فکرونظر

*** سوال : فقیہ اور معاشرے کے درمیان رابطے کے بارے میں آپ کانقطۂ نظر کیا ہے؟

*** جواب : ہمارے خیال میں اِس بات کی شدید ضرورت ہے کہ فقیہ معاشرے کے سامنے کھلا رَوَیَّہ رکھے۔ تمام مسائل میں معاشرے سے رابطے میں رہے۔ کیونکہ یہ بات معاملات کے شخصی اور ذاتی ہونے کی روک تھام کرتی ہے اور فقیہ کو لغزش کا شکار ہونے سے باز رکھتی ہے، اِسی طرح معاشرہ فقیہ کے اشتراک سے جو فیصلہ کرتا ہے اُس کی ذمے داری معاشرے کے کاندھے پر ڈالتی ہے۔ یعنی معاشرے کو یہ احساس بخشتی ہے کہ وہ بھی فیصلوں میں شریک ہے، ہر چند یہ فیصلہ معاشرے کی طرف سے صادر نہ ہوا ہو، اور اُس کی صورت یہ ہو کہ فقیہ معاشرے سے مشورت کے بعد یا تو خود کسی دوسری رائے کا انتخاب کرے یا معاشرے کی دی ہوئی رائے کو قبول کرے۔

ہمارے خیال میں پیغمبر اسلامؐ اور حضرت علی ؑکا طرز ِ عمل بھی یہی تھا۔ نیز بہت سی نصوص اِس کی تلقین کرتی ہیں۔ لہٰذا اسلام میں حکومت کا نظریہ تفوق اور برتری کی کوشش کا نام نہیں، بلکہ حقیقت پسندانہ اور پیغمبر اسلام ؐ اور امام علی ؑکی حکمرانی کے اسلوب سے برآمد ہونے والا اور مصادر ِشرعی کے مطابق نظریہ ہے۔

اِس گفتگو سے یہ مراد نہ لی جائے کہ ہم جمہوریت کو حکومت کے قانونی جواز کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ کیونکہ جمہوریت کو حکومتی معاملات چلانے کے لیے ایک وسیلے کے عنوان سے بروئے کار لانے اور اُسے حکومت کے قانونی جواز کی بنیاد شمار کرنے کے درمیان فرق ہے۔

ہم جمہوری طرز ِ عمل کے جواز کے بارے میں (جمہوریت کی ماہیت اور خاصیت کے لحاظ سے ) جبکہ وہ کسی مسَلَّم الثبوت شرعی حکم کے مخالف نہ ہو کوئی نزاع اور اختلاف نہیں رکھتے، لیکن لوگوں کی رائے ہی کو کسی بات کے جواز کی بنیاد بنا لینے کے بارے میں ہمیں اعتراض ہے۔ کیونکہ ہم رائے عامہ کوشرعی جواز کی بنیاد نہیں سمجھتے۔ لہٰذااگر فرض کریں کہ عوام اپنے ووٹوں کے ذریعے غیر مسلم یا غیر سنجیدہ مسلمان شخص کو حاکم چن لیں، جبکہ جمہوری فیصلہ حکومت کے قانونی جواز کی بنیادہو، تو پھر جامع الشرائط حاکم کی حکومت کا قانونی جواز نہ رہے گا، جبکہ ہم اسلام کی حقانیت کے اِس کے دین خدا ہونے کی بجائے اِس بنیاد پر قائل نہیں ہو سکتے کہ اِسے لوگوں کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔

لہٰذاہم جمہوریت کے (مثبت) نتائج سے قطع نظر اِس کے ہمراہ موجود دوسرے فکری لوازمات کی بنا پر اِس کے بارے میں احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہیں۔

نظریہ اور زمینی حقائق

*** سوال : اِس نظریے کی زمینی حقائق کے ساتھ ساز گاری کا کیا امکان ہے؟

*** جواب :میرے خیال میں اسلامی جمہوریۂ ایران کا تجربہ (اِس میں واقع ہونے والے معمولی مسائل سے چشم پوشی کرتے ہوئے) مجموعی طور پر بہترین تجربوں میں سے ہے۔ یہ تجربہ جس میں نظریۂ ولایت ِفقیہ اور نظریۂ شوریٰ کو یکجا کر دیا گیا ہے، اسلامی مفاہیم کے لحاظ سے حقیقت پسندانہ ترین نظریات میں سے ہے۔

البتہ ایک نظریہ اور بھی ہے جس کی جانب شہید سید محمد باقر الصدرؒ نے ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اپنے آخری آثار میںسے ایک اثر میں اشارہ کیا ہے۔ اِس نظریے کی بنیاد پر حکومت کے معاملے میں قوم کا بھی بڑا کردار ہے اور فقیہ کا بھی۔ البتہ فقیہ کوسربراہِ مملکت نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اِس کا کردار حکومت کی نظارت اور نگرانی ہو، جبکہ حکومت کے بارے میںقوم (اگر وہآزادی کی حامل ہوتو اُس)پر بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔

شہید صدرؒ نے اُس وقت یہ نظریہ اختصار کے ساتھ پیش کیا تھا اور اِس کے بارے میں تحقیقی اور تجزیاتی کام نہ کر سکے تھے۔ یہ نظریہ گہری تحقیق کا متقاضی ہے۔

اگر ہم یہاںحکومت ِاسلامی کے نظریے کو خلاصے کے طور پر بیان کریں، تو ہمیں کہنا چاہیے کہ حکومت ِاسلامی (حتیٰ اگر اِس حکومت کے سربراہ پیغمبر یا امام ہوں جو اُمت پر ولایت ِ مطلقہ کے حامل ہیں) مغرب کے بیان کردہ مفہوم میں تھیوکریسی نہیں ہے۔ اسلامی حکومت میں جس ولایت پر عمل کیا جاتا ہے وہ شخصی ولایت نہیں ہے، بلکہ ایک انسٹیٹیوشنل ولایت ہے، جس سے ایک وضع شدہ دستور ِ عمل کے مطابق کام لیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خداوند ِعالم اپنے پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ وہ لوگوں کو بتا دیں کہ آپؐ اوّلین مسلمان ہیں اور ظاہر ہے اوّلین مسلمان دوسروں سے زیادہ اسلام میں ڈھلا ہوا ہو گا۔

