فکرونظر

یہ انٹرویو حوزئہ علمیہ قم المقدس، ایران سے شائع ہونے والے قرآنی مجلے“ بیِّنات ” کے شمارہ نمبر ۱۸ اور ۱۹ سے لیا گیا۔

*** سوال : قرآنِ کریم کی روح پرور اور زندہ تفسیر کے لیے کس بات پر توجہ ضروری ہے؟

*** جواب : ہمارے خیال میں قرآنِ کریم کی تفسیر اور اِس کے مطالعے کے دوران اہم ترین بات یہ ہے کہ انسان خود کو ایک ایسی کتاب کے روبرو محسوس کرےجو اُس کی پوری زندگی پر اثر انداز ہونے والی ہے۔ اِس کی صورت یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کے تمام مسائل و معاملات میں (اُن کی اُس رنگارنگی اور تفاوت کے باوجود جو زمانے کے نشیب و فراز کا نتیجہ ہوتے ہیں) قرآنِ مجید سے روشنی حاصل کرے اور زندگی کے لیے اپنے راستے اور لائحۂ عمل کو اِسی کتاب ِہدایت میں تلاش کرے۔

کیونکہ قرآنِ مجید کسی خاص زمان و مکان اور اُن مخصوص افراد کے لیے نازل نہیں ہوا ہے جو نزولِ وحی کے زمانے میں زندگی بسر کیا کرتے تھے، بلکہ خداوند ِمتعال نے قرآنِ کریم کو ایک نور کی مانند، تمام بشریت کے لیے نازل کیا ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے :“ قرآن شب وروز، اور خورشید و ماہ کے ہمراہ اور ہمقدم ہے۔ ” یعنی ہر دور اور ہر خطۂ ارضی کے لیے ہے۔ لہٰذا قرآنِ کریم کے بارے میں ہمارا فہم و ادراک جاری اورمتحرک فہم و ادراک ہو، خواہ زندگی کے حالات صلح کے ہوں یا جنگ کے، خواہ ہمیں درپیش مسائل معاشرتی ہوں، اقتصادی یا سیاسی۔

قرآنِ مجید، دوسری آسمانی کتابوں کی مانند یکبارگی نازل نہیں ہوا ہے، بلکہ رفتہ رفتہ نازل ہوا ہے، تاکہ لوگ تعلیمات ِوحی کی روشنی میں اپنی زندگی کے معاملات اور مسائل کا حل و فصل سیکھ سکیں۔

آیات ِ قرانی کے اسبابِ نزول بیان ہوئے ہیں تاکہ بتایا جا سکے کہ قرآنِ مجید زندگی کی حقیقتوں پر نظر رکھتا ہے ۔ ابتدائی زمانے کے مسلمان، اپنی زندگی کی ضرورتوں اور درپیش مسائل کے سلسلے میں قرآنِ مجید سے رہنمائی لیا کرتے تھے۔ ہم بھی فقط اِسی صورت میں قرآنِ مجید کا واقعی اور کارآمد فہم حاصل کر سکتے ہیں جب اپنے مقاصد اور تمنائوں کا اِسی کے ذریعے تعین کریں اور زندگی کے حقائق کو قرآنی فہم کی اساس پر شکل و صورت دیں۔ اہلِ بیت ؑبھی اِسی انداز سے قرآن کا تعارف کراتے تھے، جیسا کہ امام رضاؑ سے نقل ہوا ہے کہ ایک شخص نے امام جعفر صادقؑ سے سوال کیا : کیا وجہ ہے کہ قرآنِ مجید سے جتنا بھی درس لیا جائے اور اِس پر جتنی بھی گفتگو کی جائے، اِس کے مفاہیم کی تازگی اور شادابی میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے؟ حضرت ؑ نے فرمایا :اِس کی وجہ یہ ہے کہ اﷲ تبارک تعالیٰ نے قرآن کو ہر زمانے، ہر علاقے اور تمام بشریت کے لیے نازل کیا ہے۔ لہٰذا یہ ہر دور کے لیے نیا اور ہر قوم و ملت کے لیے تازہ ہے۔ یہاں تک کہ جو کوئی بھی نسل اور معاشرہ، اپنی حاجات، مطالبات اور رہنمائی کے لیے قرآنِ مجید میں جستجو کرے وہ اِن کا جواب پا لیتا ہے۔ قرآنِ کریم سے استفادے کے سلسلے میں ائمۂ معصومین ؑکی یہی روش اور طریقۂ کار تھا۔

*** سوال :قرآنِ کریم کے کون سے موضوع یا موضوعات کے بارے میں تحقیق و تفسیر کو ترجیح دی جانی چاہیے؟

*** جواب :ہمارے خیال میں عقائد، مثلاً توحید، نبوت اور معاد (قیامت) کو اسلامی مفاہیم میں مرکزی کردار حاصل ہے۔ ہمیں قرآنِ کریم کی روشنی میں (اِن کا اِس انداز سے) مطالعہ اور تحقیق کرنی چاہیے کہ ہم نہ صرف اِن کے ظاہر پر توجہ دیں، بلکہ آیاتِ قرآنی کی روشنی میں اِن کے باطن کا بھی جائزہ لیں۔کیونکہ بسا اوقات ایک آیت کا بیان مجمل ہوتا ہے جبکہ دوسری آیات اُس کی عبارتوں کو تفصیل سے بیان اور اُس کے اشارات کو آشکارا کرتی ہیں۔

ہمیں عقائد کی خالص اور ستھری تصویر کے حصول کے لیے ہر قسم کے پیشگی فیصلوں سے پرہیز کرتے ہوئے قرآنِ مجید سے رجوع کرنا چاہیے۔ افسوس کہ قرآنِ مجید پر کیے گئے کاموں کی تاریخ بتاتی ہے کہ بہت سے لوگوں نے اپنی آراء اور خیالات کو قرآن پر ٹھونسا ہے۔ (اِن میں سے بعض لوگوں نے) پہلے فلسفہ پڑھاہے اور پھر اِسی فلسفی ذہنیت کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کیا ہے اور وہ اِسی ذہنیت کے مطابق قرآنی مفاہیم کی تفسیر یا تاویل کرتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر اِن کے تفسیری نظریات کسی مشکل کو حل کرنے کی بجائے خود مشکل ایجاد کرنے کا سبب بنے ہیں۔ نیز اِن لوگوں نے قرآنِ مجید کی فصاحت و بلاغت کے پہلوئوں کے ساتھ ساتھ اِس کے ظواہر کو بھی فراموش کر دیا ہے۔

اِس مشکل سے بچنے کے لیے مناسب ہے کہ پیشگی فیصلوں سے ذہن کو خالی رکھ کر، اپنے عقائد قرآنی تعلیمات سے اخذ کریں۔ البتہ عقلانی د ِقّت اور غور و فکر کے ساتھ اور وہ بھی اُس عقل سے جو انسانی فطرت اور وجدان کا مقتضا ہے، نہ کہ وہ عقل جس کی بنیاد یونانی فلسفہ ہو (جیسے فیضِ الٰہی کا نظریہ ) جس کے اپنے خاص نظریات اور عقائد ہیں۔

اِسی بات کے پیشِ نظر ہم اِس نکتے پرزور دیتے ہیں کہ ہمیں اپنے بنیادی عقائد کو قرآنی طرز ِ فکر اور اسلوب کے ذریعے ہی قرآن سے حاصل کرنا اور اِسی پر اُن کی بنیاد اٹھانی چاہیے، اِس کے برعکس ایسا نہ ہو کہ ہم اپنے عقائد اور خیالات کو قرآنِ کریم پر ٹھونسنے لگیں۔

قرآنِ مجید اِس درجہ اہمیت کا حامل ہے کہ اکثر حالات میں قرآن کی تفسیر سنّت میں تلاش کرنے کے بجائے، سُنّت کی قرآن کے ذریعے تفسیر کی جاتی ہے۔ مثلاًہم قرآن میںپڑھتے ہیں: اِنَّمَاالْخَمْرُوَالْمَيْسِرُوَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُرِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ (شراب، جوا، بت، پانسہ یہ سب گندے شیطانی اعمال ہیں، لہٰذا اِن سے پرہیز کرو ۔ سورئہ مائدہ ۵ - آیت ۹۰) قرآنِ مجید کے عام فہم کے مطابق لفظ مَیْسِرُکے معنی قمار یا جوا لیے جاتے ہیں، جس میں بازی لگائی جاتی ہے۔ اور دوسری طرف جب ہم حدیث پڑھتے ہیں : اَلشَّطْرَنْجُ مَیْسِرُ وَالنَّرْدُ مَیْسِرُ(شطرنج جواہےاور نرد بھی جواہے)تو یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ شطرنج اور نرد از خود حرام نہیں ہیں، صرف بازی لگا کر کھیلنے کی صورت میں حرام ہیں۔ کیونکہ رائے عامہ اِن وسائل (یعنی شطرنج اور نرد) سے بغیر بازی لگائے کھیلنے کو جوئے کا نام نہیں دیتی۔

