امر بالمعروف و نہی عن المنکرکی دعوت
علمائے دین سے حسین ابن علی ؑ کا خطاب • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
خطبے کے دوسرے حصے کامتن (امر بالمعروف و نہی عن المنکرکی دعوت)
جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا، یہ خطبہ تین علیحدہ علیحدہ حصوں پر مشتمل ہےترجمے اور اصل عبارت کو ایک دوسرے سے نزدیک رکھنے کی غرض سے، ہم پہلے حصے کی طرح اس حصے اور اگلے حصے کو بھی علیحدہ علیحدہ درج کریں گے، اگرچہ حدیث کی اکثر کتابوں میں یہ دونوں حصے ایک ساتھ ملا کر نقل کئے گئے ہیں امام ؑ نے فرمایا :
اِعْتَبِرُوْا اَیُّھا النّٰاسُ بِمٰا وَعَظَ اللّٰہُ بِہِ اَوْلِیٰاءَہُ مِنْ سُوْءِ ثَنٰاءِہِ عَلیٰ الاَحْبٰارِ اِذْ یَقُوْلُ : لَوْلاٰ یَنْھٰاھُمُ الرّّبّٰانِیُّوْنَ وَ الاَحْبٰارُ عَنْ قَوْلِھِمُ الاِثْمَ وَ قٰالَ : لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِی اِسْرٰاءِیْلَ (اِلٰی قَوْلِہِ) لَبِءْسَ مٰا کٰانُوْا یَفْعَلُوْنَ وَ اِنَّمٰا عٰابَ اﷲُ ذٰلِکَ عَلَیْھِم لاَنَّھُمْ کٰانُوْا یَرَونَ مِنَ الظَّلَمَۃِ الَّذِیْنَ بَیْنَ اَظْھَرِھِمُ الْمُنْکَرَ وَ الْفَسٰادَ فَلاٰ یَنْھَوْنَھُمْ عَنْ ذٰلِکَ رَغْبَۃً فیمٰا کٰانُوْا یَنٰالُوْنَ مِنْھُمْ وَ رَھْبَۃً مِمّٰا یَحْذَرُوْنَ وَ اﷲُ یَقُوْلُ : فَلاَ تَخْشَوُا النّٰاسَ وَ اخْشَوْنِ وَ قٰالَ : الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰاتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیآءُ بَعْضٍ یامُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ فَبَدَءَ اﷲُ بِاْلأَمْرِ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّھْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ فَرِیضَۃً مِنْہُ لِعِلْمِہِ بِاَنَّھٰا اِذٰا اُدِّیَتْ وَ اُقٖیْمَتْ اِسْتَقٰامَتِ الْفَراءِضُ کُلُّھٰا ھَیَّنُھٰا وَ صَعْبُھٰا وَذٰلِکَ أَنَّ اْلاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّھْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ دُعٰاءٌ اِلیٰ اْلاِسْلاٰمِ مَعَ رَدِّ الْمَظٰالِمِ وَ مُخٰالَفَۃِ الظّٰالِمِ وَ قِسْمَۃِ الْفَیءِ وَ الْغَنٰاءِمِ وَ اَخْذِ الصَّدَقٰاتِ مِنْ مَوٰاضِعِھٰا وَ وَضْعِھٰا فٖی حَقِّھٰا .
وضاحت
( تحف العقول) کے مصنف نے یہ خطبہ نقل کرتے ہوئے کہا ہے: ویروی عن امیر المومنین علیہ السلامیعنی امام حسین علیہ السلام کے خطبے کا یہ حصہ (جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں ہے) امیر المومنین حضرت علی ؑ سے بھی نقل ہوا ہے۔
جیسا کہ خطبے کے تیسرے اور آخری حصے میں ہم اشارہ کریں گے، اس حصے کے بعض جملات بھی امیر المومنین ؑ کے خطبات اور بیانات میں موجود ہیں اور موضوع کی اہمیت اور نزاکت کے پیشِ نظر امام حسین ؑ نے اپنے خطبے اور تقریر میں ان سے استفادہ کیا ہے اور (تحف العقول) کے مصنف کی بات کی بنیاد پریہ بھی ممکن ہے کہ اس خطبے کا وہ حصہ درحقیقت امیر المومنین ؑ ہی کا کلام ہو جس سے ان کے محترم فرزند امام حسین ؑ نے امربالمعروف اور نہی عن المنکرکی اہمیت اور اس کی عظمت بیان کرنے کی غرض سے استفادہ کیا ہولیکن ہم نے خطبے کے اس حصے کے براہِ راست امیر المومنین ؑ سے استناد کے بارے میں (تحف العقول) کے سوا حدیث کی کسی اور معتبر کتاب میں نہیں دیکھا۔
اہم الفاظ کی تشریح
