فکرونظر

رسولِ اکرمؐ کے بعد اسلام کی قیادت

فکرونظر   •   آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ

یہ خطاب تہران، ایران سے شائع ہونے والے مجلے“ موعود ” شمارہ ۲۴ سے لیا گیا۔

روز ِ غدیر، اسلام کی حیات کے ایک نئے مرحلے کانقطۂ آغاز ہے۔ اِس دن پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے بعد عالمِ اسلام کی قیادت کاتعین ہوا ہے، ایک ایسی قیادت جورسول اﷲ ؐ کی راہ وروش کو جاری رکھے اور مسلمانوںکوناقابلِ حل نظر آنے والی پیچیدہ داخلی مشکلات اور خارجی خطرات سے نجات دلائے ۔

معلوم حقیقت ہے کہ پیغمبر اسلامؐ کی رحلت کے بعد اسلام اور مسلمانوں کی قیادت ایک ایسے فرد کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے جس نے اپنے پورے وجود کے ساتھ اسلام کو درک کیا ہو، اور جواپنے مذہبی اور شرعی اقدامات کے ذریعے ایک مجسم اسلامی فکر پیش کر سکے اوراِس کا یہ عمل مسلمانوں کے درمیان فکری افتراق و انتشار کا انسداد کرے۔

اِس بنیاد پر پیغمبر اسلامؐ کی وفات کے بعد عالمِ اسلام کی قیادت ایک ایسے شخص کے ذمے ہونی چاہیے جو مکمل اور بغیر کسی خطا اور غلطی کے اسلام کا علم رکھتا ہو۔

اِس مقام پر اِس نکتے کی جانب اشارہ ضروری ہے کہ پیغمبر اسلامؐ کی پوری حیاتِ مبارک جنگوں اور داخلی بحرانوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے گزری۔ لہٰذااِس مدت میں اکثر اسلامی مفاہیم بخوبی واضح نہیں کیے جاسکے تھے اورمسلمانوں کے لیے ضروری تمام احکام ہنوز سامنے نہ آئے تھے۔

البتہ ہم اصحابِ پیغمبرؐ کے اخلاص کے منکر نہیں، اُنھوں نے مکہ میں ڈٹ کر سختیوں کا مقابلہ کیا اور مخالفت کی آگ بھڑکانے والوں اور جنگ خواہوں کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں اُترے۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ اُن کے بارے میں خداوند ِعالم قرآنِ مجید میں فرماتا ہے:

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ تَرٰىہُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا سِيْمَاہُمْ فِيْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ۔

محمد اﷲ کے رسول ہیں اور جو لوگ اِن کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لیے سخت ترین اور آپس میں انتہائی رحمدل ہیں، تم اِنھیں دیکھو گے کہ(وہ) بارگاہِ احدیت میں سر خم کیے ہوئے سجدہ ریز ہیں اور اپنے پروردگار سے فضل و کرم اور اُس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں، سجدوں کی کثرت کی بنا پر اُن کے چہروں پر سجدے کے نشان پائے جاتے ہیں۔ سورئہ فتح ۴۸ - آیت ۲۹

بہرحال، پیغمبر اسلامؐ کو (اپنی حیات میں) اِس بات کی فرصت نہ مل سکی کہ وہ اسلامی تعلیمات اور اُن کی معنویات کو گہرائی کے ساتھ، ایک ایک مسلمان کے وجود میں بٹھا سکیں۔ لہٰذا لازم تھا کہ پیغمبرؐ کے بعد مسلمانوں کی رہنمائی ایک ایسے فرد کے ذریعے انجام پائے جو اسلام کو فروغ دے اور اُس کی تعلیمات کو مسلمانوں کے ایک ایک فرد کے وجود میں بٹھا سکے۔

یہی وجہ ہے کہ مسئلۂ غدیر، اسلام کے اہم ترین مسائل میں شمار ہونے والا ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ بالخصوص جبکہ حدیث کے اکثر راویوں نے آیت ِقرآن :يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ وَاللہُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۔(اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچا دیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو پہنچایا ہی نہیں اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا ۔ سورئہ مائدہ ۵ - آیت ۶۷) کے بارے میں کہا ہے کہ یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی جب پیغمبر اسلامؐ اپنے (آخری) حج سے واپسی پر“ غدیر ِ خم ” نامی مقام پر پہنچے۔