*** سوال :فہمِ قرآن میں زمانے، بالخصوص نزولِ قرآن کے زمانے کے علمی اور تمدنی حالات کا اثر کس حد تک ہے؟

*** جواب : زمانہ، وحی کو محدود نہیں کر سکتا، کیونکہ وحی (قرآنِ مجید) زمانے سے ماوراء اور تمام ادوار پر محیط ہے، لیکن کیونکہ قرآنِ مجید ایک خاص ماحول اور تمدن میں نازل ہوا ہے، اِس لیے اِس خاص ماحول اور تمدن سے واقفیت قرآنی آیات اور زندگی کے حقائق کے بارے میں قرآن کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہے، ساتھ ہی ساتھ اِس کے ذریعے ہم پرعصرِنزول کے لوگوں کا فہم واضح ہوتا ہے، کیونکہ وہ لوگ نزولِ وحی کے اسباب اور حالات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے آیاتِ قرآنی کے معنی سمجھتے تھے اور اِس کی روشنی میں اپنے لیے راستے کا انتخاب کرتے تھے۔

البتہ زمانے کے حالات اور اُس کے تمدن پر ہمہ گیر توجہ کسی خاص زمانے اور خاص علاقے تک قرآنِ مجید کو منجمد اور منحصر کر دینے کا باعث نہیں۔ بلکہ ایک واقعے، دورِ حاضر تک اُس کے تسلسل، اور جو کچھ اسبابِ نزول کے سلسلے میں کہا گیا ہےاُس کے سمجھنے کے سلسلے میں پہلا قدم ہے۔

قرآنِ کریم، زندگی کی حقیقتوں کے بیان پر توجہ دیتا ہے، جن کا نمونوں اور مثالوں کے طور پر اِس کتابِ ہدایت میں ذکر کیا گیا ہے، تاکہ ہم اِن کی تاسی اور اِنھیں نمونۂ عمل قرار دے کر قرآنِ کریم کو اپنی زندگیوں میں جاری کریں اور اِس سے روشنی حاصل کریں۔ مثلا ً آیت ِ قرآن :اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالْہُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَيَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتٰبِ اُولٰۗىِٕكَ يَلْعَنُہُمُ اللہُ وَيَلْعَنُہُمُ اللّٰعِنُوْنَ ۔(جو لوگ ہمارے نازل کیے ہوئے واضح بیانات اور ہدایات کو ہمارے بیان کر دینے کے بعد بھی چھپاتے ہیں، اُن پر اﷲ بھی لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں۔ سورئہ بقرہ ۲ - آیت ۱۵۹) کے بارے میں احادیث میں آیا ہے کہ اِس سے مراد اہلِ کتاب بالخصوص یہودی ہیں۔ جبکہ ہم اِسے صرف اِسی مورد میں مختص نہیں کر سکتے اور اگر اِس سے اِس اختصاص کو ختم کر دیا جائے تو اِسے اِس جیسے تمام موارد پر عمومیت دی جا سکتی ہے۔

اِسی طرح وہ آیت جو پیغمبر اکرمؐ کی جنگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جس میں ارشاد ِربانی ہے:ہُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِيْدًا۔(اس وقت مؤمنین کا باقاعدہ امتحان لیا گیا اور اُنھیں شدید قسم کے جھٹکے دیے گئے۔ سورئہ احزاب ۳۳ - آیت ۱۱) یہ آیت دشمن کے بالمقابل ہماری صورتحال پر گفتگو کرتی ہے اور ہماری کمزوریوں پر ہمیں متوجہ کرتی ہے۔

اِسی طرح یہودیوں کے دھوکے اور مکر آمیز طریقے بھی، جن کی جانب قرآنِ مجید میں بارہا اشارہ کیا گیا ہے، ہماری اِس حالیہ زندگی میں ہمارے لیے انتباہ ہو سکتے ہیں، کہ ہم اِن سے عبرت حاصل کریں اور اِن لوگوں میں سے نہ ہو جائیں جو ماضی کو بُرا بھلا کہتے ہوئےاُسی گڑھے میں جا گرتے ہیں، جس میں ماضی کے لوگ گرے تھے۔

قرآنِ کریم کی باطنی تفسیر و تاویل کے ایک معنی اپنی موجودہ زندگی میں قرآنِ کریم سے ہدایت اور روشنی لینا ہیں۔ جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے : ” قرآن کا ظاہر اپنے نزول کے زمانے کے لوگوں پر نظر رکھتا ہے اور اُس کا باطن اُن لوگوں پر نظر رکھتا ہے جو اُن(لوگوں) کے مشابہ اعمال انجام دیتے ہیں۔ ”

*** سوال : کہا جاتا ہے کہ قرآنِ کریم میں تمام چیزوں کو جمع کر دیا گیا ہے، اور وہ ہر سوال کا جواب دیتا ہے اور اِس دعوے کے لیے اِس آیت کو بطور ِ سند پیش کیا جاتا ہے، جس میں ارشاد ِالٰہی ہے : وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ۔(اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شئے کو بیان کر دیا گیا ہے ۔ سورئہ نحل ۱۶ - آیت ۸۹) اِس بارے میں آپ کا کیاخیال ہے؟

*** جواب : آیت میں لِّكُلِّ شَيْءٍ سے مراد یہ نہیں ہے کہ قرآنِ مجید میں تمام اسرار ِکائنات اور سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی مسائل کی جزیات تک بیان کر دی گئی ہیں۔ کیونکہ انبیاؑ کو اِس مقصد کے لیے نہیں بھیجا گیا تھا۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ قرآنِ مجید زندگی کے تمام شعبوں میں انسان کی بنیادی ضروریات اور تقاضوں کا جواب دیتا ہے۔

یعنی اگر انسان اسلام کے کلی اصولوں کے زیر سایہ زندگی بسر کرے، تو اُس نے حق کا راستہ اپنایا ہے ۔ مثلا ً قرآنِ کریم عقلی غور و فکر اور تجربی دریافتوں کی قدر و قیمت کا قائل ہے۔ اب اگر انسان اِن دو منابع کی بنیاد پر فکری اور عملی کام انجام دے، تواُس نے غلط راستے کا انتخاب نہیں کیا ہے۔ اِسی طرح عدل کا مسئلہ ہے جو مطلقاً قرآن کا مطلوب ہے۔

روایات بھی اِسی جانب اشارہ کرتی ہیں، جیسے کہ حضرت علی ؑ فرماتے ہیں : فِی الْقُرْآنِ نَبَأُ مَا قَبْلَکُم وَ خَبَرُ مَا بَعْدَ کُم وَ حُکْمُ مَا بَیْنَکُمْ۔(قرآن میں تم سے پہلے کی خبریں، تمہارے بعد کے واقعات اور تمہارے مابین حالات کے لیے احکام پائے جاتے ہیں۔ نہج البلاغہ - کلمات ِقصار ۳۱۳) نیز فرماتے ہیں :

أَلَا اِنَّ فِیہِ عِلْمَ مَایَأْتِی وَالْحَدِیثَ عَنِ الْمَاضِی وَدَوَاءَ دَائِکُمْ وَنَظْمَ مَابَیْنَکُمْ

یاد رکھو کہ اِس میں مستقبل کا علم ہے، اور ماضی کی داستان ہے، تمہارے درد کی دوا ہے، اور تمہارے امور کی تنظیم کا سامان ہے۔ نہج البلاغہ - خطبہ۱۵۸

اِن احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ اعتقاد، قانون اور اخلاق کے عنوان سے جو کچھ بھی انسان کے لیے ضروری ہے، اُسے قرآن میں بیان کر دیا گیا ہے۔