البتہ بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ پیغمبر کا اپنا کوئی خاص فریضہ ہوتا ہے اور اِسی طرح امام بھی خاص فریضے کا حامل ہوتا ہے۔ ہم اِس فکر کو قبول نہیں کر سکتے۔ کیونکہ اگر ہماری سوچ یہ ہو تو ہم اپنے عمل کا شرعی جواز ثابت کرنے کے لیے پیغمبر یا امام کے طرز ِ عمل کو بطور ِسند پیش نہیں کر سکتے۔

بعض لوگ یہ تصور رکھتے ہیں کہ امام حسین ؑکا انقلاب امام کے لیے مخصوص تھا اور ہم اِس سے ماڈل کے طور پر استفادہ نہیں کر سکتے اور ظالم حکومتوں کے خلاف جد و جہد میں اِس سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ کیونکہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ امر اسرار ِامامت میں سے ایک امر ہے اور اگر ہم شرعی حدود میں رہتے ہوئے عمل کرنا چاہیں تو ہمیں پتا چل جائے گا کہ یہ عمل شرعی پیمانوں سے ناموافق ہے۔ کیونکہ یہ عمل اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے اور خود کو خطرات میں جھونکنے کے مترادف ہے۔

اِسی دلیل کی بنیاد پر بعض لوگ فقہا کے اِس فرمان کو قبول نہیں کرتے کہ ہمیں (پیغمبر اور امام) کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے اعمال انجام دینے چاہئیں۔ ایسے ہی لوگ پیغمبر اسلامؐ کے اعمال اور مسائل کو دیکھ کر آنحضرتؐ کے اعمال اور اقدامات کو آنحضورؐ کی شخصیت میں چھپے ہوئے اسرار میں سے سمجھتے ہیں، جو عام لوگوں کے لیے ناقابلِ فہم ہیں۔

لیکن (اِن لوگوں کے اِس دعوے کے برخلاف) ہم دیکھتے ہیں کہ خداوند ِعالم قرآنِ مجید میں پیغمبر اسلامؐ کی سیرت کو شرعی جواز کی بنیاد قرار دیتا ہے :

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ ۔

تمہارے لیے رسول کی زندگی میں بہترین نمونۂ عمل ہے۔ سورئہ احزاب ۳۳ - آیت ۲۱

اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ امامت ہر چند کہ نبوت نہیں لیکن کار ِنبوت کا استمرار ہے۔

خلاصۂ کلام یہ کہ پیغمبر اور امام، معصوم ہونے کے باوجود ایک ماڈل اور اپنے بعد آنے والے مسلمانوں کے لیے (جن پر اِن ہستیوں کے اعمال و رفتار کی پیروی لازم ہے)، نمونۂ عمل ہیں۔ کیونکہ پیغمبر اور امام اپنے عمل کے ذریعے اسلام کی جیتی جاگتی تصویر پیش کرتے ہیں۔

######

تہذیبوں کے درمیان مکالمہ
یہ انٹرویو حوزئہ علمیہ قم المقدس، ایران سے چھپنے والے مجلے“ نامۂ مفید ” سے لیا گیا۔

*** سوال : گفتگو (dialogue) کے بارے میں آپ کانقطۂ نظر کیا ہے اور قرآنِ کریم اِس بارے میں کیا اصول دیتا ہے؟
*** جواب : ہم نے ہمیشہ کہا ہے اور اب بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ دین میں ابتدا ہی سے گفتگو اور افہام و تفہیم کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔ جب ابلیس نے حضرت آدم ؑکے سامنے سجدہ کرنے سے انکار کیا تو خداوند ِعالم نے اُس سے بات چیت کی، اُس کی بات سنی اور اُسے جواب دیا ۔ اِس کے بعد جب ابلیس نے خدا سے مہلت طلب کی تو اﷲ نے اُس کی یہ درخواست قبول کی اور اُسے مہلت دی اور اُس پر واضح کیا کہ وہ لوگوں پر مطلق اثرانداز نہیں ہو سکے گا:

اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْہِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغٰوِيْنَ ۔

میرے بندوں پر تیرا کوئی اختیار نہیں ہے، سوائے اُن کے جو گمراہوں میں سے تیری پیروی کرنے لگیں۔ سورئہ حجر ۱۵ - آیت ۴۲

اِسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جب خداوند ِعالم نے آدم ؑکو خلق کرنا چاہا تو فرشتوں سے بات چیت کی اور اُنھیں بتایا کہ:

اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَۃً ۔

میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔ سورئہ بقرہ ۲ - آیت ۳۰

اِس کے بعد فرشتوں نے خدا سے سوال کیا اور خدا نے اُن کو جواب دیا ۔ پھر خدا نے آدم ؑسے کہا کہ وہ فرشتوں سے گفتگو کریں۔ اِس کے بعد بہشت میں آدمؑ ؑکے ساتھ جو کچھ پیش آیا اُس کے بارے میں بھی خدا اور شیطان کے درمیان گفتگو جاری رہی۔

علاوہ ازایں ہم سب اِس بات سے بھی واقف ہیں کہ (قرآنِ کریم کی روایت کے مطابق) خدا نے بہت سے انبیاؑ کے ساتھ بھی گفت و شنید کی ہے۔

اِس بنیاد پر گفتگو اور مکالمہ ایک ایسا عمدہ طریقہ ہے جس کی طرف خدا بھی متوجہ کرتا ہے۔ خداوند ِعالم نے اپنے انبیاؑ کو گفتگو کی ہدایت کی، تاکہ وہ اپنے زمانے کے لوگوں سے ایمان، کفر، توحید، شرک اور دوسرے عقیدتی موضوعات پر گفتگو کریں، اُن کے اعتراض سنیں اوراِن اعتراضات کے جواب دیں۔

لہٰذا ہماری نظر میں گفت و شنید دعوت اور تبلیغ کا قرآنی اسلوب ہے ۔اِس اسلوب کو خداوند ِعالم نے جدال کا نام دیا ہے :

وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ ۔

اور بہترین طریقے سے بحث کیجیے۔ سورئہ نحل ۱۶ - آیت ۱۲۵

وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَہْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ ۔

اور اہلِ کتاب سے مباحثہ کرو، مگر اِس انداز سے جو بہترین انداز ہے۔ سورئہ عنکبوت ۲۹- آیت ۴۶)

اِس بارے میں قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر گفتگو کی گئی ہے اور ہم نے اپنی تالیفات مثلاً“ الحوار فی القرآن ” اور“ اسلوب الدعوۃ فی القرآن ” میں اِس بارے میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔

