فکرونظر

یہ انٹرویو ایران کی“ مجلسِ خبرگان ” کے دفتر سے شائع ہونے والے مجلے“ حکومت ِاسلامی ” کے شمارہ نمبر ۱۶سے لیا گیا۔

*** سوال :جنابِ عالی کے شکریئے کے ساتھ، ہمارا پہلا سوا ل یہ ہے کہ اجتماعی اور معاشرتی امور میں دین کس قدر اور کن حدود تک دخل رکھتا ہے؟ کیا اِن امور میں دین تفصیل کے ساتھ دخالت رکھتا ہے یا صرف عام اقدار (values) کے بیان پر اکتفا کرتا ہے؟

*** جواب : بسم اﷲ الرحمن الرحیم، انسان کے اجتماعی امور کے بارے میں دین نے جو بنیاد فراہم کی ہے اُس کے مطالعے اور جائزے کے دوران ہمیںپتا چلتا ہے کہ خداوند ِعالم نے اپنے تمام انبیا ؑ کے سامنے اور اپنی نازل کی ہوئی تمام کتابوں میں، عدل و انصاف کی جانب انسانوں کے سفر کو ہدف قرار دیا ہے:

لَقَدْاَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۔

بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور اُن کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں۔ سورئہ حدید ۵۷ - آیت ۲۵

عدل کی اصطلاح انسان کے تمام روابط و تعلقات (جس میں انسان اور خدا اور انسانوں کے باہمی روابط و تعلقات بھی شامل ہیں) کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ عدل کا مفہوم یہ ہے کہ ہرحق اُس کے حقدار کو دیا جائے۔ خداوند ِعالم کا ایک حق ہے، انسان ایک حق رکھتے ہیں اور وہ طبیعت (nature) اور کائنات جس میں ہم زندگی بسر کرتے ہیں وہ بھی ایک حق رکھتی ہے، جو ہمیں اِس کی حفاظت کا پابند کرتا ہے۔اِس بنیاد پر عدل کا مجموعی مفہوم انسانی حیات کے تمام پہلوئوں پر محیط ہے۔

دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ کتاب اور سُنّت ِ پیغمبرؐ وائمۂ معصومینؑ میں (جن کی سُنّت درحقیقت سُنّت ِپیغمبرؐ ہی کا تسلسل ہے) عدل کے بعض مصادیق کا ذکر ہوا ہے۔ مثلاً کتاب وسُنّت میں میاں بیوی کے اورتمام انسانوں کے ایک دوسرے پر حقوق کا جو ذکر ملتا ہے اُس سے پتا چلتا ہے کہ شریعت بہت سی جزئیات تک میں دخل رکھتی ہے۔ ایسی احادیث بھی ہیں جو کہتی ہیں کہ خداوند ِعالم نے انسانوں کے لیے ضروری تمام چیزوں کو بیان کیا ہے، یہاں تک کہ جلدپر آجانے والی خراش تک کا جرمانہ ذکر ہوا ہے۔

خداوند ِعالم نے اپنی شریعت لوگوں پرنازل کی ہی اِس لیے ہے کہ وہ میدانِ حیات میں انسانوں کی سرگرمیوںکا تعین کرے۔ البتہ اِس کے معنی یہ نہیں کہ خداوند ِعالم نے قانون سازی کے میدان میں انسانوں کے لیے آزادیٔ عمل باقی نہیں رکھی ہے۔ بلکہ ہم بہت سے ایسے کلی عناوین پاتے ہیں جن کی جزئیات کی تشخیص انسانوں یا انسانی عقل پر چھوڑی گئی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ دین نے بہت سے احکام کو عنوانِ ثانوی کے لحاظ سے ( کہ جنہیں انسان دریافت کر سکتے ہیں اورجنہیں عقل درک کرتی ہے اور جوقابلِ عمل ہیں) انسانوں کی عقل پر چھوڑا ہے۔ مثلاً راست گوئی واجب اور جھوٹ حرام ہے۔ لیکن اگر کسی مسئلے میں جھوٹ بولنا مصلحت کا تقاضا ہو جائے اور صورتحال یہ ہو کہ راست گوئی کی وجہ سے فساد پھوٹ پڑنے کا خوف ہو اور کذب بیانی مصلحت دکھائی دے، تو واضح ہے کہ انسان کو جھوٹ کا راستہ اپنانا چاہیے۔

اِسی طرح عقل بھی فیصلہ دیتی ہے اور شریعت بھی اِس فیصلے کی تائید کرتی ہے کہ اگر راست گوئی کسی بے گناہ انسان کے لیے ضرررساں اور کسی مظلوم کے جان سے جانے پر منتہی ہو، تو حرام ہے۔ کیونکہ عقل انسان کی باطنی رسول اور انسان پر خدا کی حجّت ہے۔

اور دوسرے موارد بھی مل سکتے ہیں جن میں عقل کا فیصلہ (موقف کا) تعین کرتا ہے۔ ہمارے پاس علمِ اصول میں“ تزاحم ” کے نام سے ایک قاعدہ موجود ہے، جو کہتا ہے کہ اگر معاملہ یہ آ پڑے کہ ایک طرف اہم ہو، جس میں مصلحت ہے اور دوسری طرف اہم ترین ہو جس میں مفسد ہ ہے، تو ہمیں اہم کا چنائو کرنا چاہیے۔ لہٰذا اجتماعی امور میں دین اِس انداز سے دخالت نہیں کرتا جو انسان کے جمود پر منتہی ہو اور اُس کی عقل و شعور کو نظر انداز کر دے۔ جیسے کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ بہت سے دینی احکام پر ممکن ہے عنوانِ ثانوی لاگو ہو، جس کا فہم انسانوں کی عقل پر چھوڑا گیا ہے۔

*** سوال : بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دین دراصل انسان اور خداوند ِعالم کے درمیان تعلق کا نام ہے، اور اِس کا انسانوں کی اجتماعی حیات اورامور ِ معیشت سے کوئی سروکار نہیں؟

*** جواب : اِن لوگوں کی مشکل یہ ہے کہ اِن کا فہمِ دین مغرب میں دین کی صورتحال کے بارے میں ہونے والی تحقیقات سے ماخوذ ہے۔ جب ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ دین کو تنگ یا پھر وسیع اور کھلے دائرے میں قرار دیا جانا چاہیے، تو ہمیں اِس دین کے مصادر اور منابع (sources) کا جائزہ لینا چاہیے ۔

جب ہم دین اسلام کے بنیادی مصادر و منابع (جو کتاب و سُنّت ہیں) کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ہمارے سامنے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اِس دین میں انسان پر خدا کے حقوق، انسان پر انسان کے حقوق، حاکم پر رعایا کے حقوق، رعایا پر حاکم کے حقوق حتیٰ ماحول پر انسان کے حق کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ اِسی طرح انسان کے باہمی روابط ( خواہ وہ اجتماعی اور عام روابط ہوں، خواہ انفرادی اور خاص روابط) کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ شرعی اور قانونی احکام، حتیٰ انسانی زندگی کے مسائل کی جزئیات تک کی تکلیف کو و اضح کیا گیا ہے۔

ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ یہ (احکام میں نظر آنے والی تفصیل) فقہا کے اجتہاد کی بنا پر ہے، اور بشرکا اجتہاد وحی ٔ منُزل نہیں۔

اِن لوگوں کے جواب میں ہم کہیں گے کہ مجتہدین کے اجتہادکی بنیاد اُن کے انفرادی رجحانات اورمزاج نہیں، یہ احکام مجتہدین کے بنائے ہوئے احکام نہیں ہیں، بلکہ اُنھوں نے اِنھیںکتاب و سُنّت سے اخذکیا ہے۔ خود ہمارا بھی یہ عقیدہ نہیں کہ مجتہدین اپنے اجتہاد میں معصوم ہیں۔ ہم مجتہدین سے اُن تمام امور میں اختلاف کر سکتے ہیں جن میں اُنھوں نے اجتہاد کیا ہے۔ اور اگر ہم یہ دیکھیں کہ کسی مقام پر وہ خطا کے مرتکب ہوئے ہیں، تو ہم اُس خطاکی تصحیح کر سکتے ہیں اور اُن سے مختلف فقہی حکم کا استخراج کر سکتے ہیں ۔ حتیٰ ہمارا عقیدہ تو یہ بھی ہے کہ اگر کسی حکم میں علما کے درمیان اجماع نظر آئے، اور یہ امکان دکھائی دے کہ اِس اجماع کی بنیاد ایک خاص فکری حالت، یا علمِ اصول میں اجماع کے بارے میں کسی مخصوص طرز ِفکر میں پائی جاتی ہے، اور یہ جان لیں کہ اِس مسئلے میں واقع ہونے والا اجماع غلط ہے، تو ہمیں چاہیے کہ اِس اجماعی حکم سے دستبردار ہو جائیں۔

