خطبے کا عملی جواب
علمائے دین سے حسین ابن علی ؑ کا خطاب • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
جس طرح یہ خطبہ اور یہ کلام انبیا، اولیا اور ائمۂ ہدیٰ کا کلام ہے، اسی طرح اس کاعملی جواب بھی سب سے پہلے انبیا اور ائمۂ ہدیٰ نے دیا، ا ور وہی تھے جنہوں نے تاریخِ انسانی کے ہر دور میں اس حیات بخش ندا پر لبیک کہا۔
جی ہاں! یہی لوگ منادی بھی تھے اور لبیک کہنے والے بھی، خود ہی خطاب کرنے والے بھی تھے، خود ہی اس خطاب کو سننے والے بھی، خودہی دعوت دینے والے بھی اور خود ہی اس کا جواب دینے والے بھیانہوں نے اس دعوت کے جواب میں ایسی استقامت اور ثابت قدمی کا ثبوت دیا کہ شوق و اشتیاق کے ساتھ آگ میں کود پڑے، اورآخر کار اپنے زمانے کے سرکش نمرودیوں پر غالب آ ئے، اورتوحید کی بنیادیں قائم کر دیں اور اپنے اہداف و مقاصد کے سلسلے میں ایسی پائیداری دکھائی کہ دشمن کو سمندر کی موجوں میں غرق کر کے اپنی قوم کو ذلت و غلامی سے نجات دلائی۔ یہ لوگ اپنے عہد و پیمان سے اس قدر وفادار تھے کہ جب ان کے کٹے ہوئے سر طشت میں رکھ کر دشمنوں کو پیش کئے گئے تو اس عالم میں بھی انہوں نے شمشیر پر خون کی فتح کا نعرہ بلند کیا۔
اور بالآخر تشیع کو یہ اعزاز اور افتخار حاصل ہوا کہ اس کے ائمہ ؑ اور اس کے رہنماؤں نے دین اسلام کی سربلندی اور تعلیماتِ قرآنی کے عملی نفاذ کی راہ میں (جس کاایک مظہر عادلانہ اسلامی حکومت کی تشکیل و تاسیس ہے) کبھی پسِ زنداں اور کبھی جلاوطنی کی زندگی بسر کی اور آخر کار اپنے زمانے کے ظالموں اور طاغوتوں کی حکومتوں کے خاتمے کے لئے جد و جہد کے دوران شہید ہوئے(۱)جہاں تک حالات اور وسائل نے اجازت دی ائمہ ؑ نے مسلحانہ جد و جہد کی اور اپنی تلواریں سونت کر دشمنانِ اسلام کی صفوں پر حملے کئےدرحقیقت امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب ؑ کے زمانے کی تین جنگیں اور(معاویہ ابن ابی سفیان اور یزید ابن معاویہ کے مقابلے میں) امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کی معرکہ آرائی تاریخِ انسانیت اور تاریخِ اسلام میں ظلم و ناانصافی کے خلاف کی جانے والی جد و جہد کے سنہرے اوراق ہیں۔
۱امام خمینیؒ کے الٰہی و سیاسی وصیت نامے سے اقتباس۔