گفتگو اور باہمی بحث ومباحثہ ہی وہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے دوسروں تک اپنے افکار و خیالات پہنچائے جا سکتے ہیں اور اُن کی آراء و نظریات سے آگاہ ہوا جا سکتا ہے، تاکہ تفاہمِ باہمی پیدا ہو اور دوسروں کو اپنی فکر قبول کرنے پر آمادہ کیا جا سکے۔

ہم جب خود آپ سے آپ غور و فکر کرتے ہیں تو وہ بے صدا ہوتا ہے، ہمارا یہ مباحثہ دوسرے نہیں سن پاتے۔ اِس کے برخلاف جب ہم دوسروں کے سامنے مباحثہ کرتے ہیں اور اُن کے ساتھ مل کر غور و فکر کرتے ہیں تو یہ باہمی غور و فکر سنائی دینے والا ہوتا ہے ۔ہمیں چاہیے کہ افکار کا تبادلہ کریں، مل بیٹھ کر سوچ بچار کریں، کیونکہ مسلسل اجتماعی غور و فکر ہمیں بہت سے فکری اور تمدنی موضوعات میں مطلوبہ نتائج تک پہنچا دیتا ہے اور گفتگو اور باہمی مکالمے کا اسلوب نتائج کے حصول کا مختصر ترین راستہ ہے جسے اسلام نے ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔

*** سوال : آپ نے ایک جگہ کہا ہے کہ اسلام اور مغرب کے درمیان تصادم مستقبل میں اور شدید ہو جائے گا۔ کیا اِس کا مطلب یہ لیا جائے کہ آپ تہذیبوں کے درمیان گفتگو اور مکالمے پر یقین نہیں رکھتے؟

*** جواب : ہمارے خیال میں مغرب پر حاکم حکومتوں نے ہمارے لیے یہ دشواری پیدا کر دی ہے کہ اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف زبردست پروپیگنڈہ کر کے اہلِ مغرب کے اذہان کو اپنے زیر ِ اثر کر لیا ہے۔

مشکل یہ ہے کہ مغرب نے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مخاصمانہ رویہ اپنایا ہوا ہے، اُن کا مقصد خود مسلمانوں میں اسلام کو ختم کرنا یا بعض اسلامی عناوین کو اپنے مقاصداور مفادات کے حصول اور مسلمانوں پر تسلط کے لیے استعمال کرنا ہے۔ مجموعی طورپر مغرب اسلام سے مکالمے اور گفتگو کے لیے کوشاں نہیں۔ کیونکہ اُس کے سامنے اہم بات یہ نہیں کہ حقیقت کیا ہے؟ وہ یہ نہیں جاننا چاہتا کہ حقیقت اسلام کے پاس ہے یا غیر اسلام کے پاس؟ بلکہ مغرب کا مسئلہ محض اور محض اپنے مفادات کا حصول ہے۔ مغرب تمام وسائل اور ذرائع استعمال کر کے عالمِ اسلام سے اپنے مفادات پورے کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا جب تک مغرب میں یہ ذہنیت کار فرما ہے، اور وہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جب تک اِس روش کو اختیار کیے ہوئے ہے، اُس وقت تک تہذیبوں کے درمیان گفتگو اور مکالمہ مشکل نظر آتا ہے۔

ہم مغرب سے گفتگو کو مسترد نہیں کرتے، ہم اب بھی اُس مغرب کے ساتھ گفتگو کا پرچار کرتے ہیں جو فکری اور تمدنی گفتگو کے قواعد اور آداب کو مانتا ہو، اور مغرب کے ایسے لوگوں سے گفت و شنید کو مفید سمجھتے ہیں جو وہاں کیے جانے والے پروپیگنڈے کے زیر ِ اثر نہ ہوں۔ ہم اُن سے گفتگو پر بہت اصرار کرتے ہیں کیونکہ گفتگو ہی کے ذریعے اہلِ مغرب کی عقلوں اور افکار کو کھولا جا سکتا ہے، اور ہم اِس موقع سے فائدہ اٹھا کر مغربی معاشروں میں اسلام کا تعارف کرا سکتے ہیں اور اُنھیں اسلام کی طرف بلاسکتے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اہلِ مغرب سے فکری اور سیاسی مسائل پر سنجیدہ اور بلا تعصب مکالمہ وہاں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بحث کا آغاز کرنے کا بہترین موقع ثابت ہو سکتا ہے۔

ہم اہلِ مشرق کے لیے دو چیزیں تکلیف دہ ہیں، ایک تعصب اور دوسرے متاثر ہونا، جو دوسروں کی بات قبول کرنے کی آمادگی کو (حتیٰ گفتگو کی سطح پر بھی)ختم کر دیتا ہے۔

لہٰذاہمارا خیال ہے کہ گہری علمی ذہنیت کے ساتھ اور ایسے مغربی انسان کی عقلانی ذہنیت سے قریب ہو کر جس کے دل میں سابقہ تاریخ کے حوالے سے کوئی کینہ نہ ہو، گفتگو کے میدان میں قدم رکھنا اہلِ مغرب کو اسلام سے آشنا کرنے اور اُنھیں اسلام کا گرویدہ بنا لینے کا ایک مناسب ذریعہ ہو گا۔

*** سوال :ہم دیکھتے ہیں کہ ہر گروہ اپنے عقیدے پر مطمئن ہے :كُلُّ حِزْبٍؚبِمَا لَدَيْہِمْ فَرِحُوْنَ۔ (اور ہر گروہ جو کچھ اُس کے پاس ہے اُس پر خوش اور مگن ہے۔ سورئہ مومنون ۲۳ - آیت ۵۳) اور ہر تہذیب اپنے سرمائے پر نازاں اور اُس کے بارے میں متعصب ہے ۔ ایسی صورت میں گفتگو کس طرح کی جا سکتی ہے؟

*** جواب : ہمارے خیال میں گفتگو کا دائرہ اتنا تنگ نہیں ہے۔ ایسا انسان جو صاحب ِفکر و شعور اور کسی نفسیاتی الجھن (complex)کا شکار نہ ہو، وہ اپنے مخصوص دائرۂ فکر سے دوسرے دائرۂ فکر میں منتقل ہو سکتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب کے بعض ممتازدانشور (جیسے فرانس کا روژہ گارودی) اسلام کے بارے میں مغرب کے پھیلائے ہوئے غلط تصور کو خاطر میں لائے بغیر مسلمان ہو جاتے ہیں۔ ایسے نمونوں کو ہم اہلِ مغرب کی طرف سے اسلام قبول کرنے کے حقیقی امکان کی ایک مثال سمجھ سکتے ہیں۔