لیکن وہ لوگ جن کا خیال یہ ہے کہ دین خود کو صرف عبادات میں منحصر کرتا ہے اور اُس نے محض انسان اور خدا کے تعلق کے دائرے میں اپنا تعارف کرایا ہے، ہم اُن لوگوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ اُن لوگوں نے دین اسلام کا مطالعہ ہی نہیں کیا ہے اور حتیٰ حضرت موسی ؑکے دین اور کتابِ تورات کے بارے میں بھی صحیح معلومات نہیں رکھتے۔ تورات ایک ایسی کتاب کے طور پر نازل ہوئی ہے جس میں ہر چیز کا تفصیلی بیان موجود ہے۔تورات میں انسانوں کی اجتماعی زندگی کے احکام و قوانین کا ذکر ہوا ہے۔ ہاں! عہدِ جدید (کتابِ انجیل) میں انسانوں کے باہمی تعلقات کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان نہیں ہوئے ہیں، کیونکہ اُس زمانے کے مسیحی حضرات اِس قسم کے مسائل میں تورات کی تعلیمات پر عمل کرتے تھے۔

ہم اِن لوگوں سے کہتے ہیں کہ آیئے دین اسلام کے منابع و مصادر(sources) کا مطالعہ کرتے ہیں، تاکہ دیکھیں کہ آپ کا دعویٰ دین اسلام پرمنطبق (fit) ہوتاہے یا نہیں؟

اپنے مطالعات کی بنیاد پر ہمارا عقیدہ ہے کہ دینِ اسلام نے انسان کے خدا سے اور لوگوں اور خود اپنے آپ سے ربط و تعلق کو بیان کیا ہے۔

*** سوال : دین کا علومِ انسانی سے کس نوعیت کا رابطہ ہے؟ کیا دین نے اِن امور کو اپنے اندر سمویا ہوا ہے، یا اُس نے اِن علوم کی تصحیح کی ہے، یا یہ کہ علومِ انسانی اور دین کا دائرہ ایک دوسرے سے جدا ہے؟

*** جواب :دین، علوم کی بنیاد رکھنے اور اُن کو وجودمیں لانے کے لیے نہیں آیا ہے۔ دین جو انبیا ؑ (بالخصوص پیغمبر اسلامؐ) پر ایک پیغام کے عنوان سے نازل ہوا ہے، اُس کا کام فزکس، کیمسٹری اور طبیعی علوم جیسے علمی شعبوں کو ایجاد کرنا نہیں تھا اور نہیں ہے۔

دین نے کچھ طریقے وضع کیے ہیں، اور کچھ مفاہیم پیش کیے ہیں اور کچھ خطوط (lines) کھینچے ہیں۔اسلام نے معرفت کے موضوع پر انسان کے لیے جو طریقہ وضع کیا ہے، وہ دو دائروں کا حامل ہے۔ پہلا دائرہ، غور و خوض، فکر و تامل کا دائرہ ہے: وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا۔ (اور آسمان و زمین کی تخلیق میں غور کرتے ہیں (کہ) خدایا تو نے یہ سب بے کار نہیں پیدا کیا ہے۔ سورئہ آلِ عمران ۳ - آیت ۱۹۱) اور دوسرا دائرہ، تجربے اور استقراء کا دائرہ ہے :فَاعْتَبِرُوْا يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ۔(پس اے صاحبانِ نظر عبرت حاصل کرو۔ سورئہ حشر ۵۹ - آیت ۲)

دین، انسان سے کہتا ہے کہ خداوند ِعالم نے تجھے عقل سے نوازا ہے، پس غفلت چھوڑ دے تاکہ حتیٰ الامکان اسرار ِ حیات اور کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھا سکے ۔ اور خداوند ِ عالم نے تجھے حواس عطا کیے ہیں، تاکہ اُن کے ذریعے اشیا کو براہِ راست پہچان سکے۔ پس ذمے داری کے ساتھ اِن حواس سے استفادہ کر :اَلَمْ نَجْعَلْ لَّہٗ عَيْنَيْنِ وَلِسَانًا وَّشَفَتَيْنِ وَہَدَيْنٰہُ النَّجْدَيْنِ (کیا ہم نے اسے دو آنکھیں نہیں دی ہیں، اور زبان اور دو ہونٹ بھی اور ہم نے اسے(خیر و شر) دونوں راستوں کی ہدایت دی ہے۔ سورئہ بلد ۹۰ - آیات ۸ تا ۱۰)

اے انسان! اِن حواس کو فضول اور بے کار اپنے حال پر نہ چھوڑ، اور اُن لوگوں میں سے نہ ہو جا جن کے دل تاریک ہیں اور جو بہرے اور اندھے ہیں۔

لہٰذا ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ اسلام نے حصولِ معرفت کے سلسلے میں انسان کے لیے ایک قاعدہ اور طریقہ وضع کیا ہے اور انسان سے چاہا ہے کہ اپنی فکری کوششوں کے نتائج دو ماخذ اور مادّوں یعنی غور و فکر اور تجربے سے حاصل کرے۔ اور دوسروں سے گفتگو کے دوران بھی اِن دو عناصر سے استفادہ کرے۔اِسی بنا پر خداوند ِعالم جدالِ احسن کی بات کرتاہے اور انسان سے تقاضا کرتا ہے کہ کسی فکر سے بحث و مباحثہ کرتے ہوئے اُس کا اچھی طرح سے جائزہ لے:

ھٰٓاَنْتُمْ ھٰٓؤُلَاۗءِحَاجَجْتُمْ فِـيْمَا لَكُمْ بِہٖ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاۗجُّوْنَ فِيْمَا لَيْسَ لَكُمْ بِہٖ عِلْمٌ۔

(اے اہلِ کتاب) اب تک تم نے ان باتوں (کے بارے) میں بحث کی ہے جن کا (تمہیں) کچھ علم تھا، اب اس بات میں کیوں بحث کرتے ہو جس کا (تمہیں) کچھ بھی علم نہیں ہے۔ سورئہ آلِ عمران ۳ - آیت ۶۶

اور یوں خداوند ِعالم انسان سے چاہتا ہے کہ وہ کسی بھی چیز کو مسترد کرنے یا اُس کی تائید کے لیے دلیل قائم کرے :

قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ۔

کہہ دیجیے کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل لے آئو۔ سورئہ بقرہ ۲ - آیت ۱۱۱

لہٰذا دین نے معرفت کے حصول کا ایک واضح اور روشن قاعدہ پیش کیا ہے۔ اب کبھی تو انسان معرفت ِفلسفی کی سرحد پر پہنچ جاتا ہے، اِس قسم کی معرفت کوئی اسلامی معرفت شمار نہیں ہوتی۔ یعنی یہ معرفت خطا اور غلطی سے پاک اور ایسی معرفت نہیں جس سے اختلاف نہ کیا جاسکے۔ کیونکہ استدلال کا یہ طریقہ، بشری طریقہ ہے اور اِس پر بحث اوراِس سے اختلاف کی گنجائش پائی جاتی ہے۔

اِسی بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ اسلامی فلسفہ ایک چیز ہے اور اسلام ایک دوسری چیز، اسلامی فلسفے کو اسلام پر مسلط نہیں کیا جا سکتا۔

اسلامی فلسفہ ایک ایسا علم ہے جس میں فلسفیوں کے فکری تجربات کے ذریعے (جو کبھی درست اور کبھی غلط بھی ہو سکتے ہیں) بعض اسلامی افکار و عقائد پر استدلال کیا جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ اسلامی فلسفہ مسلمانوں کا فلسفہ ہے، اسلام کا فلسفہ نہیں۔ نیز ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اسلامی فلسفے نے یونانی فلسفے کی کوکھ سے جنم لیا ہے، اور یونانی فلسفے سے آشنا مسلمان مفکّرین نے اِس میں مختلف چیزوں کا اضافہ کیاہے اور اِس کے کچھ حصے کی تصحیح کی ہے۔

البتہ قرآنِ مجید میں بعض فلسفی افکار کا ذکر آیا ہے۔ ہر چند یہ افکار فلسفی ہیں، لیکن ایک دوسرے پہلو سے وجدانی ہیں، جیسے یہ آیت :

مَا اتَّخَذَ اللہُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا كَانَ مَعَہٗ مِنْ اِلٰہٍ اِذًا لَّذَہَبَ كُلُّ اِلٰہٍؚبِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُہُمْ عَلٰي بَعْضٍ۔