*** سوال : قرآنِ کریم کی سائنسی تفسیر اور اُس کی حدود کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟

*** جواب : سائنسی نتائج کی بنیاد پر قرآنِ مجید کی تفسیر درست نہیں۔ کیونکہ سائنسی نظریات میں تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں اور وہ ظن و تخمین اور ناقص تجربے پر استوار ہوتے ہیں۔ ایسی تفسیر جو اِن نظریات پر مبنی ہو، وہ متزلزل اور ناپائیدار ہو گی اور اعتماد و اعتبار کے لحاظ سے اُس کا درجہ پست ہو گا ۔ البتہ تفصیلی بحث میں داخل ہوئے بغیر قرآنِ مجید میں ایسے بکثرت سائنسی اشارے موجود ہیں جو انسان کو تحقیق اور غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں ۔ مثلاً قرآنِ مجید میں آیا ہے :

وَمَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْہِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّہِمْ يُحْشَرُوْنَ ۔

اور زمین میں رینگنے والا یا دونوں پروں سے پرواز کرنے والا کوئی بھی پرندہ ایسا نہیں جو اپنی جگہ پر تمہاری طرح کی جماعت نہ رکھتا ہو۔ ہم نے کتاب میں کسی شئے کے بیان میں کوئی کمی نہیں کی ہے۔ اِس کے بعد سب اپنے پروردگار کی بارگاہ میں پیش ہوں گے۔ سورئہ انعام ۶ - آیت ۳۸

یہ آیت ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم حیوانات کی زندگی کی خصوصیات کا مطالعہ کریں، کیونکہ اُن کا باہمی ربط و تعلق قائم کرنا، اُن کی اجتماعی زندگی میں رائج تنظیم اور طرز ِ عمل، خواہشات کی تسکین کا اُن کا انداز اور دفاع کے اُن کے مختلف طریقے، سب کے سب غور و فکر اور گہری تحقیق کے قابل ہیں اور انسان کے سامنے خالق اور مخلوق کی معرفت کے وسیع افق کھولتے ہیں۔

*** سوال : برائے مہربانی آیت ِقرآن : اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ ۔(مرد عورتوں کے حاکم اور نگراں ہیں۔ سورئہ نسا ۴ - آیت ۳۴) کے بارے میں اپنانقطۂ نظر بیان فرمایئے؟

*** جواب : اِ س بارے میں ہمارانقطۂ نظر علامہ (محمد حسین) طباطبائی کےنقطۂ نظر سے مختلف ہے۔ وہ (عورت پر مرد کی) قوامیت کو تمام شعبوں پر محیط قرار دیتے تھے، جبکہ ہم اِسے صرف ازدواجی زندگی میں منحصر سمجھتے ہیں۔ کیونکہ آیت آگے چل کر کہتی ہے : ۔۔۔ بِمَا فَضَّلَ اللہُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ۔(اُن فضیلتوں کی بنا پر جو خدا نے بعض کو بعض پر دی ہیں اور اِس بنا پر کہ اُنھوں نے عورتوں پر اپنا مال خرچ کیا ہے۔ سورئہ نسا ۴ - آیت ۳۴) اِس طرح یہ پوری آیت عائلی زندگی کے بارے میں ہے۔ زوجیت کا تقاضا ہے کہ مرد عورت کے اخراجات برداشت کرے۔ کیونکہ مرد اپنی بیوی کا ذمے دار ہے، اِسی طرح جیسے باپ ہونے کے ناطے اپنے بچوں کا ذمے دار ہے ۔ پس آیت کا پہلا اور بعد کا لب و لہجہ اوّلاً تو اِس حقیقت کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ عورت پر مرد کی قوامیت اُس انفاق (خرچ)سے وابستہ ہے جو زوجہ ہونے کے ناطے مرد اُس پر کرتا ہے۔ اور ثانیاً یہ امر مرد کی بعض ذاتی خصوصیات کا حاصل ہے، جنہوں نے اُسے عورت کی ضروریات پوری کرنے کا مکلف قرار دیاہے۔ کیونکہ عورت حمل اور بچے کو دودھ پلانے اور اُس کی نگہداشت کی ذمے داری کی وجہ سے مرد کی مانند عملی کردار ادا نہیں کر سکتی۔ اور یہی بات خاندان کے اخراجات کے سلسلے میں مرد کی قوامیت کے لیے عورت کے استحقاق کا باعث ہے۔ بہرحال یہ آیت قضاوت (judge)اور سیاسی حاکمیت کے صرف مرد کے لیے مخصوص ہونے پر پوری نہیں اترتی۔

*** سوال : ہمارے پاس بہت سی احادیث ہیں، جو آیات ِقرآنی کی تاویل کرتی ہیں، کیا یہ احادیث آیات کے مصداق یا مصادیق کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ (باالفاظ ِدیگر) دراصل تاویل کے معنی کیا ہیں؟ کیا متشابہ آیات کی تاویل کی جا سکتی ہے۔ مختصر یہ کہ اِن احادیث پر کس حد تک اعتماد کیا جا سکتا ہے؟

*** جواب : تاویل سے مراد معنی کے لیے مرجع کا حصول ہے۔ یعنی مصداق کشف کرنا ہے۔ مثلاً قرآنِ کریم میں : يَوْمَ يَاْتِيْ تَاْوِيْلُہٗ ۔(سورئہ اعراف ۷ - آیت ۵۳) میں تَاْوِيْلُہٗ کے معنی روز ِ قیامت کے واقعات ہیں۔ جو اِس مفہوم کے قالب میں بیان کیے گئے ہیں۔ کبھی تاویل سے مراد لفظ کو اُسی معنی پر حمل کرنا ہے جس پر آیت میں گفتگو کی گئی ہے۔ مثلاً آیت ِقرآن :

وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَہٗٓ اِلَّا اللہُ۝۰ۘؔ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ۔

اس کی تاویل کا علم صرف خدا کو ہے اور اُنھیں جو علم میں رسوخ رکھنے والے ہیں۔ سورئہ آلِ عمران ۳ - آیت ۷

سے مراد وہ غیبی امور ہیں جو قرآن نے بیان کیے ہیں۔ غیب سے مراد وہ امور ہیں جو چھوئے جا سکنے والے تجربے میں نہ آئیں۔

ہمیں حق نہیں کہ اِس معنی پر دلالت کرنے والے الفاظ کو ظاہری معنی کے برخلاف حمل کریں۔ اُسی پیشِ نظر معانی پر الفاظ کو حمل کرنا تاویل ہے۔

تاویل کے ایک اور معنی جس کا ذکر ائمہؑ نے کیا ہے، وہ یہ ہیں کہ ہمیں آیات کے شانِ نزول کے مورد پر توقف نہیں کر لینا چاہیے، بلکہ آیت کو تاریخ کے ہر دور میں اُس شانِ نزول کے مشابہ تمام موارد پر عمومیت دینی چاہیے۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے : ” قرآن کا نزول اِس کا ظاہر اور تاویل اِس کا باطن ہے، اور وہ چاند اور سورج کے ساتھ سفر کرتی ہے ۔ گزرے ہوئوں کے بارے میں اِس کی خبریں حاضرین کے بارے میں اِس کی اطلاعات ہی کی طرح ہیں۔ ”

اہلِ بیت ؑکی جانب سے تاویل کے ایک اور معنی یہ ذکر ہوئے ہیں کہ (تاویل یعنی) قرآن کے حقیقی معانی سے اُس کے مجازی معنی تک پہنچنا، اور وہ بھی اِن دونوں معانی کے درمیان موجود رابطے کے توسط سے۔

“کافی ” میں آیا ہے کہ فضیل ابن یسار نے امام محمد باقر علیہ السلام سے آیت قرآن : وَمَنْ اَحْيَاہَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا۔(جس نے ایک نفس کو زندگی دے دی، اُس نے گویا سارے انسانوں کو زندگی دے دی ۔ سورئہ مائدہ ۵- آیت ۳۲) کے بارے میں سوال کیا، حضرت ؑنے فرمایا : کسی کو ڈوبنے یا آگ میں جلنے سے بچانا۔ اُنھوں نے کہا : کیا یہ آیت ایسے شخص کو بھی شامل کرتی ہے جو کسی کو گمراہی سے نجات دے اور حق کی طرف اُس کی رہنمائی کرے؟ حضرت ؑنے فرمایا : ذَلِکَ تَاْوِیْلُھَاالْاَعْظَمُ ۔(یہ اِس آیت کی تاویلِ اعظم ہے)ظاہراً تاویلِ اعظم سے مراد، آیت کا گہرا مفہوم ہے جو خدا سے رابطے اور اُس کے راستے پر سفر کو حقیقی زندگی قرار دیتا ہے۔