اِعتَبروا اَیُّھا النّاسُ : اس طرح کچھ خاص افراد، اس محفل میں موجود حاضرین یا حتیٰ صرف اس زمانے کے افراد مخاطب نہیں ہیں بلکہ اس خطاب میں وہ تمام انسان شامل ہیں جو کسی بھی زمانے میں اور دنیا کے کسی بھی گوشے میں اس خطاب کو سنیںیہ بالکل یا ایھا الناس کی مانند ہے، جس کے ذریعے قرآنِ مجید میں بارہا اور متعدد مقامات پر خطاب کیا گیا ہے۔
اولیاء : یہاں اولیا سے مراد وہ افراد ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی جانب توجہ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی معاشرے میں بھی ذمے دار مقام کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ اگر یہ معاشرے میں کسی مقام پرفائز نہ ہوں تو اہم اور مشکل ذمے داریوں کی ادائیگی کی ان سے توقع نہیں کی جا سکتی۔
احبار : صالح علما۔
ربانی : خدا پرست شخص جو خدا پر اعتقاد رکھنے کے ساتھ ساتھ خداوند متعال کے احکام کا علم بھی رکھتا ہو اور اس کے حلال و حرام کی پابندی کرتا ہو۔
امام حسین علیہ السلام نے جس آیتِ کریمہ کا ذکر کیا ہے، اگرچہ اس میں یہودی علمااور مذہبی رہنماؤں کی سرزنش کی گئی ہے لیکن یہاں باشعور قاری کے لئے اس وضاحت کی ضرورت نہیں کہ یہ مذمت اور سرزنش صرف یہودی علما یا عیسائی رہبروں کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ (اگر یہودی علما کے سے اعمال انجام دیں تب) تمام دینی رہبر اور حتیٰ مسلم علما بھی اس میں شامل ہیںکیونکہ کسی بھی دین اور مذہب سے تعلق رکھنے والے علما کی اپنے فریضے سے غفلت، کوتاہی اور بے جا خاموشی عام افراد کے گناہ اور نافرمانی کے مرتکب ہونے کی مانند نہیں ہوتی، کیونکہ علما کی خاموشی اور بے عملی کے نتیجے میں دین کی بنیادوں کو نقصان پہنچتا ہے (جبکہ عام افراد کے گناہ فقط خود ان کی اپنی ذات کو نقصان پہنچاتے ہیں)۔
قول اثم : گناہ آلود باتیںاس میں جھوٹ، تہمت، حقائق کی تحریف وغیرہ سب شامل ہیں۔
اکل سحت : حرام خوری۔
باوجود یہ کہ تمام گناہوں اور منکرات سے روکا گیا ہے لیکن اس آیتِ کریمہ میں قول اثم واکل سحت پر زور دیا گیا ہے، تاکہ یہ بتایا جائے کہ یہ دو گناہ تمام گناہوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔ لہٰذا ہر گناہ سے زیادہ ان کی مخالفت اور ان سے مقابلہ کیا جائے کیونکہ بسا اوقات دشمنوں کی جھوٹی باتیں اور ان کا مذموم پروپیگنڈہ (جو قول اثم کا ایک اہم ترین مصداق ہے) اسلام اور مسلمانوں کے لئے کسی بھی ا ور چیز کے مقابلے میں زیادہ خطرناک اور تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔
اکل سحت یا حرام خوری سے بھی اس کا صرف انفرادی اور جزی پہلو مراد نہیں ہے، بلکہ یہ وسیع پہلوؤں کی حامل ہے جس میں (آج کی دنیا کے لحاظ سے) نقصان دہ برآمدات اور درآمدات، غیر قانونی طریقوں سے ملک کی معیشت پر قابض ہو جانا وغیرہ بھی شامل ہیں اور یقیناًاس قسم کی اکل سحتکے نقصانات جوئے اور ناپ تول میں ڈنڈی مارنے جیسی انفرادی حرام خوریوں کے نقصانات سے کہیں زیادہ ہیں۔
اس حصے کے جملوں کا علیحدہ علیحدہ ترجمہ(۱)
اِعْتَبِرُوْا اَیُّھا النّٰاسُ بِمٰا وَعَظَ اللّٰہُ بِہِ اَوْلِیٰاءَہُ مِنْ سُوْءِ ثَنٰاءِہِ عَلیٰ الاَحْبٰارِ اِذْ یَقُوْلُ: لَوْلاٰ یَنْھٰاھُمُ الرّّبّٰانِیُّوْنَ وَ الاَحْبٰارُ عَنْ قَوْلِھِمُ الاِثْمَ(۲) وَ قٰالَ : لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِی اِسْرٰاءِیْلَ (اِلٰی قَوْلِہِ) لَبِءْسَ مٰا کٰانُوْا یَفْعَلُوْنَ۔ (۳)
