مقدمه
ولایت در قرآن • آیة الله جوادی آملی
بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ واياه نستعين و
علم اگر چہ ستی مجرد سے عبارت ہے اور تمام درجات ہستی اور خصوصاً آلایش مادہ سے منزہ مرحلہ کمال ہے لیکن کمال بذات خود بہت سے مراتب کا حامل ہے۔ ان مراتب میں سے بعض کا تعلق عقل انسانی کے مرحلے سے ہے اور بعض کا دوسیم و خیال وغیرہ کے مرحلے سے۔ وہ علم کہ جو تجرد و بی خیالی تک ہو ہرگز اس علم کا ہمسر نہیں ہو سکتا کہ جو تجرد عقلی کی حد میں ہو لہذا اس اعتبار سے درجات عسلم میں قابل لحاظ تفاوت ملتا ہے جسے حیات عین کمال وجودی ہونے کے باوصف بہت سے ایسے مراتب کی حامل ہے کہ جو ہرگز ایک دوسرے کے برابر نہیں
ہیں۔
علم ایک ایسی حقیقت ہے کہ جسے کسی ذات کی طرف نسبت دی جاتی ہے اور یہ اپنے متعلق کہ جو معلوم ہوتا ہے کو عالم کے لئے روشن و واضح کرتا ہے۔ علم کا اپنے معلوم سے ارتباط مستقیم ہوتا ہے۔ معلومات ایک جیسی نہیں ہو تیں، کیونکہ بعض معلومات وجود حقیقی کی حامل ہوتی ہیں۔ اور بعض اس سے عاری ہوتی ہیں اور فقط وجود انتہاری کی بنیاد پر موجود کہلاتی ہیں۔ حقیقت غیر اعتباری کے حامل بھی بعض ثابت و دائمی موجود ہیں اور بعض متغیر و متبدل ۔ لہذا اس جہت سے علوم میں بھی قابل توجہ تفاوت پایا جاتا ہے، جیسے قدرت کہ جو عین کمال وجودی ہونے کے ساتھ ساتھ مقدورات سے تعلق کے لحاظ سے متفاوت ہوتی ہے کیونکہ مقدورات کے متعدد ایسے مراتب ہیں کہ جو ہر گز ایک دوسرے کے
مساوی نہیں ہو سکتے۔ علیم اس لحاظ سے کہ کبھی برھان کے ساتھ ہوتا ہے اور کبھی بغیر برھان کے ، دو قسموں میں تقسیم ہوتا ہے ایک قسم تحقیقی ہے اور دوسری تقلیدی۔ پہلی قسم اس لحاظ سے کہ مستقل اور قائم بالنفس ہے اور شہر مشکین سے زائل نہیں
ہوتی ، دوسری قسم سے کامل تر ہے کہ جو استقلال سے محروم ہے اور معرض زوال میں ہے۔ اجتہاد و تقلید میں اہم امتیاز یہی ایک کا استقلال اور دوسرے کی وابستگی ہے۔ اسی طرح درجات علم میں قطع وظن وغیرہ کے اعتبار سے بھی اختلاف موجود ہے۔ یہ موضوع علم منطق کے باب صناعات خاص سے مختص ہے کہ
جس میں مواد اور مبادی تصدیقی قیاس کے لحاظ سے گفتگو کی جاتی ہے۔ علم عالم سے بھی تعلق رکھتا ہے اور بعض مراحل میں علین عالم ہے اور علماء روح کی پاکیزگی اور ناپاکی کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیں چونکہ بعض تو اسے اپنی اور دوسروں کی ہدایت کے لئے حاصل کرتے ہیں اور بعض اسے زود گزر دنیا کے ٹکڑوں کا وسیلہ قرار دیتے ہیں، نہ خود انھیں اس سے کچھ فائدہ ہوتا ہے اور نہ دوسروں کو کوئی روشنی بخشتے ہیں اس لحاظ سے علم کی ایک اور قسم ناگزیر ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے :۔
" العلماء رجلان رجل عالم أخذ بعلمه فهذا ناج
وعالم تاركـ لعلمه فهذا هالك
........
ہ علماء دو طرح کے ہوتے میں ایک وہ عالم جو اپنے علم پر عمل کرتا ہے اور نجات پا جاتا ہے اور دوسرا وہ کہ جو اپنے علم پر عمل نہیں کرتا اور بلاک
ہو جاتا ہے۔
نفرس ناپاک میں موجود علم بالا کے لشکروں میں سے ظاہر ہوتا ہے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے :- " من طلب العلم ليباهي به العلماء ويمارى به السفهاء
او يصرف به وجود الناس إليه فليتبوأ مقعده من النار ان الرئاسة لا تصلح الا لأهلها
ہ جو شخص علم کو علماء کے مقابلے میں فخر کے لئے یا احمقوں سے جہال کے لئے یا لوگوں کی توجہ کے حصول کے لئے حاصل کرتا ہے اس کا ٹھکانا دوزخ ہے کیونکہ سربراہی اس کے اہل ہی کو زیبندہ ہے ۔"
اہل وہ ہے کہ جو فکر و عمل ہر دو لحاظ سے مقام شائستہ پر فائز ہولیکن اگر کسی عالم میں یہ تین خصلتیں ہوں یعنی وہ وام فخر میں بھی مبتلا ہو، جدال سعنبہار کا بھی مرتکب ہو اور بند جاہ کا بھی اسیر ہو تو طرح طرح کا عذاب اُس کے انتظار
میں ہے۔
اعاذنا الله من شرور انفسنا وسيئات اعمالنا
اللہ ہمیں ہمارے نفوس کے مشرور سے اور ہمارے اعمال کی برائیوں سے پناہ دے
اسلام میں تحصیل علم کی ترغیب کمال انسانی کے حوالے سے دی گئی ہے
جس طرح کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے، طلب العلم فريضة على كل مسلم الا وان الله يحب
بغاة العلم لله
علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے بیشک اللہ طالب علموں
سے محبت کرتا ہے؟ خود وہ علم کہ جو اہمیت کا حامل ہے اور اس سے غفلت قابل عفو نہیں ہے اور اس سے غفلت پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو ترک کرنے کے برابر ہے، کو بھی کا ملا بیان کیا گیا ہے جس طرح کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ آلہ
وسلم سے مروی ہے :
انما العلم ثلاثة : أية محكمة او فريضة عادلة اوستة قائمة ، وماخلاهن فهو فضل الله
ور علم کی تین قسمیں ہیں، آیت محکمہ، فریضہ عادلہ اور سنت قائمہ اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ اضافی ہے یہ
علم مذکور کہ جس کی تحصیل سب پر لازم ہے، کی تین قسمیں ہیں: قسیم اول : النبی تصور کائنات ثابت کرتا ہے کہ تمام تر قلمر د ہستی اس بہت محض بے نشان کی نشانیوں پر مبنی ہے۔ یہ تصویر کائنات شناخت اسماء حسنی عرفان افعال آثار خدائی ، معرفت انبیاء و مرسلین وائمہ علیہم السلام اور اب ملائکه و جنت و جہنم اور قبیل از دنیا ، ہمراہ دنیا اور بعد از دنیا کی شناخت پر محیط ہے یہ تمام تر معرفقتیں اصول اعتقادی کی طرف لوٹتی ہیں اور اسی پہلی قسم کے تحت آتی ہیں۔ :- حکمت عملی پر مبنی ہے کہ جس میں فقرہ بھی شامل ہے اور حقوق و اخلاق بھی۔ قسیم سوم : ان تجرباتی علوم پر مبنی ہے کہ جو محکم سنت الہی پر استوار ہیں۔ جو کچھ ان اقسام سے باہر ہو گا وہ واجبات میں سے نہیں بلکہ مسنون ہوگا۔ اس حدیث کی کئی ایک تفاسیر بیان کی گئی ہیں لیکن وہ علوم جو انسانی معاشرے کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں اور قوموں کو خصوصا اسلامی اقوام کو استقلال عطا کرتے ہیں مثلاً طب، صنعت اور زراعت وغیرہ ہر گز زائد نہیں ہیں بلکہ ان کا حصول واجب علینی یا کفائی ہے اور ان کے وجوب علینی یا کفائی کا حکم دوسری قسم سے اخذ ہوتا ہے اور ان کے حصول کے لئے میری قسم میں اشارہ ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ذیل بھی ان کے حصول کو ناگزیر قرار دیتا ہے: لا يستغنى اهل كل بلد عن ثلاثة يفرغ اليهم
