۲۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکرکی اہمیت
علمائے دین سے حسین ابن علی ؑ کا خطاب • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
امام حسین ؑ نے اپنے اس نورانی اور تاریخی خطبے کے دوسرے حصے میں بالعموم تمام مسلمانوں اوربالخصوص مہاجرین اور انصار کو مخاطب کیا ہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکے فریضے (جس پر اسلامی معاشرے کی اساس استوار ہے) کی انجامدہی کے سلسلے میں ان کی سستی اوربے توجہی کی مذمت اوران کی سرزنش فرمائی ہے، اور معاشرے میں ظلم و ستم پھوٹ پڑنے اور مسلمانوں کے مقدر پر ظالم اور ستمگر افراد کے تسلط (جس کا ذکر آپ ؑ نے اپنے اس خطبے کے تیسرے حصے میں کیا ہے ) کا ایک سبب اس اہم فریضے کے سلسلے میں مسلمانوں کی کوتاہی کوقرار دیا ہے۔
نوٹ : امیرمعاویہ سے جنگ ترک کرنے کے بارے میں امام حسن ؑ کے اس واضح بیان کو پیش نظر رکھا جائے تو رسول مقبول ؐسے منسوب کی جانے والی یہ حدیث : اِنَّ ابنی ھًذا سَیدَّ وَلَعَل اﷲ اَنْ یُصْلِحَ بِہِ بَیْنَ فِئتَین مِنَ المُسلِمینَ (میرا یہ فرزند (حسن ؑ ) سیدو سالار ہے اور امید ہے کہ خداوند عالم اسکے توسط سے مسلمانوں کے دوگروہوں کی اصلاح کرے گا) جو امام حسن ؑ کی فضیلت کے عنوان سے صحیح بخاری اوراہلِ سنت کے دوسرے منابع حدیث میں نقل کی گئی ہے اور شیعہ کتب میں بھی داخل ہوئی ہے، جعلی حدیث محسوس ہوتی ہے، جسے بنی امیہ کے حدیث سازی کے کارخانے میں تیار کیاگیا ہے تاکہ تاریخی حقائق کو الٹ پلٹ دیں اور امام حسن ؑ کے مخالف لشکر کو مسلمانوں میں شمار کریں اور ان کا خون بہانے کو حرام اور صلح کے مسئلے کو ایک واجب عمل اور امام حسن ؑ کی نسبت سے ایک اولی حکم ظاہر کریںلیکن امام حسن ؑ کی گفتار سے واضح ہے کہ آپ ؑ نے بحالتِ مجبوری صلح قبول کی تھی اور اگر آپ ؑ کو جانثار اصحاب و انصار کی خاطرخواہ تعداد میسر ہوتی اور حالات آپ ؑ کے حق میں ساز گار ہوتے تو آپ ؑ حتمی کامیابی تک امیرمعاویہ کے خلاف جنگ جاری رکھتے اور آپ ؑ امیر معاویہ کے پیروکاروں کو فئتین من المسلمین شمار نہیں کرتے تھے۔
امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا اہم ترین پہلو
لیکن امام ؑ کے خطاب کے اس حصے میں جو بات انتہائی قابلِ توجہ اور اہمیت کی حامل ہے، وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے وسیع مفہوم اور اس کے مختلف پہلوؤں کی تشریح اور اس بنیادی مسئلے کے اہم ترین رخ اور عملی پہلو کی جانب اشارہ ہے کیونکہ امام ؑ نے قرآنِ کریم کی دو آیات کو بطور سند پیش کرتے ہوئے فرمایا : اگر معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر برقرار ہو توچھوٹے بڑے تمام واجبات پرعمل ہو اور تمام مشکلات حل ہو جائیں۔ اس کے بعد نمونے اور مصداق کے طور پر پانچ امور کو نکتہ وار درجِ ذیل صورت میں بیان کیا :
۱۔ وذلک ان الامر بالمعروف و النھی عن المنکر دعاء الی الاسلام: امربالمعروف اور نہی عن المنکر اسلام کی طرف دعوت (فکری اور عقیدتی جہاد کے مساوی ) ہے۔
۲ مع رد المظالم : مظلوموں کو ان کے حقوق لوٹانا ہے۔
