۳۔ تاریخ کے پست سرشت افراد
علمائے دین سے حسین ابن علی ؑ کا خطاب • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
امام حسین علیہ السلام کے اس اہم خطبے کے یہ تین حصے ایک اعتبار سے فلسفۂ تاریخ کے درس اور علمِ اجتماعیات کے و ہ گہرے نکات ہیں جن میں اسلام کے ابتدائی۵۰ سال کے دوران مسلمانوں کی معاشرتی تبدیلیوں کے اسباب بیان ہوئے ہیں، اسلام کی عظمت کے ابتدائی دور ہی میں ظالموں اور ستمگروں کے قابض ہونے کی وجوہات ذکر ہوئی ہیں، اہلِ بیتِ اطہار ؑ کی حق تلفی اور معاویہ ابن ابی سفیان کے حاکم ہو جانے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور تین مختلف پہلوؤں سے ان مسائل کا جائزہ لیا گیا ہے۔
اس خطبے میں درحقیقت آیتِ قرآن : اِنَّ اﷲَ لااَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِم(۱) کی تاریخی شواہد اور انتہائی محسوس دلائل کی روشنی میں انتہائی خوبصورت اور دلنشین انداز میں تفسیر کی گئی ہےنیز اسی خطبے میں امام حسین علیہ السلام کے اندرونی رنج و اندوہ اور ان کی تشویش کا اظہار بھی ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ یہ خطبہ تاریخِ اسلام میں آنے والے تمام مسلمانوں بالخصوص علما کے لئے تنبیہ اور بیداری کا پیغام بھی ہے۔
امام حسین علیہ السلام نے خطبے کے تیسرے حصے میں اس اہم اور تاریخی اجتماع میں موجود مسلمانوں، اصحابِ رسولؐ اور ان کی اولادوں کو مخاطب قرار دیایہ لوگ مذہبی اور سماجی مقام کے حامل ایسے سرکردہ افراد تھے جو اپنے کردار کے ذریعے معاشرے میں ایک تحریک ایجاد کرسکتے تھےیہ وہ لوگ تھے جن کا قول و عمل، گفتار و کردار حرکت اور سکون افرادِملت کے لئے نمونۂ عمل اور لائقِ تقلید تھا۔
انہیں چاہئے تھا کہ اپنی شخصیت کی اہمیت اور اس کے مرتبے کو پہچانتے اور اپنی صحیح حیثیت کا اندازہ لگاتے اور مظلوموں کی نجات اور معاشرے کو حقیقی معنوں میں فلاح و سعادت سے ہمکنار کرنے کے لئے تدبیر کرتےلیکن دنیاوی زندگی کی محبت، مادّی لذتوں کی حرص، آسائش طلبی اور سختیوں سے بچنے کی خواہش اور بعض اوقات اپنے جمود اور سادہ لوحی کی وجہ سے ان افراد نے بزدلی کی راہ اختیار کی اور زمین پر ہمیشہ باقی رہنے کی بچکانہ خواہش نے انہیں ان کی ذمے داریوں سے غافل کر دیاان لوگوں نے خدائی احکامات کی ایسی من مانی تفسیریں کیں جن سے ان کے ذاتی مقاصد حاصل ہو سکیں اور اپنی اس بے راہ روی پر مسلسل گامزن رہے۔
یہ وہ لوگ تھے جنہیں حق اور فضیلت کا محافظ سمجھا جانے کی وجہ سے معاشرے میں خصوصی عظمت اور مقام حاصل تھا، کمزور اور قدر ت مند، سب کے دلوں میں ان کی ہیبت اور دبدبہ قائم تھا اور ہر ایک انہیں خاص احترام کی نظر سے دیکھتا تھا۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ معاشرے کی ان سے ساری امیدیں اور توقعات ضائع ہو گئیںان لوگوں نے دین اور قرآن کی حفاظت کے لئے کچھ نہیں کیا، کسی مالی نقصان کاسامنا نہیں کیا اور