تفاہمِ باہمی کی ضرورت
فکرونظر • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
یہ انٹرویو بیروت سے شائع ہونے والے مجلے“ البلاد ” سے لیا گیا۔
*** سوال : بعض لوگ معتقد ہیں کہ مسلمانوں کو دوسروں سے گفت و شنید اور تبادلۂ خیال سے قبل خود آپس میں مکالمے کی ضرورت ہے۔آپ کے خیال میں کیا یہ عقیدہ درست ہے؟
*** جواب : اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنی حیات کے تمام شعبوں میں یہی رَوَیَّہ (باہمی مکالمہ)اپنانا چاہیے۔ اِس لیے کہ مسلمان بکثرت مشکلات کا شکار ہیں۔ گزشتہ اور موجودہ زمانے کی مشکلات، مسلمانوں کی ایک دوسرے سے دو ریوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات، استکباری قوتوں کے اثر و نفوذاور طاقتور اور چالاک دشمن کی سازشوں کے سبب ایک دوسرے کی بات نہ سمجھنا وغیرہ جیسی مشکلات۔
یہی مشکلات اِس بات کا سبب بنی ہوئی ہیں کہ مسلمان ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگا رہے ہیں، بے شمار ڈالر اِس بات پر صرف کیے جا رہے ہیں کہ شیعہ، سُنّی ایک دوسرے کے قریب نہ آسکیں۔ خطیر رقوم اِس مقصد کے لیے مختص کی جاتی ہیں کہ حرکت آفریں اسلام کی جگہ بے روح اور جامد اسلام کو دی جائے۔ دشمن کی کوشش ہے کہ اسلام کو مساجد کے حجروں تک محدود کر دے، اِسے مسلمانوں کی زندگیوں میں نافذ نہ ہونے دے۔
دشمن یہ نہیں چاہتا کہ مسلمان آزادانہ غور وفکر کے ذریعے ایک دوسرے سے مضبوط رشتے استوار کریں۔ استعمار کی جانب سے مسلسل یہ کوشش جاری ہے کہ مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ اور نسلی مسائل اسلامی اور اُمت ِمسلمہ کے مسائل پر حاوی رہیں، تاکہ کہیں مسلمان اسلامی انقلاب (جو ایران میں حضرت امام خمینیؒ کی زیر ِ قیادت کامیاب ہوا ہے) کی جانب متوجہ نہ ہو جائیں۔
بیدار دشمن اور مکّار استکبار، اسلامی انقلاب کے عظیم مقصد ” خالص محمدیؐ اسلام کی پُرخروش موجوں سے مسلمانوں کی وابستگی ” کی راہ روکنے کی خاطر شیعوں کا غالی اور مشرک کے بطور تعارف کراتا ہے، اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ شیعہ برادرانِ اہلِ سُنّت کے نزدیک مقدس چیزوں کی توہین کر تے ہیں۔
بعض عرب ریاستیں بے حساب پیسہ خرچ کر کے مسلمانوں کے مابین تفرقہ انگیز لٹریچر کی نشر و اشاعت کرتی ہیں، حالانکہ اُنھیں چاہیے کہ خدا کو ناپسند اِن کوششوں کی بجائے علمی محافل اور کانفرنسیںتشکیل دیں، تاکہ (مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے) علمائے کرام کو تعصب سے دور صحت مند ماحول میں باہمی تبادلۂ خیال کے مواقع فراہم ہوں، ایک دوسرے کے درمیان تفاہم کی فضا پیدا ہو اور بے بنیاد اختلافات ختم ہوں۔ نیز انتشار و افتراق کی پر پیچ و خم راہ باہمی تفاہم کے نتیجے میں اتحاد و اتفاق کی صراط ِ مستقیم میں تبدیل ہو جائے۔