۳ومخالفۃ الظالم : ظالم کے خلاف جد و جہد ہے۔
۴وقسمۃ الفی ء والغنائم : مال غنیمت اور عوامی دولت کی عادلانہ تقسیم ہے۔
۵واخذ الصدقات من مواضعھاووضعھافی حقھا : زکات اور دوسرے مالی واجبات کی صحیح جمع آوری اور ٹھیک ٹھیک مقامات پر انہیں خرچ کرنا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس وسیع سطح پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا انجام دینا، (جس میں ظالم کا مقابلہ، حقوق کی بازیابی، ظلم وستم کا جڑ سے خاتمہ اور معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام شامل ہے) حکومتِ اسلامی کے قیام اور ان امور کے اجرا کے لئے قوت ہاتھ میں لئے بغیرمحض انفرادی سطح پر تلقین اور زبانی طور پر اچھائیوں کی تاکید سے ممکن نہیں۔
امام حسین علیہ السلام کایہ بیان درحقیقت ان لوگوں کے لئے واضح جواب ہے جوامر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے اہم اور بنیادی فریضے کو انتہائی محدودپیمانے میں، انفرادی سطح پر اور عمل کی بجائے محض زبانی کلامی تلقین میں منحصر سمجھتے ہیں۔
اسی طرح یہ خطاب اسلامی حکومت کے قیام کے واجب ہونے اور معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عملی اجرا کے لئے ایک مضبوط دلیل فراہم کرتا ہے۔
اسی بنا پر اور ایسے ہی متعدد دلائل کی روشنی میں بعض بزرگ شیعہ فقہا نے جہاد جیسے فریضے کو اس کی تمام تر عظمت، وسعت اور احکام کے باوجود امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی ایک شاخ قرار دیا ہے اور اسے ان دو اشد اہم فرائض کا ایک حصہ شمار کرتے ہیں۔
زیارتِ امام حسین ؑ میں درج ہونے والا جملہ: اشھد انک قد اقمت الصلاۃ و آتیت الزکاۃ وامرت بالمعروف و نھیت عن المنکربھی اس حقیقت کا گواہ ہے اور اس مفہوم کی وضاحت کرتا ہے کہ حکومتِ یزید کی مخالفت میں امام حسین علیہ السلام کا جہاد اور مبارزہ درحقیقت الٰہی فرائض کی ادائیگی، نماز وزکات کے قیام اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی انجام دہی کے لئے تھا۔
مختصر یہ کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا صحیح، وسیع اور جامع مفہوم معاشرے میں عدل و انصاف کا رواج اور سماج سے ظلم و فساد کا مکمل خاتمہ ہےجس کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی حکومت قائم ہو، اور اگر کسی معاشرے میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا اس کے اس مفہوم میں اجرا نہ ہو اور اسلامی اصولوں کے مطابق حکومت قائم نہ کی جائے تو پھر قدرتی طور پر یہ ہو گا کہ اسکی جگہ ظالم و ستمگر اور بدقماش افراد معاشرے پر چھا جائیں گےاسی بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے امیر المومنین ؑ نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا:
ولا تترکواالأمربالمعروف و النھی عن المنکر فیولی علیکم اشرار کم فتدعون فلا یستجاب لکم۔
(امربالمعروف اور نہی عن المنکرکو کسی صورت میں ترک نہ کرنا، ورنہ تمہارے برے تم پر حاکم ہو جائیں گے، پھر دعائیں بھی مانگو گے تو پوری نہیں ہوں گی۔ )(۱)
۱نہج البلاغہ مکتوب نمبر ۴۷