یقیناً خدا نے کسی کو (اپنا ) بیٹا نہیں بنایا ہے اور نہ اُس کے ساتھ کوئی دوسرا معبود ہے، ورنہ ہر خدا اپنی مخلوقات کو لے کر الگ ہو جاتا اور ہر ایک دوسرے پر برتری کی فکر کرتا ۔سورئہ مومنون ۲۳ - آیت ۹۱

یا یہ آیت :

لَوْ كَانَ فِيْہِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا۔

یاد رکھو اگر (زمین و آسمان میں) اﷲ کے علاوہ اور معبود بھی ہوتے، تو یقیناً (زمین و آسمان دونوں) برباد ہو جاتے۔ سورئہ انبیا۲۱ - آیت ۲۲

اِسی طرح آیت :

وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِيَ خَلْقَہٗ قَالَ مَنْ يُّـحْيِ الْعِظَامَ وَہِىَ رَمِيْمٌ قُلْ يُحْيِيْہَا الَّذِيْٓ اَنْشَاَہَآ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَہُوَبِكُلِّ خَلْقٍ عَلِـيْمُۨ۔

اور ہمارے لیے مثل بیان کرتا ہے اور اپنی خلقت کو بھول گیا ہے، کہتا ہے کہ اِن بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتا ہے؟ آپ کہہ دیجیے کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہی زندہ بھی کرے گا اور وہ ہر (قسم کی) مخلوق کا جاننے والا ہے۔ سورئہ یٰسین ۳۶ - آیت ۷۸، ۷۹

مذکورہ آیات کے مضمون کو مروجہ معنوں میں فلسفہ نہیں کہا جا سکتا۔ ہر چند فلسفیوں نے کوشش کی ہے کہ اِن کے لیے ایک فلسفی قالب تراش لیں، (بلکہ) یہ مطالب وہ امور ہیں جو انسان کے وجدان سے تعلق رکھتے ہیں ۔البتہ ممکن ہے یہ کسی فلسفی قاعدے میں جگہ دیئے جانے کے قابل ہوں۔

دراصل ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ تمام علوم (چاہے اِن کا تعلق فلسفے سے ہو، نفسیات سے یا علومِ اجتماعی اور علومِ انسانی کی دوسری شاخوںسے) انسانی و بشری آراء و نظریات کا ایک ایسا مجموعہ ہیں جس کے بعض مسائل میں بعض مفکّرین نے کسی قرآنی آیت یا پیغمبرؐ کی کسی حدیث کو بطور ِ سند پیش کیا ہے لیکن اِس آیت یا اِس حدیث سے اُن کا کوئی معنی سمجھنا، انسانی اجتہاد کی بنیاد پر حاصل ہونے والا فہم ہے، جس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔

ہاں! ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ ایک آیت سے پیغمبرؐ جو کچھ سمجھتے ہیں، وہ بغیر کسی غلطی کے ایک صحیح(perfect) فہم ہوتا ہے۔ کیونکہ پیغمبر کو کتاب اور حکمت کی تبلیغ کے لیے (خدا کی جانب سے) لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہے۔ لہٰذا پیغمبر کا فہم انسانی اور بشری فہم نہیں بلکہ غلطی اور خطا سے محفوظ فہم ہے۔ اِسی طرح کیونکہ اہلِ بیتؑ معصوم ہیں، اِس لیے اُن کا فہم بھی غلطی اور خطا سے پاک معصوم فہم ہے۔ البتہ قدرتی بات ہے کہ جس حدیث کی اُن کی طرف نسبت دی جاتی ہے، وہ حدیث اُن ہی کی ہے یا نہیں، اِس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے اور احادیث کی صحت یا سقم کا تعین کرنے والے بنیادی راستوں میں سے ایک راستہ، احادیث کو قرآنِ مجید سے تطبیق دینا ہے۔ جیسا کہ خود ائمہؑ سے منقول ہے کہ : ”(ہم سے منسوب) احادیث میں جو حدیث کتابِ خدا کے مخالف ہو وہ جعلی حدیث ہے جسے ہم سے نسبت دی گئی ہے۔ ”

خلاصۂ کلام یہ کہ دین کچھ علوم کی بنیاد رکھنے کی غرض سے نہیں آیا، کہ جس کی بنا پر وہ علوم، دینی علوم کہلائیں ۔علوم کی بنیاد انسانوں نے رکھی ہے، اِسی کے درمیان مسلمانوں نے بھی اجتہاد کے لیے اور کتابِ خدا اور سنّت ِ پیغمبر کو سمجھنے کی کوشش کے دوران کچھ علوم وضع کیے ہیں۔ اور حقیقت تک پہنچنے کے سلسلے میں مسلمانوں کا اجتہاد کبھی ممکن ہے کامیاب رہا ہو اور کبھی یہ بھی ممکن ہے کہ حقیقت تک پہنچنے میں ناکام رہا ہو۔ لہٰذا اِن علوم کو اِس لحاظ سے کہ اِن سے اسلامیت کا اظہار ہوتا ہے، علومِ اسلامی نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن اِس لحاظ سے کہ یہ علوم (اسلامی اجتہاد کی بنیاد پر) اسلامی مسائل، مفاہیم اور مظاہر کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں، اِنھیں علومِ اسلامی کا نام دیا جا سکتا ہے۔

ایک اور بات جسے اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے، وہ (بعض لوگوں کا ) یہ دعویٰ ہے کہ دین علم کا مخالف ہے، دین اور علم ایک دوسرے کی ضد ہیں اور علم اور دین میں ٹکرائو پایا جاتا ہے۔ یہ دعویٰ کسی درست علمی بنیاد پر استوار نہیں۔

علمی نظریات کی دو اقسام ہیں۔ ایک قسم ۲215۲=۴ کی حد تک قطعی علمی حقائق ہیں، جبکہ علمی نظریات کی دوسری قسم وہ ہے جس کی بنیاد تجربہ اور غور و فکر ہے۔

پہلی قسم میں کسی قسم کے شک و شبہے کی گنجائش نہیں (نہ عقلی اور نہ ہی حسّی) یہ امور مسلَّمات اور ناقابلِ اختلاف ہیں۔ ایسے مواقع پر دینی نص کی حقیقت ِعقلی (قطعی اور یقینی علم) کے حق میں تاویل کی جانی چاہیے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جبر و تجسیم سے مربوط آیات کی حقائقِ عقلی کے حق میں تاویل کرتے ہیں، جو خدا کے لیے جبر اورتجسیم کو محال سمجھتے ہیں۔ لیکن ایسے علمی نظریات جو بعض دینی نصوص سے متصادم ہیں، جیسے ڈارون کا نظریہ وغیرہ، تو اِن کے بارے میںکہنا چاہیے کہ یہ نظریات، ظنی علمی نظریات ہیں، کیونکہ اِن کا اظہار کرنے والے حضرات کامل استقراء اور حاصل ہونے والے نتائج کی قطعیت کی بنیاد پر اِن پر یقین نہیں رکھتے۔ اگر کوئی دینی نص اِن نظریات کی مخالف ہو، تواِس کے معنی دین اور علم کا ٹکرائو نہیں، بلکہ اِس کے معنی یہ ہیں کہ یہ دانشور اور اِس کا فہم دینی نص کا مخالف ہے اور ممکن ہے کہ حقیقت دینی نص میں پوشیدہ ہو۔

علمائے دین نے بھی اِن نظریات کی اِس بنا پر مخالفت کی ہے کہ یہ ناقص استقراء پر استوار اور کمزور نکات کے حامل ہیں۔اِسی طرح غیر دینی علما نے بھی اِن کی مخالفت کی ہے۔ لہٰذا یہ دعویٰ درست نہیں کہ دین اور علم باہم متصادم ہیں۔ دین بھی بعض دینی نظریات کی مخالفت کرتا ہے، جیسا کہ ظنّی علم کے نظریات بھی کبھی کبھی ایک دوسرے سے نامواقف اور باہم غیر ہم آہنگ ہوتے ہیں۔

ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ بعض مواقع پر دین ایسے غیبی امور کی بات کرتا ہے جن کے انکشاف اور اُن تک پہنچنے کا کوئی راستہ علم کے پاس نہیں ہے۔ مثلاً جنت و جہنم، عالمِ آخرت اور فرشتے وغیرہ وغیرہ۔ علم براہِ راست طور پر اِن امور کی صحت کا فیصلہ نہیں دے سکتا، ساتھ ہی ساتھ اِن کی نفی بھی نہیں کرتا اور یہ نہیں کہتا کہ غیب کا کوئی وجود نہیں۔ دین، اِن امور میں غیر مستقیم (indirect)طور پر علم کے لیے راستہ ہموار کرتا ہے، اور وہ اِس طرح کہ دین عقل کی مدد سے نبوت پر استدلال کرتا ہے اور جب عقل کے ذریعے نبوت ثابت ہو جاتی ہے تو اُس کے لوازمات اور نتائج بھی ثابت کرتا ہے۔ لیکن علم، جس طرح بہت سے حقیقی امور تک رسائی حاصل کر لیتا ہے، اُس طرح اِن امور کی گہرائیوں تک نہیں پہنچ سکتا، اِسی کے ساتھ ساتھ اِن کی نفی بھی نہیں کرتا۔ علم کہتا ہے کہ میرے پاس غیب کو جاننے کا کوئی راستہ نہیں۔

