فکرونظر

ظالم حکمرانوں کے مقابل عورت کا کردار

فکرونظر   •   آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ

اسلام کے دو حیات بخش عنصر، یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، بے شک ہر مسلمان کی ذمے داری ہیں اوراِنھیں معاشرے کے تمام پہلوئوں اور شعبوں میں ملحوظ رکھا جانا چاہیے۔

عدالت کے مسئلے میں معروف کے پسندیدہ مظاہر عادل حکمراں، عدالت پر مبنی قانون اور عادلانہ روابط و تعلقات ہیں۔ جبکہ مذموم ظالمانہ طرز ِ عمل میں منکر کے ناپسندیدہ مظاہر ظالم حکمراں، مظلوموں پر ظلم و ستم، ظالمانہ قانون اور ر وابط و تعلقات میں ظلم وغیرہ شمار کیے جا سکتے ہیں۔

یہ دو عناصر اِس قدر اہمیت رکھتے ہیں کہ امام سحسین ؑاِنھیں اپنے قیام و تحریک کا عنوان قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

اِنَّمٰاخَرَجْتُ لِطَلَبِ الْاِصْلَاحِ فِی اُمَّۃِ جَدِّی(ص) اُرِیدُاَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَاَنْھیٰ عَنِ الْمُنْکَرِ۔

میں تو صرف اپنے جد کی اُمت کی اصلاح کے لیے نکل رہا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ (لوگوں کو) نیکیوں اور اچھی باتوں کی طرف بلائوں اور (اُنھیں)بُرائیوں اوربُرے کاموں سے روکوں۔

اِس نفیس کلام کی روشنی میں باآسانی پتا چلایا جا سکتا ہے کہ حکمرانوں کے ظلم و ستم کے خلاف جد و جہد، ظالمانہ روابط اور ظالمانہ سیاسی اور اجتماعی مسائل کے خلاف قیام اور اسلام مخالف قوانین کے خلاف جنگ، یہ تمام کی تمام چیزیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں سے ہیں۔ یہاں تک کہ ظالم حکومت سے نجات کے لیے عوام کا اُٹھ کھڑے ہونا بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں شمار ہوتا ہے۔

لہٰذا مرد و زن، دونوں کو ایک دوسرے کے شانہ بشانہ، دوش بدوش، ظلم کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے اور عدل و انصاف کے قیام کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ اِسی بنا پر ہم بھی کہتے ہیں کہ قرآنِ کریم کا صریح فرمان اِس مسئلے پر بھرپور تاکید کا حامل ہے۔

قرآنِ کریم کا یہ جملہ کہ“ مسلمان ایک دوسرے کے ولی اور مددگار ہیں ” بخوبی واضح کرتا ہے کہ اسلامی معاشرے کو باہمی میل جول اور باہمی تعاون جیسی خصوصیات کاحامل ہونا چاہیے۔ ہر چند لغات (dictionaries) میں، اِن کلمات کے لیے محض چند ہی معنی مل سکیں، لیکن قرآنِ کریم سے بہت آسانی کے ساتھ اِن الفاظ کا حقیقی مفہوم حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اِن کلمات کا دائرہ انسان کی تمام انفرادی اور اجتماعی سرگرمیوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہم اسلامی معاشرے کو ایک بند معاشرہ تصور نہیں کر سکتے بلکہ اسلامی معاشرہ ایک کھلا اور آزاد معاشرہ ہے۔

البتہ اِس بات میں شک نہیں کہ اسلامی معاشرے کے کھلے ہونے کی حدود، اخلاقی اقدار کی سرحدیں عبور نہیں کرتیں۔ کیونکہ اسلام کے تمام ارکان ایک دوسرے سے مربوط اور ایک پیکر ِ واحد ہیں۔ لہٰذا اگر ہم اسلام کے کسی ایک پہلو یا اِس کے کسی ایک مسئلے پر گفتگو کریں تو بے گمان اِس کے ہمراہ بہت سے دوسرے پہلو اور مسائل بھی بیان ہوں گے۔ لہٰذا ہمیں اِن میں سے ہر ایک مسئلے کے علیحدہ علیحدہ جائزے کی ضرورت نہیں۔ اِس بنیاد پر ہماری یہ گفتگو اسلامی سیاست میں عورت کے ایک مجموعی کردار یا مجموعی طرز ِعمل کی نشاندہی کرتی ہے۔

مرد و زن دونوںاسلامی اقدار کے مخاطب ہیں

اِس موقع پر ایک انتہائی اہم نکتے کی جانب اشارہ کر دینا ضروری ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ قرآنِ کریم میں جن اقدار کی جانب اشارہ کیا گیاہے اُن میں سے کوئی ایک قدر (value) بھی ایسی نہیں جو تمام انسانوں کے لیے نہ ہو، ہر چند اُسے بیان کرتے ہوئے جمع مذکر سے کام لیا گیا ہو۔ خداوند ِ عالم فرماتا ہے:

قُلْ ہَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ۔

کہہ دیجیے کہ کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں اُن (لوگوں) کے برابر ہو جائیں گے جو نہیں جانتے ہیں۔ (سورئہ زمر ۳۹ - آیت ۹)

اِس آیۂ کریمہ کو سامنے رکھ کر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ قرآنِ کریم جاننے والے یا نہ جاننے والے مردوں کے بارے میں گفتگو کر رہا ہے۔ بلکہ قرآنِ مجید کا روئے سخن جاننے اور نہ جاننے والے تمام انسانوں کی طرف ہے۔ اِس آیت کی مراد تمام انسان ہیں اور یہ صرف مردوں سے مخصوص نہیں۔ کیونکہ گوہرِ علم تمام انسانوں کے لیے باعث ِفضیلت ہے۔اِسی طرح ارشاد ِالٰہی ہے:

اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا لَا يَسْـتَوٗنَ۔

کیا وہ شخص جو صاحبِ ایمان ہے، اُس کی مثل ہو جائے گا جو فاسق ہے، ہرگز نہیں، دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ (سورئہ سجدہ ۳۲ - آیت ۱۸)

یا یہ ارشاد ِ الٰہی کہ:

اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِيْنَ كَالْمُجْرِمِيْنَ۔

کیا ہم اطاعت گزاروں سے بھی مجرموں جیسا برتائو کریں ۔ (سورئہ قلم ۶۸ - آیت ۳۵)

اِن آیات کو دیکھ کر کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مومن مرد تو فاسق مرد کے برابر نہیں ہو سکتا، البتہ مومن عورت فاسق عورت کے برابر ہے؟!!!

کیا عقل اِس بات کو قبول کرسکتی ہے؟

اور

کیا عالم عورت، جاہل و نادان عورت کے برابر ہے؟

اِس قسم کے سوالوں کا جواب چمکتے سورج کی طرح واضح ہے۔دنیا میںانسانوں سے تعلق رکھنے والی کوئی ایک قدراور فضیلت بھی ایسی نہیں جس میں مرد وزن دونوں شریک نہ ہوں۔