اخلاقی اقدار اور مرد و زن
فکرونظر • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
نہ جانے کیوںمنفی اخلاق کے پہلو کو صرف عورت ہی میں منحصرکیا جاتا ہے، لیکن مرد کے معاملے میں ایسا نہیں سمجھا جاتا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انحراف اور گمراہی کا خطرہ تو دونوں کو ایک ہی سا رہتا ہے۔ اگر باطنی غرائز (insticts)انسان کو گمراہی کی طرف لے جا سکتے ہیں، تو بے شک (اِس سلسلے میں ) مرد وزن کے درمیان کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔ دوسری طرف عقل، کوشش اور ایمان کا جوہر بھی مرد وں اور عورتوں میں یکساں طور پر موجود ہے۔ لہٰذا کوئی ایسی دلیل نہیں پائی جاتی جس کی بنیاد پر اِس بے بنیاد دعوے کے ذریعے عورت کو ایک خاص کردار میں محدودکیا جائے۔
یہ دعویٰ کسی خاص فکری بنیاد کا حامل نہیں اور نہ ہی خاص اعداد و شمار کی بنیاد پر استوار ہے۔ بلکہ عورتوں کی اخلاقی خرابیوں کے مقابلے پر مردوں کی اخلاقی گمراہی بھی قابلِ توجہ ہے۔ البتہ اِس بات پر توجہ رہنی چاہیے کہ اخلاقی خرابی صرف جنسی انحراف تک محدود نہیں ہوتی۔
بعض مواقع پر مردوں کے انحرافات عورتوں کی گمراہیوں سے بہت زیادہ ہوتے ہیں، ہر چند یہ دعویٰ بہت احتیاط کے ساتھ جمع کیے گئے اعداد و شمار کی بنیاد پر استوار نہیں، لیکن ظاہراً بہت آسانی سے محسوس کیا جانے والا ہے۔ بہر حال تمام ہی امور میں اخلاقی اصولوں کی رعایت مختلف میدانوں میں سرگرمیوں کی بنیادی شرط ہے۔
لیکن کیا یہ شرط صرف عورتوں کے لیے مخصوص ہے، یا اِس میں مرد بھی شامل ہیں؟
ناپسندیدہ کردار مرد کے لیے بھی ناپسندیدہ ہے اور عورت کے لیے بھی ناپسندیدہ اور اچھے اعمال کی بھی یہی صورت ہے کہ وہ دونوں کے لیے پسندیدہ ہیں۔
عزیزو ! اِس موقع پر ہم چاہتے ہیں کہ اِس مشکل کی صرف جڑوں کا جائزہ لیں۔ کیونکہ مختلف نظریات کا بیان، جیسے کہ مرد کی ذمے داریوں اور فرائض کا دائرہ کس قدر وسیع ہے اور کس طرح اُس کے فرائض کی تنظیم اِس انداز سے کی جا سکتی ہے کہ اُس کے انحراف میں مبتلا ہونے کا راستہ روکا جا سکے؟ یا عورت کے فرائض کے دائرے کو کس طرح متعین کیا جائے، یااُس کے اجتماعی کردار کوکتنامحدود کریں تاکہ وہ اخلاقی فساد میں گرفتار نہ ہوجائے؟۔۔۔۔ اِن تمام باتوں پر بحث کے لیے انسانی زندگی کے تمام معاملات کی جڑوںسے شناسائی ضروری ہے۔ اِس بنیاد پر ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ سیاسی اور اقتصادی وغیرہ۔۔۔۔ جیسے میدانوں میں عورت کی سرگرمیاں حرام قرار نہیں دی گئی ہیں۔