علمائے دین سے حسین ابن علی ؑ کا خطاب

امیر المومنین ؑ کے زمانے کے واقعات انہی کے بیانات کی روشنی میں

علمائے دین سے حسین ابن علی ؑ کا خطاب   •   استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

اس زمانے کی بعض معاشرتی اور مذہبی مشکلات کو امیر المومنین ؑ کے درجِ ذیل کلام میں محسوس کیا جا سکتاہے اور یوں احساس ہوتا ہے کہ گویا امام حسین ؑ کا خطبہ امیر المومنین ؑ کے اسی کلام کی تشریح ہو۔
اس کلام میں خلفائے اوّل اور دوّم کے طریقۂ انتخاب اور اس دوران اپنی صورتحال اور مقام کو بیان کرنے کے بعد، امیر المومنین ؑ نے ان واقعات، غلطیوں، خامیوں اور مصیبتوں کی طرف اشارہ کیا جو خلیفۂ ثانی اور ثالث کے زمانے میں پیش آئیں، جس نے مسلمانوں کو مجبور کیا کہ وہ امیر المومنین ؑ سے رجوع کریںاسی طرح اس کلام میں ان قبیح اعمال کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے، جو نفسانی خواہشات، حبِ دنیا، جاہ ومقام اور مال و منال کی خاطر بعض مسلمانوں نے انجام دیئےآپ ؑ فرماتے ہیں:

( خدا کی قسم لوگ ان (خلیفۂ دوم) کے زمانے میں کج روی، سرکشی، متلّون مزاجی اوربے راہ روی میں مبتلا ہو گئےمیں نے اس طویل مدت اور شدید مصیبت پر صبر کیا، یہاں تک کہ انہوں نے بھی اپنی راہ لی اور خلافت کو ایک جماعت میں محدود کر گئے اور مجھے بھی اس جماعت کا ایک فرد خیال کیاﷲ مجھے اس شوریٰ سے کیا واسطہ؟ ان میں کے سب سے پہلے ہی کے مقابلے میں میرے استحقاق اور فضیلت میں کب شک و شبہ تھا، جو اب ان لوگوں میں، میں بھی شامل کر لیا گیا مگر میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب وہ زمین کے نزدیک ہوکے پرواز کرنے لگیں تو میں بھی ایسا ہی کرنے لگوں اور جب وہ اونچے اڑنے لگیں تو میں بھی اسی طرح پرواز کروں (یعنی حتیٰ الامکان کسی نہ کسی صورت میں نباہ کرتا رہوں)۔

ان (اراکینِ شوریٰ) میں سے ایک شخص تو کینہ و عناد کی وجہ سے میرا مخالف ہوا اوردوسرا دامادی اور بعض ایسی باتوں کی وجہ سے ادہر جھک گیا جن کا بیا ن مناسب نہیں یہاں تک کہ اس قو م کاتیسرا پیٹ پھلائے سرگین اور چارے کے درمیان کھڑا ہوا اور اسکے ساتھ ساتھ اس کے بھائی بند بھی اٹھ کھڑے ہوئے، جو اﷲکے مال کو اس طرح نگلتے تھے جس طرح اونٹ فصلِ بہار کا چارہ چرتا ہےیہاں تک کہ وہ وقت آگیا جب اس کی بٹی ہوئی رسی کے بل کھل گئے اور اس کی بد اعمالیوں نے اس کا کا م تمام کردیا اور شکم پری نے اسے منہ کے بل گرادیا۔ اس وقت مجھے لوگوں کے ہجوم نے دہشت زدہ کر دیا جو میری طرف بجو کے ایال کی طرح ہر طرف سے مسلسل بڑھ رہا تھایہاں تک کہ صورت یہ ہوگئی تھی کہ حسن اور حسین کچلے جارہے تھے اور میری چادر کے دونوں کنارے پھٹ گئے تھےوہ سب میرے گرد اس طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے جیسے بکریاں بھیڑئیے کے حملے کی صورت میں اپنے چرواہے کے گرد جمع ہوجاتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جب میں نے خلافت کی ذمے داریاں سنبھالیں تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی اور دوسرا دین سے نکل گیا اور تیسرے گروہ نے فسق اختیار کیا۔ گویا ان لوگوں نے اﷲکا یہ ارشاد سنا ہی نہ تھا کہ : ”یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگو ں کیلئے قرار دیا ہے جو دنیا میں نہ (بے جا) بلندی چاہتے ہیں، نہ فساد پھیلاتے ہیں اور اچھا انجام پرہیز گار وں کے لئے ہے۔“ہاں ہاں! خدا کی قسم ان لوگوں نے اس آیت کو سنا تھا اور یاد کیا تھا لیکن ان کی نگاہوں میں دنیا کا جمال کھب گیا تھا اور اس کی سج دھج نے انہیں دیوانہ کردیا تھا۔ )(۱)