بعض مفسرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اِس آیت کی شانِ نزول پیغمبرؐ کے جانشین کی حیثیت سے حضرت علی ؑکاتعارف کرانا نہیں بلکہ یہ ایک دوسری بات کے بیان کے لیے نازل ہوئی ہے۔ یہ مفسرین اب تک مذکورہ آیت ِشریفہ کی ماہیت اوراپنے اِس خیال کے درمیان نسبت قائم نہیں کر سکے ہیں۔ کیونکہ مذکورہ آیت حضرت ختمی مرتبتؐ کی بعثت کے ابتدائی ایام میں نازل نہیں ہوئی، جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ (اِس میں) پیغمبر اسلامؐ کو انذار و تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے۔ رسول اﷲؐاس زمانے میں بغیر کسی خوف و ہر اس کے ہر اُس مسئلے اور حکم سے لوگوں کو آگاہ کرتے تھے جو آپؐ پر وحی کیا جاتا تھا اوراپنے اِس عمل میں کسی قسم کے ضعف اور کمزوری کا شکار نہیں ہوتے تھے:

وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ۔

اور کہہ دو کہ حق تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے، اب جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے کافر ہو جائے۔ سورئہ کہف ۱۸ - آیت ۲۹

پیغمبر اسلام تبلیغِ رسالت کے دوران کسی مخالفانہ رَد ِ عمل کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ کیونکہ اُس وقت آپؐ لوگوں کے درمیان فکر، معنویت اور الٰہی راہ و روش کی بنیاد رکھ رہے تھے۔ لہٰذا لوگوں کا منفی رَدِ عمل آپؐکے لیے غیر متوقع نہ تھا۔

بہرحال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے منفی طرز ِ عمل سے رنجیدہ ہوتے تھے۔ لیکن آپؐ کی یہ رنجیدگی اور ناگواری خود اپنے لیے نہیں ہوتی تھی، بلکہ آپؐ لوگوں کے لیے رنجیدہ ہوتے تھے، کیونکہ آپؐ لوگوں کے سچّے خیر خواہ اور ہمدرد تھے۔

یہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آیۂ شریف : وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ وَاللہُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۔(سورئہ مائدہ ۵۔ آیت ۶۷) ایک دوسرے ہی اہم مسئلے پر تاکید کر رہی ہے اور یہ مسئلہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی ولایت و جانشینی کے سوا اور کچھ نہیں ۔ البتہ اِس مسئلے کے بارے میں کافی بحث و جدال پایاجاتا ہے۔ جب رسولِ کریمؐ نے اِن الفاظ کے ذریعے پیغام پہنچایا کہ : ”کیا میں مومنین پر خوداُن سے زیادہ حق نہیں رکھتا؟ اِس کے جواب میں حاضرین نے کہا : جی ہاں ۔ پھر فرمایا : پس جس جس کا میں مولا ہوں (اب اِس کے بعد) اُس کا یہ علی مولا ہے ۔

اِس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی :

اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۔

آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کر دیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کر دیا ہے اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ہے۔ سورئہ مائدہ ۵ - آیت ۳ (۱)

اِس دن تک پیغمبر اسلامؐ کے بعد اُمت ِاسلامیہ کی قیادت کے بارے میں ایک خلا پایا جاتا تھا، (اب اعلانِ غدیر کے ذریعے) اِس خلا کے پُر ہونے پر دین کی عمارت مکمل ہو گئی اور خداوند ِ ِعالم اِ س بات سے راضی ہو گیا کہ اسلام تمام عالم کا دین ہو جائے۔

یہاںپہنچ کر ممکن ہے یہ سوال پیش آئے کہ بعض اصحابِ رسولؐ جنہوں نے حضرت علی ؑ کی ولایت سے منہ موڑا، اُن کے اِس عمل کی کیا تفسیر کی جا سکتی ہے؟

شاید کوئی یہ سوال کرے کہ آپ رسولِ مقبول ؐ کی وفات کے بعد (سقیفہ کی کارروائی کے دوران)انصار کے مہاجرین سے یہ کہنے کی کیا توجیہ کریں گے کہ : ” ایک امیر ہم میں سے اور ایک امیر تم میں سے ۔ ”

بعض اصحاب ِرسولؐ نے (مملکت ِاسلامی کے دیگر علاقوں میں بسنے والے) مسلمانوں سے کسی قسم کا مشورہ کیے بنا، اور بغیر کسی خوف و خطر اور بلا کسی ہچکچاہٹ کے حضرت ابوبکر کی بیعت کر لی؟ کیا وجہ تھی کہ وہاں (سقیفہ بنی ساعدۃ میں) کسی نے اِس عمل کی مخالفت نہ کی اور یہ نہ کہا کہ پیغمبرؐ ؐ نے تو فرمایا ہے کہ : ”جس جس کا میں مولا ہوں ( میرے بعد) اُس اُس کے یہ علیؑ مولا ہیں ” ؟

مرحوم سید عبدالحسین شرف الدینؒ نے اِس کی یہ وجہ بیان کی ہے :