پس یقیناًیہ امکان موجود ہے کہ ایک مغربی انسان اپنے مارکسی یا مسیحی عقیدے سے دستبردار ہو کر اسلام قبول کر لے۔ اپنے گروہ سے لگائو میں اگر تعصب شامل نہ ہو، تو یہ کوئی مشکل نہیں۔ گروہ پرستی اُس وقت مشکل کھڑی کر دیتی ہے جب وہ افرادکو اپنے گروہ میں مقیّد کرنے کا موجب ہو، کسی کی بات سننے پر تیار نہ ہو نے دے اور آزادانہ غور و فکر کی اجازت نہ دے ۔ جیسے کہ بہت سے لوگ خود کو اپنی تہذیب و ثقافت میں محدود کر لیتے ہیں اور دوسروں کی کسی چیز کو سننے یا پڑھنے پر تیار نہیں ہوتے۔

*** سوال : کیا تہذیبوں کے درمیان گفتگو میں عالمِ اسلام کے پاس قوی عناصر موجود ہیں۔ اگر ہیں تو وہ عناصر کیا ہیں؟

*** جواب : ہمارا قوی اور طاقتور عنصر“ فکر ِ اسلامی“ ہے۔ البتہ اِس فکر کے لیے ایسے مفکّرین ضروری ہیں جو دوسروں کے سامنے اسلام پیش کرتے ہوئے اِن قوی عناصر سے استفادہ کرنا جانتے ہوں۔

اِس سلسلے میں عالمِ اسلام کو جو مشکل درپیش ہے وہ یہ ہے کہ علمائے اسلام اور دانشوروں کی سرگرمیاں اُن علاقائی ضروریات سے متاثر ہیں جن علاقوں میں وہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ لوگ عالمی تناظر میں اسلام کے بارے میں نہیں سوچتے اور اِس پہلو سے غور و فکر نہیں کرتے کہ اسلام کا پیغام عالمگیر ہے اور دنیا کو اسلام کی ضرورت ہے۔ جبکہ قرآنِ کریم اپنے رسول کو: كَاۗفَّۃً لِّلنَّاسِ ۔ (تمام لوگوں کے لیے۔سورۂ سبا۳۴-آیت۲۸) اور عالمین کے واسطے رحمت کے طور پر پکارتا ہے۔

اِس بنیادپر ہمارے خیال میں اِس بات کی ضرورت ہے کہ گہرا غور و فکر کیا جائے اور دیکھا جائے کہ اسلام عصرِ حاضر اور آج کے انسان کی ضروریات اور تقاضوں کا کیا حل پیش کرتا ہے اور پیچیدہ مشکلات اور مسائل کے بارے میں کیا پروگرام رکھتا ہے۔

جب ہم اسلام کو ایک عالمی دین کے طور پر پیش کرنے کے قابل ہو جائیں گے اور ایک ایسے دین کی صورت میں سامنے لاسکیں گے جو عالمی سطح پر تمام مسائل کے حل پر قادر ہے، تو اسلام کے دوسری تہذیبوں کے مقابلے میں قوی اور طاقتور ہونے کا امکان پیدا ہو جائے گا۔

*** سوال : کیا آپ آج کے عالمِ اسلام میں کسی متعین تمدن سے واقف ہیں؟

*** جواب : جب ہم اِس نقطۂ نظر سے عالمِ اسلام پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ایک مبہم تمدن کا مشاہدہ کرتے ہیں، جو نہ اسلامی تمدن ہے اور نہ بدوی اور نہ ہی مغربی:فِيْہِمَامِنْ كُلِّ فَاكِہَۃٍ زَوْجٰنِ۔

*** سوال : ہم اِس حال کو کیوں پہنچے اور مغرب علم و دانش اور ٹیکنالوجی کی بلندیوں اور سماجی ترقی میں اِس قدر آگے کیسے نکل گیا؟

*** جواب : آپ کے اِس سوال نے مجھے نجف ِ اشرف کے دو دوستوں کے درمیان ہونے والی ایک گفتگو یاد دلا دی۔ اِن میں سے ایک دوست مرجعیت کے بلند مقام پر پہنچ چکا تھا، جبکہ دوسرا دوست ایک عام عالمِ دین ہی بن پایا تھا۔ پیچھے رہ جانے والے دوست نے اپنے مرجع دوست سے سوال کیا کہ ہم نے حصولِ علم کا آغازایک ساتھ کیاتھا، ہم دونوں کاایک ہی حلقۂ درس تھا، اِس کے باوجود آپ نے کس طرح یہ مقام حاصل کر لیا اور میں کیوںاتنا پیچھے رہا؟ اِن مرجع نے جواب دیا : اے شیخ ! ہم دونوں نے سفر شروع کیا، میں نے روشنی میں راستہ بنایا اور تم وہیں کھڑے کے کھڑے رہے۔

*** سوال : آپ کے خیال میں اِس پسماندگی اور بدحالی سے نجات کی راہ کیا ہے؟

*** جواب :راہ یہ ہے کہ جس راستے پر دوسرے چلے ہیں ہم بھی وہی طے کریں۔ ہمیں اسلامی تاریخ سے بہت سے سبق لینے چاہئیں۔ اسلام نے سو سال سے بھی کم عرصے میں ایک نیا تمدن ایجاد کیا، ہم اِسی تمدن کو آج بھی ظاہر کر سکتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب کے علمی اور تحقیقی مراکز میں بہت سے مسلمان مصروفِ کار ہیں جن کا سائنسی انکشافات اور ایجادات میں ہاتھ ہے۔ اِن میں سے بہت سے مغربی سائنسدانوں کے ہم پلہ ہیں، بلکہ بعض حالات میں اُن سے بہتر ثابت ہوئے ہیں۔ اِس بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ مسلمان ترقی کی جانب سفر کے لیے گرانقدر صلاحیتوں اور قوتوں کے مالک ہیں، بشرطیکہ اسلامی ممالک میں علمی سرگرمیوں کے لیے مناسب مواقع فراہم کیے جائیں۔

ہماری مشکل یہ ہے کہ اسلامی ممالک کی حکومتیں اور وہاں کا حاکم طبقہ ذہانتوں کو فرار پر مجبور کر دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ اذہان اُن مغربی ممالک میں جا پہنچتے ہیں جو اُنھیں گرم جوشی کے ساتھ ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں، اُنھیں خریدتے ہیں اور اپنے علمی اور تحقیقی مراکز میں اُن سے استفادہ کرتے ہیں۔

