حکومت ِ اسلامی، شوریٰ اور جمہوریت
فکرونظر • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
یہ انٹرویوحوزئہ علمیہ قم المقدس، ایران سے شائع ہونے والے مجلے ”علومِ سیاسی ” سے لیا گیا۔
*** سوال : اسلام حکومت اور اقتدار کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟
*** جواب : اسلام میں حکومت کے مقام کو واضح کرنے والے متنوع اور مختلف مصادر کا مطالعہ، بالخصوص پیغمبر اسلامؐ اور ائمۂ معصومین ؑکی سیرت کا جائزہ، نیز اُن نظریات کی بنیاد پر جو حکومت اور اقتدار میں فقیہ کے کردار کے قائل ہیں فقیہ کے کردار کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ اسلام حکومت کو ایک ایسا اجتماعی فریضہ سمجھتا ہے جس کی بنیاد پر سربراہِ حکومت معاشرتی مسائل کے حل و فصل کے سلسلے میں اسلامی شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے عمل کا پابند ہے۔ یہاں تک کہ رہبر و قائد کو کسی بھی صورت میں اِس بات کی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ اسلام کے وضع کردہ حکومتی اصول و قواعد کونظرانداز کرتے ہوئے اقتدار کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرے۔
جب ہم رسولِ کریمؐ کی حیات ِطیبہ کے آخری ایام کا مطالعہ کرتے ہیں، تو وہاں نظر آتا ہے آنحضرتؐ اپنے آپ کولوگوں کے سامنےجوابدہی کے لیے پیش کرتے ہیں، جبکہ امرِنبوت آپ کو عوام کے سامنے جوابدہ قرار نہیں دیتا، کیونکہ آپؐ خدا کے فرستادہ اور اُس کے نمائندے ہیں۔ لیکن جب پیغمبرؐ لوگوں کے سامنے آتے ہیں اور خود کو محاسبے کے لیے پیش کرتے ہیں، تواِس موقع پر دراصل آپؑ سربراہِ حکومت اور حاکم کے عنوان سے لوگوں سے کلام فرماتے ہیں اور اُنھیں حکومت اور رسالت کے راستے کی ہم آہنگی سے آگاہ کرتے ہیں۔ آپؐ فرماتے ہیں :
اَیُّھَا النَّاسُ لَا تَعْقِلُوْنَ عَلَیَّ بِشَیْ ئٍ اَنَنِیْ مَااَحْلَلْتُ اِلَّامَااَحَلَّ اَلْقُرْانُ وَمَاحَرَّمْتُ اِلَّامَاحَرَّمَ اَلْقُرْانُ۔
اے لوگو! مجھ سے کوئی (غیر واقع) چیز منسوب نہ کرنا، میں نے صرف اُسی چیز کو حلال بیان کیا ہے جسے قرآن نے حلال کہا ہے اور اُسی چیز کو حرام بتایا ہے جسے قرآن نے حرام قرار دیا ہے
یہ نص ہمیں بتاتی ہے کہ حکومت پرموجود قیادت کا (حتیٰ اگر قیادت پیغمبرؐ کے ہاتھ میں ہو تب بھی) عوام سے تعلق اور ارتباط لازم ہے۔ یعنی حاکم ہر طرح کی قید و بند سے آزاد نہیں ہے۔
اِسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ“ بیعت ” جس کا مسلمانوں سے تقاضا کیا جاتا ہے، ( جس کے تحت مرد و زن پیغمبر اکرؐم کی بیعت کرتے تھے) اسلام کی نظر میں حکومت یا نبوت کے شرعی جواز کی بنیاد نہیں۔ بلکہ رہبر کے دیے ہوئے کلی یا جزوی پروگرام کی اساس پر لوگوں کی اُس سے وفاداری کا اظہارہے۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلامؐ اپنے پیش کیے ہوئے پروگرام کی بنیاد پر لوگوں سے بیعت لیتے تھے، نہ کہ اپنی ذات اور شخصیت کی بنیاد پر۔ وہ قرآنی نص جس میں عورتوں کی جانب سے پیغمبر اسلاؐم کی بیعت کرنے کا تذکرہ ہوا ہے، اُس میں بھی ہم اِسی امر کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے اُن سے اجتماعی میدان میں فعالیت کی بنیاد پر بیعت لی۔
