علمائے دین سے حسین ابن علی ؑ کا خطاب

امیرالمومنین علی علیہ السلام کے بعد ان کے فرزند اور نواسۂ رسول (امام حسن مجتبیٰ)نے فیصلہ کیاکہ بنی امیہ کے فسادوانحراف اور معاویہ کے ساتھ مقابلے کے سلسلے میں وہ بھی امیرالمومنین ؑ ہی کے راستے پر قدم بڑھائیں گے اور ماضی کے کفر اور آج کی منافقت کی مخالفت کو امامت اور رہبری کی بنیادی ذمے داری قرار دیں گے، کیونکہ وہ بھی برحق امام تھے اور جوانانِ جنت کے سردار تھے، ان کا راستہ اور منصوبہ بھی وہی تھا جو امیرالمومنین ؑ کا راستہ اور منصوبہ تھا لہٰذا آپ ؑ نے معاویہ کے خلاف جنگ کا حکم صادر فرمایا اور لشکرِ کوفہ کو جمع کرتے ہوئے، خود فوج کے سپاہ سالار اورقائد کے طور پر محاذ کی طرف روانہ ہوئے۔

لیکن جنگ کے آغاز ہی میں ایک طرف تو خود اپنے لشکر میں موجود بے وفا افراد کی وجہ سے، جن کی تن آسانی اور سستی کی امیرالمومنین ؑ بھی ہمیشہ مذمت کیا کرتے تھے اور ان کی بے وفائی اور غیر ذمے داری کا درگاہِ الٰہی میں شکوہ کرتے تھے اور دوسری طرف ابوسفیان کے بیٹے کی چالاکی کی وجہ سے امام حسن ؑ اپنے قلبی رجحان کے برخلاف جنگ بندی قبول کرنے اور ایسے معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور ہوئے جس پر عمل درآمد کی انہیں سید الشہداامیر حمزہ کاجگر چبانے والی ہندہ کے بیٹے معاویہ ابن ابو سفیان سے کوئی امید نہ تھی۔

امام حسن بن علی ؑ نے اس تاریخی سانحے اور بظاہراپنے نرم رویے کے بنیادی اسباب کا مختلف موقعوں پر ذکر فرمایا ہے اور اپنے زمانے کے لوگوں کے سامنے اس سلسلے میں اپنی اندرونی غم انگیز کیفیت کا متعدد مواقع پر اظہار کیا ہے انہوں نے ایک تقریر کے دوران جبکہ معاویہ بھی وہاں موجود تھے یوں ارشاد فرمایا :

( اے لوگو ! معاویہ یوں ظاہر کرتے ہیں جیسے صلح کی قرارداد قبول کر کے میں نے انہیں مقامِ خلافت کا مستحق سمجھا ہے ان کا یہ کہنا درست نہیں کیونکہ اﷲ کی کتاب اور سنتِ نبیؐ کے مطابق لوگوں کی رہبری اور قیادت ہمارے خاندان کے لئے ہے (یعنی یہ کیسے ممکن ہے کہ میں کتاب و سنت کے برخلاف عمل کروں) اور خدا کی قسم اگر لوگ ہمارے ساتھ کی جانے والی بیعت میں وفادار رہتے اور ہماری اطاعت کرتے اور ہماری مدد کرتے تو خداوند متعال زمین و آسمان کی برکتیں ان پر نازل کرتا۔

(پھر معاویہ سے مخاطب ہو کے فرمایا) اور پھر تم لوگوں پر حکومت اور بالادستی کا خواب نہ دیکھ سکتےاے معاویہ ! تم رسول اﷲؐ کے اس فرمان سے باخبر ہو کہ جو قوم بھی اپنی حکومت اور سرپرستی آگاہ اور باخبر افراد کے ہوتے ہوئے بے خبر اور بے صلاحیت لوگوں کے سپرد کر دے توتباہی اور بربادی اس قوم کا مقدر ہو جائے گی اور وہ قوم بچھڑوں کی عبادت (یا گوسالہ پرستی) کا شکار ہو جائے گی۔ )

پھر فرمایا :

(بنی اسرائیل نے یہ جاننے کے باوجود کہ ہارون، موسیٰ کے جانشین اور خلیفہ ہیں، انہیں ترک کر دیا اور بچھڑے کی عبادت میں مشغول ہو گئےمسلمانوں کے درمیان بھی ایسا ہی انحراف پیش آیا اور حضرت علی ؑ کے بارے میں رسول اﷲؐ کی اس ہدایت کے ہوتے ہوئے کہ : یا علی ! انت منی بمنزلۃ ھارون من موسی (اے علی! آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی) مسلمانوں نے علی ؑ کو چھوڑ دیا اور اس کے برے نتائج کا شکار ہو گئے۔ )

