اس خطبے میں موجود اہم نکات اور نتائج
علمائے دین سے حسین ابن علی ؑ کا خطاب • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
امام حسین علیہ السلام نے اس خطبے میں امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت کے بعد مختلف معاشرتی اور مذہبی پہلوؤں نیز اسلامی معاشرے پر معاویہ ابن ابی سفیان کے اقتدار کے اسباب اور ان وجوہات کا ذکر کیا ہے جن کے سبب مسلمانوں کے معاملات امیر معاویہ کے ہاتھوں میں آگئےاس کے بعدآپ ؑ نے اسلام کے مستقبل کے لئے نقصان دہ خطرات کی جانب اشارہ کیا، اور مسلمانوں کو خبردار کیا کہ اگر اب بھی وہ خاموش اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے اور عمائدین قوم، اور ملت کے باشعور افراد نے ہوش کے ناخن نہ لئے اور اپنی ذمے داریوں کو ادا نہ کیا تو نہ صرف یہ کہ نورِ نبوت ماند پڑ جائے گا بلکہ خطرہ یہ ہے کہ کہیں یہ مشعلِ فروزاں، اسلام دشمنوں کے ہاتھوں ہمیشہ کے لئے بجھ ہی نہ جائے۔
فرزندِ رسولؐ نے اس خطبے کے ذریعے حاضرین کے سامنے قرآن اور عترت کی مظلومیت کوبیان کیا اور یہ ذمے داری ان کے سپرد کی کہ جہاں تک ممکن ہے وہ اس پیغام کو مملکتِ اسلامی کے تمام باشعور اور دیندار افراد تک پہنچائیں اور انہیں اس خطرے سے آگاہ کریں۔
اگرچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس خطبے کی مفصل تشریح کی جائے کیونکہ اس کا ایک ایک جملہ علمی اور تاریخی لحاظ سے تشریح طلب ہے(۱) لیکن فی الحال یہاں نتیجہ گیری کی صورت میں ہم اپنے خیال اور سطح فکر کی حد تک صرف چند نکات قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے۔
زمانی اور مکانی حالات
اس خطبے کے مضامین کی تشریح سے پہلے خطبہ ارشاد فرمانے کے زمان و مکان اور خطبے کے طرزِ بیان پر توجہ دینا ضروری ہےاس خطبے کے لئے خاص مقام (منیٰ) اور خاص وقت (ایامِ حج) کا انتخاب کیا گیامملکتِ اسلامی کی اہم ترین شخصیات بشمول خواتین کو دعوت دی گئی، بنی ہاشم کے عمائدین اور مہاجر و انصار صحابۂ کرام بھی مدعو تھےخاص کر اس اجتماع میں ۲۰۰ ایسے افرادشریک تھے جنہیں رسولِ گرامیؐ کی صحابیت اور ان سے براہِ راست مستفیض ہونے کی سعادت حاصل تھی۔ ان ۲۰۰ کے علاوہ ۸۰۰ سے زائد افراد اصحابِ رسولؐکی اولاد (تابعین) تھے۔
جلسہ گاہ : یہ جلسہ منیٰ میں تشکیل پایا، جو بیت اﷲ سے نزدیک، توحید اور وحدانیت کے علمبردار حضرت ابراہیم ؑ سے منسوب اور قربانی و ایثار کی مثال حضرت اسماعیل ؑ کی قربانگاہ ہےیہ وہ جگہ ہے جہاں ہر قسم کے امتیازات سے دستبردار ہو کر خدا کے سوا ہر چیز کو بھلاد یا جاتا ہےیہ وہ مقام ہے جہاں انسان شیطان اور طاغوتوں پر کنکر برسا کے ندائے حق پر لبیک کہتا ہے اور راہِ خدا میں قربانی اور ایمان اور اسلام کے راستے میں تن، من، دھن کی بازی لگانے کے لئے حضرت اسماعیل ؑ کے یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرْ(۱) سے درس لیتا ہے اور سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآءَ اﷲُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ(۲) کو نمونۂ عمل قرار دے کر اﷲ کی راہ میں سختیوں، مشکلات اور حتیٰ ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کے عزم کا اعلان کرتا ہے۔
زمانہ : یہ جلسہ ایامِ تشریق میں منعقد ہوایہ وہ وقت ہے جب یہاں پہنچنے والے اﷲ تعالیٰ کی عبادت و ریاضت، خداسے ارتباط اور عمرے کے اعمال انجام دے کر، منزلِ عرفات سے گزر کر، مشعر کے بیابان میں رات بسر کر کے، اور قربانی انجام دینے کے بعد فرزندِ رسولؐ کا حیات آفریں پیغام قبول کرنے کے لئے معنویت اور روحانیت کی ایک منزل پر پہنچ چکے ہیں۔
۱اے والد گرامی وہ کیجئے جس کا حکم دیا گیا ہے(سورہ صافات ۳۷۔ آیت۱۰۲)
۲اﷲ نے چاہا تو آپ مجھے صبرکرنے والوں میں سے پائیں گے(سورہ صافات ۳۷ آیت ۱۰۲)