مختصر یہ کہ علم، دین کی نفی نہیں کرتا، ہر چند اِس کے ثبوت کے لیے حسّی اور طبیعی ذرائع کا مالک نہیں اور دین علمی اور عقلی حقائق کا انکار اور اُن کی نفی نہیں کرتا، ہر چند بعض علمی نظریات سے اختلاف رکھتا ہے۔

*** سوال : کیا فقہی منابع (sources) سے عدالت نامی کسی فقہی قاعدے کا استخراج کیا جا سکتا ہے؟

*** جواب : عدالت کا مفہوم ایک نسبی (relative)مفہوم ہے اور اِس کی ایسی متعین حدود مقرر نہیں کی جا سکتیں جن کے مصادیق پر تمام لوگ متفق ہوں۔ اِس عدم اتفاق کا سبب یہ ہے کہ عدل کے معنی ہر حقدار کو اُس کا حق دینا ہے۔اِس بنیاد پر اِس کے مصداق کو معین کیا جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر حقوقِ بشر کے موضوع پر کچھ لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان ہر اُس کا م کے سلسلے میں آزاد ہے جو اُس کے ذاتی اور انفرادی پہلوئوں سے متعلق ہے اور اُس کے جنسی اور جسمانی پہلو کے بارے میں کوئی اخلاقی قدر اور پیمانہ موجود نہیں، حتیٰ وہ خودکشی کرنے میں بھی آزاد ہے اور کسی کو اُس کی آزادی پر پابندی لگانے یا اُسے محدود کرنے کاکوئی حق نہیں۔

کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ تمہاری آزادی دوسروں کی آزادی کی حدود پر آ کے ٹھہر جاتی ہے۔ یا یہ کہ انفرادی آزادی اِس نقطے پر اختتام کو پہنچتی ہے جہاں سے اجتماعی آزادی کا آغاز ہوتا ہے۔

حق کا مسئلہ، ایسے فکری قواعد کے تابع ہے جو انسان، فطرت اور زندگی کے عمومی خطوط کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں، نیز یہ پہلے سے ذہن میںموجود مادّی اور معنوی فکری نظریات سے وابستہ ہے۔ کیونکہ مادّی اور معنوی نظریات حق کے بارے میں مختلف طرز ِ فکر رکھتے ہیں۔ یہ اختلاف صرف دین اور سیکولر ازم کے درمیان ہی نہیں، بلکہ خود سیکولر ازم میں بھی انسانی حقوق کے بارے میں متعددطرز ِ فکرپائے جاتے ہیں۔ لہٰذا کیونکر ممکن ہے کہ ہم عدل کے بارے میں ایک ایسا تفصیلی عنوان پیش کرسکیں جو تمام نقطہائے نظر کا احاطہ کرتا ہو اور تمام لوگوں کو اُس میں عدل مجسم نظر آئے۔ کیونکہ جس چیز کو (مثلاً) ہم اپنے فکری اصولوںکی بنیادپرعدل سمجھتے ہوں ممکن ہے آپ اُسے ظلم شمار کریں۔ اِس اختلافِ نظر کا مشاہدہ ہم حقوقِ نسواں، حقوقِ اطفال اور اجتماعی اور اقتصادی حقوق کے مسائل میں کرتے ہیں۔

فقہی منابع (sources)میں بھی ہم عدالت کی تشخیص کے بارے میں فقہی نقطہ ہائے نظر کا اختلاف دیکھتے ہیں۔ مثلا ً ایک فقہی نظریہ جو مشہور بھی ہے، مرد کے لیے اِس حق کا قائل ہے کہ وہ اپنی بیوی کو شب ِزفاف سے لے کر اُس کی موت تک گھر میں محبوس رکھ سکتا ہے۔ یعنی اُس کی تمام ضرورتوں کو فراہم کرے، لیکن اپنے رجحان اور مزاج کی وجہ سے اُس کے گھر سے نکلنے پر پابندی لگا دے۔ ایک دوسرا نظریہ یہ کہتا ہے کہ عورت صرف ۴ مہینے میں ایک مرتبہ اپنے شوہر سے مباشرت کا حق رکھتی ہے اور کبھی کبھی اِس بارے میں حقیقتاً نہیںبلکہ صرف برائے نام حق صادق آتا ہے ۔ دوسری طرف کچھ فقہا کی طرف سے ایک دوسری رائے پیش کی گئی ہے جو عورت کے گھر سے نکلنے کو مرد کے جنسی استمتاع کے حق سے مربوط سمجھتے ہیں۔ اور عورت کے لیے اُس زمانے میں گھر سے باہر نکلنا جائز سمجھتے ہیں جس زمانے میں اُس کا شوہر حقِ استمتاع کا مطالبہ نہیں کرتا۔

لہٰذا فقہی ماخذ سے قاعدہ ٔ عدالت کا استخراج بہت دشوار بلکہ ناممکن ہے۔ یہ قاعدہ نہ تو فقہی استنباطات کی بنیاد قرار پاتا ہے اور نہ فقہی آراء و نظریات کے محصول (product)کے بطور قبول کیا جا سکتا ہے۔

*** سوال : امام خمینیؒ اِس بات کے معتقد تھے کہ حوزہ ٔعلمیہ میں مروّج اجتہاد، اجتماعی اور سیاسی احکام کے استخراج اور آج کے معاشروں کے انتظام و انصرام کے لیے کافی نہیں۔ امام خمینیؒ کے اِس خیال کے بارے میں جناب ِعالی کی رائے کیا ہے؟

*** جواب : ہم اس موضوع میں امام خمینیؒ سے مکمل متفق ہیں۔کیونکہ مروّج اجتہاد کی کوشش یہ ہے کہ وہ آج کی زندگی کے مسائل کا صرف نصوص اور اسلامی روایات کی روشنی میں مطالعہ کرے، بغیر موجودہ حقیقی حالات کو مد ِنظر رکھتے ہوئے کہ جن میں ممکن ہے بہت سے موضوعات اور احکام کی بنیادوں میں تبدیلی واقع ہو چکی ہو اور مصلحت اور مفسدہ کی مانند معیار اور پیمانے ادل بدل گئے ہوں اور عناوینِ ثانویہ، عناوینِ اولیا کی جگہ پر آ گئے ہوں۔

اِسی طرح ہم یہ مشاہدہ بھی کرتے ہیں کہ مروّج اجتہاد اجتماعی احکام کی بہ نسبت انفرادی احکام پر زیادہ زور دیتا ہے۔ کیونکہ اِس وقت جو فقہ ہمارے سامنے موجود ہے وہ فقہ ِ افراد ہے، فقہ ِ مملکت، فقہ ِ معاشرہ اور فقہ ِ روابط ِاجتماعی نہیں۔ عصرِ حاضرمیں بہت سے ایسے نئے روابط، نظام، حالات اور عناوین وجود میں آ چکے ہیں جن کے سامنے (رائج حوزے کا) فقیہ خود کو اجنبی محسوس کرتا ہے۔

لہٰذا ایک ایسا مجتہد جوچاہتا ہے کہ اپنے زمانے میں زندگی گزارے (اپنے زمانے کے مسائل کا اسلامی حل پیش کرے : مترجم) اُس کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے زمانے کے حالات کو پہچانے، تاکہ موضوعات اور پیمانوں کا تعین کر سکے اور فردی اجتہاد کی بہت سی بنیادوں میں تجدید ِ نظر کر سکے، کیونکہ عصرِ حاضر میں وجود میں آنے والا وسیع و عریض اجتماعی دائرہ اِس تجدید ِنظر کا تقاضا کرتا ہے۔

ہمارا مشاہدہ ہے کہ عموماً گزشتہ صدیوں کے فقہا نے ہر قسم کے جہادی عمل پر (اِس دوران جانی نقصان کے خوف سے) اشکال کیا ہے، کیونکہ اُنھوں نے اپنے آپ کو عادی بنا لیا تھا کہ جانی نقصان کے مسئلے میں (حتیٰ معاشرے کے انتہائی زندگی ساز مسائل میںبھی) احتیاط کریں۔ جبکہ آج کے حالات اور وجود میں آنے والی بکثرت تبدیلیاں ایک دوسرے انداز کی حکمت ِعملی اپنانے کا تقاضا کرتے ہیں۔

