کتبِ حدیث میں اس خطبے کا مضمون اور اس کے نقل کی کیفیت
علمائے دین سے حسین ابن علی ؑ کا خطاب • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
امام حسین علیہ السلام کے خطبات میں سے ایک انتہائی اہم، ولولہ انگیز اور تاریخی خطبہ وہ ہے جو آپ ؑ نے سن ۵۸ ہجری میں، امیرمعاویہ کی موت سے دو سال قبل ایسے حالات میں ارشاد فرمایا جب اموی حکومت نے امتِ اسلامی کو شدید ترین ظلم وستم اور خوف و ہراس سے دوچار کیا ہوا تھااگرچہ اس خطبے کے متعدد پہلو ہیں اور اس میں مختلف موضوعات ذکر ہوئے ہیں لیکن مجموعی طور پر یہ خطبہ تین علیحدہ علیحدہ حصوں پر مشتمل ہے۔
پہلا حصہ : امیر المومنین ؑ اور خاندانِ اہلِ بیت ؑ کے فضائل پر مشتمل ہے۔
دوسرا حصہ : امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی دعوت اور اس عظیم اسلامی ذمے داری کی اہمیت کے ذکر پر مشتمل ہے۔
تیسرا حصہ : علما کی ذمے داری اور ان پر مفسدوں اور ظالموں کے خلاف جد و جہد کا واجب ہونا، ظالموں کے سامنے علما کی خاموشی کے نقصانات اور اس بڑی دینی ذمے داری کی انجام دہی کے سلسلے میں سستی کے نقصان دہ اور خطرناک اثرات کے جائزے پر مشتمل ہے۔
پہلا حصہ کتاب (سلیم بن قیس ہلالی)(۱) میں اوردوسرااورتیسراحصہ احادیث کی دوسری کتابوں میں درج ہوا ہےاس خطبے کے تین علیحدہ حصوں پر مشتمل ہونے کی مناسبت سے مختلف مورخین، محدثین، علما اور محققین نے اپنی اپنی کتب میں خطبے کے اسی حصے کو درج کرنے پر اکتفا کیا ہے جو ان کی بحث سے تعلق رکھتا تھا اور باقی حصوں کو نقل کرنے سے گریز کیا ہے۔ یہاں تک کہ بعض نے اس خطبے کا فقط ایک جملہ نقل کیا ہے(۲) اور کبھی اس خطبے کے مجموعی مضمون کی جانب اشارہ کیا گیاہے۔
اسی طرح خطبے کے مختلف حصوں کو نقل کرتے ہوئے علمائے کرام نے بعض اوقات خطبہ ارشاد فرمانے کے مقام اورزمانے کی نشاندہی کی ہے اورکبھی محدثین کے معمول کے مطابق صرف متن تحریر کرنے پر اکتفا کیا ہےمثال کے طور پر :
۱ سلیم بن قیس ہلالی (وفات ۹۰ ہجری) نے اپنی بحث کی مناسبت سے خطبے کے پہلے حصے کا ذکر کیا ہے، جو اہلِ بیتِ اطہار ؑ کے فضائل سے متعلق ہے اور خطبہ ارشاد کئے جانے کے مقام اورتاریخ کو بھی واضح کیا ہے۔
۲ چوتھی صدی ہجری کے عظیم محدث (حسن بن شعبہ حرانی) نے اپنی گرانقدر کتاب (تحف العقول) میں خطبے کے صرف دوسرے اور تیسرے حصے کے متن کو نقل کیا ہے۔
۳ مرحوم طبرسی (وفات ۵۸۸ھ) نے خطبہ دیئے جانے کے اسباب کو بیان کرتے ہوئے (جو امیرمعاویہ کی حکومت کاحد سے بڑھا ہوا ظلم وستم تھا) چند سطور میں محض اس کا خلاصہ تحریر کیا ہے اور وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ خطبہ معاویہ کی موت سے دو سال قبل سر زمین منیٰ میں اس زمانے کے ایک ہزار سے زائد مذہبی عمائدین کے رو برو دیا گیا۔ (۳)
۴ مرحوم علامہ مجلسی، فیض کاشانی اور آیت اﷲ شہیدی تبریزی نے بھی (اس خطبے کے) آخری دو حصوں کو (تحف العقول) سے نقل کیا ہے، لیکن پہلے حصے یا خطبہ دیئے جانے کے مقام اور اس کی تاریخ کی جانب کوئی اشارہ نہیں کیا۔ (۴)