امیرالمومنین ؑ کے مذکورہ بالا خطبے کے آخری الفاظ میں آپ ؑ کا دردِ دل ملا حظہ کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا جب آپ ؑ نے زمامِ خلافت کواپنے ہاتھ میں لیا اور اسلام کے صحیح قوانین کا نفاذ اور عدل وانصاف کا بول بالا ہوااور جب انہوں نے ان الفاظ کے ساتھ اپنے پروگرام کا اعلان کیاکہ: واﷲلو وجدتہ قدتزوج بہ النساء وملک بہ الاماء لرددتہ فان فی العدل سعۃ ومن ضاق علیہ العدل فالجور بہ اضیق۔ ۔ (خدا کی قسم !اگر مجھے کوئی مال اس حالت میں مل جاتا جسے عورتوں کا مہر بنا دیا گیا ہے، یا اسے کنیز کی قیمت کے طور پر دیا گیا ہے، تو بھی اسے واپس کرادیتا۔ اس لئے کہ انصاف میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے اور جس کے لئے انصاف میں تنگی ہو اسکے لئے ظلم میں تو اور بھی تنگی ہوگینہج البلاغہ خطبہ نمبر۱۵) تو ۲۵ سال کی بے راہ روی، رسول اﷲؐ کی سیرت سے دوری اور قانون شکنی اور حق تلفی کا عادی ہوجانے کی وجہ سے، لوگ حق وعدالت کے قیام کے لئے امیر المومنین ؑ کی کوششوں کو جرم سمجھنے لگے اور آپ ؑ کی مخالفت میں کھڑے ہوگئے اور آپ ؑ کے خلاف ایک داخلی جنگ کا آغاز کر دیا۔

کچھ لوگ اگرچہ براہِ راست اس جنگ میں شامل نہیں تھے لیکن انہوں نے اپنی خاموشی کے ذریعے دشمن کو مضبوط کیااس کے نتیجے میں بجائے یہ کہ امیرالمومنین ؑ کی طاقت عدل وانصاف کے اجرا اور قرآن وسنت کے اہداف ومقاصد کو جامۂ عمل پہنانے کے سلسلے میں صرف ہوتی، آپ ؑ کی تمام تر توجہات اسلام کی بنیادوں کے تحفظ اور اسلامی معاشرے کی حفاظت پر مرکوز ہوگئیںحد یہ ہے کہ ان داخلی جنگوں اور اندرونی اختلافات کے نتیجے میں لشکرِ حق اتنا کمزور اور بے اثر ہوگیا اور اس صورتحال نے امیرالمومنین ؑ کو ایسا آزردۂ خاطر کیا کہ آپ ؑ نے بارگاہِ الٰہی میں التجا کرتے ہوئے یوں عرض کی :

اللھم انی قد مللتہم وملونی وسئمتھم وسئمونی، فابدلنی
بہم خیرا منہم، وابدلھم بی شرامنی۔