في امر دنياهم وآخرتهم فان عد مواثقة كانواه مجا، فقيه عالم ورع، وامیرخیر مطاع
وطبيب بصير
کسی بھی بستی کے لوگ ان تین افراد سے بے نیاز نہیں ہو سکتے کہ جوان دنیاوی اور اخروی ضروریات کو پورا کرتے ہوں۔ اگر ان میں سے قابل اعتماد لوگ نہ ہوں تو لبستی والوں کی رسوائی ہے :۔ ایک فقیہ عالمیم با ورع
دوسرا ایسا اچھا سر براہ کہ جس کی اطاعت کی جائے۔
تیسرا طبیب بابصیرت
اگر دفاعی اور طبی صنعتوں جیسے تجرباتی علوم ایک حقیقی تمدن کی خوشحالی اور ترقی میں وخیل نہ ہوتے تو ان کا فقدان رسوا کن اور حیوانی زندگی کا باعث نہ بنتا۔ پس اس طرح کے علوم انہی تمین علوم کا حصہ ہیں پس علوم کے وہ شعبے کہ جن کا حصول جواب
ہے، واضح ہو جاتے ہیں۔ اس مقام پر ضروری ہے کہ اس امر کی طرف توجہ دی جائے کہ اسلام نه فقط اصل علم کا احترام کرتا ہے اور نہ فقط مفید علوم کا تعارف کرواتا ہے بلکہ اس نے ایسے مراکز علمی اور دانشگا میں بھی قائم کی ہیں کہ جوان علوم کی تدریس کی زیر میں اور انسانی معاشروں کی ان کی طرف راہنمائی بھی کی ہے کہ جس کی طرف بعد میں
اشارہ کیا جائے گا۔ انسان طبیعت کے اعتبار سے ایک وجود بے قرار ہے اور مادہ اور مدت کے اعتبار سے منور سے اور جزو سیع ہے صحیفہ سجادیہ میں ہے مرا فانها ( النفوس)
مختارة للباطل الأمـا وفقت امارة بالسوء الا ما رحمت تاہم جب تک مقہور و مجبور نہ ہو دوسروں کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے تیار نہیں ہوتا لہذا یہ جو کہا جاتا ہے کہ انسان مدنی بالطبع ہے اس کے بارے میں تجزیے کی ضرورت ہے کہ آیا بالا صالت مدنی ہے یا بال اضطرار یا کیا اپنی فطرت میں ایسا ہے یا مجبور ہوگر لیکن فطرت کے اعتبار سے انسان حق بین اور حق طلب ہے اور تمدن اپنے حقیقی معنی میں اس کی بینا اور خالص فطرت کے ساتھ ہے ، لہذاوہ مدنی بالفطرت ہے ، اگر چه اصالتا مدنی بالطبع نہ ہو ۔ فطرت توحیدی کے تقاضے کے تحت مدنی ہونے کا یہ معنی نہیں کہ وہ شہر میں رہتا ہو دیات میں نہ رہتا ہو کیونکہ مادی انسان اگر شہر میں بھی رہتا ہو تو بھی حقیقی تمدن و حضارت سے محروم ہے جیسا کہ ایک النبی انسان دیبات میں بھی رہتا ہو تو بھی فطرت کے خالص تمدن سے بہرہ مند ہے۔ اگر کوئی مفکر فلسفہ الہی، فقہ، اسلامی حقوق اور اسلامی اخلاق کے زیر سایہ تجرباتی علوم حاصل کرے تو اس نے اپنی ندائے فطرت پر ہی لبیک کہی ہے وگرنہ اس نے مادی علوم کے ہتھیار سے اس آواز کو خاموش کر دیا ہے اور اس آواز دینے والے کو پھرو ہوس
کے انبار تلے دفنا دیا ہے، قرآن فرماتا ہے : وَقَدْ خَابَ مَنْ دَشَهَا (شمس - ١٠)
د اور نامراد ہوا جس نے اسے خاک میں ملایا ۔
امام سجاد علیہ السلام والش انہی کے راہیوں کے لیے یوں دعا فرماتے ہیں، اللهم واعمو بذلك من شهد بالربوبية ، و اخلص لك بالوحدانية ، وعاداه لك بحقيقة
العبودية، واستظهر بك عليه في معرفة العلوم
الربانية
حقیقت اسلام اگر صورت عینی میں سامنے آجائے تو وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیرالمومنین علیہ السلام جیسے امام معصوم کی صورت میں ظاہر ہو گی اور اگر لفظی اور کتبی صورت میں ظہور کرے تو قرآن اور حدیث معتبر کے نورانی چہرے کی صورت میں حجم ہوگی ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بارے میں اور اسی طرح امام معصوم کے بارے میں جو کچھ فرماتے ہیں وہ حقیقت اسلام کی ہی تعریف کے مانند ہے لہذا حدیث معروف " انا مدينة العلم وعلى بابها ، متمدن بالفطرت انسانوں
کو اس مدینہ علوم کی طرف دعوت دیتی ہے کہ جس میں جانا ان پر لازم ہے اور اسلام کو الہی نظریہ کائنات، فقہ، حقوق، اخلاق اور سود مند مجرباتی علوم کا گہوارہ قرار دیتی ہے۔ قرآن اور سنت معصومین علیہم السلام کے بارے میں کبھی فرمایا گیا ہے ؟ اني تارك فيكم الثقلين كتاب الله و عترتى
د میں تمہارے پاس دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ایک
اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت وال)۔
اور کبھی فرمایا گیا ہے :
انا مدينة العلم وعلى بابها »
کیونکہ اناء سے مراد ثقل اکبر اور قرآن کریم ہی ہے اور علی سے مراد فقط ا لی یونین
علیہ السلام اور فقط آپ کی ذات نہیں بلکہ یہاں آپ کی شخصیت حقوقی کا ذکر ہے یعنی حقیقت ولایت و امامت ہے کہ جس کی تھیلی تمام معصومین علیہم السلام میں ہے۔
اس اعتبار سے حدیث کا معنی یہ ہے کہ حقیقت اسلام تمام ضروری علوم کا شہر ہے لہذا مذکورہ تین علوم کا مدینہ حوزہ اور دانش گاہ اسلام کی کابل اور جامع حقیقت ہی سے عبارت ہے۔ جیسے چند اصول کلی سے ہزاروں فقہی فروعات استنباط کی جاسکتی ہیں اسی طرح چند قواعد کلی سے حسن و عمل کی مدد کے ساتھ بہت سارے تجرباتی مسائل اخذ کیئے جاسکتے ہیں فرق یہ ہے کہ فقہی منابع تجرباتی علوم کے منابع کی نسبت محدود تر ہیں اور ان میں تعقل کی نسبت تعبد زیادہ ہے جبکہ تجرباتی علوم میں تعد کی نسبت تعقل زیادہ ہے۔ تجرباتی علوم میں تعہد سے مراد وہ وضع کئے گئے اصول اور مفروضے ہیں کہ جو کبھی ثابت نہیں ہوئے�� اسلامی معاشرہ میں قدرضروری علوم سے محروم ہو گا اسی قدر احکام الہی کو عملی صورت دینے سے محروم ہو گا۔ اور پھر ایسے معاشرے کو مدینہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ آپ کا مدینہ، مدینہ اسلام اور مدینہ فاضل علم ہی ہے۔ اس امر کی علامت کہ تمام آئمہ علیہم السلام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی مانند باب مدینتہ العلم ہیں، وہ بلند تعبیرات ہیں، جوان ذوات مقدسہ کے بارے میں