اے لوگو! اﷲ تعالیٰ نے علمائے یہود کی سرزنش کر کے اپنے اولیاء کو جو نصیحت کی ہے، اس سے عبرت حاصل کرو۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا :یہودی علما اور دینی رہنما انہیں گناہ آلود باتوں اور حرام خوری سے کیوں نہیں روکتے؟ اور فرمایا :بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر اختیار کیا، انہیں لعن اور نفرین کی گئی ہے(یہاں تک کہ) فرمایا : وہ ایک دوسرے کو برے اعمال کی انجام دہی سے منع نہیں کرتے تھے، اور وہ کتنا برا کام کرتے تھے۔
وَ اِنَّمٰا عٰابَ اﷲُ ذٰلِکَ عَلَیْھِم لاَنَّھُمْ کٰانُوْا یَرَونَ مِنَ الظَّلَمَۃِ الَّذِیْنَ بَیْنَ اَظْھَرِھِمُ الْمُنْکَرَ وَ الْفَسٰادَ فَلاٰ یَنْھَوْنَھُمْ عَنْ ذٰلِکَ رَغْبَۃً فیمٰا کٰانُوْا یَنٰالُوْنَ مِنْھُمْ وَ رَھْبَۃً مِمّٰا یَحْذَرُوْنَ وَ اﷲُ یَقُوْلُ : فَلاَ تَخْشَوُا النّٰاسَ وَ اخْشَوْنِ(۴) وَ قٰالَ : الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰاتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیآءُ بَعْضٍ یامُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ(۵)
درحقیقت اﷲ تعالیٰ نے اس لئے انہیں برا قرار دیا ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے یہ دیکھنے کے باوجود کہ ظالمین کھلم کھلا برائیوں اور خرابیوں کو پھیلا رہے ہیں، انہیں (ظالموں کو) اس عمل سے باز رکھنے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ انہیں، ان ظالموں کی طرف سے ملنے والے مال و متاع سے دلچسپی تھی اور ان کی طرف سے (پہنچ سکنے والی) سختیوں سے خوفزدہ تھےجبکہ خداوند متعال کا ارشاد ہے کہ: لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرواور پروردگار نے فرمایا ہے: مومنین اور مومنات ایک دوسرے کے دوست اور سرپرست ہیں، اچھائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔
فَبَدَءَ اﷲُ بِاْلأَمْرِ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّھْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ فَرِیضَۃً مِنْہُ لِعِلْمِہِ بِاَنَّھٰا اِذٰا اُدِّیَتْ وَ اُقٖیْمَتْ اِسْتَقٰامَتِ الْفَراءِضُ کُلُّھٰا ھَیَّنُھٰا وَ صَعْبُھٰا وَذٰلِکَ أَنَّ اْلاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّھْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ دُعٰاءٌ اِلیٰ اْلاِسْلاٰمِ مَعَ رَدِّ الْمَظٰالِمِ وَ مُخٰالَفَۃِ الظّٰالِمِ وَ قِسْمَۃِ الْفَیءِ وَ الْغَنٰاءِمِ وَ اَخْذِ الصَّدَقٰاتِ مِنْ مَوٰاضِعِھٰا وَ وَضْعِھٰا فٖی حَقِّھٰا .
(اس آیتِ کریمہ میں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے) ﷲ تعالیٰ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے آغاز کیا اور اسے اپنی طرف سے واجب قرار دیا کیونکہ پروردگار جانتا ہے کہ اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انجام پائے اور معاشرے میں برقرار رکھا جائے تو تمام واجبات، خواہ وہ آسان ہوں یا مشکل، خودبخود انجام پائیں گےاور اس کی وجہ یہ ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جائے اور ساتھ ہی مظلوموں کو اُن کے حقوق لوٹائے جائیں، ظالموں کی مخالفت کی جائے، عوامی دولت اور مالِ غنیمت عادلانہ نظام کے تحت تقسیم ہو، اور صدقات (یعنی زکات اور دوسرے واجب اور مستحب مالیات) کو صحیح مقامات سے وصول کر کے حقداروں پر خرچ کیا جائے۔
یہاں پہنچ کر خطبے کا دوسرا حصہ ختم ہوتا ہے اور آئندہ صفحات میں خطبے کے تیسرے حصے کاترجمہ پیش کیا جائے گا۔
۱اس خطبے کے دوسرے اور تیسرے حصے کے ترجمے اور تشریح میں امام خمینیؒ کی کتاب ولایت فقیہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔
۲سورہ مائدہ ۵ آیت ۶۳
۳سورہ مائدہ ۵ آیت ۷۸، ۷۹
۴سورہ مائدہ ۵ آیت ۴۴
۵سورہ توبہ ۹آیت ۷۱