البتہ روایات کے حوالے سے ہم ہمیشہ اِس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ جس طرح فقہ سے تعلق رکھنے والی روایات و احادیث کے متن اور سند پر گہری سوچ بچار کی جاتی ہے، تفسیر سے متعلق روایات و احادیث میں اِس سے بڑھ کر غور و فکر کرنی چاہیے، بالخصوص ایسی روایات میں جن میں اعتقادی پہلوئوں کو مد ِ نظر رکھا گیا ہے، جو فروعی مسائل کی اساس اور بنیاد سمجھے جاتے ہیں۔ بہت سی تفاسیر میں یہی دشواری پائی جاتی ہے کہ اُن میں اصول و ضوابط کو ملحوظ رکھے بغیر اِن روایات کو درج کر دیا گیا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ شیخ مفید فرماتے ہیں : عقل کو حق نہیں کہ اِن احادیث کی نفی کرے۔

حالانکہ ہماری بحث اِن معانی کے عقلی امکان یا عدم امکان کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ اشیا و امور کی طبیعت اور خاصیت کے ساتھ حدیث کے معانی کی ہم آہنگی پیش نظر ہونی چاہیے۔ علامہ طباطبائی پر ہمارا اعتراض یہی ہے کہ اُنھوں نے بعض ایسی احادیث کو بھی آیاتِ قرآن کی توجیہ کی بنیاد بنایا ہے جن کی صحت ثابت نہیں۔ جبکہ قرآنِ مجید اسلامی افکار کا بے عیب و بے نقص ماخذ ہے اور ہم اہلِ بیت ؑکے حکم :مَاخَالَفَ کِتَابَ ﷲِ فَھُوَ زُخْرُفٌ ۔(جو کتاب ِ الٰہی کے برخلاف ہو اُس کی کوئی اساس نہیں)کی کسوٹی پر کھوٹی اور جھوٹی احادیث کو پرکھ سکتے ہیں۔

اِس سب کے باوجود ایسی روایات جو اپنے الفاظ اور متن کے لحاظ سے محکم ہوں، وہ بے شک قرآنِ مجید کی تفسیر میں حجت کا درجہ رکھتی ہیں۔ جیسے آیۂ مباہلہ، سورئہ بنی اسرائیل میں شجرِ ملعونہ، اور آیۂ بلغ وغیرہ سے مربوط احادیث۔

*** سوال : قرآنِ مجید کی تفسیرکرنے والے شخص میں کن شرائط اور قابلیتوں کا پایا جانا ضروری ہے؟

*** جواب : قرآن کے مفسر کو عربی لغت سے آشنا ہونا چاہیے، یہاں تک کہ اُسے عربی ادب کا تھوڑا بہت ذوق بھی ہونا چاہیے۔ کیونکہ قرآن کی عبارتیں بلاغت سے بھرپور ہیں اور اگر مفسر عربی ادب کا ذوق نہ رکھتا ہو، تو قرآنِ مجید کی بلاغت سے استفادہ نہیں کر سکے گا۔ بہت سے مفسرین قرآنِ کریم کا لغوی فہم رکھتے ہیں، جبکہ کسی لفظ کی تاریخ، اُس لفظ میں واقع ہونے والی تبدیلیاں اور اُس میں پائے جانے والے احساس اور جذبات سے واقفیت مفسر کے سامنے ایک نئی دنیا کھول دیتے ہیں۔

عربی زبان کی لغت سے آشنائی کے علاوہ مفسر کو قرآنی موضوعات سے بھی آشنا ہونا چاہیے۔ اِسی طرح اُسے معاشرے اور اُس میں رائج قوانین سے بھی واقف ہونا چاہیے۔ کیونکہ قرآنِ مجید کی بہت سے آیات میں معاشروں اور طبیعت (nature) میں رائج سنتوں اور قوانین کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ اور مفسر کیونکہ معاصر نسل کے لیے قرآن کی تفسیر کرنا چاہتاہے، اِس لیے اُسے اُس دور، اُس خطے اور اُس کے تقاضوں سے بھی آگاہ ہونا چاہیے۔ تاکہ مناسب انداز میں قرآنی مفاہیم بیان کر سکے۔

اِس سب کے ساتھ ساتھ مفسر کو احادیث پر بھی عبور ہونا چاہیے۔ یعنی وہ احادیث کی سند، متن اور اُن کے مفہومی یا مصداقی تعلق کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے آیت کی تفسیر کرے۔ کیونکہ ائمۂ معصومین ؑہی رَاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِکے کامل مصداق ہیں۔

*** سوال : تغیر ِزمانہ کی بنیاد پر الفاظ کے مفہوم میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ کیا یہ تبدیلیاں تفسیر ِ قرآن پر اثر انداز ہوتی ہیں؟

*** جواب : الفاظ استعمال کے تابع ہوتے ہیں اور ہر زبان کے اہلِ زبان حسب ِمناسبت بہت سے الفاظ کو ایسے مجازی معنی میں استعمال کرتے ہیں جو اُن کے اوّلی معنی سے مختلف ہوتے ہیں۔ لہٰذا زبان کے ماہرین، لغوی اور عرفی معنی کے درمیان فرق رکھتے ہیں۔ لیکن قرآنی الفاظ کے حقیقی ادراک کے لیے زیر ِ نظر لفظ کے عصرِ نزول میں معنی اور اُس زمانے میں جاری تحولات کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔

*** سوال : آپ کیسی تفسیر کو پسند کرتے ہیں اور موجودہ تفاسیر میں آپ کیا نقائص محسوس کرتے ہیں؟

*** جواب :میرے خیال میں ہمیں ایک ایسی تفسیر کی ضرورت ہے جو انسانوں کے سامنے قرآنِ کریم کا“ کتابِ زندگی ” کی حیثیت سے تعارف کرائے اور انسان کو اُس کی زندگی کے تمام شعبوں میں قرآن کا مخاطب سمجھے۔

بہت سی تفاسیر میں صرف روایات کے ذریعے تفسیر کی گئی ہے، جن کی سند اور متن کی توثیق نہیں ہوتی اور اگر ہم قدیم مقبول تفاسیر، جیسے البرھان، یا درالمنثور کا طرز اپنائیں تو ہمیں قرآن کی مانند یا اُس سے قریب قریب معتبر احادیث پر اعتماد کرنا چاہیے۔

بعض تفاسیر ایک دوسرے سے خاصی ملتی جلتی تالیف کی گئی ہیں جیسے ” تفسیر تبیان ” اور ”تفسیر مجمع البیان“ جن میں شیعوں اور دوسروں کی آراء کو ساتھ ساتھ بیان کیا گیا ہے، جبکہ“ تفسیر المیزان ” میں علمی انداز اور فلسفی مشرب پر اعتماد کے ساتھ گہرے اور گراں قدر مباحث پیش کیے گئے ہیں۔البتہ ہمیں اِس تفسیر کے بہت سے مباحث سے بنیادی اختلافِ نظر ہے، جس کی جانب ہم نے اپنی ” تفسیرمن وحی القرآن ” کی جدید طباعت میں اشارہ کیا ہے۔

آقائے (ناصر) مکارم شیرازی کی“ تفسیر نمونہ ” عام افراد اور متوسط تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے ایک اچھی تفسیر ہے۔ البتہ تفاسیر میں پائی جانے والی بنیادی خامی یہ ہے کہ اُن میں قرآنِ مجید کے کسی ایک پہلو پر گفتگو کی جاتی ہے اور دوسرے پہلوئوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔

*** سوال : قرآنِ مجید فرد کی تعمیر چاہتا ہے یا معاشرے کی تعمیر کا خواہاں ہے؟ باالفاظ ِ دیگر قرآنِ مجید کا اہم ترین اور بنیادی محور ایک بلند پایا انسان بنانا ہے یا ایک آئیڈیل معاشرے کا قیام ہے؟