زیارات وغیرہ میں آئی ہیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ۔ نحن ولاة امر الله وخزنة علم الله وعيبة وحى الله
ہم امر الہبی کے ولی ہیں ، علم خدا کا خزانہ ہیں اور وحی الہی کا مخزن ہیں۔
یہ بھی فرمان ہے : "الأوصياء هو ابواب الله عز وجل التي يؤتى منها ولولاهم ما عرف الله عز وجل وبهم احتج الله
تبارك وتعالى على خلقه الله
انکے اوصیاء اللہ عزوبل کے وہ ابواب میں کہ جن کے ذریعے سے داخل ہوا جاتا ہے اور اگر وہ نہ ہوں تو اللہ عزوجین پہنچانا نہ جائے اور انہی کے وجود سے اللہ تبارک و تعالے اپنی مخلوق پر حجت تمام کرتا ہے۔
نسل انسانی کے حیران کن حد تک بڑھ جانے کی وجہ سے بے شمار افکار پیدا ہوئے ہیں اور بہت سے علوم سامنے آئے ہیں ان سب کا حصول نہ فقط کسی ایک فرد یا کسی ایک خاص گروہ کے لیبس کی بات نہیں بلکہ بہت سارے گروہ ہل جائیں اور ان کے پاس ضروری وسائل بھی ہوں تو بھی آسان نہیں۔ اسی وجہ سے حکمت نظری یعنی فلسفه و کلام وغیرہ اور حکمت عملی یعنی فقہ، اخلاق اور ان کے مقدماتی علوم دینی علمی مراکز کے ذمہ ہیں جبکہ ریاضی، سائنسی علوم اور بعض دیگر عملی علوم یونیورسٹیوں کے ذمہ ہیں۔ بعض اوقات ہر دو مراکز میں کوئی فرد یا ایسا ادارہ سامنے آتا ہے کہ جو دوسرے مرکز کے علوم کا بھی حامل ہوتا ہے۔ تم کا مقدس حوزہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد سے پہلے کی نسبت وسیع سطح پر اپنی ذمہ داری ادا کر رہا ہے اور فقہ واصول کی تالیف و تدریس کے علاوہ علوم قرآن کی تدریس اور تربیتی اور موضوعی لحاظ سے تفسیر قرآن کی تالیف و تدریس نیز اصول عقائد، رجال، درایت ، نہج البلاغہ اور اقتصاد وغیرہ کی تدریس میں بھی مشغول ہے تاکہ علوم اسلامی کے مختلف شعبوں میں تخصص و مهار (SCALCAT) کے لئے راہ ہموار ہو سکے۔ حوزہ علمیہ قم کی محترم انتظامیہ کے ابتدائی اقدامات کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ۱۹۸۶ء میں تفسیر موضوعی کا کچھ حصہ و کرامت در قرآن کے عنوان سے شائع ہوا اور اب ہر طرح کی تنقید اور ضروری اصلاح کو سامنے رکھتے ہوئے ولایت در قرآن کے عنوان سے کتاب حاضر اہل نظر کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔ ادارہ ، نشر فرهنگی رہا ، کو ان کتب کے شائع کرنے کی توفیق حاصل ہو رہی ہے۔ کلمہ ولایت کبھی ایسے معنی میں استعمال ہوتا ہے کہ اولیاء الہی کے رتبا وجودی
کی نشاندہی کرتا ہے اور کبھی یہ اسلامی معاشرے اور امت کے والی اور متولیوں کے
مقام اعتباری کا ترجمان ہوتا ہے۔ اس کتاب کے مطالب کا بڑا حصہ ولایت اولیاء کے بارے میں ہے اور وہ امور کہ جو معاشرے کے والیوں کی ولایت سے متعلق ہیں خصوصا عصر غیبت کے حوالے سے انشاء اللہ انھیں ایک اور کتاب میں بیان کیا جائے گا۔
اولیاء الہی کی ولایت انسان کے ذریعے سے حاصل نہیں ہوتی اور نہ ہی انسان اسے چھین سکتا ہے کیونکہ یہ کمال وجودی ان برتر علل سے وابستہ ہے کہ جن کے ظہور میں آنے سے یہ ولایت ظہور میں آتی ہے اور جن کے اخفا سے یہ ممتنع ہو جاتی ہے، جبکہ حکمرانوں اور والیوں کی ولایت اس کے برخلاف خفیف اور کتر لوگوں کے ذریعے سے وجود میں آجاتی ہے اور اسی طرح سے ختم بھی ہو جاتی
ہے کیونکہ اس کا ظہور و سقوط اعتبار کنندگان سے وابستہ ہے۔ اولیاء الہی کی ولایت ہی ہمیشہ سالکوں کا مطمح نظر رہا ہے۔ دعاؤں میں ہیں کے حصول کی ترغیب دی گئی ہے جبکہ اس کے برخلاف سالک لوگ ہمیشہ کوشش کرتے آئے ہیں کہ حکمرانوں کی ولایت کسی دوسرے کے سپرد کر دیں اور خود حقیقی چیز کی طرف متوجہ رہیں۔ نہج البلاغہ میں ہے :
و من فوت ولا يتكوالتي انما هي متاع ايام قلائل يزول منها ما كان كما يزول الشراب له
تمہاری ولایت و حکومت چند دنوں کی ایک ایسی متاع ہے کہ میں
کا چلے جانا ایسے ہے جیسے سراب کا زائل ہو جاتا ۔
اگر چہ والیان صالح کی ولایت نعمت الہی ہے جیسا کہ امیر المومنین نے فرمایا
فو الله الى لأولى الناس بالناس
و اللہ کی قسم میں انسانوں سے خود ان کی نسبت اوٹی ہوں تھے
اور اس کے بغیر معاشرہ ہرج مرج کا شکار ہو جاتا ہے اور ایک عمومی مصیبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ لہذا اولیاء الٹی ہمیشہ اس مسئلے پر پریشان رہے ہیں جیسا کہ امام
علی علیہ السلام نے فرمایا ہے :- ولكننى اسى ان يلى امر هذه الامة سفهاؤها وفجارها فيتخذوا مال الله دولاً وعبـاده
خولا
لیکن میں ڈرتا ہوں کہ اس امت کی باگ ڈور اس کے احمقوں اور فاجروں کے ہاتھ نہ آجائے اور پھر وہ اللہ کے مال کو آپس میں بانٹتے رہیں اور
اس کے بندوں کو غلام بنا لیں یا لیکن چونکہ یہ واجب کفائی ہے نہ کہ واجب عینی ، لہذا سبکباران ساحل کو اس کے حصول پر کوئی اصرار نہیں رہا۔ امیر المومنین فرماتے ہیں : "والله ما كانت لي في الخلافة رغبة ولا فى ما الولاية اربة الله
و نہ مجھے خلافت کا کوئی شوق تھا اور نہ ہی حکومت کی کوئی حاجت و
یہ بھی فرمایا ہے: دعوني والتمسوا غيري فانا مستقبلون املاله
وجوه والوان :
کے
مجھے چھوڑ دو اور (اس خلافت کیلئے میرے علاوہ کوئی اور ڈھونڈ لو ہمارے سامنے ایک ایسا معاملہ ہے جس کے کئی مریخ اور کئی رنگ ہیں ہے
جب کہ ولایت اولیاء اس کے بر خلاف ایک واجب عینی ہے۔ لہذا دعاؤں کا ایک بہت بڑا حصہ اسی ولایت کی طلب پر بیتی ہے۔ اسی طرح قرآن کریم جو تعلیم دعا کا مرتی ہے اس میں بہت ساری آیات اسی ولایت کے بارے میں میں اور ان میں سے چند ایک کا ذکر ہم اس