“بعض کے سوا، اُس دور کے مسلمان گہرائی میں جاکر سوچنے والی ذہنیت کے مالک نہ تھے، لہٰذا جب اُنھوں نے بیعت کر لی تو اِس کے وفادار رہے۔ بہرحال جس وقت پیغمبر اسلامؐ نے صراحت اور وضاحت کے ساتھ فرمایا تھا، تو شاید اُنھوں نے مَنْ کُنْتُ مَوْلٰاہُ فَھٰذَا عَلِیٌّ مَوْلٰاہُسے پیغمبرؐ کی مراد کوبخوبی سمجھ لیا تھا، لیکن جو کچھ (بعد میں) واقع ہوا وہ پیغمبر ؐ کی خواہش کے برخلاف تھا۔ ”

یہی وجہ ہے جوہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبرؐ لوگوں کی اکثریت کی(کوتاہ اندیش) ذہنیت کی جانب سے فکر مند تھے، اِسی لیے آپؐ نے (آخری وقت میں) فرمایا کہ : ” میرے لیے قلم اور کتف (کاغذ) لے آئو، تاکہ میں تمہارے لیے ایک ایسی چیز لکھ دوں کہ میرے بعد تمہاری گمراہی کی گنجائش نہ رہے۔ ” (۲)

پیغمبر اسلامؐ عام افراد کی مانند نہ تھے کہ احتضار (جاں کنی) کے موقع پر (نعوذ باﷲ) ہذیان گوئی میں مبتلا ہوجاتے، بلکہ آپؐعقل و شعور اور عزم و ارادے کے بلند ترین درجے پر فائز تھے۔ نیز اِس قصے سے پہلے بیماری کی حالت میں آنحضرؐت کی ہذیان گوئی کا کوئی ایک واقعہ بھی کسی صحابی سے نقل نہیں ہوا ۔ پیغمبرؐ اپنے پورے وجود کے ساتھ اپنے اصحاب کے درمیان زندگی بسر کرتے تھے اور اُن سے گفتگو کیا کرتے تھے، آپؐ کی پوری حیات ایک کھلی کتاب کی مانند مسلمانوں کے سامنے تھی۔ لہٰذا جب آپؐ نے فرمایا کہ میرے لیے قلم اور کتف (کاغذ) لے آئو تاکہ میں تمہارے لیے ایک ایسی چیز لکھ دوں تاکہ تم میرے بعد کسی صورت گمراہ نہ ہو سکو۔ تو آنحضرتؐ کا مطلب یہ نہیں تھا کہ کوئی ایسی بات لکھ دیں جو قرآنِ مجید کی جگہ لے لے گی ۔ کیونکہ قرآن تو وہ نور ہے جو پیغمبر اسلامؐ کے گوشت و پوست اور آنحضرت ؐکے خون کے ساتھ گندھا ہوا ہے۔ لہٰذایہاں کوئی اور مسئلہ پیشِ نظر ہے جو رسولِ اکرمؐ کی بہت زیادہ توجہ اور اہتمام کا مرکز بنا ہوا ہے ۔ یہاں تک کہ اُس نے آپؐ کے لیے ناگزیر کر دیا ہے کہ اِس موقع پرآپؐ اِس کے بارے میں تحریری صورت میںتاکید فرما دیں تاکہ مستقبل میں کوئی آپؐ کی گفتگو میں ہیر پھیر نہ کر سکے۔

اب یہ سوال پیش آتا ہے کہ (اِس موقع پر)حضرت عمر نے یہ کیوں کہا کہ ہمارے لیے کتابِ خدا ہی کافی ہے؟ کیا پیغمبر اسلامؐ یہ کہنا چاہتے تھے کہ (نعوذ باﷲ) کتاب ِخدا ناقص ہے؟

حضرت عمر کے :حَسْبُنَاکِتَابُ ﷲ ِ(ہمارے لیے کتاب اللہ ہی کافی ہے) کہنے کا کیا مطلب ہے؟جبکہ خداوند ِ عالم کا فرمان ہے کہ: وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا۔( جو کچھ بھی رسول تمہیں دیدے اُسے لے لو اور جس چیز سے منع کر دے اُس سے رک جائو۔ سورئہ حشر ۵۹ - آیت ۷)

یہاں اِس نکتے کی جانب اشارہ کر دینا ضروری ہے کہ رسولِ کریمؐ کی سُنّت، کتابِ خدا کی شارح اور اُس کی تکمیل کرتی ہے۔ پس پھر حضرت عمر نے کیوں یہ کہا کہ : حَسْبُنَا کِتَابُ ﷲِ ِ(ہمارے لیے کتاب اللہ ہی کافی ہے) اور پھر اِس کے بعداُنھوں نے رسولِ کریمؐ کی (نعوذ باﷲ) ہذیان گوئی کا دعویٰ کیا ؟ جبکہ رسول اﷲؐ نے اپنی پوری حیات ِمبارکہ میں، بیماری کی حالت تک میں کبھی ہذیان گوئی نہیں فرمائی۔