*** جواب : قرآنِ کریم ایک الٰہی پیغام کے طور پر انسانوں کے لیے نازل ہوا ہے، تاکہ انسان کی (اُس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں) اِس انداز سے تعمیر کرے جیسی خداوند ِعالم کو مطلوب و مقصود ہے۔ اور انسان کی اجتماعی شخصیت کی تشکیل اور اُس کی فکری اور انسانی تعمیر فقط خود اُس کی ذات سے وابستہ نہیں اور انسان کی طبیعت اور خاصیت یہ ہے کہ وہ انفرادی موجود نہیں کہ لوگوں سے معاشرتی ربط و تعلق کے بغیر زندگی گزار سکے۔نیز معاشرتی زندگی کی تشکیل بھی معاشرے میں موجود افراد سے وابستگی و پیوستگی کے بغیر ممکن نہیں۔

اسلام کا مقصدانسان میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہے اور اِسی نقطۂ نظر سے ہر انسان کی انفرادی شخصیت کی نشو و نما اور تعمیر اُس کی اجتماعی اور معاشرتی شخصیت کی تشکیل کے لیے ایک وسیلہ اور راستہ ہے۔ کیونکہ اسلام ایسی تربیت کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتا جو انسان کو معاشرے سے دور، لوگوں سے علیحدہ، عزلت پسند اور گوشہ نشین بنا دے، بلکہ انسان کی تربیت اِس انداز سے کرنا چاہتا ہے کہ وہ اپنے سماج، افراد ِمعاشرہ اور دیگر انسانوں کے بالمقابل اپنی ذمے داری قبول کرے۔

اِسی نقطۂ نظر کی بنیاد پر ہم دیکھتے ہیں کہ بعض قرآنی آیات میں اُمت کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے :وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ۔(اور تم میں سے ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہیے جو خیر کی دعوت دے، نیکیوں کا حکم دے، بُرائیوں سے منع کرے۔ سورئہ آلِ عمران۳ -آیت۱۰۴)اِس آیت ِشریفہ میں ایک ایسے معاشرے کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے جو فرد اور معاشرے کے قوی اور ضعیف نکات سے واقفیت کے لیے اُن کی چھان بین اور تحلیل کرتا ہے، اب چاہے یہ انفرادی میدان میں ہو یا اجتماعی میدان میں، یہاں تک کہ اُمت یا لوگوں کا یہ مجموعہ ایک بھرپور اور اعلیٰ تہذیب اور ثقافت کا حامل ہو جائے، تاکہ معاشرے میں نیکیوں اور امور ِخیر اور فلاح و بہبود کے فروغ کے لیے جد و جہد کرے اور سماج سے بُرائیوں، پستیوں اور گندگیوں کا صفایا کرے۔

اِن ہی قواعد اور قوانین کا اطلاق منکرات پر بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ خداوند ِ متعال قرآنِ مجید میں معاشرے اور اُمت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فرماتا ہے :

كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۔

تم بہترین اُمت ہو جسے لوگوں کے لیے منظرِ عام پر لایا گیا ہے۔ تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور بُرائیوں سے روکتے ہو۔ سورئہ آلِ عمران ۳ - آیت ۱۱۰

اور یوں ایک ایسے معاشرے اور انسانوں کے بارے میں گفتگو کرتا ہے جو تمام لوگوں کو نیکی اور معروف کی سمت بلاتے اور منکرات اوربُرائیوں سے پرہیز کی دعوت دیتے ہیں۔ طبیعی بات ہے کہ قرآنِ مجید میں اُمت سے مراد، افراد کا ایک ایسا منظم مجموعہ ہے جو اِس بنیاد پر ایک ہی مقصد کی راہ پر گامزن ہے۔

جب قرآنِ کریم مسلم مرد و زن اور مومن مرد اور مومن خواتین کے بارے میں بات کرتا ہے اور جس طرح خداوند ِعالم معاشرے کے ہر فرد کے لیے کتاب اور آئین کی بات کرتا ہے، اُسی طرح معاشرے کے لیے بھی ایک دستور اور ایک کتاب کی بات کرتا ہے:وَتَرٰى كُلَّ اُمَّۃٍ جَاثِيَۃً كُلُّ اُمَّۃٍ تُدْعٰٓى اِلٰى كِتٰبِہَا۔(اور آپ ہر قوم کو گھٹنے کے بل بیٹھا ہوا دیکھیں گے اور سب کو اُن کے نامۂ اعمال کی طرف بلایا جائے گا۔ سورئہ جاثیہ ۴۵ - آیت ۲۸) اِس آیت کے معنی یہ ہیں کہ معاشرے کے لیے بھی ایک آئین اور ایک کتاب ہے اور جس طرح ہر فرد کا حساب و کتاب ہو گا اُسی طرح ہر اُمت کا بھی مواخذہ کیا جائے گا۔

اِسی نظر یے کی رو سے قرآنِ کریم اسلامی سماج اور اُمت ِاسلامیہ اور مسلمان مرد و زن سے خطاب کرتا ہے اور فرماتا ہے :

اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِہٖ صَفًّا كَاَنَّہُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ۔

بے شک اﷲ اُن لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اُس کی راہ میں اِس طرح صف باندھ کر جہاد کرتے ہیں جس طرح سیسہ پلائی ہوئی دیواریں۔ سورئہ صف ۶۱ - آیت ۴

اور جب ہجرت کے بارے میں گفتگو کرتا ہے، یا مہاجرین اور انصار کے بارے میں بات کرتا ہے، تو بھی اجتماعی طور پر ایک اُمت سے محو ِ گفتگوہوتا ہے اور اِسی طرح اُس وقت جب یہ فرماتا ہے کہ :

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ ۔

محمد اﷲ کے رسول ہیں اور جو لوگ اُن کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لیے سخت ترین اور آپس میں انتہائی رحمدل ہیں۔ سورئہ فتح ۴۸ - آیت ۲۹

یوں ہم پر بخوبی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قرآنِ کریم کا انداز اور مقصد ایک ایسا مومن، پرہیز گار اور باشعور معاشرہ اور اُمت پیدا کرنا ہے جس کے افراد اپنی ذمے داریوں سے بھی آشنا ہوں اور دوسرے انسانوں اور حیات ِاجتماعی کے بارے میں بھی ذمے دار اور اِس سلسلے میں اپنے فریضے سے باخبر ہوں۔

*** سوال : آپ کے خیال میں فکر و نظر کی آزادی کے بارے میں قرآنِ مجید کا نقطۂ نظر کیا ہے؟ اور اِس مفہوم پر کونسی آیات دلالت کرتی ہیں؟

*** جواب : میں دو ٹوک الفاظ میں کہتا ہوں کہ قرآنِ کریم کی عبارت اور اُس کے انداز و اسلوب سے فکر و نظر کی آزادی کی تائید حاصل کی جا سکتی ہے۔ قرآنِ کریم میں یہ موضوع دو انداز سے پیش کیا گیا ہے۔

۱ : مخالفین کی فکر، اُن کے نظریے اور اُن کی کہی ہوئی باتوں کو پیش کرنا اور قرآن کا اِن افکار و آراء اور مباحث کا سامنا کرنے کا انداز۔

قرآنِ کریم میں گمراہ اور کج فکر لوگوں سے یہ نہیں کہا گیا کہ تم کیوں سوچتے ہو؟ (لماذا تفکرون؟) ۔ فکر کرنے اور سوچنے کے اصول پر اعتراض نہیں کیا گیا، بلکہ قرآنِ مجید اُن سے یہ کہتا ہے کہ تمہاری سوچ غلط ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ قرآنِ کریم میں پیغمبروں کے خلاف اُن کے بعض دشمنوں کی تمام تہمتوں اور غلط خیالات کو نقل کیا گیا ہے مثلاً:وَقَالُوْا يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْ نُزِّلَ عَلَيْہِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌ۔(اور اُن لوگوں نے کہا کہ اے وہ شخص جس پر قرآن نازل ہوا ہے، تو دیوانہ ہے۔ سورۂ حجر ۱۵ - آیت ۶) یا :ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْہُ وَقَالُوْا مُعَلَّمٌ مَّجْنُوْنٌ۔( اور اُنھوں نے اُس سے منہ پھیر لیا اور کہا کہ یہ سکھایا پڑھایا ہوا دیوانہ ہے۔ سورۂ دخان ۴۴ - آیت ۱۴) اور اِسی طرح (آنحضرؐت کو) کبھی شاعر کہا گیا، کبھی(نعوذباللہ) کذاب۔

