علمائے دین سے حسین ابن علی ؑ کا خطاب

پہلا حکم نامہ

سلیم بن قیس کہتے ہیں: امیر معاویہ نے اپنے تمام کارندوں اور والیوں کے نام ایک حکم نامہ جاری کیا، جس میں تحریر تھا کہ: جوکوئی بھی ابوتراب یا ان کے خاندان کی کوئی فضیلت بیان کرے، میں اس سے بری الذمہ ہوں اور وہ میری امان اور حمایت سے محروم ہوجائے گا (یہ اس بات کا کنا یہ ہے کہ اسے فوراً قتل کر دیا جائے گا)۔

اس حکم نامے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ مملکتِ اسلامی کے تمام علاقوں میں خطبا اور مقررین نے ممبروں پر سے امیرالمومنین علی علیہ السلام پر (نعوذ باﷲ تعالیٰ) لعن طعن کا سلسلہ شروع کر دیا اور ان سے بیزاری کا اعلان کیا جانے لگاحضرت علی علیہ السلام اور ان کے خاندان پر تہمتیں باندھنا شروع کردی گئیں اور ان سے ناروا باتیں منسوب کی جانے لگیںاس کشمکش کے دوران اہلِ کوفہ سب سے زیادہ مصیبت کاشکار اور بے بس تھے کیونکہ کوفہ میں شیعیانِ علی دوسرے علاقوں سے زیادہ تعداد میں بستے تھے، لہٰذا امیرمعاویہ کا دباؤ سب سے زیادہ یہیں پر تھااسی لئے انہوں نے کوفہ کی حکومت زیادا بن سمیہ کے سپرد کی اور بصرہ کو بھی اسی کی عملداری میں دے دیا۔ امیر معاویہ کی اس غیر معمولی محبت اور عنایت کا زیاد نے بھرپور جواب دیاوہ ہر کونے کھدرے سے، جس طرح سے بھی ممکن تھا، امیرالمومنین ؑ کے چاہنے والوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مار ڈالتا۔

شیعیانِ علی پر خوف و ہراس کی فضا طاری ہوگئی ان پر وہ مظالم ڈھائے جانے لگے، جن کی مثال تاریخ میں شاید ہی مل سکےان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے جاتے، آنکھیں نکلوادی جاتیںان مظالم کے نتیجے میں امیرالمومنین ؑ کے چاہنے والے عراق سے کوچ کر کے دور افتادہ مقامات پر پناہ لینے اور اپنا عقیدہ لوگوں سے چھپا کر رکھنے پر مجبور ہو گئےمختصر یہ کہ مشہور و معروف شیعوں میں سے کوئی بھی کوفہ میں باقی نہیں رہا۔

سلیم بن قیس مزید لکھتے ہیں :امیرمعاویہ نے اپنے گورنروں کو حکم دیا کہ شیعیانِ علی اور خاندانِ علی میں سے کسی شخص کی گواہی قبول نہ کریں اور اس بات پر خاص توجہ دیں کہ اگر ان کے علاقے میں خلیفۂ ثالث کے طرفدار، یا ان کے خاندان والے، یا ایسے افراد موجود ہوں جو ان کے فضائل اور کرامات بیان کرتے ہوں، تو سرکاری محفلوں میں ان کا خاص احترام کیا جائے اور ان کی تعظیم واکرام میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے اور جو کچھ بھی خلیفۂ ثالث کے فضائل میں بیان کیا جائے، اسے بیان کرنے والے کی تمام تر تفصیلات کے ساتھ مجھے لکھ بھیجا جائے۔

گورنروں نے اس حکم کی پوری پوری تعمیل کی اور جو کوئی بھی ایک بھی جملہ خلیفۂ ثالث کے بارے میں نقل کرتا، اسکی رپورٹ بنائی جاتی اور اس کے لئے خاص انعام واکرام مقرر کردیا جاتایوں خلیفۂ ثالث کے بارے میں منقولات کی تعداد بڑھتی چلی گئی کیونکہ اس قسم کی باتیں کرنے والے حکومت کی طرف سے خاص انعام واکرام کے مستحق قرار پاتے تھے۔

امیر معاویہ کی نوازشات اور حکام کی قدر دانی کے نتیجے میں خلافتِ اسلامی کے تمام گوشہ وکنار میں حدیث گھڑنا معمول بن گیاکوئی بھی ناپسندیدہ اور دھتکارا ہوا شخص، امیرمعاویہ کے کسی گورنر یا حاکم کے پاس جاکر خلیفۂ ثالث کے بارے میں کوئی حدیث یا ان کی کوئی فضیلت بیان کردیتا، تو اسے بلا چوں وچرا قبول کرلیا جاتا اور عطیات کے رجسٹر میں ایسے شخص کا نام درج کرلیا جاتا اور دوسروں کے لئے اس کی سفارش کبھی نہیں ٹالی جاتی۔

