علمائے دین سے حسین ابن علی ؑ کا خطاب

اما م حسین ؑ اور ان کے اصحاب کا عملی جواب

علمائے دین سے حسین ابن علی ؑ کا خطاب   •   استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

اگرچہ اس خطبے کا مضمون حاضرین اور سامعین کے سامنے امام حسین ؑ کے آئندہ اقدامات اور حکمتِ عملی کا اجمالی خاکہ پیش کر رہا تھا اور امام علیہ السلام کی جانب سے عملی امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی خبر دے رہا تھا اور سامعین کو آئندہ کے حالات کے لئے تیار رہنے اور اس قیام سے تعاون کرنے کی دعوت دے رہا تھا لیکن خطبے کے آخری جملات میں یہ حقیقت انتہائی کھلے الفاظ کے ساتھ بیان کر دی گئی اور ایک بھرپور اور تاریخی تحریک کی وضاحت کرتے ہوئے امام ؑ نے فرمایا :

اللھم انک تعلم انہ لم یکن ماکان منا منافسۃ فی سلطان۔ ۔ فانکم ان لم تنصروناو تنصفونا قوی الظلمۃ علیکم و عملوا فی اطفاء نور نبیکم۔

( بارِالٰہا ! تو جانتا ہے کہ جو کچھ ہماری جانب سے ہوا (بنی امیہ اور معاویہ کی حکومت کی مخالفت میں) وہ نہ تو حصولِ اقتدار کے سلسلے میں رسہ کشی ہے اور نہ ہی یہ مال دنیا کی افزوں طلبی کے لئے ہے، بلکہ یہ صرف اس لئے ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ تیرے دین کی نشانیوں کو آشکارا کر دیں اور تیری مملکت میں اصلاح کریں، تیرے مظلوم بندوں کو امان میسر ہو اور جو فرائض، قوانین اور احکام تو نے معین کئے ہیں ان پر عمل ہواب اگر آپ حضرات (حاضرین سے خطاب) نے ہماری مدد نہ کی اور ہمارے ساتھ انصاف نہ کیا، تو ظالم آپ پر اور زیادہ چھا جائیں گے اور (نورِ نبوت) کو بجھانے میں اور زیادہ فعال ہو جائیں گے ہمارے لئے تو بس خدا ہی کافی ہے، اسی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے، اسی کی طرف ہماری توجہ ہے اور اسی کی جانب پلٹنا ہے۔ )

اس خطبے میں امام حسین ؑ نے اپنے جس مقصد کو بیان کیا یہ وہی مقصد ہے جس کی جانب آپ ؑ نے اس خطاب کے تین سال بعد(۲۸ رجب ۶۰ھ میں) مدینہ سے روانگی کے وقت اپنے تاریخی وصیت نامے میں اشارہ فرمایا تھا۔

وانی لم اخرج اشراً ولا بطراً ولا مفسداً ولا ظالماً وانماخرجت لطلب الاصلاح فی امۃ جدی، اریدان آمر بالمعروف و انھی عن المنکر۔۔۔

میرا مدینہ سے نکلنا خود غرضی کے تحت ہے نہ تفریح کی غرض سے اور نہ ہی میں ظلم و فساد برپاکرناچاہتا ہوںمیں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ نیکیوں اور بھلائیوں کا حکم دوں اوربرائیوں سے روکوں اور امت کے امور کی اصلاح کروں۔

اور حقیقت یہ ہے کہ ائمۂ اطہار ؑ کے پیروکار علما اور فضلا نے ہمیشہ انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلام کے احیا کے لئے نہ صرف شہید اوّل، دوّم اور سوّم قربان کئے بلکہ شھداء الفضیلہ(۱) کی ایک عظیم الشان صف تشکیل دیتاریخ کے اوراق ایسے ہزاروں شہدا کے ناموں سے سجے ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ ایسے گم نام شہدا بھی ہیں جن کے نام کتاب علیین میں دیکھے جاسکتے ہیں اور جو ایسے ہی بیش قیمت الفاظ میں خراجِ عقیدت کے مستحق ہیں کہ:

( سلام ہو ان زندۂ جاوید جانباز علمائے دین پر جنہوں نے اپنا رسالۂ عملیہ و علمیہ دمِ شہادت اپنے خون کی روشنائی سے تحریر کیا، اور وعظ ونصیحت و خطاب کے منبر پر اپنی شمعِ حیات سے چراغ روشن کیاحوزۂ علمیہ اور صفِ علما کے ان شہدا پر آفرین و مرحبا جنہوں نے جنگ و جہاد کا موقع آ پڑنے پر مدرسے اور درس وبحث سے اپنارشتہ منقطع کیا اور حقیقت علم کے پیروں میں پڑی خواہشاتِ دنیاوی کی زنجیروں کو کاٹ ڈالا اور سرعت سے پرواز کر کے فرشتوں کے مہمان ہوئے اور ملکویتوں کے اجتماع میں اپنی حاضری کے نغمے بکھیرےدرود و سلام ان شہدا پر جو تفقہ کی حقیقت پا لینے کی حد تک آگے بڑھے اور اپنی قوم و ملت کے لئے ایسے مخبر صادق بنے جن کے ہر ہر لفظ کی صداقت کی گواہی ان کے خون کے قطروں اور جسم کے پارہ پارہ ٹکڑوں نے دی ہےاور حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور تشیع کے سچے علماسے اس کے علاوہ توقع بھی نہیں کی جاسکتی کہ دعوتِ حق اور اپنی قوم کی خاطر جہاد کی راہ میں سب سے پہلی قربانی وہ خود پیش کریں گے اور ان کی کتابِ زندگی کااختتام شہادت پر ہو گا۔ )(۲)