اگر اِس امر کو پیشِ نظر رکھا جائے تو ہمارے سامنے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اسلام کی نظر میں رہبر کو حاصل قدرت و اختیار اِس لحاظ سے نہیں ہے کہ وہ رہبری کے امتیازی مقام پر فائز ہے، (چاہے اُسے حاصل یہ فوقیت عوام کی دی ہوئی نہ ہو، جیسے نبوت یا امامت کے عنوان سے فائق ہونا جو پیغمبرؐ یا امامؑ کوحاصل امتیاز ہے)۔ اپنے اِس مدعا کے دلائل ہمیں مولا علی ؑکے کلام میں بھی ملتے ہیں، آپؑ پروردگار ِ عالم سے اپنی مناجات میں فرماتے ہیں :
اللّٰھُمَّ اِنَّکَ تَعْلَمُ اَنَّہُ لَمْ یَکُنْ الَّذِی کَانَ مِنَّامُنَافَسَۃً فِی سُلْطَانٍ وَلَاالْتِمَاسَ شِی ءٍ مِنْ فُضُولِ الْحُطَامِ وَلٰکِنْ لِنَرِدَ الْمَعَالِمَ مِنْ دِیْنِکَ وَ نُظْھِرَ الْاِصْلَاحَ فِی بِلَادِکَ فَیَأْ مَنَ الْمَظْلُومُونَ مِنْ عِبَادِکَ۔
خدایا ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے جو کچھ انجام دیا اِس میں مجھے نہ سلطنت کی لالچ تھی اور نہ مالِ دنیا کی تلاش۔ میرا مقصد صرف یہ تھا کہ دین کے (مٹے ہوئے) آثار کو لوٹائوں اور شہروں میں اصلاح پیدا کروں تاکہ تیرے مظلوم بندے محفوظ ہو جائیں۔ (نہج البلاغہ - خطبہ ۱۳۱)
ایک دوسرے مقام پر یوں فرماتے ہیں :
لَوْلَاحُضُورُ الحَاضِرِ وَقِیَامُ الحُجَّۃِ بِوُجودِ النَّاصِرِ وَمَا اَخَذَ اللّہُ عَلَی العُلَمَاءِ اَلَّا یُقَارُّواعَلَیٰ کِظَّۃِ ظَالِمٍ وَلاسَغَبِ مَظْلُومٍ لَأَ لقَیْتُ حَبْلَھَا عَلَی غَارِبِھَا وَلَسَقَیْتُ آخِرَ ھَابِکَأْسِ اَوَّلِھا۔
اگر حاضرین کی موجودگی اور ناصر و مددگار افراد کے وجود سے مجھ پر حجّت تمام نہ ہو گئی ہوتی اور اﷲ کا اہلِ علم سے یہ عہد وپیمان پیشِ نظر نہ ہوتا کہ خبردار ظالم کی شکم سیری اور مظلوم کی بھوک پر چین سے نہ بیٹھ رہنا، تو میں ناقہ ٔ خلافت کی لگام کو اُسی کی گردن پر ڈال کر ہنکا دیتا اور اُس کے آخر کو اوّل ہی کے کاسے سے سیراب کرتا۔ (نہج البلاغہ - خطبہ ۳)
اور وہ روایت جس میں آپؑ حکومت کو اپنی پھٹی ہوئی جوتی سے بھی حقیر قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَﷲِ لَھِیَ اَحَبُّ اِلیَّ مِن اِمرتکم اِلَااَن اُقیم حقَّاً اَو اَدفع باطلاً۔
خدا کی قسم یہ (جوتی) مجھے تمہاری حکومت سے زیادہ عزیز ہے، اگر میرے پیشِ نظر حق کا قیام اور باطل کا مٹانا نہ ہو۔ (نہج البلاغہ - خطبہ ۳۳)
یہ روایات ہمیں اِس نتیجے پر پہنچاتی ہیں کہ حکومت (حتیٰ اگر حاکم امامت جیسے امتیازی مقام کا حامل ہو تب بھی) ایک فریضہ ہے، جس کی بنیاد پر حاکم اسلام کی دکھائی ہوئی راہ و روش اور پروگرام کو جامۂ عمل پہنانے کی جد و جہد کرتا ہے، نہ کہ اپنی شخصی برتری کے اظہار اور اپنے ذاتی پروگرام کے اجرا کے لیے۔