اِس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ نبوت، رسول اللہ ؐکی پوری زندگی پر محیط ہے، لہٰذااِس بات کا امکان نہیں کہ پیغمبر اسلامؐ ہذیان گوئی کی حالت میں مسلمانوں کو خطاب کریں اور (اِس حالت میں)اُنھیں ایک ایسے کام کی انجامدہی کا حکم دیں جو آپؐ کی رسالت کے دوام اورتسلسل سے تعلق رکھتا ہے۔ مزید یہ کہ تمام مسلمانوں کا اِس بات پر اعتقاد ہے کہ پیغمبر اسلامؐ ہر قسم کی غلطی اور خطا سے محفوظ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس موقع پرپیغمبر کواِس بات کی اجازت نہیں دی گئی کہ آپ خلافت کے مسئلے کو مکمل طور پر واضح کر دیں اور اپنی تحریر کے ذریعے حضرت علی ؑکی جانشینی پر مہرِ تائید ثبت کر دیں۔ البتہ رسولِ کریمؐ پہلے ہی حضرت علی ؑکی ولایت اور جانشینی کے مسئلے کو مختلف مناسبتوں سے متعدد مقامات پر بیان فرما چکے تھے۔

بہرحال جب چند افراد آنحضرتؐ کی خدمت میں قلم و کتف (کاغذ) لے کر حاضر ہوئے، تو اِس موقع پر اختلاف پیدا ہو گیا اور ایک گروہ نے اِس بات کی اجازت نہ دی کہ پیغمبرؐ اپنی تحریر کے ذریعے حضرت علی ؑکا اپنے جانشین کے طور پر تعارف کرائیں۔

دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلامؐ پہلے ہی سے مسلسل اپنے اصحاب اور سربرآوردہ افراد کو حکم دے رہے تھے کہ ” اسامہ ” کے لشکر کے ساتھ روم روانہ ہو جائیں۔ لیکن اُن لوگوں نے رسول اﷲؐ کے حکم کی تعمیل نہ کی اور“ اسامہ ” کے لشکر میں شامل نہ ہوئے۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ (حضرت عمر) نے یہ کیوں کہا کہ پیغمبرؐ کی وفات نہیں ہوئی ہے؟ جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ اِس کا مقصد سوائے اِس کے کچھ اورنہ تھا کہ وہ لوگ جو اِس وقت مدینہ میں موجود نہیں ہیں اُنھیںسقیفہ کی کارروائی میں شریک ہونے اور مسٔلۂ خلافت کو اُس خاص انداز سے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا موقع مل جائے۔

تاریخ پر نقد و تحلیل

جب ہم تاریخِ اسلام کا ایک نئے انداز سے مطالعہ کرنا چاہیں، تو ہمیں مسئلۂ غدیر کا بھی ایک ناقدانہ جائزہ لینا چاہیے، البتہ اُس دور کی شخصیات کے تقدس کو مجروح کیے بغیر۔

بعض لوگوں نے حضرت علی ؑکے خطبۂ شقشقیہ پر، جسے سید رضیؒ نے نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے، چند اعتراضات کیے ہیں۔ اِس گروہ کے اعتراضات کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ حضرت علی ؑکا طرز ِ خطابت سید رضیؒ کے انداز ِ سخن سے مختلف ہے۔ مزید یہ کہ مذکورہ خطبے کو سید رضیؒ سے صدیوں برس پہلے متعدد دوسرے راوی نقل کر چکے ہیں۔ حضرت علی ؑنے اِس خطبے میں اپنے حق کے بارے میں فرمایا:

مَحَلِّی مِنھَا مَحَلُّ القُطْبِ مِنَ الرَّحَا۔ یَنْحَد رُعَنِّی السَّیْلُ وَلا یَرْقَیٰ اِلَیَّ الطَّیْرُ۔

خلافت میں (علمی اور عملی لحاظ سے)میرامقام چکّی کی مرکزی کیل کا سا ہے۔ علم کا سیلاب میری ذات سے گزر کر نیچے جاتا ہے اور میری (علم و دانش کی) بلندی تک کسی کا طائر ِ فکر پرواز نہیں کر سکتا ہے۔ (نہج البلاغہ - خطبہ ۳)

یہاں تک کہ فرماتے ہیں:

فَیَا عَجَباً ! بَیْنَا ھُوَ یَسْتَقِیلُھا فِی حَیَاتِہِ اِذْ عَقَدَھَا لآخَرَ بَعْدَ وَفَاتِہِ لَشَدَّ مَا تَشَطَّرَ اضَرْ عَیْھَا !

حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں استعفا دے رہے تھے لیکن اپنے بعد (خلافت) دوسرے کے لیے معین کر گئے۔ بے شک دونوں نے مل کر شدت کے ساتھ اِس کے تھنوں کو دوہا ہے۔ (نہج البلاغہ - خطبہ ۳)

اِس مثال کے ذریعے امام علی ؑکی مراد یہ ہے کہ یہ دونوں حضرات حصولِ خلافت کے سلسلے میں ایک دوسرے کے مددگار تھے۔ اور حق طلب کرنے والی ہر آواز کو کچل دینے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ سیاسی حالات بھی اِسی رُخ پر بڑھ رہے تھے۔ اُس زمانے میں حضرت علی ؑ اِس بات سے بخوبی باخبر تھے کہ اُس دور کا اسلامی معاشرہ اِس بات کے لیے تیار نہیں کہ آپؑ اپنے حق کے حصول کے لیے تلوار اٹھائیں۔ کیونکہ آپؑ کا یہ عمل مسلمانوں کی صفوں میں انتشار اور افتراق کا باعث ہوتا۔ لہٰذا آپؑ نے فرمایا:

فَرَاَیْتُ اَنَّ الصَّبْرَ عَلَی ھَاتَا اَحْجَی فَصَبَرتُ وَفِی العَیْنِ قَذیً وَفِی الحَلْقِ شَجاً ۔

میں نے دیکھا کہ اِن حالات میں صبر ہی قرین عقل ہے، تو میں نے اِس عالم میں صبر کیا کہ آنکھوں میں خس و خاشاک تھے اور گلے میں ہڈی اٹکی ہوئی تھی۔ (نہج البلاغہ - خطبہ۳)

جب ابوسفیان، حضرت عباس کے ساتھ، امیر المومنین ؑکے ہاتھ پر بیعت کی غرض سے آپؑ کی خدمت میں آیا، تو آپؑ نے دست ِبیعت دراز نہ کیا اور اُنھیں آگاہ کیا کہ اگر آپؑ نے اپنے حق میں بیعت لی تو اِس کے نتیجے میں کیا فتنہ سر اٹھائے گا۔ مزید یہ کہ زمانی اور مکانی حالات بھی آپؑ کو اِس عمل کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ کیونکہ رسالت ِالٰہی پرعمل کے لیے مخصوص معروضی حالات درکار ہوتے ہیں ۔ تاکہ انسان اپنے ذمے عائد ہونے والے الٰہی فریضے کو کامیابی کے ساتھ انجام دے سکے۔ لہٰذااگر رسالت ِ الٰہی کی انجامدہی کے راستے میں بہت زیادہ معروضی رکاوٹیں پائی جائیں، تو ممکن ہے کہ یہ الٰہی فریضہ انجام نہ دیا جا سکے، اور یہ عمل ناکامی سے دوچار ہو جائے اور پھراِس کے بعداِس رسالت ِالٰہی کا محض نام باقی رہ جائے ۔لہٰذا پیغمبرؐ کے بعداِس رسالت کے حامل کے لیے ناگزیر ہو گیا تھا کہ وہ دین پیغمبرؐ کی بقا کی خاطر اپنے آپ کو فدا کر دے۔

لہٰذا حضرت علی ؑاپنے تمام تر علم و دانش، روحانیت اور بصیرت کے باوجود محض بقائے دیں کی خاطر اپنے برحق مطالبے سے دستبردار ہو گئے اور دوسرے لوگ مسند ِ خلافت پر براجمان ہوئے، جو نہ تو آپؑ کی طرح علم ودانش کے مالک تھے اور نہ ہی آپؑ کے جیسے شعور اور مہارت کے حامل ۔

رسولِ اکرمؐ کی وفات کے بعد (سقیفہ میں) انصار کی طرف سے یہ کہہ کر کہ : ”ایک امیر ہم میں سے اور ایک امیر تم میں سے۔ ” خلافت کو بھی قبائلی نظام کی بنیاد پر پیش کیا گیا۔ اِس مسئلے کا کسی ایسے معیار اور پیمانے سے بھی کوئی تعلق نہ تھا جسے معاشرے کی قیادت کے انتخاب کے موقع پر پیشِ نظر رکھا جاتا ہواور یہ اسلام کی پیش کردہ عمومی ہدایات کے دائرے سے بھی باہر تھا ۔

مسئلۂ خلافت کے بارے میں تحقیق

ہم نے اِس موضوع (خلافت) پر جو تحقیقات انجام دی ہیں، اُن سے پتا چلتا ہے کہ اِس دور کے لوگ (اِس بارے میں) واضح اسلامی تعلیمات اور رہنمائی سے بہرہ ور نہ تھے۔ اُن کی نظر میں مسئلہ یہ تھا کہ پیغمبرؐ کے دنیا سے رخصت ہو نے کے بعدہمیں اپنے معاشرے کی قیادت کے لیے ایک قائد کا تعین کرنا ہے، اب اِس انتخاب کی خواہ کوئی بھی صورت ہو ۔اِس مسئلے میںدراصل یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ مسئلہ یہ نہیں کہ ایک شخص پر کوئی خاص راہ و روش مسلط کی گئی تھی، بلکہ موضوع یہ ہے کہ ایک شخص نے خاص راہ و روش کو لوگوں پر مسلط کیا۔یہی وجہ ہے کہ امیر المومنین ؑ نے فرمایا:

حَتَّیٰ اِذامَضَیٰ لِسَبِیلِہِ جَعَلَھَا فِی جَمَاعَۃٍ زَعَمَ اَنَّی اَحَدُھُمْ۔ فَیَا لَلّٰہِ وَلِلشُّورَیٰ ! مَتَیٰ اعْتَرَضَ الرَّیْبُ فِیَّ مَعَ الْاَوَّلِ مِنْھُمْ۔

یہاں تک کہ اُنھوں نے بھی اپنی راہ لی، لیکن مسئلۂ خلافت کو ایک جماعت میں قرار دے گئے، جن میں سے ایک مجھے بھی گمان کیا گیا ۔واﷲ ! اِس شوریٰ سے میرا کیا تعلق؟ پہلوں ہی کے مقابلے میں مجھ میں کونسا عیب و ریب تھا کہ آج لوگوں نے مجھے اِن افراد (وہ پانچ افراد جنہیں حضرت عمر نے شوریٰ میں نامزد کیا تھا) کے ساتھ لا کھڑا کیا۔ (نہج البلاغہ - خطبہ ۳)

اِن افراد کے درمیان کس طرح امتیاز قائم کیا جائے؟ وہ کیا پیمانہ ہے جس کے ذریعے اِن میں سے بہتر اور افضل کو پہچانا جائے؟ یہ لوگ کتنے علم و آگہی کے مالک ہیں؟ اِن کی سطح فکری کیا ہے؟اِنھوں نے کتنا کتنا جہاد کیا ہے؟ یہ لوگ رسولِ مقبولؐ سے کتنی روحانی اور ذہنی قرابت رکھتے ہیں؟

جب ہم اِس مسئلے کا علمی نقطۂ نظر سے جائزہ لیتے ہیں تو امام جعفر صادق علیہ السلام کے اِس کلام کی درستگی کو محسوس کر لیتے ہیں جس میں آپؑ نے فرمایا تھا کہ: ” حضرت علی ؑنے فرمایا : میں کہاں اور وہ کہاں!؟ ”

جس زمانے میں پیغمبر اسلاؐم، حضرت علی ؑکو اپنی جانشینی اور خلافت کے لیے تیار کر رہے تھے اورآپ ؑ کو اُن مسائل کی تعلیم دے رہے تھے جنہیں کوئی دوسرا نہ جانتا تھا، لوگوں نے اُسی زمانے سے سُن رکھا تھا کہ پیغمبر اسلامؐ نے حضرت علی ؑکے بارے میں فرمایا ہے: ” میں علم کا شہر ہوں اور علی اِس کا دروازہ ۔ ” اور : ” علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ۔ ” اور : ”جس کسی کا میں مولا ہوں پس یہ علی اُس کا مولا ہے۔ ” یا : ” اے علی ! آپ میرے لیے اُسی طرح ہیں جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے، فرق صرف یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔ ” اور فرمانِ الٰہی ہے :

اِنَّمَا يُرِيْدُ اللہُ لِيُذْہِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَيْتِ وَيُطَہِّرَكُمْ تَطْہِيْرًا۔

بس اﷲ کا ارادہ یہ ہے اے اہلِ بیت کہ تم سے ہر بُرائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جیسا پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔ سورئہ احزاب ۳۳ - آیت ۳۳

نیز فرماتا ہے:

اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَہُمْ رٰكِعُوْنَ ۔

ایمان والو! بس تمہارا ولی اﷲ ہے اور اُس کا رسول ہے اور وہ صاحبانِ ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے اور حالت ِرکوع میں زکات دیتے ہیں۔سورئہ مائدہ ۵ - آیت ۵۵

اِسی طرح فرماتا ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِيْ نَفْسَہُ ابْـتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللہِ وَاللہُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ ۔

اور لوگوں میں وہ بھی ہیں جو اپنے نفس کو پروردگار کی مرضی کے لیے بیچ ڈالتے ہیں اور اﷲ اپنے بندوںپر بڑا مہربان ہے ۔ سورئہ بقرہ ۲ - آیت ۲۰۷

اِس بنیاد پر دیکھا جائے تو حضرت علی ؑکا دکھ اور تکلیف اپنے لیے، اپنی ذات کے لیے نہ تھا، بلکہ آپ کا غم و اندوہ اسلام کے لیے تھا، اُمت ِاسلامیہ کے لیے تھا۔ آپؑ نے خطبۂ شقشقیہ میں فرمایا :