*** سوال :امام خمینیؒ کے نقطۂ نظر سے ولایت ِفقیہ کے نظریے اور اُن کی قیادت میں حکومت ِ اسلامی کے تجربے کے بارے میں آپ کا تجزیہ کیا ہے؟

*** جواب :امام خمینیؒ کا پیش کردہ نظریۂ ولایت ِفقیہ بہت وسیع ہے۔ یہاں تک کہ وہ ولایت ِامامؑ اور ولایت ِپیغمبرؐ سے جُڑجاتا ہے ۔ کیونکہ وہ ولایت ِفقیہ کے موضوع سے متعلق جن نصوص پر اعتماد کرتے ہیں، اُن سے استفادہ کرتے ہوئے اِس ولایت کو حکومت کے سائے میں تمام انسانی پہلوئوں پر محیط سمجھتے ہیں۔ وہ حدیث ِ(رسولؐ ) : اَلْعُلَمَاءُ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَاءِ۔(علما انبیاؑ کے وارث ہیں) کو بطور ِسند پیش کرتے ہوئے نتیجہ حاصل کرتے ہیں کہ عالم کو پیغمبرؐ کے تمام اختیارات حاصل ہیں اور اِسی بنیاد پر اُنھوں نے اپنا نظریہ پیش کیا ہے اور اِس مسئلے پر متمرکز ہوئے ہیں کہ ولی ٔ فقیہ ولایت ہاتھ میں لینے اور اولیٰ الامر (صاحبِ امر) بننے کے بعد پوری دنیا کے مسلمانوں پر ولایت رکھتا ہے اور اُن کے تمام سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی امور میں مداخلت کر سکتا ہے اور اُنھیں اپنی آراء کا پابند کر سکتا ہے۔

امام خمینیؒ نے اپنی انقلابی تحریک کے دوران اِس تجربے پر عمل کیا، جب اُنھوں نے لوگوں کو ظالم حکمراں کے خلاف جد و جہد اور اُسے گرانے کے لیے (حتیٰ جاں نثاری کی قیمت پربھی) دعوت دی، یہاں تک کہ ولایت ِفقیہ کی بنیاد پر ایک حکومت قائم کی۔

امام خمینیؒ کا تجربہ ایک کامیاب تجربہ ہے۔ کیونکہ امام خمینیؒ نے ولایت ِفقیہ کے تصور کو اُس کے بارے میں رائج اُس مفہوم اور ذہنیت سے نجات دلائی جو اِسے ایک فرد کی ایسی مطلق الٰہی حکومت قرار دیتا تھا جو لوگوں پر حکومت کرتا ہے اور کسی کو اعتراض اور اشکال کا حق نہیں دیتا (جیسے قرونِ وسطیٰ کی تھیوکریسی) اور عوام کے اعتماد اور بھروسے پر ولایت ِفقیہ کی بنیاد رکھی۔ یہی وجہ تھی کہ اُنھوں نے ولایت ِ فقیہ اور نظامِ جمہوری اسلامی کے قیام اور اُسے عملی کرنے کے لیے عوامی رائے (ریفرینڈم) پراِس قدر زور دیا کہ بہت سے لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔ کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ امام خمینیؒ نے قانونِ اساسی (آئین)کو جو (اجتماع و سیاست کے بارے میں) اسلام کی عمومی ہدایات کا مظہر تھا، لوگوں کی رائے پر چھوڑا ۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ گویا امام عوام سے پوچھ رہے ہیں کہ آپ کو اسلام قبول ہے یا نہیں؟ اِس عمل کا کسی فقیہ سے سرزد ہونا انتہائی تعجب خیز تھا۔ اگرچہ قانونِ اساسی قانونی مواد پر مشتمل تھا لیکن اُس میں اسلام کے کلیّات کو جگہ دی گئی تھی اور قانونِ اساسی کے بارے میں عوامی رائے طلب کرنا ایسا ہی تھا جیسے اسلام کے بارے میں عوامی رائے طلب کی جائے۔ آئین کے بعد، صدر ِجمہوریہ، پارلیمنٹ وغیرہ جیسے ادارے بھی عوامی رائے کی بنیاد پر قائم کیے گئے۔ اور نظامِ اسلامی جو ولایت ِفقیہ کی بنیاد پر استوار تھا، اُس نے اپنے اساسی پہلوئوں میں عوامی شرکت کی رنگ و بو لے لی۔ یہ امر دنیا کی اکثر حکومتوں، حتیٰ ترقی یافتہ دنیا میں بھی نظر نہیں آتا۔خود امام خمینیؒ نے اِس تدبیر کے ذریعے ولایت ِ فقیہ کے نظریے کو مغربی معنی میں مطلق تھیوکریسی کے گڑھے میں ڈوبنے سے بچا لیا۔ اگر نظامِ ولایت ِفقیہ میں، فقیہ کو عوام الناس کی رائے کی توثیق کرنا پڑی، تو امام خمینیؒ نے اپنی قیادت کے دور میں کبھی بھی، کسی بھی عوامی رائے پر اعتراض نہ کیا، اُس پر تنقید نہیں کی، بلکہ اُن سب کو قبول کیا اور شوریٰ کے نظریے کو وسعت دی اور مشورت کو فقط اربابِ حل و عقد تک محدود کرنے کی بجائے، یہ قرار دے کر کہ لوگوں کی کثرتِ رائے کی بنیاد پر عمل کیا جائے، اُسے عوام الناس کی شرکت کے میدان میں تبدیل کیا۔ امام خمینیؒ نے عنوانِ ثانوی کے لحاظ سے اسلام کی اہم مصلحت قرار دیتے ہوئے مجلسِ شورائے اسلامی (پارلیمنٹ)کو جمہوریت کی بنیاد پر قائم کیا ۔

امام خمینیؒ کی حکومت ِ اسلامی کے تجربے کی ایک اورخصوصیت، عوام کے سامنے اہلکاروں پر تنقید تھی۔ جب کبھی کوئی اہلکار فکری یا عملی لحاظ سے کسی خطا کا مرتکب ہوتا، تو امام خمینیؒ عوام کے روبرو اُس پر تنقید کرتے اور کوئی چیز لوگوں سے پوشیدہ نہ رکھتے۔ بلکہ اُس عہدیدار کو مخاطب کر کے کہا کرتے کہ تم نے غلطی کی ہے اور تمہیں اِس کا ازالہ کرنا چاہیے۔

امام خمینیؒ نے مطلق العنان حکمرانوں کی مانند عمل نہیں کیا، حتیٰ جمہوری حکومتوں کے بعض لیڈروں کی طرح بھی حکومت نہیں کی جو اعلیٰ عہدیداروں کی غلطیوں کو عوام سے چھپاتے ہیں اور اِس مسئلے پر اُن سے پس پردہ گفتگو کرتے ہیں۔

اِس بنیاد پر ہمارا عقیدہ ہے کہ ولایت کی عمومی روش میں امام خمینیؒ کا تجربہ ایک ممتاز انسان کا تجربہ ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ، اِس بات کے پیشِ نظر کہ امام خمینیؒ اپنی شخصیت اور تجربے میں معصوم نہ تھے اور اِس تجربے میں اُن کے رفقائے کار بھی معصوم نہ تھے، لہٰذا مسائل کے تجزیے اور تحلیل میں ہمیں امام خمینیؒ کے نقطہ ہائے نظر پر توقف نہیں کر لینا چاہیے، بلکہ اِنھیں اُسی طرح محققانہ نظر سے دیکھنا چاہیے جس طرح فقہی مباحث میں بعد میں آنے والے فقہا محققانہ طرز ِعمل اختیار کرتے ہیں۔ اِس سے ہماری مراد یہ نہیں ہےکہ ہم غلطیوں کی کھوج میں لگ جائیں، بلکہ ہمارا کہنا یہ ہے کہ ہمیں چاہیے کہ قائدین کی فکر و عمل کے جائزے کے دوران لائحۂ عمل اور انداز ہائے فکر کا مطالعہ اور اُن کے وزن کا جائزہ لیں اور سامنے آنے والے نئے تجربات اور تازہ تبدیلیوں کو نظر میں رکھیں، تاکہ فکر و نظر کسی معین شخص کے نام پر متوقف اور منجمد ہو کر نہ رہ جائے۔