شیعہ اورسُنّی علما باہمی اختلافی مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں، اور اِس بات سے بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ فرقوں کے مابین اِن اختلافی مسائل سے کہیں زیادہ ایسے مسائل ہیں جن میں اُن کے درمیان اتحاد و یکسوئی پائی جاتی ہے اور اِس بات کا امکان بھی موجودہے کہ اختلافی مسائل کو پیش کرنے کی بجائے اُن مسائل کو اُجاگرکیا جائے جن میں اتفاق پایا جاتا ہے۔ اِس طرح ایک دوسرے کے مقدّسات کی توہین سے گریز کرتے ہوئے دوستانہ اوربرادرانہ فضا میں زندگی بسر کی جا سکتی ہے۔
اہلِ سُنّت شیعوں کے متعلق انحراف کا عقیدہ رکھتے ہیں اور شیعہ بھی اِس بات کے معتقد ہیں کہ سُنّیوں کے یہاں انحراف پایا جاتا ہے ۔ جب الزامات دو طرفہ ہیں تو پھر کیوں نہ ایک صحت مند ماحول میں ایک ساتھ بیٹھ کر اِن اعتراضات کو پیش کیا جائے اور ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔اِس سلسلے میں کیا اعتراض ہو سکتا ہے کہ عقل و منطق کی روشنی میں خالص اسلامی مصادر (sources)کے ذریعے ہر مسلک اپنا دفاع کرے اور اگر دفاع میں ناکام رہے تو حقیقت کو تسلیم کر لے۔
کیا قرآنِ کریم (ہم مسلمانوں سے) یہ نہیں کہتا کہ:جب بھی تمہارے درمیان کسی بات میں نزاع و اختلاف ہو، تو خدا اور اُس کے رسولؐ کی طرف رجوع کرو۔
شیعہ اور سُنّی کیوں اِس قرآنی حکم پر عمل نہیں کرتے اور اپنے تنازعات اور اختلافات میں خدا اور اُس کے رسول کو فیصل قرار نہیں دیتے۔
پیغامِ الٰہی“ قرآنِ کریم ” ہمارے پاس موجود ہے، پیغمبر اسلاؐم کی خالص سُنّت بھی ایک حد تک ہماری دسترس میں ہے۔ اگر ہم خود اپنے اختلافات کو حل کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ قرآنِ کریم اور سُنّت ِنبویؐ کی جانب رجوع کر کے تفاہم و توافق قائم کریں۔
ہم اِس مقدّس ہدف کے حصول کی راہ میں پیہم مشغول ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ شیعہ اورسُنّی کے درمیان جس قدر فاصلہ ہو گا اِسی قدر اُن کے درمیان عدم تفاہم اور نااتفاقی کے امکانات بڑھتے چلے جائیں گے۔ ہمارا مسلسل اصرار ہے کہ اے مسلمانو! ایک دوسرے کے نزدیک آئو تاکہ تعصب اور بے جا شور و غل سے دور صفا و اخلاص سے معمور فضا میں باہم گفت و شنید کرکے ہم اپنے دیرینہ اختلافات سے نجات حاصل کریں اور خالص محمدیؐاسلام کی اساس پر ایک دوسرے کے قریب آئیں اور مفاد پرست تفرقہ ڈالنے والے دشمنانِ اسلام کو موقع نہ دیں اور اسلامی اتحاد سے خوفزدہ دشمن کی فرصت کو سلب کر لیں۔ یہ روش درست نہیں کہ ایک عالم مقالہ پیش کرے اور دوسرا عالم ڈائس پر جا کے اُس کی رد میں مقالہ پڑھ ڈالے اور مسلمان اُس کی رد کے متن اور تحریر و تقریر کے مواد سے بے خبر رہیں۔
یہ نہایت غلط بات ہے کہ شیطانی مواقع سے استفادہ کرتے ہوئے بعض لوگ مسلمانوں کے کسی عظیم گروہ کے اعتبار اورحیثیت کو ختم کرنے کی کوشش کریں اور اُن کے اسلام سے عشق اور اُس کے احکامات کی پابندی کو خاطر میں نہ لائیں، بلکہ اُسے مسترد کر دیں۔ یہ کام اسلام اور تمام مسلمانوں کے لیے ضرر رساں ہے۔
