت ۳۳ )
اُن لوگوں نے ملکۂ سبا کی خدمت میں اپنی جسمانی طاقت پیش کی، لیکن اُس وقت اُسے اِن کی جسمانی قوت کی ضرورت نہ تھی، بلکہ اُس موقع پر وہ اُن کی ذہنی اور فکری صلاحیتوں سے استفادہ کرنا چاہتی تھی۔
یوں جب قوم کے سرکردہ افراد نے معاملہ اُسی کے ہاتھ میں دے دیا، تو وہ مؤقف کے تعین کے لیے اضطراب و پریشانی کے عالم میں سوچ بچار میں غرق ہو گئی اور کچھ دیر بعد کہا:
اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَۃً اَفْسَدُوْہَا وَجَعَلُوْٓا اَعِزَّۃَ اَہْلِہَآ اَذِلَّۃً وَكَذٰلِكَ يَفْعَلُوْنَ وَاِنِّىْ مُرْسِلَۃٌ اِلَيْہِمْ بِہَدِيَّۃٍ فَنٰظِرَۃٌۢ بِمَ يَرْجِـــعُ الْمُرْسَلُوْنَ ۔
جب بادشاہ کسی علاقے میں داخل ہوتے ہیں تواُسے ویران کردیتے ہیں اور وہاں کے صاحبانِ عزت کو ذلیل کردیتے ہیں اور اُن کا یہی طریقۂ کار ہوتا ہے۔ اور میں اُن کی طرف ایک ہدیہ بھیج رہی ہوں اور پھر دیکھتی ہوں کہ میرے نمائندے کیا جواب لے کر آتے ہیں۔ ( سورئہ نمل ۲۷۔ آیت ۳۴، ۳۵ )
جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں، ملکۂ سبا ایک معاملہ فہم خاتون ہے، وہ یہ جاننا چاہتی ہے کہ سلیمانؑ، خدا کے نبی ہیں یا ایک بادشاہ؟
اگر وہ بادشاہ ہوئے تو اپنے لیے ایک علیحدہ طرز ِ عمل کے متقاضی ہوں گے اور اگر خدا کے نبی ہوئے تو مسئلے کو ایک دوسری نظر سے دیکھا جانا چاہیے۔اِسی سوچ کے ساتھ ملکۂ سبا نے حضرت سلیمان ؑ کی خدمت میں تحفہ ارسال کیا۔
حضرت سلیمان ؑ بھی اِس قصے کو انجام تک پہنچانا چاہتے تھے، جب وہ تحفہ اُن کی خدمت میں پہنچا اور کچھ مدت بعد ملکۂ سبا کو حضرت سلیمان ؑکی خصوصیات کا علم ہوگیا اور ایک عرصے تک وہ اُن کی حکومت کے زیر ِ سایہ رہی، تو بجائے یہ کہ وہ ایک متعصب عورت کی مانند اپنی پوری قوت کے ساتھ اپنی موروثی بادشاہت کا دفاع کرتی، حضرت سلیمانؑ سے جنگ کے لیے اٹھ کھڑی ہوتی، اُس نے حقیقت کو جان لیا اور اپنے دل کی گہرائی کے ساتھ کہا کہ :
وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمٰنَ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۔
اب میں سلیمان کے ساتھ اس خدا پر ایمان لے آئی ہوں جو عالمین کا رب ہے۔ ( سورئہ نمل ۲۷ - آیت ۴۴)
قرآنِ کریم میں کس غرض سے اِس واقعے کا ذکر کیا گیاہے؟
یہ داستان کوئی حکمِ شرعی بیان نہیں کر رہی، لیکن اِس میں ایک پسندیدہ مفہوم موجود ہے۔ اور وہ مفہوم یہ ہے کہ عورت بھی مرد ہی کی مانند ترقی کر سکتی ہے اور طبیعی انداز میں ایک اُمت کی قیادت سنبھال سکتی ہے۔
البتہ اِس مقام پر ہم اِس مسئلے کا قطعی حکم بیان نہیں کر سکتے۔ بلکہ یہ مسئلہ وسیع ترین تحقیق کا متقاضی اور بہت زیادہ مہارت کا طالب ہے۔ اگرچہ اِس قسم کی مثال کااسلامی تاریخ میں سراغ نہیں ملتا، لیکن در حقیقت عورت کا اصل چہرہ یہی ہے۔
ہماری یہ گفتگو عورت کی سربراہی کے مسئلے پر تھی، لیکن دوسرے تمام مناصب پر بھی عورت بہت سی کلیدی ذمے داریوں پر فائز ہو سکتی ہے۔ بالخصوص جبکہ ہم یہ جانتے ہیں کہ موجودہ زمانے کے حالات، اور نتیجے کے طور پر حکم، گزشتہ زمانے سے بہت زیادہ مختلف ہو چکے ہیں۔
گزشتہ زمانے میں بھی عصرِ حاضر کے کچھ نظائر کی مانند کلیدی عہدوں کے ذمے دار افراد معاملات کے بارے میں کسی سے مشورت نہیں کرتے تھے۔ لیکن آج کے دور میں کلیدی عہدوں پر فائز افراد مشورت کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرتے ہیں اور اپنے پروگرام کو جامۂ عمل پہناتے ہیں۔ لیکن یہ افراد دوسروں کی آراء و نظریات کو قبول کرنے، یا مسترد کرنے کے سلسلے میں آزاد ہوتے ہیں۔