امامؑ اِس اسلامی پروگرام کی اساس پر لوگوں کی قیادت کا بیڑا اٹھاتے ہیں جس پر آپؑ ایمان رکھتے ہیں اور جس کی بنا پرمعاشرے کی قیادت اپنے ہاتھ میںلیتے ہیں، اور لوگ اِس پروگرام کے معتقد ہیں۔ آپؑ کی جد و جہد کا محور دینی تعلیمات کا احیا، زمین پر امن و بہبود کی فضا کا قیام، ستم رسیدہ افراد کو امن و آشتی کی فراہمی اور حق کا استحکام اور باطل کی نابودی ہے۔
مذکورہ بحث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسلامی حکمراں اُمت سے اپنے خطاب اور حکومت کے مسئلے پر گفتگو کے دوران اِس بات پر زور دیتا ہے کہ اُمت اُس کی کارکردگی پر نظر رکھے، ہر چند وہ ایک ایسے مقام پر فائزہو جہاں اُس کی حکومت یا عدالت کے شرعی جواز کے لیے (اُس کے معصوم ہونے کی بنا پر ) لوگوں کی نظارت کی ضرورت نہ ہو۔
حکمراں، اسلام کے فراہم کردہ پروگرام کا تابع، مطیع اور پابند ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ لوگوں کی نامناسب خواہشات اور مطالبات کے پیشِ نظر اسلامی اصولوں سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔ اِس مفہوم کو امیر المومنین ؑنے یوں بیان فرمایا ہے :
وَلَیْسَ اَمْرِی وَاَمْرُکُمْ وَاحِداً اِنِّی اُرِیْدُکُمْ لِلّٰہِ وَاَنْتُمْ تُرِیْدُ و نَنِی لِاَ نْفُسِکُمْ۔
اور میرا اور تمہارا معاملہ یکساں نہیں ہے۔ میں تمہیں اﷲ کے لیے چاہتا ہوں اور تم مجھے اپنے ذاتی فائدہ کے لیے چاہتے ہو۔ (نہج البلاغہ - خطبہ۱۳۶)
اِسی کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ امام ؑحکومتی معاملات میں اپنی مدد و اعانت کے لیے لوگوں سے درخواست کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ آپؑ پر تنقید و انتقاد کریں، لہٰذا فرماتے ہیں :
فَلَاتُکَلِّمُونِی بِمَاتُکَلَّمُ بِہِ الْجَبَابِرَۃُ وَلَاتَتَحَفَّظُوامِنِّی بِمَا یُتَحَفَّظُ بِہِ عِنْدَ اَھْلِ الْبَادِرَۃِ وَلَاتُخَالِطُونِی بالْمُصَانَعَۃِ وَلَا تَظُنُّوابِیَ اسْتِثْقَالاًفِی حَقٍّ قِیلَ لِی وَلَا الْتِمَاسَ اِعْظَامٍ لِنَفْسِی فَاِنَّہُ مَنِ اسْتَثْقَلَ الْحَقَّ اَنْ یُقَالَ لَہُ اَوْالْعَدْلَ اَنْ یُعْرَضَ عَلَیْہِ کَانَ الْعَمَلُ بِھِمَااَثْقَلَ عَلَیْہِ فَلَاتَکُفُّوا عَنْ مَقَالَۃٍ بِحَقٍّ اَوْ مَشُورَۃٍ بِعَدْلٍ فَاِنِّی لَسْتُ فِی نَفْسِی بِفَوْقِ اَنْ اُخْطِی ءَ ۔
