اسلام کی نظر میں عورت کا معاشرتی کردار
فکرونظر • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
یہ خطاب دفتر تبلیغات ِ اسلامی حوزئہ علمیہ قم المقدس، ایران سے شائع ہونے والے خواتین کے مقبول ماہنامے“ پیامِ زن ” سے لیا گیا۔
ایک بڑی مشکل جو اجتماعی تحریکوں، بالخصوص انسانی اقدار کے سلسلے میں دین کی تحریک کو محدود کرتی ہے وہ زندگی کے مختلف مراحل میں انسان کے سامنے آنے والی مشکلات اور مسائل کے بالمقابل اُس کا طرز ِ عمل ہے۔ یہ امر اِس بات کا سبب بنتا ہے کہ صحیح غور و فکر، دین اور تحریک کی اصل حرکت فراموش کر دی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں انسان بہت سے مواقع پر اپنے گردو پیش کے حالات و شرائط کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ جبکہ یہ حالات و شرائط اسلاف کے عقائد سے حاصل شدہ میراث، معاشرتی عادات و اطوار اور دوسری اقوام کے قرب یا اُن کے ساتھ رہن سہن سے وجود میں آنے والی رسوم و رواج کے سوا کچھ نہیں ہوتے، اور اِن کی کوئی اور حقیقت اور حیثیت نہیں ہوتی ۔
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر مواقع پر دین کے آغاز اور معاشرے کے وجود میں آنے کی ایسی غلط تفسیر کی جاتی ہے یا اُسے ایسا منحرف بنا دیا جاتا ہے کہ علاج کی وہ راہیں جن کی جڑیں عین معارفِ دینی میں پائی جاتی ہیں وہ بھی اِن منفی رجحانات کی روک تھام سے عاجز رہتی ہیں۔
یوں رفتہ رفتہ یہ منفی رجحانات، مثبت اور درست رجحانات کے مقابل پھلتے پھولتے ہیں اور اِن کی بنیاد پر وجود میں آنے والے عقائدفکر اور ذہن میں گھر کر لیتے ہیں ۔ یہاں تک کہ انسان کا ذہن اور اُس کی فکر منتشر اور گمراہ اعتقادات کی آماجگاہ بن جاتے ہیں۔
ہر چند فکرکی قوت بہت سی گمراہیوں اور کج رویوں کو دریافت کر سکتی ہے، لیکن تاریخ میں ہمیشہ ہر زمان و مکان میں درست اور غلط رجحانات ایک دوسرے سے خلط ملط رہے ہیں۔ لہٰذا ہمارا فرض ہے کہ صحیح فکر اور درست راستے کو دریافت کرنے کے لیے خالص اور پاکیزہ سرچشموں، جیسے آیات و روایات میں غور و فکر کریں اور اِن سرچشموں سے استفادہ کریں۔
فکر ِاسلامی میں عورت کا مقام
اہم فقہی اور اسلامی مسائل میں سے ایک“ عورت ” کا مسئلہ ہے۔
اسلام میں عورت کا مفہوم کیا ہے؟
عورت کا انسانی کردار کیا ہے، بالفاظ دیگر اُس کی انسانیت کا دائرہ کس حد تک وسیع ہے؟
معاشرے کو درپیش مسائل میں اُس کا کردار کیا ہے؟
نیز کیا اسلامی معاشرہ ایک مکمل طورپر بند معاشرہ ہے جس میں اجتماعی میدان میں عورت مرد کے دوش بدوش کھڑی نہیں ہو سکتی؟ یہاں تک کہ سوائے عائلی تعلق کے مرد و زن کے درمیان کوئی اور ربط و تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ اور عورت کو معاشرتی مسائل میں شمولیت کا کوئی موقع نہیں ملنا چاہیے؟
کیا عورت مختلف میدانوں میں کسی بھی قسم کی سرگرمیوں سے محروم رکھی گئی ہے؟
تمام ہی اسلامی معاشروں میںاِس قسم کے سوالات پائے جاتے ہیں اور کبھی کبھی اِس حوالے سے خطرناک مشکلات میں سے ایک مشکل مسلمان علما کا ایک گروہ ہوتا ہے جن کے درمیان کچھ فقہا بھی نظر آتے ہیں۔