فَصَغَارَجُلٌ مِنْھُمْ لِضِغْنِہِ وَمَالَ الْآخَرُ لِصِہْرہِ مَعَ ھَنٍ وَھَنٍ اِلَیٰ اَنْ قَامَ ثَالِثُ القَوْمِ نِافِجاً حِضْنَیْہِ۔

مگر پھر بھی ایک شخص اپنے کینے کی وجہ سے مجھ سے منحرف ہو گیا اور دوسرا دامادی کی وجہ سے اُدھر جھک گیا اور اِسی طرح دواور افراد بھی جن کے نام لینا مناسب نہیں (نہج البلاغہ - خطبہ ۳)

آپؑ کے منصب ِخلافت پر فائز ہوتے ہی آپؑ کے راستے میں سازشوں کے کانٹے بوئے جانے لگے۔ اِس بارے میں خود آپؑ کا کلام ہے :

فَلَمَّا نَہَضْتُ بالْاَمْرِنَکَثَتْ طَائِفَۃٌ وَمَرَقَتْ اُخْرَی وَقَسَطَ آخَرُونَ کَاَ نَّھُمْ لَمْ یَسْمَعُوااللّٰہَ سُبْحَانَہُ (فسق) یَقُولُ :تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِيْنَ لَا يُرِيْدُوْنَ عُلُوًّا فِي الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِيْنَ ۔ (سورئہ قصص ۲۸ - آیت ۸۳)

لیکن جب میں نے حکومت سنبھال لی اور اُٹھ کھڑا ہوا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ دی اور دوسرا میری بیعت سے نکل گیا۔ اور تیسرے نے فسق اختیار کر لیا۔ جیسے کہ ان لوگوں نے یہ ارشاد ِالٰہی سُنا ہی نہ ہو کہ :یہ دار ِ آخرت ہم صرف اُن لوگوں کے لیے قرار دیتے ہیں جو دنیا میں بلندی اور فساد نہیں چاہتے اور عاقبت صرف اہلِ تقویٰ کے لیے ہے۔ (نہج البلاغہ - خطبہ ۳)

بَلَی !وَاللّٰہِ لَقَدْ سَمِعُوھَاوَوَعَوْھَا وَلٰکِنَّھُمْ حَلِیَتِ الدُّنْیَافِی اَعْیُنِھمْ وَرَاقَھُمْ زِبْرِجُھَا ۔

ہاں ہاں ! خدا کی قسم ان لوگوں نے یہ ارشادسُنا بھی ہے اور سمجھے بھی ہیں لیکن دنیا ان کی نگاہوں میں آراستہ ہو گئی اور اس کی چمک دمک نے اُنھیں اپنا فریفتہ بنا لیا۔ (نہج البلاغہ - خطبہ ۳)

پس امامؑ نے اپنے پہلے مؤقف پر زور دیتے ہوئے فرمایا:

اَمَا وَالَّذِی فَلَقَ الحَبَّۃَ وَبَرا النَّسَمَۃَ لَوْلَاحُضُورُ الحَاضِرِ وَقِیَامُ الحُجَّۃِ بِوُجودِ النَّاصِرِ وَمَا اَخَذَ اللّہُ عَلَی العُلَمَاءِ اَلَّا یُقَارُّواعَلَیٰ کِظَّۃِ ظَالِمٍ وَلاسَغَبِ مَظْلُومٍ لَأَ لقَیْتُ حَبْلَھَا عَلَی غَارِبِھَا وَلَسَقَیْتُ آخِرَ ھَابِکَأْسِ اَوَّلِھا وَلَاَ لفَیْتُمْ دُنْیَاکُمْ ھٰذِہِ اَ زْھَدَ عِنْدِی مِنْ عَفْطَۃِ عَنْزٍ! ۔

آگاہ ہو جائو کہ وہ خدا گواہ ہے جس نے دانے کو شگافتہ کیا ہے اور ذی روح کو پیدا کیا ہے، کہ اگر حاضرین کی موجودگی اور مددگاروں کے وجود سے مجھ پر حجّت تمام نہ ہو گئی ہوتی اور اﷲ کا علما سے یہ عہد نہ ہوتا کہ خبردار ظالم کی شکم پُری اور مظلوم کی بھوک پر چین سے نہ بیٹھنا، تو میں آج بھی اِس خلافت کی رسی کو اسی کی گردن پر ڈال کر ہنکا دیتا اور اِس کے آخر کو اوّل ہی کے کاسے سے سیراب کرتا اور تم دیکھ لیتے کہ تمہاری دنیا میری نظر میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ بے قیمت ہے۔ نہج البلاغہ - خطبہ ۳)