حتیٰ قرآنِ مجید نے اُن تہمتوں کابھی ذکر کیا ہے جو خود قرآن پر لگائی گئی ہیں، جیسے : وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّہُمْ يَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا يُعَلِّمُہٗ بَشَرٌ لِسَانُ الَّذِيْ يُلْحِدُوْنَ اِلَيْہِ اَعْجَمِيٌّ وَّھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِيْنٌ۔(اور ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ مشرکین یہ کہتے ہیں کہ اُنھیں کوئی انسان اِس قرآن کی تعلیم دے رہا ہے، حالانکہ جس کی طرف یہ نسبت دیتے ہیں وہ عجمی ہے اور یہ زبانِ عربی واضح اور فصیح ہے۔ سورئہ نحل ۱۶ -آیت ۱۰۳) اِسی طرح یہ آیت : وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَہَا فَہِيَ تُمْلٰى عَلَيْہِ بُكْرَۃً وَّاَصِيْلًا۔ (اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ صرف اگلے لوگوں کے افسانے ہیں جسے اِنھوں نے لکھوا لیا ہے اور وہی صبح و شام اُن کے سامنے پڑھے جاتے ہیں۔ سورئہ فرقان ۲۵ - آیت ۵) وغیرہ وغیرہ ۔

قرآنِ مجید میں اِس قسم کی آیات کی موجود گی اِس بات کی علامت ہے کہ قرآنِ کریم اپنے مخالفین کے افکار و اقوال پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ البتہ قرآن عقل و شعور کے حامل افراد سے چاہتا ہے کہ وہ اِن افکار و اقوال کا دانائی پر مبنی اور خرد مندانہ فکر کے ذریعے منطقی اور معقول جواب دیں اور اِن افکار کی کمزوریوں کی نشاندہی کریں۔

ہمارے خیال میں گو کہ اِ س قسم کی باتوں کا ذکر پڑھنے والے کے ذہن میں شبہ پیدا کرتا ہے، لیکن قرآنِ کریم کو کیونکہ اپنی حقانیت اور اپنے عقیدے کی حقیقت پر اعتماد ہے، لہٰذا وہ اِس قسم کی باتوں کے ذکر سے بھی دریغ نہیں کرتا اور اِس قسم کے شبہات سامنے لا کے انسان کو سوچ بچار اور تفکر و تعقل پر ابھارتا ہے۔

۲ : قرآنِ مجید میں آزادی کے بارے میں ایک آیت ہے جو انسان کو آزادی اور زندگی میں اپنی راہ و روش کے انتخاب کے سلسلے میں ذمے دار قرار دیتی ہے، تاکہ وہ زندگی کے لیے اپنے راستے اور اپنائی ہوئی فکر کے سلسلے میں خود جوابدہ ہو۔ اِس مسئلے میں ہماری راہنمائی کرنے والی آیت یہ ہے : لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۔(دین میں کسی طرح کا جبر نہیں ہے، ہدایت گمراہی سے الگ اور واضح ہو چکی ہے۔ سورئہ بقرہ ۲ - آیت ۲۵۶) اور وہ اِس طرح کہ دین ایک سچی حقیقت کا حامل ہے اور اِس کا راستہ استوار اور پائیدار ہے ۔اگر ایسا نہ ہو تو ” لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ“ بے معنی سی بات ہو گی کیونکہ اِكْرَاہَ کا مطلب ہے، کسی چیز کو اپنی پسند کے برخلاف قبول کرنا ۔

لیکن اگر کوئی فکر واضح اور آشکارا ہو اور انسان کو انتخاب اور چنائو کا اختیار اور موقع دیا جائے اور مضبوط دلائل اور محکم گفتگو کی بنیاد پر ایک راستے کی سمت انسان کی رہنمائی کی جائے اور یہ نکتہ بھی اُس پر کھول دیا جائے کہ غلط اور منحرف راہ کا انتخاب کرنے والا اُس کے نتائج کا ذمے دار ہو گا اور اُسے بُرے انجام کا سامنا کرنا پڑے گا، تو پھر اِس کے بعد اکراہ کی گنجائش نہیں رہتی، جیسا کہ آیت ِقرآن :وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ ۔( اور کہہ دو کہ حق تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے۔ا ب جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے کافر ہو جائے۔ سورئہ کہف ۱۸ - آیت ۲۹) سے یہ مفہوم حاصل ہوتا ہے کہ ہر انسان اپنی اختیار کردہ راہ کا ذمے دار ہو گا۔ اور دوسری آیات، جیسے :اَفَاَنْتَ تُكْرِہُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ۔( تو کیا آپ لوگوں پر جبر کریں گے کہ سب مومن بن جائیں۔ سورئہ یونس ۱۰ - آیت ۹۹)، یا :وَمَا جَعَلْنٰكَ عَلَيْہِمْ حَفِيْظًا وَمَآ اَنْتَ عَلَيْہِمْ بِوَكِيْلٍ ۔(اور ہم نے آپ کو ان کا نگہبان نہیں بنایا ہے اور نہ آپ ان کے ذمے دار ہیں۔ سورئہ انعام ۶ - آیت ۱۰۷) کے معنی یہ ہیں کہ اے پیغمبر ! آپ اُن کی فکر اور رائے (تبدیل کرنے کے لیے اُن ) پر دبائو نہیں ڈال سکتے، بلکہ آپ کو چاہیے کہ آپ اپنی فکر اور رائے لوگوں کے سامنے پیش کیجیے، اور اُن کے جواب اور اُن کے مثبت یا منفی رد ِ عمل کی پروا کیے بغیر اپنا دستور اور پیغام اُن کے سامنے رکھیے : فَذَكِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰى۔(لہٰذا لوگوں کو سمجھائو، اگر سمجھانے کا فائدہ ہو۔ سورئہ اعلیٰ ۸۷- آیت ۹) یا : فَذَكِّرْ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ لَسْتَ عَلَيْہِمْ بِمُصَۜيْطِرٍ ۔(لہٰذا تم نصیحت کرتے رہو کہ تم صرف نصیحت کرنے والے ہو، تم اِن پر مسلط اور اِن کے ذمے دار نہیں ہو۔ سورئہ غاشیہ ۸۸ -آیت ۲۱، ۲۲) یا :وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ ۔( اور یاد دہانی بہرحال کراتے رہیں کہ یاد دہانی صاحبانِ ایمان کے حق میں مفید ہوتی ہے ۔ سورئہ ذاریات ۵۱ - آیت ۵۵) یہ تمام آیات اور اِن ہی کی مانند دوسری آیات فکر و رائے کو اہمیت دینے اور فکر ورائے پر دبائو قبول نہ کرنے کی عکاس ہیں، کیونکہ یہ عمل کسی منطق اور کسی نظریے کے موافق نہیں۔

*** سوال :کیا قرآنِ کریم اجتماعی سیاست کے لیے کوئی خاص نقطۂ نظر رکھتا ہے، یا یہ کہ ایک وسیع النظر، آفاقی اور ہر زمانے، ہر معاشرے سے تعلق رکھنے والی تمام نسلوں کے لیے بنیادی اور تمدنی نقطۂ نظر کا حامل ہے؟

*** جواب : یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ قرآنِ کریم تفصیلی صورت میں کسی خاص سیاسی نقطۂ نظر کو مد ِ نظر رکھتا تھا، یا رکھتا ہے۔ لیکن یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ قرآنِ کریم عام اور آفاقی معیار اور پیمانے پیش کرتا ہے، تاکہ ہر دور کی ہر نسل اپنے زمانے کے حالات کے مطابق اُنھیں جانے، سمجھے اور اُنھیں سُنّت ِ پیغمبرؐ سے جوڑ کر اُن پر عمل کرے۔

*** سوال : قرآنِ مجید، تمدنی یا سیاسی مسائل کے بارے میں کیانقطۂ نظر رکھتا ہے، اور اِس کی نظر میں، اُن میں سے کونسا مسئلہ زیادہ اہم ہے؟

*** جواب : قرآنِ کریم انسانی آزادی کے مسئلے کو سیاسی زاویے سے سامنے لایا ہے، اِسی طرح جیسے اُس نے عدل کے مسئلے کو پیش کیا ہے۔ قرآنِ کریم نے عدالت کو تمام انبیا ؑ اور پیغمبروں کی رسالت کا محور قرار دیا ہے، جیسا کہ فرماتا ہے :لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۔(بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور اُن کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں ۔ سورئہ حدید ۵۷ - آیت ۲۵) لہٰذا ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ تمام رسالتوں کا محور، تمام نبوتوں کی بنیاد اور اُن سب کی تمام تر کوشش اور جد و جہد عدل و انصاف کے قیام کے لیے تھی۔