اِس گروہ کی کوشش ہوتی ہے کہ بغیر غور و فکر کے آیات و روایات کے مفاہیم دریافت کر لیں ۔ وہ اِس دوران اُن معلومات سے استفادہ کرتے ہیں جو اُن کے اذہان میں بیٹھ چکی ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ ایسا انسان کسی آیت یا حدیث کے مفہوم تک اُس وقت تک پہنچ ہی نہیں سکتا جب تک وہ اُس کے ذہن میں تسلیم شدہ اُن مفاہیم سے گزر نہ جائے، یااُن مسائل سے جو اِدہر اُدہر سے اُس کے ذہن میں نقش ہو گئے ہیں مدد نہ لے لے۔ یہ مسائل رفتہ رفتہ ذہن میں بدیہی حقائق (یعنی بالکل سامنے کی سی باتیں)نظر آنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ اگراُن کی مخالفت ہو تو اُسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی انتہائی واضح امر کی مخالفت ہوئی ہے۔
ایسی صورت میں کس طرح ممکن ہے کہ یہ انسان ایسی باتوں کی مخالفت کر سکے جو اُس کے لیے مُسلَّم الثبوت ہوں؟
اسلام کے سیاسی معاشرے کے بنیادیں
اِس مختصر فرصت میں (کیونکہ ہمارے خیال میںاِس قسم کے موضوع پر گفتگو کے لیے وسیع تحقیق اور تجزیے کی ضرورت ہے) ضروری ہے کہ ہم انسان کے بارے میں اسلام کے سیاسی نقطہ ٔ نظر کا جائزہ لیں۔
شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کے نقطۂ نظر سے وہ اہم ترین رکن جس پر اسلامی سیاست کی بنیاد رکھی گئی ہے“ عدالت ” ہے۔ کیونکہ ارشاد ِ الٰہی ہے :
لَقَدْاَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۔
بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور اُن کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے، تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں۔ (سورئہ حدید ۵۷ - آیت ۲۵)
عدالت کا قیام تمام آسمانی ادیان کا پیغام ہے۔ یہاں تک کہ اگر ہم کسی رائے، مفہوم یاطریقۂ کار کی اچھائی یا بُرائی کے بارے میں جاننا چاہیں تو ہمیں چاہیے کہ اُسے عدل کے میزان پر پر کھیں۔اگر وہ عدالت کے معیار پر پورا اُترے تو برحق ہے، اور اگر راہِ عدالت سے دور ہو، تو یقینا دین کی راہ سے بھی جدا ہے۔
جیساکہ مندرجہ بالا آیت میں اشارہ موجود ہے کہ ” اسلام ” خدا کے لیے، انسان کے ذریعے عدالت کے قیام کے سوا کچھ اور نہیں اور انسان کو چاہیے کہ وہ دوسری تمام ذمے داریوں کی مانند اِس ذمے داری کو بھی اپنے کاندھوںپر اٹھائے۔ کیونکہ خداوند ِعالم نے اپنے ارادے اور خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے، جو یقیناً عدل و انصاف کا قیام ہے، انسان کوزمین پر اپنا جانشین منتخب کیا ہے۔
پس انسان ہونے کے ناطے جب تک ہم خود کو دین کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہیں، اُس وقت تک لازماً عدالت کے قیام کی سنگین ذمے داری بھی ہم سب کے کاندھوں پر رہے گی۔ تمام امور اور انسان کی تمام توانائیوں میں عدالت کو پیشِ نظررکھا جانا چاہیے۔ خواہ یہ مسائل بڑے بڑے ہوں، اور خواہ وہ توانائیاں ایک معمولی انسان میں پائی جاتی ہوں۔ اگر کوئی انسان عدالت کے قیام کی کوششوں میں شریک ہو، تو اُسے چاہیے کہ اپنی تمام توانائیوں سے ممکنہ حد تک استفادہ کرے۔