اِس کے برخلاف ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان حکومتوں کی طرف سے جہلا (اور بے مصرف لوگوں) کی ہمت افزائی اور سرپرستی کی جاتی ہے، لیکن صاحبانِ علم اورموجدین کو مناسب مواقع فراہم نہیں کیے جاتے۔

*** سوال : آپ کی نظر میں اسلام کی کامیابی کا راستہ کیا ہے۔ کیا اسلام کی کامیابی طاقت کی منطق سے وابستہ ہے یا منطق کی طاقت ہے؟

*** جواب : ہمارے خیال میں دونوں باتیں ضروری ہیں۔ ہمیں منطق کی طاقت سے بھی لیس ہونا چاہیے، تاکہ دوسروں کی منطق کا مقابلہ کر سکیں۔ کیونکہ دوسرے بھی علمی اور فکری لحاظ سے ایک منطق کے مالک ہیں۔ ہمیں اپنی طاقتور منطق سے اُن کی منطق کا مقابلہ کرنا ہو گا۔

اِسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اغیار سیاسی، عسکری اور اقتصادی قوت کے مالک ہیں اور اِس کا تقاضا ہے کہ ہم بھی طاقت کی منطق سے استفادہ کریں، جیسا کہ اِس آیۂ کریمہ میں ہمیں حکم دیا گیا ہے :وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْـتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ ۔(اور تم سب ان کے مقابلے کے لیے امکانی قوت کا انتظام کرو۔ سورئہ انفال ۸ - آیت ۶۰) کیونکہ دوسروں کی قوت کا مقابلہ کرنے کے لیے قوت ہی کی ضرورت ہوتی ہے، اِس لیے کہ ممکن ہے دوسرے اپنی طاقت سے فائدہ اٹھا کر ہم پر تسلط کا ارادہ رکھتے ہوں۔

لہٰذا ہم منطق کے طاقت کی بھی حمایت کرتے ہیں اور طاقت کی منطق کے بھی قائل ہیں۔ البتہ اِس اصول کی روشنی میں جس کی تعلیم اسلام دیتا ہے، یعنی کسی کے حق کو پامال نہ کیا جائے بلکہ صرف اسلام اور مسلمین کا تحفظ پیشِ نظر ہو۔

*** سوال : آپ کے خیال میں تہذیبوں کے مابین مکالمے کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں؟

*** جواب : تہذیبوں کے مابین گفتگو کی اہمیت اور افادیت یہ ہے کہ اِس کے ذریعے تہذیبوں کے پیروکار ایک دوسرے کو سمجھیں گے، کیونکہ تہذیبوں کی ایک دوسرے سے دوری اور اُن کے مابین عداوت اور باہمی روابط و تعلقات کا نہ ہونا تہذیبوں کے ماننے والوں کو ایک دوسرے سے آگاہ نہیں ہونے دیتا۔

لہٰذاتہذیبوں کے درمیان گفتگو کے لیے اگرطبیعی طور پر حالات ساز گار بنائے جائیں اور میدان ہموار کیا جائے، تو اِس طرح تفاہمِ باہمی کی فضا پیدا ہو گی اور یہ امر بعد کے مرحلے میں مشترکہ نکات تک پہنچنے اور اُن کی بنیاد پر باہمی تعلقات برقرار کرنے کا امکان پیدا کر دے گا۔ یہ وہی چیز ہے جسے قرآنِ کریم کَلِمَۃٍ سَوَاۗءٍ(مشترک بات) کہتا ہے۔ اِس راستے سے اختلافی مسائل پر گفتگو کا آغاز ہو گا اور قدرتی بات ہے کہ باہمی عداوت اور چپقلش سے دور رہتے ہوئے مشترکہ نکات پر گہری علمی گفتگو اِن نکات پر مفاہمت پر منتج ہو گی۔

ضروری نہیں کہ ایک تہذیب کے تعلقات دوسری تہذیب سے ہمیشہ نزاع اور چپقلش ہی کی حالت میں رہیں اور اِس بنیاد پر وہ ایک دوسرے کو ختم کرنے کے درپے رہیں، بلکہ مشترکہ نکات کی اساس پر بہتر حالات کی دستیابی کے لیے باہمی گفت و شنید کی بنیاد پر بھی تعلقات استوار کیے جا سکتے ہیں۔ اِس طرح وحدت اور عالمی صلح کے قیام کے لیے مناسب مواقع میسر آ سکتے ہیں۔

تہذیبوں کے مابین گفتگو کے بکثرت مفید نتائج ہیں۔ اِن میں سے ایک یہ ہے کہ ہر تہذیب دوسری تہذیب سے وہ چیزیں اخذ کر سکے گی جو اُس کے فکری اصولوں سے موافق ہوں۔

*** سوال : بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مغرب کے مقابلے میں عالمِ اسلام کی پسماندگی کا ایک سبب یہ ہے کہ عالمِ اسلام میں افکار و نظریات اور فہمِ اسلام کا اختلاف پایا جا تاہے، یہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے موجودہیں۔ اِس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

*** جواب : ہمارے خیال میں اِس پسماندگی کا سبب فہمِ اسلام میں اجتہاد کا اختلاف نہیں۔ بلکہ اِس کا سبب تعصب ہے، فکری تعصب ہے جو انسان پر اِس طرح چھا جاتا ہے کہ وہ دوسرے کے فہم کا انکار کرنے لگتا ہے، اپنے آپ کو حقیقت ِمطلق کا مالک سمجھنے لگتا ہے اور دوسروں کی کسی بات کی ذرّہ برابر حقیقت کا قائل نہیں ہوتا۔

تعصب یہ ہے کہ انسان فریقِ مخالف کے افکار و خیالات کے مبانی اورماہیت کو سمجھنے کے لیے گفتگو سے انکار کر دے۔یہ تعصب آج بھی بعض ایسے علما میں نظر آتا ہے جو روشن فکر نہیں اور دوسروں سے گفتگو، اُن کی بات سمجھنے اور مقابل فریق کو حیثیت دینے کے بارے میں شرحِ صدر کے مالک نہیں۔ یہ لوگ اجتہادی مسائل کا سامنا یا تو مطلق منفی یا مطلق مثبت ذہنیت کے ساتھ کرتے ہیں۔