*** سوال : میدانِ حیات اور انسانی معاشرے میں حاکمیت ِالٰہی کے کیا معنی ہیں؟

*** جواب : فطری طور پر فکر ِاسلامی عقیدے اور شریعت کی بنیاد پر استوار ہے۔ عقیدتی لحاظ سے کائنات کا وجود خداوند ِعالم سے تعلق رکھتا ہے ۔ وہی ہے جو خالق کے عنوان سے کائنات پر حکمراں ہے، وہی ہے جس کی قدرت کا سایہ تمام موجودات پر چھایا ہوا ہے، اور جو ہم سے، خود ہم سے زیادہ آگاہ تر اور ہم پر، خود ہم سے زیادہ توانا تر ہے، اور ہم سے زیادہ ہمارے بھلے بُرے سے آگاہ ہے:

اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ۝۰ۭ وَہُوَاللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ۔

اور کیا پیدا کرنے والا نہیں جانتا ہے؟ جب کہ وہ باریک بین اور بڑا باخبر بھی ہے ۔ سورئہ ملک ۶۷ - آیت ۱۴۔

لہٰذا حاکمیت ِتکوینی خدا کے لیے مخصوص ہے۔ یعنی یہ کہ ہمارا وجود ارادئہ الٰہی کے تابع ہے۔ یہ امر اصلِ توحید اور شرک کی نفی سے تعلق رکھتا ہے۔

دوسری طرف تشریع (قانون سازی) کے مفہوم میں خداوند ِعالم کی حاکمیت درجِ ذیل آیات کے ذریعے درک کی جا سکتی ہے:

وَمَاكَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَامُؤْمِنَۃٍاِذَا قَضَى اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًااَنْ يَّكُوْنَ لَہُمُ الْخِـيَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ۔

اور کسی مومن مرد یا عورت کو حق نہیں ہے کہ خدا اور رسول کے کسی امر کے بارے میں فیصلہ کر دینے کے بعد وہ بھی اِس امر کے بارے میں صاحب ِاختیار بن جائے۔ (سورئہ احزاب ۳۳ - آیت ۳۶)

فَلَاوَرَبِّكَ لَايُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا۔

پس آپ کے پروردگار کی قسم یہ ہرگز صاحب ِایمان نہ بن سکیں گے جب تک آپ کو اپنے اختلافات میں حکم نہ بنائیں اور پھر جب آپ فیصلہ کر دیں، تو اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی (اور شک و ترید) کا احساس نہ کریں اور آپ کے فیصلے کے سامنے سراپا تسلیم ہو جائیں۔ (سورئہ نسا ۴ - آیت ۶۵)

ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰي شَرِيْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْہَا وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ۔

پھر ہم نے آپ کو اپنے حکم کے واضح راستے پر لگا دیا، لہٰذا آپ اِسی کا اتباع کریں اور خبردار جاہلوں کی خواہشات کا اتباع نہ کریں۔ (سورئہ جاثیہ ۴۵ - آیت ۱۸)

مزید آیات بھی پائی جاتی جن میں حاکمیت کے صرف خدا کی ذات میں منحصر ہونے اور جو لوگ احکامِ الٰہی کے مطابق حکومت نہیں کرتے اُن کے کافر اور ظالم ہونے کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔

اِن آیات کا مفہوم یہ ہے کہ خداوند ِعالم ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں خدا کی عبودیت کے تقاضوں کے تحت اطاعت اور عمل میں اُس کی شریعت کی راہ پر چلیں۔ خداوند ِعالم ایسی انسانی حیات کو پسند کرتا ہے جو نظامِ کائنات سے ہم آہنگ ہو اور چاہتا ہے کہ عالمِ کائنات تکوینی صورت میں اور انسانی حیات تشریعی لحاظ سے ارادئہ الٰہی کے تابع ہو۔ اِسی صورت میں شریعت کے اوامر و نواہی کا تابع انسان اور سننِ الٰہی کی پابند کائنات، جس میں انسان زندگی بسر کرتا ہے، ایک دوسرے کی تکمیل کریں گے۔ لہٰذا کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ شریعت ِالٰہی کے مقابل کوئی اور شریعت اور قانون وضع کرے، یا خداوند ِمتعال کی طرف سے حکومت اور قانون کے مسئلے میں وضع کردہ خطوط (lines)سے تجاوز کرے۔

البتہ اِس گفتگو کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ انسان اِس وسیع احاطے میں جس کا اختیار خداوند ِ عالم نے معین قواعد کے ضمن میں انسان کے سپرد کیا ہے، یا اُن امور میں جن کی جزئیات کے تعین و تشخیص کا انسان کو مجاز قرار دیا ہے، اُن میںحکومت اور قانون سازی کا حق نہیں رکھتا۔ حاکمیت ِالٰہی کے معنی انسانوں کو جمود میں مبتلا کرنا نہیں، کہ وہ انسانی زندگی کی جزئیات میں اُس کے علمی اصول متعین کیے بغیرصرف حاکمیت ِخدا کے نعرے پر سر دُھنتے رہیں۔ خداوند ِعالم انسان کے ذریعے حکومت کرتا ہے۔ انبیاؑ، اولیا اور اُن لوگوں کے توسط سے حکومت کرتا ہے جو اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ ہوں۔ لہٰذا انسان پر انسان کی حکومت ناگزیر ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو لوگوں پر حکومت کرتے ہیں، یا لوگ جنہیں حکومت کے لیے منتخب کرتے ہیں اُنھیں ایسی صفات کا مالک ہونا چاہیے جنہیں خداوند ِعالم زندگی اور معاشرتی امور کے قائدین کے لیے پسند کرتا ہے۔

اِس بنیاد پر اسلام میں حکومت کے نظریے (چاہے یہ نظریہ امامت کی سطح پر ہو یا خلافت کی یا نظریۂ شورا کی کہ جو بسا اوقات اُن ضوابط کے لحاظ سے جو بعض فقہا اور اسلامی مفکرین نے وضع کیے ہیں امامت اور خلافت کے نظریات سے وسیع تر دائرہ رکھتا ہے) پر تحقیق کے دوران ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ خداوند ِعالم کی حاکمیت سے مراد یہ نہیں ہے کہ معاشرے پر خدا کی حکومت ہے۔ یعنی حاکم حدود وقواعد سے ماوراء نہیں، ظلِ الٰہی نہیں، کہ طاقت و حکومت اُس کے لیے ایک ذاتی ہتھیار کی حیثیت رکھتی ہو۔

ہم دیکھتے ہیں کہ خداوند ِعالم نے حتیٰ انبیاؑ کے لیے بھی (جو نبوت و خلافت ِالٰہی کے لیے ایک اعلیٰ ترین انسانی نمونہ ہوتے ہیں) کچھ حدود و قوانین مقرر کیے ہیں اور پیغمبر بھی اپنے ذاتی رجحان اور طرز ِ فکر کے مطابق حکومت نہیں کر سکتا۔ ہر چند ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ نبی کا طرز ِ فکر اور اندازبھی خداوند ِعالم کی طرف سے اُسے ودیعت کی گئی قداست اور عصمت کے سبب ارادۂ الٰہی سے جدا نہیں۔لیکن اللہ تعالیٰ نے حکومت کو ذاتی اورشخصی مسئلہ قرار نہیں دیا ہے، بلکہ اُسے ایک خط، لائحۂ عمل اور ادارے کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے جوہم دیکھتے ہیں کہ خداوند ِمتعال اِس بارے میںاپنے پیغمبر (یا پیغمبروں) سے اِسی انداز میں گفتگو کرتا ہے جس انداز میں دوسرے انسانوں سے بات کرتا ہے :

وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ۝۰ۚ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ ۔

اور یقیناً تمہاری طرف اور تم سے پہلے والوں کی طرف یہی وحی کی گئی ہے کہ اگر تم شرک اختیار کرو گے تو تمہارے تمام اعمال برباد کر دیے جائیں گے ۔ سورئہ زمر ۳۹ - آیت ۶۵

وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْيَمِيْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِيْنَ ۔

اور اگر (پیغمبر) ہماری طرف سے کوئی بات گڑھ لیتا، تو ہم اس کے ہاتھ کو پکڑ لیتے اور پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے۔ سورئہ حاقہ ۶۹ - آیات ۴۴ تا ۴۶

لہٰذا اسلامی حکومت تھیوکریسی نہیں ہے، جیسے کہ کچھ لوگ حکومت ِالٰہی کی اصطلاح سے یہی معنی اخذ کرتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ حکومت ِالٰہی کے معنی ایسی شخصی حکومت ہے جو فرد ِواحد کے طرز ِ فکر اور فیصلوںکے مطابق چلائی جاتی ہے اور اِس کے اوپر کنٹرول کرنے والا کوئی عامل وجودنہیں رکھتا، اور کسی کو اُس پر اعتراض اور تنقید کا حق نہیں ہوتا۔