دیکھو مجھ سے اُس لب و لہجے میں بات نہ کرنا جس میں جابر بادشاہوں سے بات کی جاتی ہے۔ اور نہ ہی مجھ سے اِس طرح بچنے کی کوشش کرنا جس طرح غصہ ور لوگوں سے بچ بچائو کیا جاتا ہے۔نہ مجھ سے اِس طرح کا میل ملاپ رکھنا جس سے چاپلوسی اور خوش آمد کا پہلو نکلتا ہو، اور نہ میرے بارے میں یہ تصور کرنا کہ مجھے حق بات گراں گزرے گی، اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ میری ذات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے۔ اِس لیے کہ جس شخص پر حق بات گراں ہو، یا وہ عدل پیش کیے جانے کو ناپسند کرتا ہو، اُس کے لیے حق اور عدل پر عمل کرنا تو کہیں زیادہ دشوار ہو گا۔ لہٰذا خبردار حرف ِحق کہنے میں تکلف نہ کرنا اور منصفانہ مشورہ دینے سے گریز نہ کرنا۔ اِس لیے کہ میں ذاتی طور پر خود کو ارتکابِ خطا سے بالاتر نہیں سمجھتا۔ (نہج البلاغہ - خطبہ ۲۱۴)
البتہ یہ بات واضح ہے کہ ہمارے عقیدے کے مطابق امام علی ؑہر قسم کی خطا، غلطی اور لغزش کے ارتکاب سے بالاتر ہیں۔ البتہ آپؑ اِس کلام کے ذریعے اُمت کو اِس بات پر ابھارتے ہیں کہ وہ آپؑ پر ناقدانہ نظر رکھے، تاکہ اُمت کا یہ طرز ِ عمل بعد کو غیر معصوم حکمرانوں کے بارے میں بھی جاری رہے۔
اگر ہم اُمت کے سامنے اسلامی حکمراں کے عمومی طرز ِ عمل کی تصویر کشی کرنا چاہیں (چاہے یہ حکمراں پیغمبرؐ یا امامِ معصومؑ ہی کیوں نہ ہو)اور یہ بات واضح کرنا چاہیں کہ بنیادی مسائل جیسے صلح و جنگ اور بڑے بڑے سیاسی، اقتصادی اور دفاعی پروگراموں میں یہ طرز ِ عمل کیا ہو گا، تواِس کے لیے ہمیں خداوند ِعالم کے پیغمبر اسلامؐ سے اِس خطاب کو بطورِ سند سامنے رکھنا چاہیے، جس میں ارشاد ہوتا ہے کہ : وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ۔(اور معاملات کے بارے میں ان سے مشورہ کرو۔ سورئہ آلِ عمران ۳ - آیت ۱۵۹)
یعنی خداوند ِعالم اسلامی قائد یا حکمراں کو تلقین کرتا ہے کہ وہ اُمت سے مشورہ کرے، قطع نظر اِس کے کہ مشورت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی رائے کی اتباع اِس پر واجب ہو یا یہ کہ شوریٰ معاشرتی حالات پر اثر انداز ہونے والا ایک مؤثر عامل شمار ہوتی ہو۔ اِسی آیت کے آخر میں آیا ہے کہ : فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ ۔(اور جب ارادہ کر لو تو اﷲ پر بھروسا کرو)
اسلام میں حکومت و اقتدار سے مراد تھیوکریسی (theocracy) نہیں، کہ جس کی بنیاد پر حاکم خدا کے نام پر اپنے ذاتی رجحان کے مطابق حکومت کرتا ہے، بلکہ اسلام کی نظر میں حاکم کا فریضہ خداوند ِعالم کی طرف سے قرار دی گئی حیثیت اور مقام کو ملحوظ رکھتے ہوئے حکومت کرنا ہے۔ البتہ اِس کی حکومت اﷲرب العزت کے وضع کردہ دستور ِ عمل کے تحت ہوتی ہے اور اِسے اِس میں ایک حرف کی بھی کمی بیشی کا اختیار نہیں ہوتا۔ فرمانِ الٰہی ہے:
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْيَمِيْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِيْنَ۔
اور اگر یہ پیغمبر ہماری طرف سے کوئی بات گھڑ لیتا تو ہم اس کے ہاتھ کو پکڑ لیتے اور پھر اس کی گردن اڑا دیتے۔ (سورئہ حاقہ ۶۹ - آیت ۴۴ تا ۴۶)
نیز ارشاد ہوتا ہے :
وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ۰ۚلَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ ۔