کتاب میں کریں گے۔ ولایت کے بارے میں بحث کرنا اور اس کو طلب نہ کرنا علم بے عمل ہے
اور علم اگر عمل کے بغیر ہو تو کھو جاتا ہے اور اہلیت نہ رکھنے والے مقام سے ہجرت کر جاتا ہے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :
العلو مقرون إلى العمل فمن علم عمل وعمل علم والعلم يهتف بالعمل فان اجابة الأرتحل
عنه ہے
علم، عمل کے ساتھ ساتھ ہے جس نے علم حاصل کیا اس نے عمل کیا اور جس نے عمل کیا علم پایا ۔ علم عمل کو دعوت دیتا ہے پس اگر وہ قبول کرے تو یہ باقی رہتا ہے ورنہ یہ اسے چھوڑ دیتا ہے۔
دعا بھی علم پر عمل کے لیے راہ ہموار کرتی ہے لہذا اولیاء واصل یعنی انبیاء اور آئمہ معصومین علیهم السلام ہمیشہ دعا کے ذریعے سے ظہور ولاء کا سرمایہ فراہم کرتے تھے اور کوچہ ولایت کے تمام راہیوں میں ولایت کے آب شیرین کی تشنگی پیدا کرتے تھے اور انہیں حکمرانوں کے آب ولایت سے روکتے تھے کہ جو تکاثر سے زیادہ کچھ نہیں تاکہ کوثر ولایت اولیا ان کے درون و بیرون سے پھوٹے کیونکہ وہی و ہو الظاهر والباطن" کے مظہر ہیں۔ ہاں جب تک وہ تکاثر سے چھٹکارا نہ پائیں کوثر
تک نہیں پہنچ سکتے ۔ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے۔
لألقيت حبلها على غاربها ولسقيت أخرها بكأس اولها ولألفيتم دنيــاكـم هــذه از هد عندى
من عفطة عنزله
تو میں خلافت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیانے سے اسے اول سیراب کیا تھا اور تم اپنی دنیا کو میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ
ناقابل اعتنا پاتے۔
کتاب «کرامت در قرآن کے مقدمے میں جیسے ہم نے اہل راز و رمز کی کچھ دعائیں نقل کی تھیں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کے مقدمے میں بھی اہل سیر دسر کی کچھ دعائیں اور ندائیں ذکر کی جائیں تاکہ علم اور عمل کا کچھ امتزاج ہو جائے اور طلابے دھا کی طراوت خبر جامد اور اطلاع خشک کی پژمردگی کو دور کر دے امام جعفر حاتی عیر اسلام
نے فرمایا۔
الدعاء كهف الاجابة كما ان السحاب
كهف المطر
دعا قبولیتِ الہی کا مقام ہے جیسے بادل بارش کا ذریعہ ہیں یہ
جیسے یقین محکم اور شوق عمل اڑنے کے لیئے دو طاقتور پر ہیں اسی طرح سے طبیبہ فطری اور شہوت عملی راستے کی دو رکاوٹیں ہیں ۔ لہذا امام سجاد علیہ السلام کہ جو ھو الداعی
کے مظہر ہیں فرماتے ہیں ۔ و ان هممنا بعمل صالح تبطنا عنه يتعرض لنا بالشهوات وينصب لنا بالشبهات نه
جب بھی ہم کسی اچھے کام کا ارادہ کرتے ہیں تو شیطان ہیں روکتا ہے اور وہ
ہمارے راستے میں شبہات اور شہرت کا دام بچھاتا ہے اور یوں راہزنی
کرتا ہے۔ طالبان والی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا تیزم شک و شبہ سے منزہ ہو ، عزم کمزوری سے میرا ہو اور شوق غبارِ شہوت سے پاک ہو کیونکہ
ان النا قد بصيره
یقینا جانچ کرنے والا لبصیر ہے۔
وهب لى الانس بك وباوليائك ..... وامتن على بشوق اليك ...
۔
مجھے اپنی اور اپنے اولیاء کی محبت عطا فرما .... مجھ پر اپنی جانب کا شوق ارزانی فرما۔ را بیان ولا " بھوک پیاس ، شب بیداری ، خلوت اور ذکر دوام، کے زرین لمحات کے لئے بے قرار رہتے ہیں لہذا رمضان المبارک کے آنے پر جشن مناتے ہیں امام سجاد علی اسلام
ماہ مبارک کو مخاطب کر کے کہتے ہیں:
السّلام عليك يا شهر الله الاكبر ويا عيد اوليائه و
ہ اسے اللہ کے عظیم مینے تجھ پر سلام اور اسے اولیاء خدا کی عید مجھ
پر سلام " اس مہینے میں چونکہ قرآن نازل ہوا اس لیے اولیاء خدا اس میں زیادہ تر کلام اللہ
کی خدمت میں رہتے ہیں اور اس کے اُن اسرار کے طالب ہوتے ہیں کہ جو کو سہاروں کو میسر نہیں امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں۔
" حتى توصل إلى قلوبنانه و عجائبه ومن واجر امثاله التي ضعفت الجبال الرواسي على صلابتها
عن احتماله
تاکہ اس کے عجائب اور رمونز کی حقیقتوں اور اس کی متنبہ کر دینے والی مثالوں کو کہ جنہیں اٹھانے سے پہاڑ اپنے استحکام کے باوجود عاجز آچکے
ہیں ہمارے دلوں میں اتار دے۔
سالکان کوئے دلا بے قرار ہو کر یوں اللہ کی حمد کرتے ہیں کہ انہیں سعید ان
اہل ولا میں مقام مل جائے۔
حمداً نسعد به في السعداء من اوليائه ونصير به في نظم الشهداء بسيون اعدائه انه
ولى حميد
ایسی حمد جس کے ذریعے اس کے خوش نصیب دوستوں میں شامل ہو کو خوش نصیب قرار پائیں اور شہیدوں کے زمرے میں شمار ہوں جو اس کے دشمنوں کی تلواروں سے شہید ہوئے بیشک وہی مالک مختار اور قابل ستایش ہے پہلے
نیز اولیا الہی چونکہ ولاہ نصر کے بھی حامل ہیں اور منصور خدا ہرگز خوار نہ ہو گا الینا
وہ یوں زمزمہ سرا ہوتے ہیں۔ "اللهم انك من واليت لم يضره خذلان الخاذلين ومن اعطيت لم ينقصه منع
المائعين
بارالہا جس کی تو نے مدد کی اسے مدد نہ کرنے والوں کا مدد سے محروم رکھنا کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا اور جسے تو عطا کرے اس کے ہاں روکنے
والوں کے روکنے سے کچھ کمی نہیں ہو جاتی ہے
اولیاء الہی چونکہ ولاء محبت سے بہرہ ور ہوتے ہیں اور اللہ کی محبت تکبر سے ہم آہنگ نہیں۔ بزم محبت میں جو کوئی بھی مقرب تر ہے بارگاہ قدس النبی میں اس کی خاکساری
افزون تر ہے، امام سجاد علیہ السلام بارگاہ انہی میں عرض کرتے ہیں ۔ وان احب عبادك اليك من ترك الاستكبار عليك و جانب الاصرار ولزم الاستغفار
یقینا تمام بندوں میں سے وہ بندہ تجھے زیادہ محبوب ہے جو تیرے مقابلے میں سرکشی نہ کرے، گناہوں پر مصر نہ ہو اور توبہ و استغفار کی
پابندی کرے۔
اس لحاظ سے کہ ولاء شیطان ولاو رحمان کے لیے رکاوٹ ہے اولیا الہی
میشه گزند شیطان سے نجات کی دعا کرتے ہیں ۔
اللهم اجعلنا في نظم اعدائه واعز لنا عن عداد اوليائه لا نطيع له .
