۱ ولایت سے انحراف
علمائے دین سے حسین ابن علی ؑ کا خطاب • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
اس خطبے میں امام حسین ؑ نے جس بات کی طرف سب سے پہلے اشارہ کیا وہ (لوگوں کا) حق سے منحرف ہوجانا، ولایت اورحکومت کو اس کے صحیح راستے سے ہٹا دینا اور اس بنیادی ترین مسئلے کے بارے میں رسولِ گرامیؐ کی وصیت کو بھلا دینا تھا۔
رسولِ گرامی صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے اعلانِ نبوت کے ابتدائی ایام سے لے کر اپنی نبوت کی پوری ۲۳ سالہ مدت میں متعدد مرتبہ امامت اور ولایت کے موضوع پر گفتگو کی اور اس سلسلے میں مختلف موقعوں پر، مختلف طریقوں سے لوگوں کے سامنے حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑ کا تعارف کرایاانہی مواقع میں سے ایک نمایاں اور محسوس موقع سد ابواب (گھروں کے دروازے بند کروانے) والا واقعہ ہےمدینہ تشریف لانے کے بعد رسولِ کریم ؐ نے مسجد تعمیر کروائی اور پھر اسکے اطراف مکانات اور حجرے بنوانے کے دوران سدالابواب الاباب علی(۱) کادوٹوک حکم صادر فرمایااور اسکے بعد وضاحت فرمائی : ما انا سددت ابوابکم ولکن اﷲ امرنی بسدابوابکم و فتح بابہ (میں نے اپنی طرف سے دروازے بند نہیں کروائے ہیں بلکہ مجھے اﷲ نے حکم دیا ہے کہ تمہارے دروازے بندکرا دوں اوران (علی ؑ ) کا دروازہ کھلا رکھوں۔
یہ تعارف اسکے بعد بھی انت ولی کل مومن بعدی(۲) اور ایسے ہی دوسرے ارشادات کے ذریعے جاری رہایہاں تک کہ رسولِ کریمؐ نے اپنی زندگی کے آخری مہینوں اور آخری ایام میں اس حساس اور اہم موضوع کو عوام الناس کے درمیان انتہائی کھلے لفظوں میں، غدیر خم کے موقع پر اور مسجد ومنبر سے بیان کیا، تاکہ پھراسکے بعد کسی کے لئے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہے اور کسی کو تاویل وتفسیر کا کوئی راستہ نہ ملےمنیٰ کے جلسے میں موجود متعدد افراد خود ان مواقع کے شاہد و ناظر تھے یا انہوں نے قابلِ اعتماد اصحاب اور عینی شاہدوں سے سنا تھا۔ لہٰذا امام حسین علیہ السلام کے ہر بیان کے بعد ان کاجواب یہی تھا کہ اللھم نعم۔
بہر صورت وجہ کوئی بھی ہو (رسولِ اکرمؐ کی تمام تر کوششوں کے باوجود) یہ انحراف وجود میں آیااور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا گیاکیونکہ خلافت کا پہلا مرحلہ (رسولِ اکرمؐ کی) وصیت کی نفی کر کے اصحاب کے اجماع اور فیصلے کو دلیل بنا کر طے کر لیا گیا جبکہ صرف دو سال بعد دوسرا مرحلہ اجماع کو پس پشت ڈال کے، صاحبِ نظر افراد کے کسی قسم کے اظہارِ نظر کے بغیر، اربابِ حل و عقد اور ماہرین کی رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے وصیت کی بنیاد پر طے کیا گیا، اور اسکے دس سال بعد خلیفۂ سوم کے انتخاب کے لئے گزشتہ دو خلفا کے انتخاب کے طریقے کے برخلاف شوریٰ کے نام سے ایک تیسرا راستہ اپنایا گیا خلیفہ کے انتخاب کے سلسلے میں اختیار کئے جانے والے یہ تین مختلف اورمتضاد راستے اور راہِ حق کے مقابلے میں ایجاد ہونے والا یہ انحراف شاید بعض افراد کے نزدیک صرف ماضی کی ایک داستان اور انجام پا چکنے والا عمل ہولیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے جوتلخ نتائج اورنقصانات سامنے آئے وہ اتنے گہرے اور وسیع ہیں کہ نہ ہی اجتماعی امور کا کوئی ماہر ان کا مکمل تجزیہ و تحلیل کر سکتا ہے اور نہ ہی حتیٰ کوئی محقق اور مورخ انہیں کماحقہ بیان کر سکتا ہے۔
۱علی کے سوا سب کے دروازے بند کر دو۔
۲(اے علی) آپ میرے بعد تمام مومنوں کے سرپرست ہوں گے۔