اور یقیناً تمہاری طرف اور تم سے پہلے والوں کی طرف یہی وحی کی گئی ہے کہ اگر تم شرک کرو گے تو تمہارے تمام اعمال برباد کر دیے جائیں گے۔ (سورئہ زمر ۳۹- آیت ۶۵)
اِن آیات کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسلامی حکمراں اسلام کے عطا کردہ دستور ِ عمل سے ہٹ کر اپنے ذاتی پروگرام پر عمل کا اختیار نہیں رکھتا۔
حتیٰ ایک مقام پر یہ بھی ملتا ہے کہ جب ایک واقعہ دعوت و حکومت کے سلسلے میں پیغمبرؐ کی استقامت میں رخنے کا موجب ہوا چاہتا ہے، تو خداوند ِعالم دو ٹوک اور واشگاف لہجے میں فرماتا ہے :
وَاِنْ كَادُوْا لَيَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَہٗ۰ۤۖ وَاِذًا لَّاتَّخَذُوْكَ خَلِيْلًاوَلَوْلَآ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ اِلَيْہِمْ شَـيْــــًٔـا قَلِيْلًا اِذًا لَّاَذَقْنٰكَ ضِعْفَ الْحَيٰوۃِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيْرًا۔
اور یہ ظالم اس بات کے لیے کوشاں تھے کہ آپ کو ہماری وحی سے ہٹا کر دوسری باتوں کے افترا پر آمادہ کردیں اور اس طرح یہ آپ کو اپنا دوست بنا لیتے اور اگر ہماری خاص توفیق نے آپ کو ثابت قدم نہ رکھا ہوتا تو آپ ان کی طرف کچھ نہ کچھ مائل ضرور ہو جاتے اور پھر ہم زندگانیٔ دنیا اور موت، دونوں مرحلوں پر (عذاب کا) دُہرا مزا چکھاتے اور آپ ہمارے خلاف اپنا کوئی مددگار بھی نہ پاتے۔ (سورئہ بنی اسرائیل ۱۷ - آیت ۷۳ تا ۷۵)
اِس طرح خداوند ِعالم حکومت اور دعوت کے تجربے کو باہم یکجا کرتا ہے، تاکہ اُس دبائو کے مقابلے پر پیغمبرؐ کی حمایت کرے جس نے اُنھیں چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے، اور اُنھیں اِس بات کی تلقین کرے کہ اہم مسئلہ یہ نہیں ہے کہ لوگ آپ کی تصدیق کرتے ہیں یا نہیں، آپ کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں یا نہیں، بلکہ اہم ترین بات یہ ہے کہ آپ کا فریضہ دیے گئے دستور ِ عمل کی نگہبانی اور حفاظت ہے، نیز خدا کی جانب کوئی ایسی بات منسوب نہ کریں جو آپ پر وحی نہیں کی گئی یا خدا کے ارادے اور چاہت کے برخلاف ہے۔
اب تک کی گفتگو سے یہ بات اخذ ہوتی ہے کہ اسلام کی نظر میں حکومت کوئی شخصی اور ذاتی مسئلہ نہیں، بلکہ اُمت اور معاشرے سے مربوط مسئلہ ہے اور ایک ایسے شخص کی ذمے داری کامسئلہ ہے جو لوگوں پر اپنے انفرادی رجحان کے مطابق حکومت نہیں کرتا، بلکہ اُس کی حکومت کی اساس وہ دستور ِعمل ہوتا ہے جس پر وہ خود اور اُمت ایمان و اعتقاد رکھتی ہے۔ لہٰذا حاکم اِس دستور ِ عمل کے اجرا و نفاذ کا بھی امین ہے اور اِس دستور ِ عمل کی بنیاد پر لوگوں کا امانتدار بھی ہے۔