مترجم : جیسا کہ قارئینِ محترم نے ملاحظہ فرمایا، اس تاریخی خطبے میں امام حسین علیہ السلام کے مخاطب خاص کر وہ افراد ہیں جودینی رہنماؤں کے طور پر پہچانے جاتے ہیں اور امام علیہ السلام نے انہی افراد کو معاشرے کے انحراف اور غفلت کا ذمے دار قرار دیا ہےلیکن ساتھ ہی یہ بیان فرمایا ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر وہ بنیادی ترین فریضہ ہے جس کے ذریعے معاشرے کی بقا ہے اور اگر اس پر عمل نہ ہو تو معاشرے کی بنیادیں متزلزل ہو جاتی ہیں، عدل و انصاف کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور ظالم و ستمگر زمامِ امور اپنے ہاتھوں میں لے کر معاشرے کو تباہی اور بربادی سے دوچار کردیتے ہیں اوراسے اپنے ظلم و جبر کا نشانہ بناتے ہیں ایسے موقع پر معاشرے کے ہر فرد کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے وظیفے اور فریضے کا شعور حاصل کرے اور حتیٰ المقدور اس فریضے کو انجام دے جس کا ترک کرنا ان آفات و بلیات کا باعث بنا۔

آج صدیوں کے بعد دنیا ایک بار پھر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا دور دیکھ رہی ہے اور امام خمینیؒ کی قیادت میں آنے والے اسلامی انقلاب کے بعد مسلمانوں میں شعور اور بیداری کی ایک ایسی لہر اٹھی ہے جس کی قدرت نے ایران کی ڈھائی ہزار سالہ بادشاہت کو پاش پاش کر دیا اور اس کے سچے ماننے والوں نے نہتے ہاتھوں اور وسائل کی کمیابی کے باوجود اسرائیل جیسے غاصب اور دشمنِ دین مبین کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔

آج ہر صاحبِ شعور اس اعتراف پر مجبور ہے کہ آئندہ صدی اسلام کی صدی ہو گی اور دنیا کے موجودہ سیاسی اور تمدنی نظاموں کی تباہی اور ان کا کھوکھلا پن ثابت ہونا اور اس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی مایوسی نیز تبلیغی ذرائع کی فراوانی اوروسعت اور سب سے بڑھ کرمسلمانوں کے اندر اٹھتی ہوئی بیداری کی لہرکو دیکھتے ہوئے بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ اکیسویں صدی اسلام کی صدی ہو گیلیکن ان تمام مثبت عوامل کے باوجودحتمی کامیابی کے لئے مسلمانوں کا اپناعزم، ارادہ اور شعور و آگہی بنیادی عوامل ہیںلہٰذا اگر مسلمان اس موقع پر بیداری اور ہوشیاری سے کام لیں تو یقیناًیہ پیش گوئی صحیح ثابت ہو سکتی ہے۔

اس کامیابی میں دو عوامل اہم ترین کردار ادا کریں گےپہلا یہ کہ مسلمان دوسروں کے سامنے کسی بھی وعظ و نصیحت اور تبلیغ سے پہلے اپنی عملی زندگی میں اسلام کا نمونۂ عمل پیش کریں کیونکہ اس بے زبان تبلیغ میں جو تاثیر ہے، وہ کسی بھی وعظ و نصیحت اور دعوت و ارشاد سے بڑھ کر ہےاور دوسرا یہ کہ دعوت وتبلیغ منظم اور معیاری انداز میں کی جائے اسلام کی نظریاتی تعلیمات کے ساتھ ساتھ اس کی عملی تعلیمات اور دنیا کی موجودہ مشکلات کے حل کے سلسلے میں اسکی قابلیت کو واضح طور پر بیان کیا جائے۔

امام علیہ السلام کے زیر گفتگو خطبے کی آفاقیت یہ ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا احیا درحقیقت وہ تمام عوامل فراہم کرتا ہے جن کے ذریعے نہ صرف مسلمانوں کا اندرونی معاشرہ تعمیر نو کے مراحل طے کرتا ہے اور ہر قسم کے حوادث اور انحرافات کے مقابلے میں محفوظ ہو جاتا ہے بلکہ وہ اسلام کی موثر اور جامع تبلیغ کے تما م تر وسائل فراہم کرتا ہےیوں یہ وہ شرعی وظیفہ ہے جس سے انسانیت حیاتِ نو پاتی ہے اور اس کا ترک کرنا انسانیت کی پستی اور زوال و انحطاط کا اہم ترین سبب ہے اب اگر ایک عاقل مسلمان ہر قسم کے ظلم و استبداد، بے راہ روی اور انحطاط سے نجات کا خواہشمند ہے تو کلماتِ امام ؑ کی صورت میں اس کے لئے رہنمائی فراہم کر دی گئی ہے اور راہِ حق پر مشعلیں نصب کر دی گئی ہیں اور یہی ائمۂ حق کا وظیفہ تھا جس کے جواب میں لبیک کہنے والوں نے دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کی اوراس سے منہ موڑنے والے ابدی ذلت و خواری کا شکار ہوئے۔

۱شھداء الفضیلہ کتاب (الغدیر) کے مصنف علامہ امینی کی ایک مشہور کتاب ہے، جس میں چوتھی صدی ہجری کے بعد کے ایسے ۱۲۰ معروف علمائے کرام کے حالات درج ہیں جنہوں نے اسلام کی راہ میں جامِ شہادت نوش کیا۔

۲دینی مدارس کے نام امام خمینیؒ کے تاریخی پیغام مورخہ ۲۲ فروری ۱۹۸۹ء سے اقتباس۔