(اے پروردگار! میں ان سے تنگ آگیا ہوں اور یہ مجھ سے تنگ آگئے ہیںمیں ان سے اکتا گیا ہوں اور یہ مجھ سے اکتاگئے ہیں، لہٰذا مجھے ان سے بہتر قوم عنایت کر دے اور انہیں مجھ سے بد تر حاکم دے دے)

نیز فرمایا :

واﷲلا ظن ان ھولاء القوم سید الون منکم با جتماعھم علی باطلھم، وتفرقکم عن حقکم وبمعصیتکم اما مکم فی الحق، وطاعتھم امامھم فی الباطل، وباداءھم الامانۃ الی صاحبھم و خیانتکم، وبصلاحھم فی بلاد ھم وفساد کم۔

(اور خدا کی قسم میرا خیال یہ ہے کہ عنقریب یہ لوگ تم سے اقتدار چھین لیں گےاس لئے کہ یہ اپنے باطل پر متحد ہیں اور تم اپنے حق پر متحد نہیں ہویہ اپنے پیشوا کی باطل میں اطاعت کرتے ہیں اور تم اپنے امام کی حق میں بھی نافرمانی کرتے ہویہ اپنے مالک کی امانت اس کے حوالے کردیتے ہیں اور تم خیانت کرتے ہویہ اپنے شہروں میں امن وامان رکھتے ہیں اور تم اپنے شہروں میں بھی فساد کرتے ہو۔ )(نہج البلاغہ خطبہ نمبر ۲۵)

ساتھ ہی پیش گوئی فرمائی کہ پیش آمدہ حالات میں (جبکہ تم اپنے رہبر اور امام کی طرف سے عائد ہونے والے فریضے کی ادائیگی میں سستی کرتے اور نافرمانی برتتے ہو اور دشمن اپنے مکرو فریب میں ہر روز موثرقدم بڑھا رہا ہے) جلد ہی معاویہ اور اس کے طرفدار کامیاب ہو کر تم پر مسلط ہو جائیں گے اور یوں ایک تاریک مستقبل اور ہولناک مقدر تمہارے انتظار میں ہے۔

اما انکم ستلقون بعدی ذلا شاملا و سیفا قاطعا واثرۃیتخذھا الظالمون فیکم سنۃ۔ (۲)

(مگر آگاہ رہو کہ میرے بعد تمہیں ہر طرف سے چھا جانے والی ذلت اور کاٹنے والی تلوار کا سامنا کرنا ہے اور ظالموں کے اس وتیرے سے سابقہ پڑناہے کہ وہ تمہیں محروم کر کے ہر چیز اپنے لئے مخصوص کر لیں )

اور آخر کار امیرالمومنین ؑ کی دعا :فابدلنی خیرا منھم (ان کی بجائے ان سے بہتر افراد مجھے عنایت فرما) پوری ہوئی اور ان افراد کی بجائے جن سے امیرالمومنین ؑ رنجیدہ تھے اﷲ تعالیٰ نے انہیں رسول اﷲؐ، انبیا اور اولیا کے ہمراہ اپنے جوارِ خاص میں مقام عنایت فرمایا اور آپ ؑ نے اپنی خون آلود اور مجروح پیشانی کے ساتھ آخری کامیابی کا استقبال کیا اور فزت ورب الکعبہ (۳) کہتے ہوئے اپنے رب سے ملاقات کے لئے روانہ ہوئے۔

۱نہج البلاغہ۔ خطبہ نمبر ۳

۲نہج البلاغہ خطبہ نمبر ۵۸

۳عربی لغت نامے اقرب الموارد میں ہے کہ (فاز بخیر ای ظفربہ ویقال لمن اخذحقہ من غریمۃ:فاز) اس طرح کلمۂ فوز کے اصلی معنی کامیابی ہیں نہ کہ ہدایت اور اصلاح جیسا کہ بعض لوگوں نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی کسی مقابلے میں جیتنے والے کو فائز کہا جاتا ہے۔