دوسرا حکم نامہ

سلیم بن قیس اپنے بیان میں مزید فرماتے ہیں :جب کچھ مدت بعد خلیفۂ ثالث کے بارے میں بہت زیادہ احادیث ہوگئیں تو امیرمعاویہ نے اپنے حکام کو یوں لکھا: حضرت عثمان کے بارے میں احادیث اب بہت زیادہ ہوگئی ہیں اور کافی حد تک مملکتِ اسلامی کے ہر کونے میں پہنچ گئی ہیں، لہٰذا اس حکم نامے کے پہنچتے ہی لوگوں کو ترغیب دلاؤ کہ اصحاب اور پہلے دو خلفا کے بارے میں احادیث بیان کریں اور جو بھی کوئی حدیث یا فضیلت ابوتراب کے لئے منقول ہے اسی کی جیسی دوسرے اصحاب کے بارے میں نقل کریںتمہارا یہ عمل میرے لئے پسندیدہ اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہو گا اور ابوتراب اور ان کے حامیوں کو کچل دینے کا موجب ہو گا۔

یہ خط اجتماعات میں پڑھ کر سنایا گیا اور اس کا مضمون عوام الناس کے درمیان نشر کردیا گیافوری طور پر اصحاب کی فضیلت اور منقبت میں لاتعداد ا حادیث بیان کی جانے لگیں، جو سب کی سب جعلی اور گھڑی ہوئی تھیں، لوگ ان احادیث کو بیان کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے، یہاں تک کہ یہی جعلی احادیث ممبروں پر سے اور نمازوں کے خطبوں میں پڑھی جاتی تھیں اور مسلمانوں کو حکم دیا گیاتھا کہ یہی احادیث وہ اپنے بچوں کو بھی یاد کرائیںاور یوں بچوں اور نوجوانوں کو بھی یہی احادیث سکھائی گئیں اور وہ انہیں آیاتِ قرآن کی طرح حفظ کرتے تھے، یہاں تک کہ عورتوں، بچیوں اور ملازموں تک کو یہ فضائل سکھادیئے گئے اور یہ سلسلہ مدتِ دراز تک جاری رہا۔

تیسرا اور چوتھا حکم نامہ

سلیم بن قیس مزید کہتے ہیں: امیرمعاویہ اور اس کے کارندوں کا یہ طریقۂ کار اِسی طرح جاری رہا، یہاں تک کہ کچھ عرصے کے بعد امیرمعاویہ نے اپنے حاکموں اور کارندوں کے لئے تیسرا حکم نامہ ارسال کیا، جس کا مضمون کچھ یوں تھا: پوری کوشش کرو کہ جس کسی پر بھی علی اور آلِ علی کی دوستی کا الزام ہو اور اس الزام پر کوئی معمولی سی بھی دلیل مل جائے تواس شخص کا نام وظیفہ وانعام لینے والوں کی فہرست میں سے خارج کر دو، اور بیت المال میں سے اسے حصہ دینا بھی بند کردو۔

اس حکم نامے کے فوراً بعد ایک اور حکم نامہ صادر کیا گیا، جس کا مضمون یہ تھا کہ: جس شخص پر علی کے خاندان کے ساتھ محبت کا الزام ہو، اس کے ساتھ شدید سختی کرو اور اس کا گھر اسی پر گرا دو تا کہ دوسرے اس سے عبرت حاصل کریں۔

سلیم بن قیس کہتے ہیں کہ اہلِ عراق خاص کر اہلِ کوفہ نے اس سے بڑی مصیبت نہ دیکھی تھیکیونکہ اس حکم کے بعد گورنروں اور حاکموں کی سختیوں کے نتیجے میں شیعوں پر غیر معمولی خوف و ہراس طاری ہوگیا۔ یہاں تک کہ بعض اوقات جب شیعیانِ علی سے تعلق رکھنے والے افراد ایک دوسرے کے گھر جاتے تھے تو صاحبِ خانہ اپنے غلاموں اور ملازموں کے خوف سے اپنے مہمان سے کوئی بات کرنے پر تیار نہ ہوتا تھا، مگر یہ کہ پہلے ان ملازموں سے عہد وپیمان لیتے تھے کہ ان کا راز فاش نہیں کریں گے۔

اس طرح علی ؑ اور خاندانِ علی ؑ کی مذمت میں جعلی احادیث وجود میں آئیں اور محدثین، قاضی اور حکام انہی جعلی احادیث کی پیروی کرتے تھےاس سلسلے میں بدترین لوگ وہ ریا کار ا ور منافق محدث (راوی) تھے جو بظاہر صاحبِ ایمان اور عبادت گزار تھے لیکن جاہ ومقام اور دنیاوی مال ومنال حاصل کرنے کے لئے جعلی احادیث گھڑتے تھےوقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ جعلی اور من گھڑت جھوٹی احادیث ان دیندار اور پرہیز گار افراد تک بھی پہنچیں جو خود تو جھوٹ اور الزام سے بچنا چاہتے تھے لیکن اپنے حسنِ ظن اور سادہ لوحی کے نتیجے میں ان جعلی روایات کو قبول کرلیتے تھے اورانہیں دوسروں کے سامنے نقل کرتے تھے، جبکہ اگر وہ ان کے جعلی ہونے سے واقف ہوتے تو ہرگز انہیں نقل نہ کرتے۔ (۱)