ایسی حکومت، اسلام کی مطلوب حکومت نہیں۔ اﷲ رب العزت اپنے پیغمبر کو بھی (جو اگرچہ منبعِ وحی سے رابطے میں ہیں) حکم دیتا ہے کہ وہ لوگوں سے مشورہ کریں :

وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ ۔

اور معاملات میں ان سے مشورہ کرو اور جب فیصلہ کر لو تو اﷲ پر بھروسا کرو۔ سورئہ آلِ عمران ۳ - آیت ۱۵۹

لہٰذا سلام میں حکومت ایسے زمینی حقائق سے سرچشمہ لیتی ہے جن میں حاکم اور رہبر شخص اُن ضوابط کی بنیاد پر حکومت کرتا ہے جو حاکم کے عمل کو جانچنے اور پرکھنے اور اُن ضوابط سے اُس کی ہم آہنگی یا عدم ہم آہنگی کا جائزہ لینے کا امکان فراہم کریں۔ حاکم کی حکومت، مطلق حکومت ِالہٰیہ نہیں، بلکہ ایسی انسانی حکومت ہے جو اپنا جواز خداوند ِعالم کی طرف سے حکومت کے لیے قرار دیے گئے رہنماخطوط سے حاصل کرتی ہے۔

حضرت محمدؐ کی سیرت میں (جو خداوند ِمتعال کی جانب سے تبلیغ اور اپنے عملی کردار میں معصوم از خطا تھے اور اُن کی سنت یعنی اُن کی گفتار، عمل اور تائید حجت ہے )ہم دیکھتے ہیں کہ آپؐ اپنی زندگی کے آخری ایام میں لوگوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور اُن سے فرماتے ہیں :

اِنَّکُمْ لَا تُمَسِّکُوْنَ عَلَیَّ بِشَیْ ئٍ اَنَنِیْ مَا اَحْلَلْتُ اِلَّامَااَحَلَّ اللّٰہُ وَمَا حَرَّمْتُ اِلَّا مَا حَرَّمَ اللّٰہُ۔

اے لوگو! تم میری طرف کسی چیز کی نسبت نہ دینا۔ کیونکہ میں نے خدا کی طرف سے حلال کی گئی چیزوں کے سوا کسی اور چیز کو حلال نہیں کیا ہے اور خدا کی طرف سے حرام کی گئی چیزوں کے سوا کسی اور چیز کو حرام قرار نہیں دیا ہے

گویا پیغمبرؐ اُن سے کہنا چاہتے ہیں کہ میری پوری زندگی اور دعوت و تبلیغ اور حکومت کے سلسلے میں میری تمام سرگرمیوں کا جائزہ لو، اور اُنھیں اُس شریعت کی روشنی میں پرکھو جس کی میں نے تمہیں تبلیغ کی ہے، تاکہ تمہیں پتا چل جائے کہ میرے تمام کلمات، اعمال اور روابط اُس شریعت سے ہم آہنگ تھے۔

نتیجہ یہ کہ اسلامی حکومت، ایک ایسی انسانی حکومت ہے جو اپنا جواز اور مطابقِ شرع ہونا خداوند ِعالم کی طرف سے حکومت اور حاکم کے لیے مقرر کردہ حدود و ضوابط اور احکام و فرامین سے حاصل کرتی ہے ۔

*** سوال : خدا کی منشا اور لوگوں کی طرف سے حکومت کے جواز کو کس طرح یکجا کیا جا سکتا ہے، اور اِس بنیاد پر امام خمینیؒ کاعوامی مشارکت پر زور دینا، جبکہ اِس کے ساتھ ہی ساتھ آپ منشائے الٰہی پر بھی عقیدہ رکھتے تھے، کس طرح قابلِ توجیہ ہے؟

*** جواب :سنگین غلطی ہو گی اگر ہم ولایت ِفقیہ کو فقیہ کی قداست سمجھنے لگیں اور یہ تصور کرنے لگیں کہ فقیہ خطانہیں کرتا۔ ولی ٔ فقیہ دوسرے افرادِ بشر ہی کی مانند انسان ہے اور دوسرے مجتہدین ہی کی مانند ایک مجتہد ہے، جن کی رائے خطا بھی ہو سکتی ہے اور صواب بھی۔ اگر اُس کی رائے صواب ہو، تو لوگوں کو اُس کی پیروی کرنی چاہیے اور اگر وہ خطا کرے، تو اُسے اپنی رائے سے رجوع کرنا چاہیے اور لوگوں کو بھی چاہیے کہ اُسے اُس کی خطا سے آگاہ کریں۔

پیغمبر اسلامؐ کی شخصیت کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ آپؐ اپنی خواہشِ نفس سے کلام نہیں فرماتے تھے :

اِنْ ہُوَاِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى ۔

اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے ۔ سورئہ نجم ۵۳ - آیت ۴

لیکن اِس کے باوجود آپؐ خود کو لوگوں کے سامنے احتساب کے لیے پیش کرتے ہیں اور اُن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اُن کی تمام زندگی پر نظر دوڑائیں، اُس کا تنقیدی جائزہ لیں اور قرآنی تعلیمات اور اُن کی عملی سیرت کاآپس میں موازنہ کریں اور دیکھیں کہ اُن کا پیغمبر عین قرآن کے خط پر گامزن ہے، اُس سے سرِ مومنحرف نہیں ہوا ہے۔

ایک دوسرے مقام پر ہم دیکھتے ہیں کہ خداوند ِ عالم اپنے نبیؐ کو لوگوں سے مشورت کی وصیت کرتا ہے :

وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ ۔

اور معاملات کے بارے میں لوگوں سے مشورہ کرو، اور جب فیصلہ کر لو تو خدا پر بھروسا کرو۔ سورئہ آلِ عمران ۳ - آیت ۱۵۹

اِسی طرح حضرت علی ؑکے کلمات میںپڑھتے ہیں کہ :

فَلَاتُکَلِّمُونِی بِمَاتُکَلَّمُ بِہِ الْجَبَابِرَۃُ وَلَاتَتَحَفَّظُوامِنِّی بِمَا یُتَحَفَّظُ بِہِ عِنْدَ اَھْلِ الْبَادِرَۃِ وَلَاتُخَالِطُونِی بالْمُصَانَعَۃِ وَلَا تَظُنُّوابِیَ اسْتِثْقَالاًفِی حَقٍّ قِیلَ لِی وَلَا الْتِمَاسَ اِعْظَامٍ لِنَفْسِی فَاِنَّہُ مَنِ اسْتَثْقَلَ الْحَقَّ اَنْ یُقَالَ لَہُ اَوْالْعَدْلَ اَنْ یُعْرَضَ عَلَیْہِ کَانَ الْعَمَلُ بِھِمَااَثْقَلَ عَلَیْہِ فَلَاتَکُفُّوا عَنْ مَقَالَۃٍ بِحَقٍّ اَوْ مَشُورَۃٍ بِعَدْلٍ فَاِنِّی لَسْتُ فِی نَفْسِی بِفَوْقِ اَنْ اُخْطِی ءَ ۔

دیکھو، مجھ سے اس لب و لہجے میںبات نہ کرنا جس لب و لہجے میں ظالم بادشاہوں سے بات کی جاتی ہے، اور نہ ہی مجھ سے اس طرح بچنے کی کوشش کرنا جس طرح غصہ ور لوگوں سے بچا جاتا ہے۔ نہ مجھ سے اس انداز کا میل ملاپ رکھنا جس سے چاپلوسی اور خوش آمد کا پہلو نکلتا ہو اور نہ میرے بارے میں یہ تصور کرنا کہ مجھے حرفِ حق سننا گراں گزرے گا، اور نہ ہی میں یہ چاہتا ہوں کہ میری ذات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے۔ اِس لیے کہ جو شخص حرفِ حق سننے کو گراں سمجھتا ہے، یا عدل پیش کیے جانے کو ناپسند کرتا ہے، اُس کے لیے حق اور عدل پر عمل کرنا تو کہیں زیادہ دشوار ہو گا۔ لہٰذا خبردار حرفِ حق کہنے میں تکلف نہ کرنا، اور منصفانہ مشورہ دینے سے گریز نہ کرنا، اِس لیے کہ میں ذاتی طور پر خود کو ارتکاب ِخطا سے بالا تر نہیں سمجھتا۔ (نہج البلاغہ - خطبہ۲۱۶)