اسے اللہ ہمیں اس کے دشمنوں میں شمار کر اور اس کے دوستوں میں شمار ہونے سے علیدہ کرلے تاکہ وہ ہمیں بہکائے تو اس کی اطاعت نہ کریں ہے۔ قیامت میں اولیاء الہی چونکہ خوف وہراس سے محفوظ ہونگے اور بہشت میں ان کا ٹھکانا تزیمین الہی کا حامل ہوگا چونکہ اللہ نے اس بہشت کو اپنے اصفیاء کے لیے مزین فرمایا ہے لہذا ان کے ساتھ حشر و نشر اور بہشت میں ان کی ہمسائیگی را بیان ولاء کی ایک
تمنا ہے۔ وارحمني في حشري ونشرى واجعل في ذلك
اليوم مع اولياءك موقفى
اے میرے مولا حشر و نشر کے ہنگام محمد پر رحم کرنا اور اس دن میرا قیام اپنے دوستوں کے ساتھ قرار دینا یکے
" وجاور بي الأطيبين من اوليائك في الجنان التي زينتها الأصفيائك
اور جنت میں اچھے تو نے اپنے برگزیدہ بندوں کے لیے سجایا ہے، مجھے اپنے پاکیزہ دوستوں کا ہمسایہ قرار دے بیٹے
نیز اس اعتبار سے اولیاء الہی کے حضور رسوائی زیادہ ذلت کا باعث ہے، لہذا اللہ سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اس سے نجات عطا فرمائے۔
ولا تخزني يوم تبعثني للقائك ولا تفضحنى بين يدى اولياتك .
اور جس دن مجھے اپنی ملاقات کے لئے اٹھانے مجھے ذلیل و خوار اور
اپنے دوستوں کے سامنے رسوا نہ کرنا ہے اولیاء الہی چونکہ قرب خاص کے حامل ہیں لہذا ان کی محبت اور ان کی محفل میں شرکت ان کے راستے کے راہیوں کی مطلوب رہی ہے۔ واجعلني فيه من اوليائك المقربين
اور مجھے اس دن اپنے مقرب اولیاء میں سے قرار د سے بجھے اللهم اجعلني فيه محبا لأوليائك ومعاديا لأعدائك
بار الہا اس دن مجھے اپنے اولیاء سے محبت اور اپنے اعدا سے دشمنی
کرنے والا قرار دے لیے
اہل ولا کے لیے چونکہ افزائش محبت کی فضا سازگار ہے اور ان میں سے بعض کے دل میں یہ تمنا ہے کہ حق تعالے سے ان کی محبت بڑھ جائے بہذا مشتاقان کو نئے
ولایت یوں کہتے ہیں :۔ " الهي اتمنى فى اهل ولايتك مقام من رجا الزيادة من محبتك
الہی امجھے اپنی ولایت کا وہ مقام عطا فرما جس میں تیری محبت کی امید زیادہ ہوئی اس لحاظ سے کہ اولیاء الہی کا واضح ترین مصداق حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ آلو دکلم اور ان کے اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام ہیں لہذا ان سے الحاق کی دعا کی جاتی ہے :- والحقني باولياتك الصالحين محمد واله الابرار الطيبين الطاهرين الاخيار صلواتك عليهم وعلى
اجساد هو وارواحهم ورحمة الله وبركاته اور مجھے ملحق کر دے اپنے صالح اولیاء محمد اوران کی نیک پاک طاہر اور اہلِ خیرال کے ساتھ، تیرا درد وہ ان پر، ان کے جسموں پر اور ان کی روحوں پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں ان پر یکے اولیاء الہی چونکہ ولایت حق کے ذریعے عزیز ہیں اور اس اعتبار سے عزت خاص
کے حامل ہیں لہذا یوں زمزمہ سرا ہوتے ہیں۔
يا من خص نفسه بالسمو والرفعة فاولياؤه بعزه يعتزون “
اے وہ کہ جس نے اپنے نفس کو بلندی درفعت سے مختص کر دیا ہے ہیں اس کے اولیاء اس کی عزت سے عزت پاتے میں لے جیسا کہ اللہ کی ہیبت و جلال کا جامہ بھی زیب تن کئے ہوتے ہیں۔ "ويا من البس اولياؤه ملابس هیبته فقاموابين
يديه مستغفرين
اسے وہ کہ جس نے اپنے اولیاء کو لباس ہیبت اس طرح سے پہنا دیا ہے کہ وہ اُس کے حضور حالت استغفار میں کھڑے ہیں لیے
خلاصہ یہ کہ اولیاء الہی کی ولا کی طلب کی علامتیں دعاؤں اور اذکار میں بہت زیادہ ہیں میناجات میں اللہ کو زیادہ تر لفظ " مولی سے پکارا گیا ہے یہ اس امر کی دلیل ہے کہ معلمان نفوس نے طریق ولایت کو طے کرنے کی طرف خصوصی توجہ دی
اب جب کہ کوچہ مال کے سالکوں کا اسلوب دعا اجمالی طور پر واضح ہو گیا ہے تو کو چلا ولایت تک جا پہنچنے والوں نے جو کچھ پایا ہے اسے بھی معلوم ہونا چاہیئے۔ سلوک جس درجہ کا ہوگا وصول اسی کی مناسبت سے ہوگا اگر نہایت کمال تک جا پہنچے گا تو وصول کامل اس کے ہمراہ ہوگا جیسے کہ کوچہ ولا کے اہل سلوک کے لیے بہترین زمزمہ اس راستے کے قافلہ سالاروں یعنی معصومین علیهم السلام کی دعائیں ہیں اسی طرح اس کوچے کے واصلان نیسی کے لیئے بہترین نجوا و نوا بھی
اس منزل کے واصلان کامل یعنی معصومین علیہم السلام ہی کی مناجات ہیں۔ ولایت تک رسائی توحید ذات وصفات و افعال کا شہود ہی ہے اس کے با وجود کسی کمال ہستی کی نسبت غیر خدا کی طرف نہیں دی جا سکتی بلکہ سب کمالات کہتی
اس کے باوجود علی علیہ اسلام ذات اقدس الہی کے حضور اپنی حاصل نہ دعائیں عرض کرتے ہیں :۔
"وعد على بفضلك على مذنب قد غمره جهله اور مجھ جیسے پر اپنے فضل وکرم سے ترحم فرما کہ جو اپنی جہالت و نادانی سے گناہوں کی دلدل میں پھنس گیا ہے ہے
جیسا کہ ہم سب ماہ مبارک رمضان کی دعاء افتتاح میں عرض کرتے ہیں " فأرحم عبدك الجاهل» (اپنے جاہل بندے پر رحم فرما، کیونکہ حق تعالی کے ذاتی اور بے کراں علم کے مقابلے میں صاحب مقام " سلونی ، اور دوسرے یکساں
ہیں۔
کمالات وجودی میں سے ایک قدرت بھی ہے۔ کو چڑ ولایت کے ہر راہی کو اس کی ضرورت ہے لیکن جب واصل ہو جاتا ہے تو دیکھتا ہے کہ تمام قدر میں اور طاقتیں حق تعالے کے بے کراں اقتدار کے سامنے فانی ہیں اور وہ دیکھتا ہے کہ نہ اس کے پہلے کچھ ہے اور نہ کسی اور کے پاس۔ اگرچہ سید الاولیاء حضرت علی