لہٰذا آراء و نظریات کا اختلاف نہیں بلکہ تعصب ہے جس نے اسلامی معاشروں کو زوال سے دوچار کیا ہے۔کیونکہ کسی معاشرے میں آراء و افکار کی کثرت اور اختلاف معاشرے کی بنیادوں کو منہدم نہیں کر سکتے۔ مختلف آراء و نظریات کا اظہار تو معاشرے کی ترقی اور وہاں فکری سرمائے کی فراوانی کا سبب ہوتا ہے۔

پھر اجتہادی اختلاف ِ رائے صرف اسلامی معاشروں ہی میں نہیں پایا جاتا، بلکہ یہ مغرب میں بھی موجود رہا ہے اور اب بھی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب میں بھی بعض مفکّرین شہنشاہیت کو ماڈل قرار دیتے ہیں اور اُسے عدل و انصاف کے قیام کا ذریعہ سمجھتے ہیں، جبکہ بعض دوسرے مفکّرین جمہوریت کو عدالت کے قیام کا فطری ذریعہ کہتے ہیں، کچھ عرصے پہلے تک بعض لوگ آمریت کو بہترین طرز ِ حکومت سمجھتے تھے اور بعض دوسروں کے خیال میں جمہوریت ہی حکومت کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ اِس مسئلے پر مغرب میں مسلسل نزاع رہا ہے اور طویل عرصے تک بحث و مباحثہ ہوا ہے۔ اِسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ خود مغرب ہی ہے جس نے اقتصادی میدان میں سوشلزم اور کیپٹل ازم کو متعارف کرایا ہے۔

لہٰذا ہم کہتے ہیں کہ اجتہاد کا اختلاف مشکل کا سبب نہیں، بلکہ مشکل پیدا کرنے والی چیز تعصب اور جمود ہے۔ کیونکہ اہلِ مغرب طرز ِ حکومت، اقتصادی مکاتب اور انسانی حقوق کے بارے میں تمام تراختلافِ رائے کے باوجود ایسے مضبوط نظاموں کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں جن میں مختلف افکار و آراء کا احترام کیا جاتا ہے، اور وہاں سیاسی، اقتصادی اور مذہبی اختلاف ِنظر کوئی خطرہ نہیں رکھتا۔ جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم ہر قسم کے فقہی، سیاسی، فلسفی اور کلامی اختلاف سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ کیونکہ ہم نے ایسا ماحول پیدا ہی نہیں کیا جس میں اطمینان کے ساتھ مختلف فکری نقطہ ہائے نظر کو پیش کیا جا سکے۔ کیونکہ اب بھی اسلامی معاشروں کے سربرآوردہ افراد کے ذہنوں پر شخصیت پرستی حاوی ہے، یہاں تک کہ وہ دوسروں کو مخالف آراء پیش کرنے تک کی اجازت نہیں دیتے۔

ہمیں قرآنی طرز ِ عمل کی پیروی کرنی چاہیے جو دشمنانِ اسلام سے بھی انتہائی گہرے اور ظریف اسلوب اور نہایت عاقلانہ طریقے سے گفتگو کرتا ہے : ھَاتُوْا بُرْھَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ۔(اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل لے آئو ۔ سورئہ بقرہ ۲ - آیت ۱۱۱) وَاِنَّآ اَوْ اِيَّاكُمْ لَعَلٰى ہُدًى اَوْ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ۔( ہم یا تم یا تو ہدایت پر ہیں یا کھلی ہوئی گمراہی میں۔ سورئہ سبا ۳۴ - آیت ۲۴) ھٰٓاَنْتُمْ ھٰٓؤُلَاۗءِ حَاجَجْتُمْ فِـيْمَا لَكُمْ بِہٖ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاۗجُّوْنَ فِيْمَا لَيْسَ لَكُمْ بِہٖ عِلْمٌ۔(اب تک تم نے اُن باتوں میں بحث کی ہے جن کا کچھ علم تھا، تو اب اِس بات میں کیوں بحث کرتے ہو جس کا کچھ بھی علم نہیں ہے۔ سورئہ آلِ عمران ۳ - آیت ۶۶)

مغرب نے اپنی زندگی کے بعض اطوار میں اسلامی قدروں کو اپنایا ۔اور ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اِن امور میں کافروں کی منطق اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ یہاں تک کہ بعض افراد اپنے مخالفین کا سامنا کرتے ہوئے اُس طرز ِ عمل کی پیروی کرتے ہیں جو کفر پیشہ اقوام انبیاؑ کے خلاف اپناتی تھیں۔

*** سوال : ہم یہاں مغربی اور اسلامی معاشروں کے اندر پائے جانے والے اختلافات کی ماہیت کو پیشِ نظر رکھیں تو پتاچلتا ہے کہ مغربی معاشروں میں پایا جانے والا اختلاف اکثر سیاسی افکار اور فلسفوں کے بارے میں ہے اور وہ سب اِس بنیادی نکتے پر متفق ہیں کہ ان کی آراء و نظریات حقیقت سے نسبتاًنزدیک ہیں اور ممکن ہے یکسر حق نہ ہوں، لیکن اسلامی معاشروں اور مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات اکثر مذہبی نوعیت کے ہیں اور اِس سلسلے میں فقہا کی آراء مقدس اور قطعی سمجھی جاتی ہیں۔

*** جواب : پہلی بات تو یہ ہے کہ مغرب میں بھی ہردورمیںمقدس امور کے بارے میںاختلاف رہا ہے۔ مسیحی فرقوں کیتھولک، آرتھوڈکس اور پروٹسٹن کے درمیان انتہائی شدید اختلافات رہے ہیں۔ مثلا ً حضرت عیسیٰ مسیح کی شخصیت کے بارے میں اختلاف رہا ہے کہ آیا آپ کی شخصیت خدائی ہے یا بشری۔

اہلِ مغرب بھی گزشتہ صدیوں میں مسلمانوں ہی کی مانند باہم برسرِپیکار رہے تھے، لیکن بالآخر وہ اِس نتیجے پر پہنچے کہ عقیدتی اختلاف کو اُن حدود میں رکھا جائے جو اُن کے لیے مشکل کا سبب نہ بنیں۔