سلیم بن قیس مزید فرماتے ہیں (معاویہ کے آنے کے بعد سے )یہ ظلم وستم اسی طرح جاری و ساری رہا لیکن امام حسن ؑ کی شہادت کے بعد(۲) ان مصیبتوں اور مشکلات میں مزید سختی آگئی اورمحبانِ اہلِ بیت ؑ مستقل خوف وہراس اور شدید دہشت میں زندگی بسر کرنے لگےکیونکہ یا تو وہ قتل کردیئے جاتے تھے یا زیر زمین اور اپنا گھر بار ترک کر کے دور افتادہ مقامات پر زندگی گزارتے تھےجبکہ ان کے مقابلے میں دشمنانِ اہلِ بیت ؑ خود کو ہر لحاظ سے برتر اور ظلم وستم اور بدعتوں کے رواج میں آزاد پاتے تھے۔

کن حالات میں یہ خطبہ دیا گیا

سلیم کہتے ہیں :ان حالات میں معاویہ کی موت سے دوسال پہلے(۳) اما م حسین ؑ نے حج کاارادہ کیا اور عبداﷲا بن عباس اور عبداﷲ ابن جعفر کو اپنے ہمسفر کے طور پرمنتخب کیامکہ مکرمہ میں بنی ہاشم کے مردوں اور عورتوں اور انصار کے ان افراد کو جنھیں خود امام حسین ؑ یابنی ہاشم پہچانتے تھے دعوت دی گئی اور ان افراد کو یہ ذمے داری سونپی گئی کہ وہ صحابۂ کرام اور تابعین میں سے صالح اور ذمے دار افراد کو منیٰ میں منعقد ہونے والے اس جلسے کی دعوت دیں۔

اور جب یہ افراد، جن کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ تھی(۴) منیٰ میں امام حسین علیہ السلام کے خیمے میں جمع ہوگئے تو امام ؑ نے خطبے کا آغاز کیا اور خداوند متعال کی حمد وثنا کے بعد فرمایا : آپ لوگ اس ظلم وستم سے بخوبی آگاہ ہیں اور اس کا خود مشاہدہ کر رہے ہیں جو اس ظالم وجابر حکومت نے ہم پر اور ہمارے شیعوں پر روا رکھا ہواہےمیں یہاں (اپنے والد کے بارے میں) کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں، اگر یہ باتیں صحیح ہوں توآپ میری تصدیق کیجئے گا اور اگر غلط ہوں تو قبول نہ کیجئے گامیری باتیں سنئے، انہیں لکھ لیجئے اور جو کچھ عرض کروں اسے ذہنوں میں محفوظ کرلیجئے گا اور جب اپنے اپنے علاقوں کو واپس جائیں تو جو کچھ سنا ہے اسے اپنی قوم وقبیلے کے معتبر افراد اور اپنے قابلِ اعتماد دوستوں اور جاننے والوں تک پہنچائیے گاکیونکہ مجھے خوف لا حق ہے کہ کہیں یہ حقائق چھپ نہ جائیں اور مذہبِ حق مٹ نہ جائے: وَاﷲُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْکَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ (اور اﷲ اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے، چاہے یہ بات کفار کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہوسورہ صف ۶۱ آیت۸)

سلیم کہتے ہیں کہ امام ؑ نے اپنی گفتگو ختم کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر خدا کی قسم کھا کر تاکید کی کہ اپنے اپنے علاقوں میں واپسی پر اپنے قابلِ اعتمادافراد تک میری یہ گفتگو پہنچائیے گا پھر آپ ؑ ممبر سے نیچے تشریف لے آئے اور حاضرین بزم امام ؑ سے اس پیغام کو پہنچانے کا وعدہ کرکے متفرق ہوگئے۔

۱کتاب سلیم بن قیس (مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ- ص ۲۰۶ )یہی باتیں ابن ابی الحدید نے نہج البلاغہ کی شرح ج ۱۱ ص ۴۶ ۴۴ میں ابوالحسن مدائنی (وفات ۲۲۵ھ) کی کتاب ((الاحداث ))سے نقل کی ہیں۔

۲۔ ۵۰ھ میں امام حسن ؑ کی شہادت واقع ہوئی۔

۳کتاب سلیم کے بعض نسخوں میں سنۃ (ایک سال) اور بعض میں سنتین (دو سال) لکھا ہے، لیکن طبرسی کی احتجاج میں سنتین (دو سال) تحریر ہے۔

۴طبرسی نے شرکا کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ بیان کی ہے (اکثر من الف رجل)