ابن ابی طالب فرماتے ہیں:۔ وَاللهُ لَوْ تَظاهَرَتِ الْعَرَب عَلَى قِتَالِي لَمَّا وَلَّيْتُ عَنْهَا ، اللہ کی قسم اگر سارے عرب میرے قتل کے لئے جمع ہو جائیں تو بھی میں ان
کی طرف پشت نہیں کروں گائیے
نیز یہ بھی فرمایا : والله ما قلعت باب خیبر و رمیت به خلف ظهری اربعين ذراعا بقوة جسدية ولا حركة غذائية لكنى
ايدت ملكوتية ونفس بنور ربها مضيئة اللہ کی قسم باب خیبر کو قوت مادی سے نہیں اکھاڑا تھا کہ طاقت ملکوتی او نور پر ور دگار سے روشن نفس سے اکھاڑ پھینکا تھا لے
اس کے باوجود اپنے زمزمہ واصلانہ میں ساحت قدس حق کے حضور
عرض کرتے ہیں : رب ارحم ضعف بدنى ورقة جلدى ودقة
عظمی
ماے میرے پروردگار میرے بدن کے نعت میری جلد کی نرمی اور میری ہڈیوں کی کمزوری پر رحم کر، ہے اور اگرچہ آپ لافانی الا علی لا سیف الا ذو الفقار کے بلند مقام پر فائز ہیں اس کے باوجود یوں گریہ وزاری کرتے ہیں۔ ارحم من رأس ماله الرجاء و سلاحه البكاء پر ور دگا لا اس پر رحم فرما کہ جس کا سرمایہ امید اور جس کا ہتھیار بکا ہے ہے تربیت بھی روح کے کمالات وجودی میں سے ایک ہے اور ہر طالب ولا اس کا نیاز مند ہے لیکن جب کوئی سالک واصل ہو جاتا ہے تو وہ ہر طرح کی حریت کو حق تعالے کی ہستی مطلق میں فنا پاتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ اور دوسرے تو اس سے تہی دامن ہیں اگر چہ سید الاولیاء حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں،
ان قوما عبدوا الله رغبة فتلك عبادة التجار وان قوما عبدوا الله رهبة فتلك
عبادة العبيد ، ان قوما عبدوا الله شكرا فتلك
عبادة الاحرار ایک جماعت نے اللہ کی عبادت ثواب کی رغبت و خواہش کے پیش نظر کی بیہ سودا کرنے والوں کی عبادت ہے اور ایک جماعت نے خون کی وجہ سے کی یہ عبادت غلاموں کی عبادت ہے اور ایک جماعت نے از روئے شکر و سپاس عبادت کی یہ آزادوں کی عبادت ہے لیے جب کہ آپ سے ایک حدیث مرسل یوں مروی ہے: "الهي ما عبدتك خوفا من نارك ولا طمعا من جنتك بل وجدتك اهلا للعبادة فعبدتك
انہی میں نے تیری عبادت تیری آگ کے خون سے نہیں کی ہے اور نہ ہی تیری جنت کے لالچ میں بلکہ میں نے تیری عبادت مجھے عبادت کا اہل
پا کر کی ہے تے اگرچہ اس مضمون کی کوئی حدیث احادیث کے جوامع میں نہ بھی ہو پھر بھی اس کے مضمون کی درستی میں کوئی شک نہیں۔ کیونکہ اس شخص کی عبادت سے بڑھ کر کسی کی عبادت نہیں ہو سکتی کہ جس کی جنگ خندق کے روز ضربت تاریخ ساز عبادتوں اور سب کی عبادتوں سے روز قیامت تک افضل ہو اس کی عبادت نہ فقط احرار کی عبادت ہے بلکہ ان کی بھی بہترین عبادت، اس کے باوجود وہ بارگاہ الہی میں
اس طرح سے فریاد واصلانہ کرتے ہیں ۔
3
ومكنى من شد وثاقي "
پروردگارا مجھے اس مضبوط رسی سے آزاد فرما۔
اگر چہ وہ جہنم کے خون سے بھی آزاد تھے اور بہشت کے شوق سے بھی۔ مختصر یہ کہ کسی کمالِ ہستی کا اس بہت محض کے مقابل کوئی ظہور نہیں ہے بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر کمال صرف اسی کا وصف کمالی ہے کہ جو جام روح اولیاء میں ظاہر ہوتا ہے۔ حالت حجاب اور حالت شہرت میں در اصل فرق ظہور کمال حق کا نہیں بلکہ فرق اس ظہور کے علم اور اس ظہور کے جبل میں ہے اور سہر وہ علم کہ جو اس خاص آگا ہی
کی راہ ہموار نہ کر سے حجاب ہے۔
اب تک سالکان و واصلان کی دعاؤں کے زمزموں میں ان کے راہ توشہ و حصول کا کچھ نمونہ ذکر ہوا اور جو بیان کرنا مقصود ہے وہ عبد و مولا کے درمیان را ہ وصول ہی ہے بندہ کس راستے سے واصل حق ہوتا ہے اور اس کی حفاظت کیونکر ممکن ہے؟ اللہ سبحانہ چونکہ بہتی نا محدود ہے لدا ہر چیز خود اپنے آپ کی نسبت بھی خدا سے نزدیک تر ہے اس لیے ایک ہی راہ وصول رہ جاتی ہے اور وہ اس کا شہور ہے اور ایک ہی حجاب ہے اور وہ ہے اس کے غیر کو دیکھنا، اور حجاب کو دور کرنے کا ایک ہی چارہ ہے اور وہ ہے اس کی طرف ایسا انقطاع کہ اور اک حصولی کے لحاظ سے سرخسی، خیالی، وہمی اور عقلی چیز اور اسی طرح عظیم حضوری کے اعتبار سے بنی شہوری میں آنے والی ہر چیز وجیہ اللہ کی حیثیت سے ہو۔
"فاينما تولوا فشم وجه الله »
پس تم جس طرف بھی منہ کرو گے تو اللہ کو موجود پاؤ گے لیے
" جب سالک بصیرت کے لحاظ سے ایسے مقام تک پہنچ جائے کہ اپنی اور دوسروں"
کی تمام تر ہستی کو اس بے نشان کی نشانی پائے تو پھر وہ اپنے افکار پر بھی مسلط ہو جاتا ہے کہ برا سوچتا ہے نہ برا چاہتا ہے اور اسی طرح ہوش اور وسوسے سے پیدا ہونے والی خواہشات پر پر وہ نسیان ڈال دیتا ہے اور محو کر دیتا ہے نیز اپنی رفتار و گفتار پر بھی اس طرح سے قابو پا لیتا ہے کہ رضائے حق کے خلاف قدم نہیں
اٹھاتا۔
جب سالک مشہور حق کے اعتبار سے شرک آلود فکر و نظر ، ذکر و بینش اور روش و کردار سے سنجات پالیتا ہے تو اس ذاتِ محیط صرف کا مشاہدہ کرتا ہے کہ جس کا جمال اس کے ملال میں ملا ہوا ہے اور جس کا قہر اس کے لطف و مہر میں رچا بسا ہے کمالات سبتی کو اس کی ملک مطلق سمجھتا ہے اور جہان غیب و شہود کو سرتا پا اسی کے جمال کا آئینہ دار پاتا ہے اور آیئنے کی طرف تھوڑی سی توجہ بھی آئینے کے اندر کی صورت کے لیے ایک تجاب سمجھتا ہے۔ اور چھوٹی سی خواہش کو بھی آیتنے کی صاف و شفات سطح پر غبار تصور کرتا ہے اور وہی حالت جو دوسروں کے لیے طبیعی موت کے بعد پیش آتی ہے وہ ابھی اپنی ارادی موت کے ذریعے اس کا مشاہدہ کرتا ہے۔