پھر امام حسن ؑ نے معاویہ کو مخاطب کر کے فرمایا :

(جس زمانے میں رسول اﷲؐ لوگوں کو اﷲ اور توحید کی دعوت دے رہے تھے، انہوں نے غار میں پناہ لی تھی اور اگر ان کے انصار و اعوان ہوتے تو وہ ہرگز لوگوں سے دور نہ ہوتے۔ اے معاویہ ! اگر میرے اعوان و انصار ہوتے تو میں بھی کبھی صلح کا معاہدہ قبول نہ کرتا۔ )

پھر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :

(اﷲ تعالیٰ نے ہارون کا عذر قبول کیا، جب ان کی قوم نے انہیں چھوڑ دیا تھا اور ان کے قتل کے منصوبے بنا رہے تھےاسی طرح اﷲ نے نبی اکرمؐ کے عذر کو بھی قبول کیا جب وہ اپنا کوئی مددگار نہیں پاتے تھے اور اپنی قوم سے دوری اختیار کرتے تھےاﷲ تعالیٰ میرے اور میرے والد علی ؑ کے عذر کو بھی قبول کرے گا کیونکہ ہمیں بھی اپنے اردگرد اعوان و انصار نظر نہیں آتے تھے۔ لہٰذا (ہم نے) دوسروں کے ساتھ گزارہ کیااور یہ سب تاریخ کے قوانین اور ایک جیسے واقعات ہیں جو ایک کے بعد ایک واقع ہوتے ہیں۔ )

امام ؑ نے اپنی تقریر کے آخر میں فرمایا :

( لوگو! اگر مشرق و مغرب میں تلاش کرو تب بھی میرے اور میرے بھائی کے علاوہ تمہیں کوئی فرزندِ نبیؐ نہیں ملے گا۔ )(۱)

اسی طرح جب امام ؑ کے جاننے والوں میں سے کسی نے صلح کے بارے میں سوال کیا تو آپ ؑ نے جواب میں یوں فرمایا:

( خدا کی قسم میں نے یہ صلح اور معاہدہ صرف اس وقت قبول کیا جب دیکھا کہ کوئی ساتھ دینے والا نہیں ہےاور اگر اس مقصد کے لئے میرے پاس طاقت و قوت (انصار و اعوان) ہوتی تو دن رات معاویہ سے جنگ کرتایہاں تک کہ جو خدا کو منظور ہوتا وہ انجام پاتا : وَاﷲ، ماٰ سَلَّمْتُ اْ لأ مَر الیہِ الاّ اَنی لَم اَجِد اَنْصاراً وَلَوْ وَجدَتُ اَنْصاراً لَقاتَلْتُہُ لَیلی وَنَھٰاری حَتیَّ یَحْکُمَ اﷲ بینی وَبَینَہ۔ ) (۲)

خلاصۂ کلام یہ کہ اگر امیر المومنین علیہ السلام اپنے اہداف و مقاصد کو حاصل نہ کر سکے اور امام حسن ؑ، معاویہ کے ساتھ صلح پر مجبور ہوئے اوراگر معاویہ کو اتنی قدرت ملی کہ وہ مسلمانوں پر اپنے اقتدار کے حصول میں کامیاب ہوں اور انہیں ذلت و رسوائی سے دوچار کر دیں، انہیں اسلام و قرآن سے دور کر دیں اور یہاں تک کہ امتِ اسلامی کی تقدیر یزید جیسے خطرناک شخص کے سپرد کر دیں، تو اس کا ایک اہم ترین سبب یہ تھا کہ مسلمانوں نے اپنے امام اورولی کی اطاعت میں کوتاہی کی اور معاشرے کے بعض سرکردہ ترین افراد نے اپنے رہبر اور امام کے سلسلے میں اپنی ذمے داریوں پرتوجہ نہیں دی۔ یہ افراد نہ صرف یہ کہ امام کے احکام و فرامین کی اطاعت پر تیار نہ تھے اور ان کی معنوی اور روحانی رہبری میں قدم بڑھانے سے گریز کرتے تھے بلکہ اس کے برخلاف ایسے بے جا اعتراضات، بہانے اورچوں وچراکیاکرتے تھے کہ آخر کار ناقابلِ تلافی نقصانات اٹھانے پڑے۔

۱احتجاج طبرسی ج ۲ص ۸

۲احتجاج طبرسی ج ۲۔ ص ۱۲