دنیائے کفر و استکبار مسلسل اِس کوشش میں ہے کہ مسلمانوں میں کسی صورت باہمی تفاہم و توافق پیدا نہ ہو سکے۔ (اِس صورت ِحال سے مقابلے کے لیے) ہمیں بھی وحدت و اتحاد کے قیام کے لیے مسلسل جد و جہد سے ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہیں ہونا چاہیے۔
ہمیں چاہیے کہ مسلمانوں کو عالمِ اسلام کی اِس عظیم مشکل سے آگاہ کریں۔ تعجب کی بات ہے کہ دنیائے کفر و استکبار کے نزدیک مسلمانوں کا اتحاد و اتفاق ایک مسئلے کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن خود مسلمانوں کی نظر میں اِس کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ ہمارا (ذمے دارانِ اُمت) کا قصور ہے کہ ہم نے اِس مسئلے کی اہمیت کو محسوس انداز میں عوام الناس کے سامنے مجسم ہی نہیں کیا۔ ہاں یہ ہماری ہی کوتا ہی ہے، ہماراہی قصور ہے۔
جب تک فکری بنیادوں کی اصلاح نہ ہو اور بنیادی مسائل کے بارے میں فکری تفاہم و توافق تک نہ پہنچا جائے میدانِ عمل میں ہم آہنگی کا حصول ناممکن ہے۔
جی ہاں! ہم فکری، باہمی تعاون کا مقدمہ ہے ۔ ایسے افراد، گروہ اور معاشرہ جو ہم فکر نہ ہوں ہرگزایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور مدد کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ جس قدر ہم فکری کا میدان وسیع ہو گا باہمی تعاون کا میدان بھی اتنا ہی وسیع ہو گا۔ اِسی طرح اگر ہم فکری کا میدان تنگ اور محدود ہو گا تو مل جُل کر کام کرنے کا میدان بھی تنگ اور محدود ہو گا۔
ہم مسلمان خواہ کسی بھی مسلک کے پیروکار ہوں، ہمارے درمیان ہم فکری کا میدان بہت وسیع ہے۔ اِس میدان کی وسعت آسمانوں کی وسعت بلکہ خود اسلام کی وسعت (کی مانند)ہے۔ کیا اسلام کو ایک شہر، ایک ملک یا ایک بر ِاعظم تک محدود کیا جا سکتا ہے؟ کیا ممکن ہے کہ اسلام کو جو قوم و قبیلے، نسل و نژاد کو خاطر میں نہیں لاتا اور جو تمام عالمِ انسانیت سے مخاطب ہے اُسے قبائلی، نسلی اور قومی عصبیتوں میں محبوس و محصور کر دیا جائے؟
مسلمانوں کے مابین باہمی تعاون اور اشتراک ِعمل کا میدان بھی نہایت وسیع ہے، لہٰذا ہمیں مذہبی اختلافات کو (جو قابلِ حل اور قابلِ اغماض ہیں) بنیاد بنا کر ایک دوسرے سے دور نہیں ہونا چاہیے اور دشمن کو بغلیں بجانے کا موقع نہیں دینا چاہیے۔
ہمارا فریضہ مسلسل کوشش ہے ۔ ہمیں اسلامی اتحاد کے اعلیٰ مقصد کی راہ میں جد و جہد سے ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہیں ہونا چاہیے۔ خواہ مقصد حاصل ہو یا نہ ہو۔ ہمیں خداوند ِعالم سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ اِس سلسلے میں حالات ساز گار کرے اور اِس راہ کے متلاشیوں کی توفیقات میں اضافہ کرے۔