لہٰذااگر ہم عصرِ حاضر کی حکومت کے مسائل کاجائزہ لینا چاہیں، تواِس دوران ہمیں گزشتہ زمانے کے حکمرانوں کے انداز ِ حکمرانی کو اپنے ذہن میں بٹھاکے نہیں رہ جانا چاہیے، کیونکہ اُس دور میں صرف ایک شخص فیصلہ کرتا تھا، لیکن آج کے دور میں اجتماعی فیصلوں کے سامنے فردِ واحد کا فیصلہ اپنا رنگ کھو دیتا ہے۔ عورت کے انتظامی سربراہ ہونے کا جائزہ لیتے ہوئے بھی اِس مسئلے پر توجہ مرکوز رہنی چاہیے کہ عورت کا حکم مختلف آراء کا ضمیمہ اور اُن میں جمع ہو جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ عورت کو مسائل و معاملات میں مکمل اختیار اور مطلق العنانی حاصل ہے۔
اب اِس مفروضے کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچئے کہ کیا موجودہ شرائط میںدین مبینِ اسلام کلیدی عہدے پر عورت کے فائز ہونے کا مخالف ہے؟
لہٰذا (اگر بالفرض اِس حدیث کی سند درست ہو، تب بھی) عورت کی قیادت کے مسئلے کا اِس طرح جائزہ لیے بغیر جیسے کہ پیغمبرؐ کے پیشِ نظر تھا مذکورہ حدیث ِرسولؐ کو ایک قطعی حکم کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔
البتہ موجودہ حالات و شرائط اور زمانے کی تبدیلی کے پیشِ نظر عورت کی قیادت کے مسئلے نے ایک نئی صورت اختیار کر لی ہے۔اِس بنیاد پر ہمارا خیال یہ ہے کہ عورت بھی مرد ہی کی مانند اسلام کے سیاسی نظام میں ایک متعین کردار کی مالک ہے۔ لیکن اِس کی کچھ جزئیات مرد کے کردار سے مختلف ہیں، اور اِس کے برعکس بھی صادق ہے کہ مرد کے کردار کی جزئیات بھی عورت کے کردار سے مختلف ہیں۔
ایک مترقی سماج میں مرد و زن کی تصو یر
ایک متحرک سماج میں سیاسی، اجتماعی اور عسکری مسائل میں مرد و زن کے درمیان دوئی نہیں۔ باالفاظ ِدیگر ایک متحرک اسلامی معاشرہ، ایسا معاشرہ نہیں ہے جس میں عورت مرد سے جدا ہو اور ہر ایک نے اپنی اپنی راہ لی ہوئی ہو۔ بلکہ ایسے معاشرے میں درحقیقت مردو زن باہمی تعاون و اشتراک کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۔
مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں سب ایک دوسرے کے ولی اور مددگار ہیں کہ یہ سب ایک دوسرے کو نیکیوں کا حکم دیتے اوربُرائیوں سے روکتے ہیں۔ (سورئہ توبہ ۹ - آیت ۷۱)
اِس بنیاد پر ہم ایک دوسرے کے مددگار اور شریک ِ کار ہیں اور مومن مرداور مومن عورتیں ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو ہیں۔ اِس آیہ ٔشریفہ میں“ اَوْلِيَاۗءُ“ سے مراد اِس کے سوا کچھ اورنہیں کہ مرد و زن منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لیے جد و جہد (امر بالمعروف اور نہی عن المنکر) کے لیے ایک دوسرے کے مددگار، معاون اور مشاور ہیں۔
خداوند ِ عالم نے اِ س آیت میں یہ نہیں فرمایا ہے کہ (صرف) مومن مرد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیں۔ یا (صرف) مومن عورتیں اِس ذمے داری کو ادا کریں، بلکہ فرمایا ہے کہ یہ دونوں (مومن مرد اور مومن عورتیں) ایک دوسرے کے ولی اور مددگار ہیں، اور ایک ہی جماعت کی صورت میں زندگی بسر کرتے ہیں، ایک ہی راستے پر چلتے ہیں، سب کا نصب العین ایک ہی ہے، اور اِس بنیاد پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے قیام کے لیے جد و جہد کرتے ہیں۔