اِن مسائل کے پیشِ نظر ہم پر لازم ہے کہ اسلامی قائد کی شخصیت کی عظمت بیان کرنے کے دوران (چاہے یہ رہبر و قائد پیغمبرہو، امام ہو یا فقیہ ہو) اور رہبر کی شخصیت کے لیے استعمال کیے جانے والے اپنے الفاظ میں غور وخوض سے کام لیں اور رہبری کی حدود اور حیثیت کو مد ِنظر رکھیں۔ کیونکہ بعض الفاظ سے شخصیت کی ایسی عظمت مجسم ہوتی ہے جو اسلام کے حکومتی اصولوں سے موافق اورہم آہنگ نہیں ہوتی اور اِس بات کا موجب بنتی ہے کہ لوگ تصور کرنے لگتے ہیں کہ وہ پیغمبر، امام یا فقیہ کے سامنے کسی ارادے و اختیار کے مالک نہیں۔ یعنی یہ کہ حاکم کسی معین دستور ِ عمل، آئین و اصول کا پابند نہیں، بلکہ مطلق آزادی اور اختیار کا مالک ہے۔
ہم معتقد ہیں کہ پیغمبر یا امام مکمل کھلی ہوئی شخصیت کے مالک ہوتے ہیں اور یہ حضرات اسلام اور مسلمانوں کے امین ہیں۔ البتہ درجِ ذیل دونوں باتیں ایک دوسرے سے فرق رکھتی ہیں: ایک یہ کہ حکومت کو ذاتی اور شخصی امر کے طور پر دیکھا جائے اور اُس کے تمام مسائل کو فردی اور شخصی سمجھا جائے اور دوسرے یہ کہ حاکم کو ایک ایسا عنصر سمجھا جائے جو اسلامی اصولوں کے دائرے میں اپنی ذمے داری کی حدود سے قدم باہر نہیں نکالتا۔ کیونکہ حکومت کو شخصی سمجھنے کے نتیجے میں ایسے مفاہیم سامنے آتے ہیں جو اسلامی ماڈل سے موافقت نہیں رکھتے۔
معاشرہ اورحکومت
*** سوال : معاشرہ، حکومت کے سلسلے میں اپنا کردار کس طرح ادا کر سکتا ہے؟
*** جواب : اسلام کے نقطۂ نظر سے معاشرے کا کردار یہ ہے کہ وہ قائد اور رہبر کے اقتدار کی شرعی حیثیت کو قبول کرے اور اُس کی طرف سے جو دستور ِعمل دیا جائے، یا جس چیز کا پابند کیا جائے اُس کی خلاف ورزی نہ کرے:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا۔
پس آپ کے پروردگار کی قسم یہ ہرگز صاحب ِایمان نہ بن سکیں گے جب تک کہ آپ کو اپنے اختلافات میں حکم نہ بنائیں اور پھر جب آپ فیصلہ کر دیں تو اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی اور ناراضگی محسوس نہ کریں اور آپ کے فیصلے کے سامنے سراپاتسلیم ہو جائیں۔ (سورئہ نسا ۴ - آیت ۶۵)
نیز ارشاد ہے :
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَى اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَہُمُ الْخِـيَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ۔
اور کسی مومن مرد یا عورت کو حق نہیں ہے کہ جب خدا اور اُس کا رسول کسی امر کے بارے میں فیصلہ کر دیں تب بھی وہ اپنے اُس امر کے بارے میں صاحب ِ اختیار رہیں۔ (سورئہ احزاب ۳۳ - آیت ۳۶)
اِن آیات سے استفاضہ ہوتا ہے کہ شرعی حکومت کی اطاعت معاشرے پرفرض ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ شرعی حکومت کی بھی یہ ذمے داری ہے کہ لوگوں پر اپنے دروازے کھلے رکھے، اُن کی جانب سے کی جانے والی ہر تنقید اور اعتراض بغور سنے اور اُن سے استفادہ کرے۔ نیز ایسے مسائل جن کے بارے میں مختلف آراء پائی جانے کا امکان ہو، اُن پر معاشرے سے گفتگو کا آغاز کرے۔ ہم آنحضرؐت کی حیاتِ طیبہ میں آنجناب ؐکے جنگی تدابیر اختیار کرنے کے دوران اِس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں (بالخصوص جنگ ِبدرکے موقع پر) کہ آپؐ اپنے اصحاب سے مشورہ کرتے ہیں اور جب مسلمان جنگ کا آغاز کرنے کی رائے دیتے ہیں تو آپؐ اِسے قبول کرتے ہیں۔ اِسی طرح امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب ؑبھی مختلف مسائل پر دوسروں سے گفت و شنید کرتے ہیں۔ حتیٰ اپنے ایسے مخالفین سے بھی گفتگو کرتے ہیں جن کے مخالفانہ اقدام جنگ پر منتہی ہوئے۔ جیسے جنگ ِجمل سے پہلے طلحہ و زبیر سے گفتگو، نیز اُن لوگوں سے بات چیت جو خلافت میں آپؑ پرسبقت لینے کی کوشش کرتے ہیں اور خوارج، معاویہ اور اپنے گرد و پیش رہنے والے لوگوں سے مکالمہ۔
ہم(جیسا کہ پہلے اشارہ کر چکے ہیں) معتقد ہیں کہ قیادت پرمعاشرے کا حق یہ ہے کہ قائد و رہبر اُس سے رائے طلب کرے اور کشادہ روئی کے ساتھ معاشرے کے مطالبات اور مسائل پر توجہ دے۔
*** سوال : کیا معاشرے کا کردار صرف مشورت تک محدود ہے، یا معاشرہ پروگرام کی مجموعی تنظیم میں بھی حصہ دار ہو سکتا ہے؟
*** جواب : پیغمبر یا امام کی حکومت کی صورت میں اِن کے پروگرام میں تبدیلیاں لانے کے سلسلے میں معاشرے کا کردار صرف اُس دائرے میں محدود ہوتا ہے جس کی پیغمبر یا امام کی طرف سے بنائے گئے اصول اجازت دیتے ہیں۔
البتہ اگر قائد و رہبر، پیغمبر یا امام نہ ہو، تواُس پر لازم ہے کہ مسائل کے سلسلے میں ماہرین کے توسط سے معاشرے سے رجوع کرے۔ کیونکہ بہت سے ایسے موضوعات ہیں جن میں اجتماعی بصیرت اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے، اِسی طرح ایسے مسائل بھی ہوتے ہیں جن سے ماہرین کی ایک خاص ٹیم ہی عہدہ برآ ہو سکتی ہے۔
اِسی کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بات بھی پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ پروگرام کی شرعی حیثیت معاشرے کی عطا کردہ نہیں۔ قیادت و حکومت سے تعلق رکھنے والے بعض نظریات اقتدار کے قانونی جواز کے لیے عوام کی حمایت پر تاکید کرتے ہیں۔ جیسا کہ شورائی نظریے کی بنیاد پر سربراہِ مملکت کو شوریٰ کے ذریعے قانونی جواز حاصل ہوتا ہے ۔ اِسی طرح بہت سے سیاسی اور اقتصادی نظاموں کے قیام کے لیے رائے عامہ کا اظہار ضروری ہے۔ اور وہ رائے عامہ کی تائید سے اپنا جواز پاتے ہیں۔
نظریہ ٔ ولایت ِفقیہ میں معاملات و امور کو قانونی جواز فقیہ اور اُس کی رائے سے حاصل ہوتا ہے۔ لیکن جب ہم گہری نظر سے مطالعہ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ فقیہ اپنی رائے میں استبداد سے کام نہیں لے سکتا، اُس کے لیے چارو ناچار معاشرے سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ اور وہ امور جو اجتماعی مہارت کا تقاضا کرتے ہیں وہاںاُسے لوگوں سے مشورت کرنا چاہیے۔(البتہ) نظریۂ ولایت ِفقیہ اِس چیز کو واجب قرار نہیں دیتا، لیکن اِس نظریے کے اجرا کی حقیقی شرائط اکثر مواقع پر عوام الناس کی رائے لینے کو قرین مصلحت قرار دیتی ہیں۔ یہ وہی چیز ہے جسے جمہوری اسلامی ایران میں امام خمینیؒ نے اپنایا۔ امام خمینیؒ نے ولایت ِفقیہ کو عوامی رائے سے جدااور علیحدہ ایک نظریے کے عنوان سے نہ پیش کیا اور نہ اِس پر عمل کیا۔