قرآنِ کریم کے امتیازات میں سے ایک امتیازیہ بھی ہے کہ اِس میں عدل کے مسئلے کو مختلف مراحل پر متنوع اور گوناگوں صورتوں میں بیا ن کیا گیا ہے۔ اِسی طرح جیسے اِس نے انسان کی آزادی کے مسئلے پر گفتگو کی ہے :

وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ۔

اور کہہ دو کہ حق تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے، اب جس کا جی چاہے ا یمان لے آئے اور جس کا جی چاہے کافر ہو جائے۔ سورئہ کہف ۱۸ - آیت ۲۹

یا : اَفَاَنْتَ تُكْرِہُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ۔

تو کیا آپ لوگوں پر جبر کریں گے کہ سب مومن ہوجائیں۔ سورئہ یونس ۱۰ - آیت ۹۹

دوسری طرف، قرآنِ مجید تمدنی مسائل کے بارے میں تفکر اور تعقل کی بات کرتا ہے، اور غور و فکر ہی کو معرفت اور شناخت کا محور اور اِس کی اساس قرار دیتا ہے، اِسی طرح جیسے تجربے کو معرفت اور شناخت کی اساس اور سرمایہ قرار دیتا ہے :فَاعْتَبِرُوْا يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ ۔(تو صاحبانِ نظر عبرت حاصل کرو۔ سورئہ حشر ۵۹- آیت ۲)

تمدنی مسائل کے بارے میں قرآنِ کریم گفت و شنید کا راستہ تجویز کرتا ہے اور تعمیری و مثبت نتائج تک پہنچنے کے لیے گفتگو اور جدالِ احسن کو واحد راہ قرار دیتا ہے۔ لہٰذا بحث و مباحثے کے بارے میں بہترین راہ و روش، یعنی افکار و نظریات کے تبادلے اور نقد و نظر کے خوبصورت اسلوب کی نشاندہی کرتا ہے :

وَاِنَّآ اَوْ اِيَّاكُمْ لَعَلٰى ہُدًى اَوْ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ۔

اور کہیے کہ ہم یا تم (دونوں میں سے کوئی ایک فریق) ہدایت پر ہے یا کھلی گمراہی میں ہے۔ سورئہ سبا ۳۴ - آیت ۲۴

بحث اور گفتگو کو اُس کی مقرر کردہ حدود سے خارج کر کے یہ نہیں کہا گیا کہ میری رائے حقیقت اور عین درست ہے اور اِس میں خطا اور غلطی کا کوئی امکان نہیں۔ بلکہ فرماتا ہے کہ ہم ایک فکر اور رائے کے ساتھ اور وہ بھی ایک دوسری فکر اور رائے کے ہمراہ ایک دوسرے کے بالمقابل، ایک ہی سطح پر آ کے بیٹھتے ہیں اور دونوں ہی اپنی فکر اور رائے سے دستبردار ہو کے اُس کے بارے میں شک کو ذہن میں جگہ دیتے ہیں، تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ ہم میں سے کس کا تجویز کردہ راستہ حق اور حقیقت پر مبنی ہے اور ہم دونوں میں سے کون باطل پر ہے۔

اِس طرح قرآنِ کریم نے عقلی اور تجربی مسائل میں معرفت کے حصول اور حق تک رسائی کے لیے بہترین راہ کی نشاندہی کی ہے اور بحث و گفتگو کو حق و حقیقت تک پہنچنے کے لیے بنیاد اور اساس قرار دیا ہے۔

*** سوال : مکی اور مدنی آیات اور سوروں کے بارے میں جنابِ عالی کا نقطۂ نظر کیا ہے؟کیا مراد یہ ہے کہ ہر وہ آیت اور سورہ جو مدینہ میں نازل ہوا ہے وہ مدنی ہے اور ہر وہ آیت اور سورہ جو مکہ میں نازل ہوا ہے وہ مکی ہے، یا آپ اِس سے مختلف رائے رکھتے ہیں؟

*** جواب : بے شک سوروں یا آیات کو اصطلاحا ً مکی یا مدنی کہنے کی بنیاداُن کا مکہ یا مدینہ میں نازل ہونا، ہونی چاہیے۔ لیکن وہ چیز جو مکی سوروں کے مضمون و مشمولات کو مدنی سوروں سے علیحدہ اور جدا کرنے کا باعث ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ مکہ کی فضا پر دعوت و تبلیغ کا غلبہ تھا، وہ لوگوں کو اسلام کی طرف بلانے اوراُن تک اسلام کی دعوت پہنچانے کا مرحلہ تھا۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ مکی سورے اُن موضوعات کے بارے میں رہنمائی کرتے ہیں جن کا تعلق عقیدے کی بنیادوں اور خدا سے ربط و تعلق کے دروازے کھولنے سے ہے۔ جبکہ مدنی سورے زیادہ تر اُن موضوعات کے بارے میں رہنمائی کرتے ہیں جو معاشرے، افراد ِ معاشرہ اور اجتماعی قوانین سے تعلق رکھتے ہیں۔

قرآنِ کریم کا اسلوب عصرِ حاضر کے اکیڈمک اور منظم اسلوب سے مختلف ہے۔ اِس میںعقیدتی پہلو قانونی پہلو سے انتہائی نزدیکی تعلق رکھتا ہے، اِسی طرح جیسے پند و نصیحت کا قرآنی پہلو بھی اِ س کے عقیدتی پہلو سے ربط رکھتا ہے۔اِس نقطۂ نظر کی بنا پر قطعی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مکی سوروں میں صرف اور صرف اعتقادی پہلوئوں کو پیش کیا گیا ہے اور مدنی سوروں میں فقط قانون سازی کے پہلوئوں پر بات ہوئی ہے۔

کیونکہ قرآنِ مجید انسان سازی کے لیے نازل ہوا ہے، تاکہ انسان کو بنیادی اعتقادات میں، مفاہیم میں، زندگی کے لیے اختیار کی جانے والی راہ و روش میں، معاشرتی امور میں، الغرض زندگی کے تمام پہلوئوں میں رہنمائی فراہم کر سکے۔ لہٰذا قدرتی بات ہے کہ ہم قرآنِ کریم کے ایک حصے کو اُس کے دوسرے حصے سے جدا نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مثلاً قرآنِ مجید جس وقت اعتقادی مسائل کے بارے میں بات کرتا ہے، اُسی وقت روز ِ جزا، بہشت اور جہنم کے بارے میں بھی بات کرتا ہے، یا جب قانون اور شریعت کے بارے میں گفتگو کرتا ہے، تو اُسی وقت اچھے کاموں کی جزا و ثواب اوربُرے کاموں کی سزا و عذاب کا ذکر بھی کرتا ہے، اور اِسی طرح دوسرے مسائل کے بارے میں ہے۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ مکی سوروں میں زیادہ تر اعتقادی پہلواور خوف و امید کی جہات کا ذکر کیا گیا ہے اور مدنی سوروں میں زیادہ تراجتماعی پہلو، شریعت، قانون سازی، اقدار و فضائل کی وضاحت اور جنگ وغیرہ کے موضوعات بیان ہوئے ہیں۔

*** سوال : جیسا کہ آپ کے علم میں ہو گا کہ شیعوں پر تحریف ِقرآن کی تہمت لگائی جاتی ہے، اِس بارے میں جناب ِعالی کی رائے کیا ہے؟

*** جواب : میرے خیال میں تحریف ِقرآن کے مسئلے پر جو احادیث شیعہ اورسُنّی کتابوں میں موجود ہیں، اُن کی بنیاد پر شیعوں اوربرادرانِ اہلِ سُنّت کے درمیان اِس مسئلے پر بہت زیادہ بحث و گفتگو ہوئی ہے۔

لیکن ہمارے خیال میں نہ ہی اہلِ سُنّت اور نہ ہی اہلِ تشیع یہ سوچ رکھتے ہیں کہ کچھ ایسی آیات جن کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ قرآنِ مجید سے حذف کر دی گئی ہیں (اور جن کے بارے میں دونوں ہی کی کتابوں میں احادیث موجود ہیں) اُنھیں قرآن میں شامل کیا جائے، یا نہ ہی (اِن دونوں میں سے کسی فریق نے) اِس سلسلے میں کوشش کی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ اُن شیعہ علمانے بھی نہیں جو تحریف ِقرآن کے قائل ہوئے اور جنہوں نے آیت ِقران :