استکبار بخوبی آگاہ ہے کہ فکری، ثقافتی اور عقیدتی وحدت، سیاسی وحدت کی تمہید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گہری منصوبہ بندی کے ذریعے مسلمانوں کے مابین ثقافتی، عقیدتی اور فکری وحدت کی راہیں مسدود کر رہا ہے، تاکہ وہ کسی صورت سیاسی وحدت تک نہ پہنچ سکیں۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ اپنی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں استکبار کو کامیابی نصیب ہو گی، لیکن یہ کہتے ہیں کہ استکبار اُن لوگوں کی راہ میں سخت اورمشکل رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے جو اِس مقصد (اتحاد) کے حصول کی جد و جہد میں مصروف ہیں۔
اگر ہم (اسلامی اتحاد کے مقصد میں) کامیابی کے متمنی ہیں، تو ہمیں خالص نیت اور اسلام کی کامیابی کے جذبۂ صادق کے ساتھ اپنی نفسانی خواہشات کو ایک طرف رکھ کر خداوند ِ ِعالم سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں طاقت و قدرت عطا فرمائے، ہمارے لیے صحیح اوربالکل سیدھی راہ کی نشاندہی فرمائے اور مسلمانوں کے دلوں کو ایک دوسرے سے نزدیک کردے۔
یاس و ناامیدی شکست اور ناکامی کے اہم ترین اسباب میں شمار ہوتی ہے۔ مخلص مسلمانوں کو اپنے دلوں میں اُمت ِمسلمہ کے اتحاد و اتفاق اور اسلام کی حاکمیت کی امید زندہ رکھنی چاہیے۔
جب تک امید نہ ہو استقامت نہیں ہو سکتی اور جب تک اخلاص نہ ہو نصرتِ الٰہی سے بہرہ مند نہیں ہو اجا سکتا۔ تاریخ میں دینداروں نے ہمیشہ اخلاص اور استقلال کے سائے میں بڑی بڑی اور وحشت انگیز مشکلات پر قابو پایا ہے، اور اب آج کے مخلص اور فرض شناس مسلمانوں کی باری ہے کہ وہ اپنے اندر سے خوف و ہراس کو نکال پھینکیں (عالمِ اسلام کی جانب کھلنے والے) استکبار کے دروازوں کو بند کر دیں اور ناہموار راہوں کو ہموار بنائیں۔
اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَااللہُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ۔
جو کہتے ہیںکہ ہمار ا پروردگار اﷲ ہے اور پھر استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اُن پر رحمت کے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خوفزدہ نہ ہو، ہراس نہ کھائو اور اُس بہشت کی بشارت لو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ (سورئہ فصلت ۴۱- آیت ۳۰)
مذکورہ قرآنی آیت“ رَبُّنَا اللہُ“ کو اخلاص کے محور اور“ اسْـتَقَامُوْا“ کو استقامت کے محور کے طور پر پیش کر کے اہلِ اخلاص و استقامت کو خبر دے رہی ہے کہ اُن پر رحمت کے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور اُن سے کہتے ہیں کہ خوف و ہراس کا شکار نہ ہو، تم ہی لوگ دنیا میں سرفراز اور آخرت میں خوش بخت ہو۔
آج اگر مسلمان بدبختی میں مبتلا ہیں تو اِس کا سبب فقر و غربت نہیں۔ اسلامی ممالک دولت کے عظیم ترین منابع (resources) سے مالامال ہیں۔ مسلمانوں کی پسماندگی اور ذلت کی اصل وجہ جسد ِامت میں پا یا جانے والا اختلاف کا سرطان ہے جس نے مسلمانوں کو پچھاڑ کے رکھ دیا ہے اور اُنھیں استکبار کا بے دام غلام بنا دیا ہے۔
اگر (دنیا میں پھیلے ہوئے) ایک ارب سے زیادہ مسلمان متحد ہو جائیں تو دنیا میں اُن کا بول بالا ہو، وہ محروم عوام کا استحصال کیے بغیر اور دنیا میں ظلم و ستم بپا کیے بنا عالمی سپر طاقت بن سکتے ہیں۔