ہم نے دیکھا کہ امام خمینیؒ نے تمام (اہم) معاملات میں حتیٰ اُن امور میں بھی جن میں نظری اعتبار سے رائے طلب کرنے کی گنجائش نہیں (جیسے مملکت کا آئین جو دین اسلام کا مظہر ہے) لوگوں سے رائے طلب کی۔
نظری (theoretically) لحاظ سے اسلام یا ایسے اسلامی اصول جن کا جواز مصادر ِ شریعت سے ثابت شدہ ہے، لوگوں سے اُن کی قبولیت یا عدم قبولیت کے بارے میں رائے طلب کرنے کا کوئی مفہوم ہی نہیں۔ لیکن اِس کے باوجود امام خمینیؒ نے استصواب ِرائے کی راہ اختیار کی اور اِس میں آپ کے پیشِ نظر یہ بنیادی بات تھی کہ فقیہ کا حاکمِ مطلق کے مقام کا حامل ہونا (نظری لحاظ سے) کہیں مستقبل میں حکومت کے انحراف پر منتج نہ ہو۔ کیونکہ بسا اوقات ایک حاکم کو ایسے شرائط و حالات پیش آ جاتے ہیں جو اُسے ایسے طاقتور مقام پر لاکھڑا کرتے ہیں جہاں کوئی اور اُس کا سامنا کرنے کی قدرت نہیں رکھتا ۔ یا حاکم اِس طرح راہِ راست سے بھٹک جاتا ہے کہ کوئی اُس کے خلاف پرچم بلند کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، اور یہ حقیقی امکان موجود ہوتا ہے کہ انحراف کی صورت میں حاکم اجتماعی پروگراموں کو اپنے ذاتی مفادات کے تحت ِ کنٹرول لے آئے۔
لہٰذا یہ تجربہ (اسلامی جمہوریۂ ایران) جس میں نظریۂ ولایت ِفقیہ اور نظریۂ شوریٰ کو یکجا کیا گیا ہے ممکن ہے حکومت ِاسلامی کی بہت سی امکانی خطائوں میں کمی کا موجب ہو۔
اِس مقام پر شاید کچھ لوگ یہ کہیں کہ نظریۂ ولایت ِفقیہ میں، فقیہ کے لیے فقہی اجتہاد اور اپنے زمانے کے مسائل سے آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ عدالت بھی شرط ہے۔ لہٰذا فقیہ عدالت سے محروم ہو جانے کی صورت میں اپنا شرعی جواز بھی کھو بیٹھے گا۔ بالکل اِسی طرح جیسے اگر وہ فقہی اجتہاد کے عنصر سے محروم ہو جائے تو اُس کا شرعی جواز جاتا رہے گا۔ لہٰذا اِس لحاظ سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہونا چاہیے۔
اِس پر ہمارا جواب یہ ہے کہ یہ بات نظری لحاظ سے تو درست ہے، لیکن واقعیت اور حقیقت کے اعتبار سے نہیں۔ کیونکہ منحرف فقیہ اپنے انحراف کا اعتراف تو کرنے سے رہا۔ نیز اُس کے حاشیہ نشین اور حواری بھی اُس کے انحراف کی توجیہ کریں گے۔ لیکن اگر حکومت کا مسئلہ قوم کی تائید سے جڑا ہوا ہو، تو قوم کے مخالف ہو جانے کی صورت میں منحرف حاکم کا اپنی حکومت قائم و دائم رکھنا سخت مشکل ہے۔
اِسی بنا پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایسا نظریہ جس میں حقائق کو ملحوظ رکھا گیا ہو اُمت کو حاکم کی اصلاح کے لیے تحریک چلانے سے بے نیاز کردیتا ہے۔