یہ تو ٹھیک ہے کہ فقیہ جس حکم کا استنباط کرتا ہے اُس کے بارے میں اُس کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ یہی خدا کا حکم ہے، لیکن اِس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی مانتا ہے کہ اِس کا اخذ کردہ حکم ظنّی ہے قطعی نہیں۔ کیونکہ اِس کے استنباط کے مبانی ظنّی مقدمات سے حاصل شدہ ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ جس چیز کو وہ بیان کرتے ہیں وہ پست ترین مقدمات (اَخَسَّ الْمُقَدَّمَتَیْنِ) کے تابع ہے۔

جب فقیہ یہ جانتا ہے کہ اُس نے جس حجّت اور دلیل پر اعتماد کیا ہے اُس کا نتیجہ حتمی نہیں بلکہ ظنّی ہے، تو قدرتی بات ہے کہ اُس کے پاس دوسرے کی رائے کو درست اور حقیقت پر مبنی سمجھنے کا امکان موجود ہے۔

یہ کہنا کہ اسلام حقیقت ِمطلق کا مالک ہے اور یہ کہنا کہ مجتہدین حقیقت ِمطلق کے حامل ہیں، اِن دونوں باتوں کے درمیان بہت فرق ہے۔ یہ کہنا کہ مجتہد کی رائے حقیقت ِمطلق ہے مصوّبہ کا عقیدہ ہے، لیکن فقہا خصوصاً شیعہ امامیہ تصویب کا عقیدہ نہیں رکھتے اور اپنے آپ کو مصیب ِقطعی نہیں سمجھتے۔کیونکہ ہمارے یہاں مشہور ہے کہ:

اَنَّ حُکْمَ اللّٰہِ وَاحِدٌ یُصِیْبُہُ مَنْ یُصِیْبُہُ وَ یُخْطِئُہُ مَنْ یُخْطِئُہُ ۔

یعنی خدا کا ایک ہی حکم ہے، جس نے اِس حکم کو دریافت کر لیااُس نے دریافت کیا اور جس نے دریافت نہیں کیا اُس نے غلطی کی ہے

بسا اوقات مجتہد اِس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ جوچیز اُس نے اجتہاد کے ذریعے اخذ کی ہے اُس کے بارے میں اُس پر حجّت تمام ہو گئی ہے۔ یہ کہنے اور حکم کو قطعی اور حتمی سمجھنے میں بہت فرق ہے۔ لیکن اگر اِس کے برعکس کہا جائے ( کہ مجتہد نے جو رائے اخذ کی ہے وہ حتمی اور قطعی ہے) تو پھر مجتہدین کی آراء میں جو اختلاف پایا جاتا ہے اُس کی کیا تفسیر کی جائے گی؟ لہٰذا کس طرح ممکن ہے کہ ایک مجتہد دوسرے مجتہد کی صرف اِس بنا پر تکفیر کرے کہ ُاس نے استنباط میں غلطی کی ہے؟ (جبکہ یہ بھی معلوم ہو کہ اُس نے استنباط کے دوران اجتہاد کے معروف طریقوں کو اختیار کیا ہے)

ایسے لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی رائے حقیقت ِمطلق ہےوہ کم و بیش پسماندہ ذہنیت کے مالک ہیں، کیونکہ وہ اِس جانب بھی متوجہ نہیں ہوتے کہ اُن کے عمل کا اسلوب ظنّی ہے قطعی اور یقینی نہیں ہے۔

اِس بنا پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بہت سے مسلمان محققین (خواہ وہ فقہ سے متعلق ہوں یا کلام سے) کی مشکل یہ ہے کہ وہ فقہی یا کلامی اختلاف کے بارے میں افراط کا شکار ہو جاتے ہیں۔

*** سوال : کیا ہم قرآنِ کریم یا دوسرے اسلامی مصادر سے آزادی کا مفہوم معلوم کر سکتے ہیں؟

*** جواب : انسان کی فکری آزادی کے مسئلے کو قرآنِ کریم سے باآسانی معلوم کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ کلامِ الٰہی میں آیا ہے کہ:وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۣ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ۔(اور کہہ دو کہ حق تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے، اب جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے کفر اختیار کرے۔ سورئہ کہف ۱۸ - آیت ۲۹)اِنَّا ہَدَيْنٰہُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا۔(یقینا ہم نے اسے راستے کی ہدایت دے دی ہے چاہے وہ شکر گزار ہو جائے یا کفران کرنے والا ہو جائے۔ سورئہ انسان ۷۶ - آیت ۳)

لہٰذاانسان سوچ بچار، فکر و رائے میں آزاد ہے اور انسان کی صورت میں اُس کی تخلیق اِسی صورت میں بامعنی بھی ہے۔ اِس بنیاد پر آزادی انسان کی ذات سے جدا اور علیحدہ کوئی چیز نہیں، کہ جسے (اِس سے علیحدہ )دوسری چیزوں کی مانند چھینا جا سکےء یا اُس کے لیے ممنوع کی جا سکے ۔ یہ انسان کے لیے ایک ذاتی امر ہے کیونکہ خداوند ِعالم نے اُسے آزاد خلق کیا ہے۔

البتہ ایک دوسرا مسئلہ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ خداوند ِعالم انسان کی آزادی کا قائل ہونے کے بعد اُسے یہ بھی باور کراتا ہے کہ یہ آزادی بے لگام نہیں، بلکہ ذمے داریوں کے ہمراہ ہے اور اُسے اِس آزادی کے استعمال کے مثبت اورمنفی نتائج کا جوابدہ ہونا پڑے گا۔

اِسی طرح یہ بھی طبیعی ہے کہ ہر نظام کو معاشرے میں عمومی نظم و نسق کی حفاظت کے لیے لوگوں کی آزادی کے نتیجے میں سامنے آنے والے مثبت اور منفی نتائج پر گہری نگاہ رکھنی چاہیے۔ کیونکہ بسا اوقات ایک شخص کی آزادی دوسرے لوگوں کی آزادی کے لیے ضرر رساں ہوتی ہے۔

البتہ اگرفکری آزادی سے یہ مراد لی جائے کہ لوگوں کو اپنے ہر طرح کے افکار، حتیٰ ایسے افکار کی نشرو اشاعت کی بھی آزادی دی جائے جو عقیدتی، شرعی یا مفہومی اعتبار سے اسلام یا اسلامی نظام کی مخالفت پر مبنی ہوں، تو ایسی فکری آزادی کے معاشرے پر مثبت یا منفی اثرات کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے اِس مسئلے پر تحقیق اور مطالعے کی ضرورت ہے۔