نہ ہی کسی پابندی، قید و بند اور اذیت و آزار کو جھیلاان کے اقربا اور رشتے دار اسلامی مقدسات کا مذاق اڑاتے رہے اور انہوں نے ان کی کوئی مخالفت نہیں کی اوردین وقرآن کے حامیوں، اسلام کی راہ میں اذیت و آزار جھیلنے والوں اور اس راہ میں جلا وطنی برداشت کرنے والوں کو کوئی اہمیت نہ دیان کی موجودگی میں اسلام و قرآن کی حرمت کو پامال کیا گیا اور یہ خاموش رہے بلکہ عملاً اسلام کے دشمنوں کی چاپلوسی اور ان سے ساز باز کی روش اختیار کی اور یوں ظالموں کی حاکمیت اور مظلوموں کے حقوق کی پامالی کا راستہ ہموار کیا۔
لیکن اگر یہ غورکرتے تو جان لیتے کہ ایسا کر کے انہوں نے درحقیقت اپنے ہی لئے ایک بڑی مصیبت کا سامان کیا ہے، اورخود اپنے ہی ہاتھوں اپنی ذلت و رسوائی کی بنیادیں رکھی ہیںکیونکہ اگر وہ حق کاساتھ نہ چھوڑتے، خطِ ولایت اور فرمانِ نبوت کے بارے میں اختلاف کا شکار نہ ہوتے، راہِ خدا میں مارے جانے سے نہ کتراتے، چندروزہ دنیاوی زندگی کی لالچ میں مبتلا نہ ہوتے اوراﷲ کے راستے میں عارضی مصیبت، مشقت اور محرومیت پر صبر کرتے، تو اسلامی معاشرے کی سربراہی اور زمامِ امور ان ہی کے ہاتھ میں ہوتی اور اﷲ کے احکام اور فرامین ان ہی کے ذریعے جاری ہوتے، مظلوم اورستم رسیدہ افراد ان ہی کے ہاتھوں نجات پاتے، محروموں اور مشکل کے ماروں کی داد رسی ہوتی اور ظالم و جابر ان کے ہاتھوں کچل دیئے جاتے۔
لیکن ان کی سستی اور کوتاہی نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا، اسلام سے ان کی دوری نے انہیں ذلیل و خوار کر دیا، اورقدرت و حاکمیت دشمنوں کے ہاتھوں میں آ گئی، وہ جس طرح چاہتے ہیں مظلوموں کے ساتھ پیش آتے ہیں اور جس طرف ان کی شقی طبیعت کا میلان ہوتا ہے معاشرے کو اسی طرف لے جاتے ہیں، اﷲ کے احکام کی تحقیر کرتے ہیں اور سنتِ رسولؐ کی اہانت نابیناؤں، محتاجوں، فقرا اور مساکین کو بنیادی ترین انسانی حقوق سے محروم کرتے ہیںمملکتِ اسلامی کے ہر گوشے میں ایک مستبد فرد حاکم ہے اور ہر علاقے پر ایک خود خواہ شخص فرمانروا ہےیہ لوگ اسلام کی قدرت اور مسلمانوں کی عزت و شوکت کو پامال کرنے کے لئے اپنے پاس موجود ہر قسم کے تبلیغاتی حربے استعمال کررہے ہیں، اسلامی دستور میں تحریف اور اسلامی قوانین کو الٹ پلٹ رہے ہیں، حدود کی سزاؤں کو انسانی حقوق کی پامالی، قصاص کو ظلم اور تعزیرات کو قساوت کے طور پر متعارف کرارہے ہیں۔
یہ وہ خطاب ہے جو حسین ابن علی ؑ نے ارشاد فرمایا، حسین ؑ جو نواسۂ رسولؐ ہیں، فرزندِ امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑ ہیں اور فاطمہ زہر اؑ کے لختِ جگر ہیںیہ صرف حسین ابن علی ؑ ہی کا کلام نہیں ہے بلکہ یہی تمام انبیا کا کلام اور تمام ائمہ و اولیائے خدا کا دردِ دل ہے، حضرت ابراہیم ؑ، حضرت موسیٰ ؑ، حضرت عیسیٰ، ؑ اور خاتم الانبیا ؐکا کلا م ہے، حضرت علی ؑ، اما م حسن ؑ اور بقیہ ائمۂ اطہار ؑ کا کلام ہے۔
۱۔ سورۂ رعد۱۳۔ آیت۱۱