نہج البلاغہ میں مذکور اِس صریح نص پر غور فرمایئے، امامؑلوگوں سے چاہتے ہیں کہ جو کچھ اُن کے دل میں ہے وہ صاف صاف اُن کے سامنے بیان کریں۔ باوجود یہ کہ ہمارے عقیدے کے مطابق امام ؑمعصوم ہیں، لیکن آپؑ لوگوں کا فریضہ قرار دیتے ہیں کہ وہ حاکم پر نظر رکھیں اور اُس کے خیر خواہ ہوں اور حاکم پر بھی فرض قرار دیتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے حکم کو (اگرچہ وہ مقدس ہو تب بھی) مقدس نہ سمجھے، کیونکہ یہ عمل اِس بات کا سبب بنتا ہے کہ وہ لوگوں کی باتوں پر کان دَھرنا چھوڑ دیتا ہے اور لوگوں سے مکالمے کا راستہ بند کر دیتا ہے۔

لہٰذا ولی ٔ فقیہ کو اسلام نے جومقام ومرتبہ دیا ہے، ہمیں اُس سے زیادہ کا قائل نہیں ہونا چاہیے ۔ اِس لحاظ سے خداوند ِ عالم کی طرف سے حقِ حاکمیت اور خطا کی صورت میں عوام کی اُس پر تنقید کے درمیان کوئی تضاد نہیں۔ عوام کو حاصل فقیہ پر تنقید کا حق حکومت کی سلامتی کا ضامن ہے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی بنیاد پر استوار ہے۔

ولایت ِفقیہ کے معنی، ولی ٔفقیہ کی خطائوں کا مقدس ہونا نہیں ہے۔ بلکہ اِس کے معنی اُن مقامات پر ولی ٔفقیہ کی اطاعت ہےجہاں وہ احکامِ الٰہی کی بنیاد پر حکم صادر کرے اور اُس کی خطا سامنے نہ آئی ہو۔ لیکن اگر (ولی ٔفقیہ )منحرف ہو جائے، تو امت پر واجب ہے کہ اُسے ولایت سے معزول کر دے۔ کیونکہ اِس صورت میں وہ حقِ اطاعت کھو بیٹھتا ہے۔ اور امت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ایک ایسے فقیہ کی اطاعت کرے جو فاسق ہو گیا ہو، یا اجتہاد کے راستے سے خارج ہو گیا ہو، یا فیصلوں میں اپنی ذاتی پسنداور نا پسند کو داخل کرتا ہو۔

یہ مباحث ایک نقطے پر ختم ہونی چاہئیں اور وہ نقطہ یہ ہے کہ ہمیں چاہیے کہ اسلامی تعلیمات کو اچھی طرح اور اُن کی اصل شکل میں عوام الناس تک پہنچائیں اور نظریہ ٔ ولایت ِفقیہ کو ایسی تفصیل اور شرح کے ساتھ واضح کریںجو اسلامی اصولوں کے مطابق اور ولی ٔفقیہ کے حوالے سے غیر حقیقی تصورات سے دور ہو۔ اِس بنیاد پر ولی ٔفقیہ ایک مجتہد، عادل، اپنے زمانے کے حالات سے باخبر، عوام کی نظر میں صاف ستھرے کردار کا مالک اور اپنی خطائوں اور غلطیوں پر کسی نقد و انتقاد اور تند و تلخ لہجے پر رنجیدئہ خاطر نہ ہونے والا انسان ہے، ایک ایسا انسان ہے جو لوگوں سے چاہتا ہے کہ حق و عدالت کی معرفت اور انسانوں کی فلاح اور بھلائی کے سلسلے میں اُس کی مدد کریں۔

اُسے اپنے عہدیداروں کو آگاہ کرنا چاہیے کہ اگر عوام اور اُن کے درمیان گفتگو کا تبادلہ ہو اور کوئی بحث چھڑ جائے، تو وہ یہ نہ سمجھنے لگیں کہ عوام اُن سے لبرلزم اور سوشلزم پر عمل کے خواہاں ہیں، جبکہ عوام اور عہدیدار دونوں ہی اسلامی بنیادوں پر اشتراکِ رائے رکھتے ہوں۔ پس گفتگو اور اختلاف اِس بارے میں ہونا چاہیے کہ آیا فلاں عمل اسلام کے موافق ہے یااُس کے مخالف۔ اور اگر اِس کی تشخیص میں اختلافِ رائے پایا جائے تو اِس سلسلے میں علمی اداروں اور حلقوں میں گہری علمی گفتگو کا آغاز کریں اور ولایت ِفقیہ اور اُس کی وسعت اوردائرے کے باب میں صحیح اسلامی نقطۂ نظر حاصل کریں۔

تند مزاجی اور شدّت پسندی کے ہمراہ ہونے والی اکثر بحث و مباحث میں مشکل یہ ہوتی ہے کہ یہ مباحث ایسے لوگوں کی طرف سے اٹھائی جاتی ہیں جو اُن کے بارے میںگہرے علمی مبانی سے بے بہرہ ہوتے ہیں اور اسلامی قوانین و احکام کی روح سے آشنا نہیں ہوتے۔

*** سوال : جب حکومت کے سلسلے میں فقیہ کو شرع کی جانب سے جواز حاصل ہے، تو پھر لوگوں کی طرف سے جواز کے حصول اور عوامی رائے کی کیا ضرورت ہے؟

*** جواب : اگرچند مجتہدین ولایت کے اہل ہوں، تو ولی ٔفقیہ کا تعین کون کرے گا؟ قدرتی بات ہے کہ عوام اُسے معین کریں گے۔ جب عوام کسی ایک کا انتخاب کر لیں، تواقتدار اُس منتخب شخص کے ہاتھ میں آ جائے گا اور وہ ولی ٔفقیہ بن جائے گا۔

لوگوں کا کام شرعی جواز فراہم کرنا نہیں۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ ولی ٔفقیہ کو عوام کے ووٹوںسے شرعی جواز حاصل ہوتا ہے، بصورتِ دیگر اُس کی کوئی حیثیت نہیں۔ ممکن ہے کوئی شرعی قابلیت کا مالک ہو، لیکن عوام اُسے قبول نہ کریں۔ ایسی صورت میں وہ عملاًحاکمیت حاصل نہیں کر پاتا۔

یہاںشرعی جواز سے ہماری مراد اُس کے دینی معنی ہیں، عوامی مقبولیت نہیں۔ البتہ دونوں طرح کے جوازکو یکجا کیا جا سکتا ہے۔ اِس کی صورت یہ ہے کہ ولی ٔفقیہ ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو شرعی اہلیت رکھنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی جانب سے قبول کیا ہوا بھی ہے، چاہے اِس کی صورت ووٹنگ ہو، چاہے اجماع اور عوام کے قطعی اظہار ِاعتماد کی صورت ہو، جیسا کہ امام خمینیؒ کے بارے میں ہوا تھا۔

آخر میں ہم اِس بات کی جانب اشارہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم اُن لوگوں کے ساتھ اتفاقِ نظر نہیں رکھتے جو ولایت ِفقیہ کو اِس موضوع کے بارے میں آنے والی نصوص سے (جو دلیل ہو سکتی ہیں) مستند و مستدل سمجھتے ہیں۔ ہم ولایت ِفقیہ کو نظامِ اجتماعی کی حفاظت (اگر اِس نظام کی حفاظت ولایت ِفقیہ پر موقوف ہو) کے لحاظ سے قبول کرتے ہیں۔

اِس مقام پر ایک قابلِ توجہ نکتہ پایا جاتا ہے، جس پر علما کو تحقیق اور اِس کا تجزیہ کرنا چاہیے، اور وہ یہ کہ اگر ولی ٔفقیہ کے چنائو کے سلسلے میں عوامی رائے پر بھروسا کیا جائے، تو سوال یہ پیش آتا ہے کہ ولی ٔفقیہ کے تعین کے سلسلے میں عوامی رائے کے اعتبار کی صورت میں کسی ایک معین ملک کے لوگوں کے ذریعے کسی فقیہ کا انتخاب، کس طرح اُسے پوری دنیا کے لوگوں کا ولی قرار دیتا ہے، جبکہ اُن لوگوں نے اِس کے انتخاب میں حصہ نہیں لیا ہے۔

دوسرے سوالات بھی اٹھتے ہیں، کہ مثلاً یہ شرط کیوں ہونی چاہیے کہ ولی ٔفقیہ صرف ایک معین قوم سے ہو؟ اِن سوالات کے جواب دیے جانے چاہئیں۔ کچھ لوگ اِن سوالات کوخلوصِ نیت کے ساتھ اٹھاتے ہیں اور ممکن ہے بعض لوگ غلط مقاصد کے لیے اِس قسم کے سوالات اٹھائیں۔ لیکن بہرحال اِن سوالات کے علمی اور اطمینان بخش جوابات دیے جانے چاہئیں۔ کیونکہ آج نظریۂ ولایت ِفقیہ کا شمار اُن نظریات میں ہوتا ہے جنہیں دنیا جاننا اور سمجھنا چاہتی ہے۔