ہمارے بہت سے فقہا نے کتب ِ ضلال کو پڑھنے، (سوائے اِس صورت میں جب اُن کا مطالعہ کر کے اُن کی رد کرنا مقصود ہو) اُنھیں محفوظ رکھنے اور اُن کی نشرو اشاعت کے حرام ہونے کے بارے میں گفتگو کی ہے، اور یہ استدلال کیا ہے کہ عقل کہتی ہے کہ اِن کتب کی حفاظت اور نشرو اشاعت باطل کی تقویت اور حق کی کمزوری کا سبب ہوتی ہے، جبکہ اِن کتب کو محدود اورنابود کرنا حق کی تقویت اور باطل کی کمزوری کا سبب ہوتا ہے۔ اور عقل کہتی ہے کہ حق کو تقویت دینا اور باطل کو کمزور کرنا واجب ہے۔

لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ بہت سے فقہااپنے ظن اور گمان ہی کو قرین عقل قرار دیتے ہیں۔ ہر ایک اُسی چیز کو عقلی سمجھتا ہے جسے اُس کی ذہنیت اور تعلیم و تربیت عقلی قرار دیتی ہے۔ حتیٰ ہم ایسے موارد بھی دیکھتے ہیں جب ایک فقیہ کسی ایک چیز کو عقلی سمجھتا ہے اور دوسرا فقیہ اُس کے یکسر بر خلاف چیز کو عقل کا فیصلہ قرار دیتا ہے۔

ہمارے خیال میں پرانے زمانے میں ایسے حالات تھے کہ لوگ افکار کو محبوس کرنے اور فکری آزادی سلب کرنے میں ایک حد تک کامیاب ہو جایا کرتے تھے، کیونکہ اُس وقت دنیا ایک محدود اور تنگ چار دیواری میں محصور تھی اور عالمی سطح پر کسی فکر کی نشر و اشاعت ممکن نہ تھی، اورقدرتی بات ہے کہ ایک فکر پر دبائو اُس کی کمزوری کا سبب ہوتا ہے۔ لیکن آج دنیا ایک چھوٹے سے دیہات میں تبدیل ہو چکی ہے اور فکری آزادی کا مسئلہ ایک ایسے مسئلے کی صورت میں ڈھل چکا ہے جو عالمی پیمانے پر انسانی حقوق میں سے سمجھا جانے لگا ہے اور کسی فکر پر دبائو اور شدت کا استعمال اُسے عالمی تشہیر کا موقع فراہم کر دیتا ہے (چاہے وہ فکر اِس کی مستحق نہ ہو) جبکہ اگر اُسے آزاد چھوڑ دیا جاتا تو بہت کم لوگ اُس کی جانب متوجہ ہوتے۔

اگر اسلای عقیدے اور تعلیمات کی حفاظت کے لیے سرگرم عناصر کسی ایسی فکر سے روبرو ہوں تو اُنھیں چاہیے کہ وہ بجائے دبائو اور حملوں کے اُسے دلیل اور برھان سے رد کرنے کی کوشش کریں۔لہٰذا ہمارے خیال میں اگر اِس مسئلے کا غور اور گہرائی کے ساتھ عصرِ حاضر کے حالات کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے مطالعہ کیا جائے تو پتا چلے گا کہ کسی فکر پر جبر اور دبائو کا استعمال اُس کی تقویت اور اُس کے مخالفوں کی کمزوری پر منتج ہوتا ہے۔ اِس کے برخلاف فکر کو آزاد چھوڑ دینا اُس کے اثرات کی کمی اور اُس کی سرگرمیوں کا دائرہ تنگ ہو جانے کا موجب ہوتا ہے، اور بسا اوقات تو لوگ اُن کی باتوں پر کان دھرنے کو بھی تیار نہیں ہوتے چہ جائیکہ اُن کی جانب کوئی رُخ کرے۔

ہم نے لبنان، مصر اور عراق کے تجربے میں دیکھا ہے کہ ایسی کتابیں جن میں دین پر تنقید کی گئی ہے، جب دینی حلقوں نے اُن کے خلاف مہم چلائی تو اُن کتابوں کی مانگ میں اضافہ ہوا اور اُن کے کئی کئی ایڈیشن طبع ہوئے ۔ حتیٰ ایسے لوگوں نے بھی اُن کو خریدا ہے جن کی سطح کی یہ کتب نہ تھیں۔ کیونکہ ایسی صورت میں اُن کتب کی پیشانی پر آزادیٔ اظہار کا لیبل چسپاں ہو گیا تھا ۔

مثلاً مصر میں ایک مصنف ہے جس کا نام“ نصرحامد ابو زید ” ہے، اُس کی کتابیں بہت کم پڑھی جاتی تھیں۔ اُس کے چاہنے والے بھی بہت کم تھے۔ لیکن جب اُس کی فکر کو روکنے کی کوشش ہوئی تو اُس کی کتابوں کی ایڈیشن پر ایڈیشن چھپنے لگے، حتیٰ ایسے لوگوں نے بھی اُس کی کتابوں کو خریدا اور اُنھیں پڑھا جو اُس کے نام تک سے واقف نہ تھے۔ دوسرا تجربہ عراق اور لبنان کی کمیونسٹ پارٹی کا ہے ۔ یہ پارٹی عراق میں سخت دبائو میں تھی، لیکن اِس کے باوجود پورے عراق پر چھا گئی ۔ اِس کے برخلاف لبنان میں کمیونسٹ پارٹی کو مکمل آزادی حاصل تھی، لیکن تقریبا ًستّر برس بعد بھی وہ ایک مختصر گروہ کے سوا کسی کو جذب نہ کر سکی۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ مظلوم کے طرفدار ہوتے ہیں۔ چنانچہ جب کوئی کتاب آزادانہ طور پر بازار میں آتی ہے تو بسا اوقات تو اُس کا پہلا ایڈیشن ہی فروخت نہیں ہو پاتا اور اُس کے بیشتر نسخے دکان ہی میں پڑے رہ جاتے ہیں۔

لہٰذا آزادیٔ فکر کی بحث میں ہمیں آزادی دینے یا آزادی پر پابندی لگانے کے مثبت اورمنفی نتائج کا گہری نظر سے جائزہ لینا چاہیے، نیز یہ بھی ضروری ہے کہ حکمِ عقل کے تحت مطلق پیمانے پر اِس کے بارے میں سوچنے کی کوشش نہ کریں، کیونکہ مسائل کے حقیقی اثرات کے بارے میں غور و فکر کرنا چاہیے، خیالی اثرات کے بارے میں نہیں۔