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ۔

ہم نے ہی اِس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اِس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ سورئہ حجر ۱۵ - آیت ۹

کی تاویل کی کوشش کی ہے۔

شیعہ تاریخ میںاب تک کسی ایک شخص نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا ہے کہ وہ قرآنِ مجید، جو آج لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، اُس میں کسی ایک لفظ کا بھی اضافہ ہوا ہے، اِسی طرح اہلِ سُنّت میں بھی کوئی ایسا شخص نہیں ملتا جس نے : اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ فَارْ جَمُوْھُمْ کو قرآن میں جگہ دی ہو۔ یا یہ کہا ہو کہ فلاں یا فلاں صحابی سے جو کچھ نقل کیا گیا ہے اُسے قبول کیا جائے۔ بلکہ شیعہ تو متفقہ طور پر اِس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ (نزولِ قرآن کے آغاز سے لے کر اب تک ) قرآنِ کریم میں کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوا ہے۔

دوسری طرف یہ حقیقت بھی سب ہی کے علم میں ہے کہ ائمۂ اہلِ بیت ؑ ( جن کی جانب تحریف ِقرآن سے متعلق بعض احادیث کو نسبت دی گئی ہے) عام لوگوں کے ہاتھوں میں موجود قرآن ہی کو اپنے برہان و استدلال کی بنیاد قرار دیتے ہیں، اور پیغمبر اسلامؐ سے منقول یا خود اپنی فرمائی ہوئی تمام احادیث کی تصحیح و تفسیر کے لیے اِسی سے استفادہ کرتے ہیں۔

یہی موجودہ قرآن قطعی، حتمی اور دائمی سند کے عنوان کا حامل ہے، جس کے بارے میں آیا ہے کہ : لَّا يَاْتِيْہِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ ۔(جس کے قریب، سامنے یا پیچھے کسی طرف سے باطل نہیں آ سکتا۔ سورئہ فصلت ۴۱ - آیت ۴۲) اور اِسی بنا پر موجودہ قرآنِ مجید تمام اسلامی مفاہیم اور تمام احادیث و روایات کی تصحیح و تفسیر کی بنیاد رہے گا۔

لہٰذا ہم تمام (شیعہ اورسُنّی) مسلمانوں سے تہہ دل سے درخواست کرتے ہیں کہ اِس لاحاصل بحث اور جدال کو ختم کریں۔ کیونکہ ہمیں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلے ہوئے شیعہ شہروں اور اِسی طرح اسلامی ممالک کے دوسرے علاقوں میں کسی ایک بھی ایسے قرآن کا علم نہیںجودوسرے قرآنوں سے مختلف ہو، حتیٰ(پوری دنیا میں پائے جانے والے قرآنوں میں ) ایک نقطے، ایک فاصلے تک میں معمولی سا فرق بھی نہیں ملتا۔ یہ بحث اورجدال ہرگز صحیح اور معقول نہیں اور اِس کا نتیجہ بدگمانی، عناد اور باہمی دشمنی کے سوا کچھ اور نہیں نکلے گا۔

*** سوال :جمع قرآن کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟

*** جواب :ہمارے اعتقاد کے مطابق، قرآنِ کریم خود پیغمبر اسلامؐ کے زمانے ہی میں ترتیب دے دیا گیا تھا۔ مثلاً جب کوئی آیت نازل ہوتی تو خود آنحضرتؐ فرماتے تھے کہ اِس آیت کو فلاں سورے میں رکھو، یا اِس کی جگہ فلاں آیت یا فلاں سورے کے ساتھ ہے۔ ہماری اِس بات کی دلیل یہ ہے کہ خود پیغمبرؐ سے نقل ہونے والی بعض روایات میں اور خود آنحضرتؐ جن سوروں کی تلاوت فرماتے تھے، اُن میں آیات کی جگہ اور مقام معین اور مشخص کیا گیا ہے۔

لیکن (دورِ پیغمبرؐ میں) قرآنِ مجید ایک یکجا مجموعے یا ایک نسخے کی صورت میں جمع نہیں ہوا تھا، بلکہ یا تو متفرق تحریروں کی شکل میں مختلف افراد کے پاس موجود تھا، یا حافظانِ قرآن کے سینوں میں محفوظ تھا۔ یہاں تک کہ جنگِ یمامہ پیش آئی، جس میں ستّر حافظِ قرآن شہید ہو گئے اور یوں قرآن کی جمع آوری کی ضرورت دو چند ہو گئی۔ پہلے اور دوسرے خلیفہ کے دور میں اِس ضرورت کا احساس ہوا، لیکن آخری جمع آوری اور تدوین خلیفۂ ثالث کے دور میں ہوئی۔ لہٰذا قرآنِ مجید ایک مجموعے اور نسخے کی صورت میں اور قریش کے لہجے میں جمع ہوا۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ یہ وہی قرآن ہے جو آج ہمارے ہاتھوں میں ہے، (اِس میں نہ کمی ہوئی ہے نہ اضافہ )۔

ایک اور پہلو سے دیکھیں تو جمع قرآن کا کام امیر المومنین ؑکی حیات ِمبارک میں ہوا، اگرچہ خود آپؑ نے اِسے جمع نہیں کیا ہے، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اگر آپؑ اِس میں کوئی معمولی سا نقص بھی دیکھتے، یا اِس میں کوئی معمولی سا اضافہ بھی کیا جاتا، تو حضرتؑ متنبہ کرتے اور اِس کی روک تھام کرتے۔ وہ امامؑ جو نزولِ قرآن کے آغاز سے لے کر اُس کے اختتام تک ہمیشہ اُس کے ہمراہ اور ہمدم تھے۔ یہاں تک کہ بجاطور پر پیغمبرؐ سے نقل فرماتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے فرمایا :

اے علی! جو کچھ میں سنتا ہوں، تم بھی وہ سنتے ہو اور جو کچھ میں دیکھتا ہوں تم بھی وہ دیکھتے ہو، فرق اتنا ہے کہ تم نبی نہیں ہو۔ (نہج البلاغہ - خطبہ ۱۹۰)

یقینا ً حضرت علی ؑ(جو پیغمبرؐ کی طرف سے اسلام اور قرآن کے حقیقی امانتدار تھے)خلیفۂ ثالث کے جمع کیے ہوئے قرآن، یا لوگوں کے پیش کیے گئے نسخوں میں (اصل قرآن سے) معمولی سا فرق یا کمی بیشی بھی دیکھتے تو آپؑ کی ذمے داری اور فریضہ تھا کہ آپؑ اُس کی طرف سے ہوشیار اور خبردار کرتے۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ نہ ہی حضرت علی ؑنے اِس بارے میں کچھ فرمایا اور نہ ہی دوسرے ائمۂ معصومین ؑنے اِس بارے میں کچھ کہا یا (اِس قرآن پر)اعتراض کیا ۔

*** سوال : آخر میں ہماری استدعا ہے کہ تفسیر کے بارے میں کوئی منفرد اور نئی بات آپ کے پیشِ نظر ہو تو ہمارے قارئین کے لیے فرمایئے؟

*** جواب : میں کوشش کرتا ہوں کہ زندگی کے حقائق کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے معاشرے کی ہدایت و رہنمائی کے لیے ہمیشہ قرآنِ کریم سے روشنی حاصل کروں۔ میں چاہتا ہوں کہ قرآنِ کریم گھر گھر، گلی گلی، کوچے کوچے، پورے معاشرے میں جاری و ساری نظر آئے اورمیری جد و جہد اِسی مقصد کے لیے ہے کہ لوگوں کو یہ احساس عطا کیا جائے کہ اگر وہ ایک حقیقی زندگی کے متلاشی ہیں، تو اُسے قرآن میں اور اُس کی ہمراہی میں تلاش کریں اور اِسی بنا پر میں نے قرآنی مفاہیم کی تنقیح اور اُن کا استخراج کیا ہے، جسے میری تفسیر من وحی القرآنمیں دیکھا جا سکتا ہے۔

ادراہ : ہم جنابِ عالی کے شکر گزار ہیں اور درگارہ ِالٰہی میں آپ کی سرخروئی اور قرآنی معارف میں بیش از بیش اضافے کے لیے دعا گو ہیں۔

استاد : میںبھی آپ کا مشکورہوں، خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