فکرونظر

اِسی طرح عورت سے متعلق امور کو ایک دوسرے زاویے(angle) سے بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔اور یہ زاویہ بعض لوگوں کے اِس دعوے پر مبنی ہے کہ عورت اورمرد میں عقل و شعور کے اعتبار سے فرق پایا جاتا ہے ۔ عقل ہر فرد کی ذمے داریوں اور فرائض کا تعین کرنے والا عامل ہے، اور خداوند ِعالم نے مرد کو عورت پر عقلی، فکری اور عملی برتری کی بنا پر فوقیت دی ہے۔

اِس گروہ کے جواب میں کہنا چاہیے کہ اگر واقعا ً عورت کی عقل، مرد کی عقل سے کم تر ہوتی، تو اِن کی تکلیف (اور فریضہ) بھی ایک دوسرے سے مختلف ہونا چاہیے تھا۔ جبکہ ہم شاہد ہیں کہ سوائے گھریلو مسائل اور جہاد کے مرد و زن کے درمیان تمام تکالیف مشترک ہیں۔

اِس کے ساتھ ساتھ اِس بات میں بھی شک نہیں کہ تکالیف کی انجام دہی کے لیے کوشش، ارادہ، فکر و شعور اور اِن سب سے اہم تر“ عقل ” کی ضرورت ہے ۔اِسی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ خداوند ِ ِعالم کی طرف سے عائد کیے گئے تمام فرائض مرد و زن پر مشترکہ طور پرعائد ہوتے ہیں۔

دوسری طرف اگر واقعا ًعورت کا عقل و ادراک مرد سے کم تر ہوتا (جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے ) تو بے شک عورت کی تکالیف اور فرائض بھی مرد سے کم تر ہوتے۔ لیکن اسلام نے عورت اور مرد کی تکالیف کے درمیان کسی قسم کا فرق نہیں رکھا ہے، سوائے اُن کچھ موارد کے جو اِن دونوں کی مخصوص صفات سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِن ہی موارد میں سے وہ فرائض ہیں جنہیں خداوند ِ ِعالم نے گھرانے کی تنظیم اور ترقی کے لیے اِن دونوں فریقوں میں سے ہر ایک کے ذمے عائد کیا ہے۔ ممکن ہے ہم اِس نشست میں اِن پربھی گفتگو کریں۔

البتہ اِس بارے میں کچھ بے بنیاد باتیں بھی کہی جاتی ہیں، جن پر تفصیلی گفتگو کی ضرورت نہیں۔جیسے کہ لوگوں کے درمیان کہا جاتا ہے کہ فلاں کی عقل فلاں دوسرے سے زیادہ ہے اور اِسی طرح کی دوسری چیزیں۔

اگر اِس موضوع کا علمی انداز سے جائزہ لیا جائے تو دیکھیں گے کہ مرد و زن میں سے ہر ایک اپنی عقل و درک و فکر سے ہم آہنگ فریضے کے حامل ہیں اور قیامت میں بھی لوگوں کا اُن کی عقلی سطح کو مد ِنظر رکھتے ہوئے حساب کتاب کیا جائے گا۔ لہٰذا کبھی کسی ایک خاص مورد میں ایک عورت کی ذہنی صلاحیت ایک مرد سے زیادہ ہوتی ہے اور کبھی ایک مرد کی ذہنی صلاحیت ایک عورت سے زیادہ ۔اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دونوں ہی عقلی لحاظ سے ایک سطح پر ہوتے ہیں۔پس مجموعی طور پر عورت کی عقل کو مرد سے کم تر قرار نہیں دیا جا سکتا۔

جیسا کہ ہم نے کہا کہ اسلام نے (سوائے چند جزی اور فروعی مسائل کے) ہرگز مرد اور عورت کی حیثیت اور اُن کی ذمے داریوں میں فرق نہیں رکھا ہے۔ لیکن ہنوز عورت کی حقیقی حیثیت معاشرے میں ظاہر نہیں ہوئی ہے اِسی طرح جیسے مرد بھی ابھی تک معاشرے میںاپنی اصل حیثیت اور مقام سے بہت دور ہے۔