اب سوال یہ پیش آتا ہے کہ ہم کسے نمونۂ عمل قرار دیں؟

جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ مسند ِخلافت پر بیٹھنے والوںمیں سے صرف حضرت علی ؑنے ہمارے لیے عظیم علمی اور تمدنی میراث چھوڑی ہے، جو اسلام کی وسعت اور پھیلائو کا موجب ہے۔لہٰذا علی ؑکا شیعہ ہونے کے معنی، حضرت علی ؑکا پیروکارہونا، اسلامی اتحاد کا محافظ ہونا، یہاں تک کہ اگر عالمِ اسلام کو کوئی خطرہ درپیش ہو تو اُس کے دفاع کے لیے خم ٹھوک کر تیار ہونا۔

حضرت علی ؑکا دل، لوگوں کی محبت اور اُن کی خیر خواہی کے جذبات سے سرشار تھا، حتیٰ اپنے مخالفوں کے لیے بھی اُسی طرح دھڑکتا تھا ۔(البتہ دشمنانِ خدا اور دشمنانِ رسولِ خداؐ کے لیے نہیں)

بہرصورت، حضرت علی ؑکو جو مشکل اور مصیبت اٹھانی پڑی اُس میں اب تک کوئی اور مبتلا نہیں ہوا۔

عزیزو ! ہمیں چاہیے کہ حضرت علی ؑکی حیاتِ مقدس کے بارے میں حقیقت پسندانہ تحقیق کریں اور دیکھیں کہ مشکلات کا سامنا کرتے وقت آپؑ کے سعہ صدر (وسعت ِ قلب ) کی کیاکیفیت تھی؟ آپؑ میں صبر کی قوت کتنی تھی؟ آپؑ نے اسلام کی بھاری ذمے داریوں کو کس طرح اپنے کاندھوں پر اٹھایا؟ مسلمانوں کے امور کی ذمے داری کا احساس کس قدر آپؑ کی عقل اور آپؑ کی روح میں پیوست تھا؟

کیا غدیر کے دن محض جشنِ مسرّت کا انعقاد کافی ہے؟

ہم کسی کو ” جشنِ غدیر ” کے شایانِ شان انعقاد سے روکنا نہیں چاہتے، البتہ کیونکہ غدیر ایک علمی اور معنوی سرمایہ ہے، لہٰذا علما، مفکّرین اور ادیبوں کو اِس عظیم الشان دن اُن امور کے بارے میں اپنی تحقیقات کو سامنے لانا چاہیے جن امورکی نشاندہی حضرت علی ؑنے فرمائی تھی، تاکہ عقیدتی، اسلامی، سیاسی اور اجتماعی مسائل میںمسلمانوں کے درمیان حضرت علی ؑکی شخصیت کو اُس کا حقیقی مقام مل سکے۔ اِس قسم کی تحقیقات حضرت علی ؑکی شخصیت کے ہماری فکر، قلب اور حیات میں نفوذ کا موجب ہوں گی۔ اِسی صورت میں حضرت علی ؑ ہمیشہ ہمارے نزدیک معاشرے کی نبض کی مانند عمل کریں گے۔ حضرت علی ؑکی فکر تمام زمانی سرحدوں سے ماوراء ہے۔

عزیزو! حضرت علی ؑسے ہماری محبت ہمارے کاندھوں پرایک بھاری ذمے داری عائد کرتی ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے کردار و اعمال کا، علی ؑکے کردار و عمل سے موازنہ کرنا چاہیے، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی پوری زندگی ہر پہلو سے حضرت علی ؑکی زندگی کی مانند بسر کریں۔ کیونکہ حضرت علی ؑکی زندگی میں اﷲ رب العزت، آپؑ کے قلب، عقل اور پوری زندگی میں موجود تھا ۔پس آیئے، علی ؑکی طرف آیئے تاکہ اُن کی حقیقت معلوم ہوسکے، کیونکہ علی ؑتاریخ کے کسی ایک حصے تک محدود رہنے والی ہستی نہیں۔

۱- مسند ِ احمد- ج ۱ - ص ۸۴، ۸۸، ۱۱۹، ۱۵۲، معجم الکبیر طبرانی - ج۴- ص ۲۰، ۲۰۷، کنزالعمال - ج ۱۱- ص ۶۰۸ وغیرہ وغیرہ۔ اہلِ سُنّت علما، مورخین اور مفسرین نے اپنی کتب میں بکثرت مصادر کے ساتھ حدیث ِغدیر کا ذکر کیا ہے، اِن میں سے ساڑھے تین سو افراد کا ذکر علامہ امینی نے اپنی کتاب الغدیر میں کیا ہے۔(مترجم)

۲- صحیح بخاری - ج ۵- ص ۱۳۸، صحیح مسلم - ج۲ - ص ۱۶