لمن الملك اليوم الله الواحد القهار» آج ملک و حکومت کس کی ہے اللہ واحد قبار کی لے
يوم لا يملك نفس لنفس شيئاً والامر يو منذ الله » اس روز کسی نفس کو کسی دوسرے کے بارے میں کوئی اختیار نہیں ہو گا اور اس
دن حکم اللہ ہی کا ہو گا۔ تے ��یسا نہیں ہے کہ آج امور عالم دوسروں کے ہاتھ میں ہیں اور اس روز اللہ کے ہاتھ میں ہوں گے بلکہ تمام ایام اور تمام ادوار میں ذرہ ذرہ پر خدا ہی کی حکمرانی ہے۔ عام لوگ قیامت کے بعد جس شہود کے مقام پر پہنتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ در حقیقت
وہ کمال ابدی کے طالب تھے اور کمال ابد خدا کے سوا کسی سے میر نہیں ہے جب کہ سالک واصل اس سب کچھ سے اپنی اراد کی موت کے ذریعے سے آگاہ ہے اور اس کا حامل ہے ۔ وہ چونکہ اس حال کے ثمره خوش گوار کو جانتا ہے اس لیے وہ غیر حق کو نہ دیکھنے کے مقام کے حصول کے لئے جہاد اصغر و اکبر کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس مقام کی حفاظت کے لیے نیز دونوں جہادوں سے اپنے ثمرہ کے حصول کے لیے غفلت نہیں کرتا کہ غفلت شہور حق سے حجاب ہی ہے
وگرنہ ے
38
جمالِ یار ندار و نقاب و پرده ولی خبار ره بنشان تا نظر توانی کرد
یعنی جمالِ یار تہ پردہ و نقاب نہیں
خبار رہ کو ہٹاؤ تو کچھ دکھائی دے
اب ہم سالکان واصل میں سے بہترین کی زبانی بات سنتے ہیں۔ مناجات شعبانیہ جو تمام آئمہ معصومین علیهم السلام کا دستور العمل ہے عہد کی طرف سے پہلے دُعا پھر ندا اور بعد میں نجوا پرمشتمل ہے اور مولی کی ندا اور نخوا پر تمام ہوتی ہے۔ " واسمع دعائى اذا دعوتك واسمع ندائى اذا ناديتك واقبل على اذ انا جيتك...... واجعلني ممن ناديته فاجابك ولاحظته فصعق لجلالك فناجيته سرا و عمل لك جهرا "
م جب میں پکاروں تو تو میری دعاسن اور جب میں ندا دوں تو تو میری نداسن اور جب میں تیرے حضور نجوا کروں تو تو قبول کر .... اور مجھے ویسا قرار دے کہ جسے تو نے پکارا تو اس نے تیری دعوت پر لبیک کہا اور جب تو اس گیران متوجہ ہوا تو تیرے جلال و عظمت کی تاب نہ لاتے ہوئے مدہوش ہو گیا پس تو نے باطن میں اس سے راز گوئی کی اور وہ آشکارا تیرے لیے اعمال بجالاتا ہے اے عالیہ مییر آیکو
ائمہ علیہم السلام نے اس مناجات میں جس چیز کی آرزو کی ہے وہ اس چیز سے بالا تر ہے کہ جو موسی کلیم اللہ کو حاصل ہوئی ۔ کیو نکہ کلیم اللہ کی مدہوشی اور بے ہوشی حق تعالے کی نگاہ غیر مستقیم کا نتیجہ تھی کیونکہ خدا سبحان کی نگاہ سپہاڑ پر پڑی نہ کہ موسیٰ پر کی
جیسا کہ قرآن میں ہے،
فلما تجلى ربه للجبل
اللہ نے موسی کی خواہش کا جواب پر وہ حجاب دیا نہ کہ ہے پر وہ موسیٰ کلیم اللہ
علیہ السلام نے عرض کی:
رب اسنى انظر اليك »
مراد یہ ہے کہ : میرے رب ! اپنے آپ کو مجھے دیکھا اور میرے لیے تجلی کرتا کہ میں مجھے سر کی آنکھوں سے نہیں بلکہ روح کی آنکھوں سے نظر کر سکوں بلا واسطہ دیکھنے کا تقاضا ہرگز نہیں کیا بلکہ بے پر وہ نظر کرنے کی تمنا کی اور نظر کرنے اور دیکھنے میں بہت فرق ہے خود خدا نے فرمایا کہ بے پردہ رویت حق تیرے نصیب میں نہیں اور تجلی بے حجاب بھی تیرے نصیب میں نہیں ہوگی بلکہ جس طرح کا ہم حق سننے کے لئے حجاب درخت دخیل تھا جمال حق کے شہود کے لیے بھی پر وہ کوہ وخیل ہو گا کیوہ پر اس جلال آمیز تجلی کا شمر ا شجر اس جمال آمیز تجلی سے مختلف تھا کیونکہ اس میں تو نہ فقط کوئی سنگینی نہ تھی بلکہ اس نے حضرت موشکی کے ہر طرح کے ہر اس واضطراب کو دور
کر دیا۔ اس موقع پر پہاڑ یوں ریزہ ریزہ ہوا کہ اس کا کچھ باقی نہ رہ گیا کیونکہ تجھی ستقیم کی صورت میں کسی غیر کا ظہور نہیں رہتا لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہوئے اور جب انہیں ہوش آیا تو انہوں نے حق تعالے کے ببوح ، ہونے کا ذکر کیا کہ سہر انسان کامل واسطہ حق کے بغیر شہود کی طاقت نہیں رکھتا۔
ولما جاء موسى لميقاتنا وكلمه ربه قال رب ارنى انظر اليك قال لن ترانى ولكن انظر الى الجبل فان استقر مكانه فسوف ترانى فلما تجلى ربه للجبل جعله ديا وخر موسى صعقًا فلما
افاق قال سبحانك تبت اليك و انا اول المؤمنين »
اور جب موسیٰ تہماری مقرر کردہ جائے وعدہ پر آیا اور اس کا پروردگار اس سے ہم کلام ہوا تو اس (موسی) نے کہا اسے میرے پروردگار مجھے اپنے جلو کی جھلک دکھا دے ۔ اس (اللہ نے کہا تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتا لیکن پہاڑ کی جانب دیکھ بس اگر وہ اپنے مقام ہی پر قائم رہے تو تو مجھے دیکھ لے گا پس جب اس کے پروردگار نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور موسی بخش کھا کر گر پڑا پس جب ہوش آیا تو کہا تو منزہ ہے میں تیرے
حضور لیتا ہوں اور میں اول ایمان لانے والا ہوں سے ۔ لہذا کلیم اللہ کو جو کچھ حاصل ہوا وہ تجلی با حجاب کے نتیجے میں مدہوشی تھی لیکن اس مناجات شعبانیہ میں مطلوب ایسی مدہوشی ہے کہ جو بے حجاب تجلی مستقیم کا نتیجہ ہوکیونکہ اس میں خواہش کی گئی ہے کہ " ولاحظته فصعق لجلالك انه لاحظت شيئًا آخر ، اور اس فرق کا راز ماقبل کے جملوں میں پایا جاسکتا ہے کیونکہ ان میں خداء سبحان سے کمال الانقطاع کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ الهى هب لى كمال الانقطاع اليك وانر ابصار قلوبنا بضياء نظرها اليك حتى تخرق ابصار القلوب حجب النور فتصل إلى معدن العظمة وتصيرا واحنا