۵ مرحوم علامہ امینی نے (الغدیر) میں پہلے حصے کے چند جملات درج کئے ہیں، جن میں امیر المؤمنین علیہ السلام کے فضائل بیان ہوئے ہیں۔ (۵)
۶ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی آیت اﷲ العظمیٰ سید روح اﷲ خمینی رضوان اﷲ تعالی علیہ نے ولایت فقیہ کی بحث کی مناسبت سے اور علمائے دین کی ذمے داریوں کو بیان کرتے ہوئے اس خطبے کے آخری دو حصے تحف العقول سے نقل کئے ہیں(۶) لیکن (تحف العقول) کے مصنف اور اسی طرح مرحوم فیض کاشانی ا ور علامہ مجلسی کے برخلاف آپ نے واضح طور پر لکھا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے یہ خطبہ (دوسرا اور تیسرا حصہ) منیٰ میں ارشاد فرمایا۔
اس تمہید کا مقصد اس نکتے کی وضاحت ہے کہ اگر چہ علما، محققین اور محدثین نے اس خطبے کو مختلف اور متعدد حصوں کی صورت میں نقل کیا ہے لیکن مجموعی طور پر یہ ایک ہی خطبہ ہے اور یہ وہی خطبہ ہے جسے حسین ابن علی ؑ نے منیٰ میں ایک خاص حالت میں، جسے آپ ملاحظہ فرمائیں گے ارشاد فرمایا ہے اس خطبے کی اہمیت کے پیشِ نظر اور یہ دیکھتے ہوئے کہ تاریخ اور حدیث کی کتابوں میں اس خطبے کے تمام حصے یکجا درج نہیں کئے گئے، ہم نے یہاں مکمل خطبہ نقل کیا ہے۔
۱سلیم بن قیس ہلالی ابن صادق عامری کوفی تابعی امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے لے کر امام محمد باقر علیہ السلام تک پانچ ائمہؑ سے مستفیض ہوئے اور امام سجاد علیہ السلام کے دورِ امامت میں تقریباً ۹۰ ہجری میں ان کی وفات ہوئیوفات کے زمانے میں وہ حجاج بن یوسف کے خوف سے روپوشی کی زندگی گزار رہے تھےان کی کتاب جسے اصل (سلیم بن قیس) بھی کہا گیا ہے ان ابتدائی کتب میں سے ہے جو شیعوں نے تالیف کیں اور یہ کتاب شیعہ اور سنی علما میں معروف اور مشہور ہے۔
ابن ندیم (وفات ۳۸۵ ھ) فرماتے ہیں: کتاب سلیم بن قیس شیعوں کی ابتدائی ترین کتب میں سے ہے۔ چوتھی صدی ہجری کے عالم ابو عبداﷲ نعمانی جو (کافی کے مصنف) مرحوم کلینی کے شاگردوں میں سے ہیں اور کتاب ( غیبت نعمانی) کے مصنف ہیں، فرماتے ہیں : شیعہ احادیث کے تمام راوی اور علما متفق ہیں کہ کتاب سلیم بن قیس بہترین اور قدیم ترین اصول میں سے ہےکیونکہ جو کچھ اس کتاب میں ذکر ہوا ہے، وہ یا تو براہِ راست امیر المومنین ؑ سے سنا گیا ہے یا سلمان، ابوذر، مقداد اور ان جیسے افراد سے جنہوں نے رسول اﷲؐ اور امیر المومنین ؑ سے احادیث سنی ہیں۔ (کتاب سلیم بن قیس کے بارے میں مزید معلومات کے لئے رجوع کریں : الذریعہ۔ ج ۱ ص ۱۵۲)
۲جیسا کہ شیخ انصاری نے کتاب (مکاسب) اور مرحوم کمپانی نے (حاشیۂ مکاسب) میں ولایتِ فقیہ کی بحث میں ایک ایک جملہ نقل کیا ہے۔
۳۔ احتجاج۔ ج ۲ص ۱۷
۴بحارالانوار نیا ایڈیشن۔ ج ۱۰۰۔ ص ۷۹، وافی باب الحثّ، علی الامربالمعروف والنہی عن المنکر، حاشیۂ مکاسب بحث ولایتِ فقیہ۔
۵العذیر ج ۱ص ۹۹ ۱
۶ولایتِ فقیہ ص ۵ ۱۲