معلقة بعز قدسك
بار الها : مجھے اپنی طرف انقطاع کامل عطا فرما اور دل کی آنکھوں کو اپنے تور کے مشاہدے سے اس طرح منور فرما کہ ہماری بصیرت نورانی حجاب اور پردوں کو چاک کر کے تیرے منبع عظمت تک پہنچ جائے اور ہماری روحیں تیری عزت کے مقدس مقام سے وابستہ ہو جائیں ۔
اگر ایک سالک ہر تعلق بلکہ ہر تعین سے مقطع اور آزاد ہو جائے تو جیسے کوئی موجود مادی اس لیے حجاب ظلمت نہیں بنے گا کوئی موجود مجرد کبھی اس لیے حجاب نور نہیں بنے گا اور نہ ہی کسی مطلب علمی کی صعوبت اس کے لیے نفوذ شہود میں رکاوٹ بنے گی کیونکہ وہ ہر طرح کی دوسری علت کی احتیاج سے نجات پاکر فقط علت فاعلیت سے وابستہ ہو گیا ہے۔ لہذا ظرفیت محدود اور قابلیت مقید کی بات ہی ختم ہو جاتی ہے اس لیے کہ اس نے فقط عز قدس النبی پر تکیہ کر لیا ہے اور یہ وہ مقام ہے کہ جو سب تجلیوں کا حال ہو سکتا ہے کیونکہ یہ مقام معدن عظمت سے عبارت ہے مذکورہ بالا عنا
مناجات کے آخر میں آیا ہے۔ والحقني بتور عزك الأبهج فاكون لك عارفا
وعن سواك منحرفا ،
اور مجھے اپنے مقام عزت کے نور سے کہ جس کا لذت و سرور پر لذت و سرور سے بالا تر ہے ملحق فرمانا کہ تیرا عادت بن جائوں اور تیرے غیر سے منہ
موڑ لوں۔
یہ بات کمال انقطاع سے ہم آہنگ ہے اور یہ جو آیا ہے " ومت کے خائفا مراقبا ، اس سے مراد خوت ہجراں ہے، وہ ہجر کہ جو امر باعث بے ہوشی کو ملاحظہ کرنے سے لاحق ہوتا۔ یہاں خوف دوزخ مراد نہیں کہ جوان ذوات مقدسہ کے ابتدائی کمالات سے متعلق ہوتا ہے جہنم کا دائمی خوف اور دیگر کمالات انسانی کا ذکر دعاؤں میں موجود ہے لیکن مناجات کے اس مجلے میں میں خوف کا ذکر ہے
ده مقام قرب مشہود کے کھو جانے کا خوف ہے:
" هبني صبرت على عذابك فكيف اصبر على فراقك و هيني صبرت على حر نارك فكيف اصبر عن
النظر الى كرامتك .
مجھے بخش دے اگر میں نے تیرے عذاب پر صبر بھی کر لیا تو بھی تیرے فراق پر کیسے صبر کروں گا اور اگر تیری آگ کی چمش پر بھی صبر کیا تو تیرے کرم سے
چشم پوشی پر کیسے صبر کروں گا پہلے
لہذا معلوم ہوا مولی سے عبد کے وصال کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ راہ شہود ہے۔ سید الاولیاء امام علی علیہ السلام وصول ملائکہ کے بارے میں فرماتے
ہیں۔
ووصلت حقائق الايمان بينهم (الملائكة) و بين معرفته تعالی و قطعهم الايتان به الى الوله اليه ولم تجاوز رغباتهم ما عنده الى ما عند غيره قد ذاقوا حلاوة معرفته تعالى وشربوا بالكأس الروية من محبته وتمكنت من سويداء
قلوبهروشيجة خيفته » اور ایمان کے ٹھوس عقید سے ان (فرشتوں) کے لیے اللہ کی معرفت کا وسیلہ بن گئے اور یقین کامل نے اوروں سے ہٹا کر اسی سے ان کی لو لگا دی اللہ کی طرف سے نعمتوں کے سوا کسی غیر کے عطا و انعام کی انہیں خواہش ہی نہیں ہوتی۔ انہوں نے معرفت کے شیریں مزے چکھے ہیں اور محبت کے سیراب کرنے والے جام سے سرشار ہیں اور ان
کے دلوں کی تہہ میں اس کا خون جڑ پکڑ چکا ہے۔
در نهج البلاغه خطبه ۱۸ ترجمه مفتی صاحب مرحوم)
ملائکہ اور معرفت خدا کے درمیان جو چیز رابطہ قرار پائی وہ ایمان حقیقی کا راستہ ہی ہے ۔ وہ اللہ پر یقین کے نتیجے میں حضرت حق کے والا و شیدا ہو گئے اور غیر خدا کی طرف انہیں ہرگز رغبت نہ ہوئی جس قدر انہوں نے معرفت حق کا مزا چکھا اسی قدر محبت کا جام لبریز ان کو نصیب ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی جان کی اتھاہ گہرائیوں
میں خوف الہی جاگزیں ہو گیا۔
کمال الانقطاع کے بہت سے ثمرات ہیں کہ جن میں سے ایک کا ذکر امام
سجاد علیہ السلام کی دعا میں یوں کیا گیا ہے:
" اللهم اني اخلصت بانقطاعي اليك و اقبلت بكلي عليك وصرفت عمن يحتاج الى رفدك و قلبت مسألتي عمن لم يستغن عن فضلك و رأيت ان طلب المحتاج الى المحتاج سفه من رأيه وضلة من عقله ».
اے اللہ ! میں پورے خلوص کے ساتھ دوسروں سے منہ موڑ کر تجھ سے لو لگانے ہوں اور ہمہ تن تیری طرف متوجہ ہوں اور اس شخص سے جو تیری عطا و بخشش کا محتاج ہے منہ پھیر لیا ہے اور اس شخص سے جو تیرے فضل واحسان سے بے نیاز نہیں ہے سوال کا رخ موڑ لیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ محتاج کا محتاج سے مانگنا سراسر سمجھ لو مجھ کی سیکی اور عقل کی گمراہی ہے ملے
ایک اور دعا میں کہتے ہیں :
وقلت سبحان ربي كيف يَسْأَلُ محتاج محتاجا وانتى يرغب معدم الى
معدمة
اور میں نے کہا واہ سبحان اللہ کس طرح ایک محتاج دوسرے محتاج سے سوال کرتا ہے اور کہاں ایک نادار دوسرے نادار سے رجوع کرتا ہے ہے۔ مختصر یہ کہ اللہ کی طرف کمال انقطاع کا نتیجہ یہ ہے کہ سالک کو اس کے معنا مطلق اور دوسروں کے فقر محض کا شہود حاصل ہوتا ہے۔ اس حالت میں غیر خدا سے طلب کرنا حماقت دگرا ہی ہے اور کسی تہی دست کی دوسرے تہی دست کی طرف رغبت تعجب انگیز ہے۔ خدایا ! تیرے سوا اور تجھ سے سوا نہ ہمارا ہدف ہے نہ ہماری راہ تو ہمیں خود ہی اپنی راہ سے اپنے تک پہنچا۔ یا نعیمی و جنتی یا دنیای و آخرتی و با ارحم
الراحمين "
العبد، عبدالله جوادی آملی
۲۵ ، رمضان المبارک ۱۴۰۸ قم مقدس