ولایت در قرآن

گذشتہ بحث کا اہم حصہ ولایت کے مہداء فاعلی کی شناخت کے بارے میں تھا۔ (الولاية بسوهی) کیونکہ یہ معرفت انسان کو ولایت کے مقام بالا تک پہنچنے کے لیئے راہنمائی کرتی ہے اور " ولی اللہ، بننے کے لیے راہ ہموار کرتی ہے۔ اس سلسلے میں بیان کیا جا چکا ہے کہ اگر کوئی ایسا عمل قصد قربت سے انجام دیا جائے کہ جو فی نفسہ تقریب کی صلاحیت رکھتا ہو اور اسے بجالاتے ہوئے حسن فعلی اور سن فاعلی دونوں کا لحاظ رکھا جائے تو انسان ولایت الہی کا بلند مقام پائے گا۔ اسی طرح یہ بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ معرفت و اخلاص راہ ولایت کے واجبات میں سے ہیں اور اس کا راز یہ ہے کہ انسان کے دو پہلو ہیں : وہ عقل نظری کا بھی حامل ہے اور عقلی عملی کا بھی۔ عقل نظری کے ذریعے سے وہ معاملات کی درستی اور نادرستی کو پہچانتا ہے اور عقل عملی کے ذریعے سے جو کام اسے انجام دینا چاہئیے اسے بجا لاتا ہے اور جس کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے اس سے اجتناب کرتا ہے۔ عقل نظری کا کمال شناخت خدا سے عبارت ہے اور عقل عملی کا کمال اللہ کے لیے اخلاص عمل کا نام ہے۔ لہذا یہ دو امر فرائض ولایت میں سے شمار ہوتے ہیں۔ اصالت معرفت البتہ اس امر کی طرف توجہ رہے کہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے عوض میں یعنی مدمقابل نہیں ہیں بلکہ معرفت اگر جڑ ہے تو اخلاص اس کی شاخ ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ بغیر معرفت کے اخلاص پیدا ہو جائے لیس معرفت کا اثر تا ابد رہتا ہے اور اخلاص کا اثر موت کے ساتھ تمام ہو جاتا ہے، کیونکہ انسان جب اس دنیا سے چل بستا ہے تو عمل کا سلسلہ اپنے تمام پہلوؤں کے ساتھ اخلاص سمیت منقطع ہو جاتا ہے۔ لیکن بعد ازاں معرفت پھلتی پھولتی ہے اگرچہ ثمرہ عمل اور تیجہ اخلاص بھی ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ صمدیت سرچشمه ولایت بہر حال انسان کے ولی اللہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا درون معرفت و اخلاص سے معمور ہوتا کہ وہ صمد کے نام مبارک کا مظہر ہو اور پھر ولی کہ جو حق تعالیٰ کے اسمائے حسنہ میں سے ایک نام دال ہے اس میں تبلتی کرے کیونکہ ولایت الہی کا مشیر حق تعالے کی صمدیت ہے اور خدائے سبحان چونکہ صد ہے، ولی بھی ایسا ہی ہے جمد کا معنی ہے ایک ایسی ذات کہ جو اندر سے خالی اور کھوکھلی نہیں ہے بلکہ اس کا درون پر ہے۔ وہ لوگ کہ جو خدائے صمد کے مظہر ہو جاتے ہیں قرآن کریم انہیں " اولوالالباب کے نام سے یاد کرتا ہے یعینی مغز رکھنے والے انسان، جب کہ ان کے مقابل جو لوگ ہیں وہ تہی مغز ہیں، جن کے بارے میں قرآن فرماتا ہے : افئدتهم هواء» (ابراهیم (علم) یعنی ان کے قلب نہیں ہیں۔ بعض لوگ اس لیے نہی مغز ہو جاتے ہیں کہ شیطان ان کی فکر و معرفت میں بھی نفوذ پیدا کر لیتا ہے اور ان کے عمل میں کبھی۔ لہذا ان کا عمل خالص ہوتا ہے نہ ان کی فکر و معرفت بریانی و شہوری ہوتی ہے نتیجتا وہ عمل میں مظہر صمد ہوتے ہیں نہ علم میں جن لوگوں کی معرفت اور فکر میں وسم وخیال نے رخنہ اندازی نہیں کی ہوتی اور انہیں اندر سے کھوکھلا نہیں کر دیا ہوتا وہ معرفت کی جہت سے طبیب ہوتے ہیں۔ لہذا عمل میں بھی وہ مخلص ہوتے ہیں یا تخلص۔ دوسرے لفظوں میں وہ علم دگل کے دو پہلوؤں میں مظہر محمد بن جاتے ہیں اور علم و عمل چونکہ روت کامل کے ہی دو پہلو ہیں لہذا ان کی روح مظہر محمد ہو جاتی ہے اور جو روح جس قدر مظہر صمد ہو اسی قدر مظہر ولی ہو سکتی ہے۔ صمد نیت انسان کے مراتب : بعض اوقات انسان محمد ہونے کے ایسے مرحلے میں ہوتا ہے کہ اسے فقط اپنے عمل کو شیطان کی دستبرد سے محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔ ایسے شخص کی ولایت فقط اپنے آپ پر ہوتی ہے ۔ بعض اوقات اس کال تر مرحلہ ہوتا ہے کہ جس میں نہ فقط اپنے حریم دل کی حفاظت کرنا ہوتی ہے بلکہ اپنی معرفت و اخلاص کی بھی نگہبانی کرنا ہوتی ہے اور افق روح سے شہاب ثاقب کی طرح شیاطین کو دور بھگانا ہوتا ہے ایسے شخص کی حدود ولایت بھی وسیع تر ہوتی ہیں ۔ اس سے بالا تر انسان کامل کا مقام ہے کہ جو اللہ تعالے کی صمدیت کا مظہر نام ہوتا ہے اور نتیجتا اذن الہی سے تدبیر عالم اپنے ذمہ لیتا ہے۔ معرفت کے مرحلے میں صمدیت کی رکاوٹیں معرفت کے پہلو میں وہی انسان مظہر صمد بن سکتا ہے جو اپنی عقل کے راستے سے داخلی اور خارجی رکاوٹیں دور کرے۔ داخلی رکاو میں وہم وخیال سے عبارت میں ضروری ہے کہ عقل ان کے شائبہ سے بھی محفوظ ہو اس طرح سے کہ استدلال کے موقع پر دہم و خیال فقط مقدمات فراہم کر کے انہیں عقل کی تحویل میں دے دیں لیکن مقدمات کو نظم دنیا اور ان سے نتیجہ اخذ کر نا عقل کے ذمہ ہو کیونکہ وہم و خیال نے اگر عقل کے کام میں کچھ بھی مداخلت کی تو اسی قدر نتیجے حقیقت سے تہی ہو گا لہذا اس حوالے سے انسان مظہر صمد نہ ہوگا۔ وہم کی کمزوری یہ ہے کہ وہ مقدمے کو قبول کر لیتا ہے لیکن نتیجے کو قبول نہیں کرتا۔ تنہائی اور ظلمت سے خوٹ اسی قبیل سے ہے کیو نکہ اگر کسی سے پوچھا جائے کہ کیا در و دیوار یا کتاب یا زندگی کی دوسری ضروریات انسان کو نقصان پہنچاتی ہیں ، تو وہ نفی میں جواب دے گا لیکن ایک کمرے میں وہ تنہا ہو تو ڈرتا ہے اس ڈار کا سر چشمہ وہم ہی ہے جو مقدمات میں موجود ہے ۔ یہی وہم ہے جو اخذ نتیجہ کے موقع پر عقل کے کام میں مداخلت کرتا ہے۔ خارجی رکاڈ میں بھی شیاطین ہیں جو داخلی دشمنوں کے تعاون سے مغالطے اور وسوسے کے ذریعے سے فہم حقائق میں حائل ہوتے ہیں۔ سورۂ مبارکہ انعام میں مشرکین کے طرز تفکر کے بارے میں بات کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : " ان الشياطين ليوحون الى اولياء هم ليجاد لوكم وان اطعتموهم انكم لمشركون 4 (انعام - ۲۱) - یعنی شیاطین اپنے اولیاء کو وحی کرتے ہیں کہ وہ تم سے جدال کریں لہذادہ مشرکین جو قرآن کے خلاف مجادلے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ان کی فکر کا حاصل وجی شیطان ہے وحی داخلی شعور مرموز سے عبارت ہے جو کبھی مسائل فکری میں عمل کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور کبھی ارادے کی صورت میں مسائل عملی میں ظہور کرتی ہے۔ عمل کے مرحلے میں صمدیت کی رکاڈ میں عمل کے پہلو سے بھی وہی انسان مظہر محمد بن کو نیا مظہر ولی بن سکتا ہے جو اپنے راستے سے وہ رکاؤ میں دور کردے جو حصولِ ولایت میں پیش آتی ہیں۔ تیج فعلی اور قبیح فاعلی دونوں ولایت کے راستے کی رکاوٹیں شمار ہوتی ہیں۔ ہر ایسے عمل کی انجام دہی مانع ولایت ہے جو فی نفسہ مبعد یعنی دوری کا باعث ہو یا ہو تو مقرب (قرب کنندہ لیکن کرنے والا اسے غیر خدا کے لیے انجام دے ایسا فعل نہ فقط انسان کو ولایت النبی کی منزل تک نہیں پہنچاتا بلکہ اسے عداوت حق کے دام میں پھنسا دیتا ہے کیونکہ انسان دو حالتوں سے باہر نہیں ہو سکتا یا وہ ولی اللہ ہے یا عدو اللہ اور اگر وہ ولایت الہی کے کسی مرحلے میں نہ ہو تو عداوت الہی اسے آئے گی۔ اعمال کی فوری جزا سورہ مطففین میں قرآن کریم نے گناہ کوشہود حقائق کی رکاوٹ شمار کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ گناہ کسی دفتر میں لکھ لیا جائے گا اور پھر مستقبل قریب یا بعید میں انسان کے لئے باعث سزا ہو گا بلکہ گناہ کی سزا نقد ہے یہی ایک آیت نہیں بلکہ وہ تمام آیات جو جزا کو عمل کے مطابق قرار دیتی ہیں عالم آخرت اور جہنم سے مختص نہیں اگر چہ ان میں سے بعض ایسی آیات کے درمیان موجود ہیں جن میں جیتیم کا تذکرہ ہے لیکن نہ تو سیاق وسباق انہیں مختص قرار دیتا ہے اور نہ موضوع و مورد ۔ یہ ایک تھی اصول ہے کہ اللہ تعالے جزا دیتا ہے اور جزا کبھی عمل کے سوار نہیں۔ لہذا یہ جزا اور کیفر عمل کے ساتھ شروع ہو جاتی ہیں۔ قرآن ارشاد فرماتا ہے : اذا تتلی علیه ایا تنا قال اساطیر الاولین ومطففین سون یعنی آیات الہی جب کسی ایسے شخص کے سامنے تلاوت کی جائیں جو منکر قیامت ہو تو وہ کہتا ہے کہ یہ سب گذشتہ لوگوں کے افسانے ہیں۔ قرآن کریم جواب میں فرماتا ہے کہ یہ ہرگز افسانے نہیں بلکہ النبی حکمتیں ہیں ، نقص تو اس میں ہے کہ جو سمجھتا نہیں اور اس کج اندیشی کا سبب وہ زنگ ہے جو گناہ کے باعث اس کے صفحۂ دل کو سیاہ کر چکا ہے: . بل رأن على قلوبهم ما كانوا يكسبون (مسلطين ) رین ، یعنی پیپ، «ران، یعنی اس میں پیپ بھر گئی ۔ آیہ کہ یہ کا مفہوم یہ ہے کہ جو دل ہم نے اسے عطا کیا تھا وہ آئینے کی مانند شفاف تھا۔ اگر یہ اسے تباہ وسیاہ نہ کرتا تو اسرار عالم اس میں منعکس ہوتے لیکن اس نے گناہ کے ذریعے اس آیٹنے کو تیرہ و تار کر لیا ہے، جیسے تقوی آئینہ دل کے لیے باعث صفاء و شفافیت ہے ! ان تتقوا الله يجعل لكم فرقانا اگر تم تقوی اختیار کرو تواللہ تمہیں حق و باطل میں تمیز عطا کرے گا۔ ) انقال -۲۹) گناہ بھی دل کے لیے ۔ دین ہے اور نور معارف الہی کے لیے رکاوٹ ہے اور یہ اللہ تعالے کی طرف سے فوری اور نقد سزا ہے۔ البتہ گناہ مختلف ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کوئی عمل کی نفسم معصیت ہو جیسے غیبت اور جھوٹ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی عمل فی نفسم معصیت نہ ہو لیکن انجام دہندہ اسے غیر اللہ کے لیے بجالائے، جیسے دکھاوے کی نماز ۔ دونوں رین کی ہی مختلف صورت میں ہیں اور جو چیز دین سے بھر جائے وہ حق سے خالی ہوگی۔ نتیجتا ایسا شخص اس گروہ میں داخل ہو جائے گا کہ افئدتهر هواء ، اور جب کسی کا دل تہی دامن ہو جائے تو وہ ہرگز مظہر صمد و ولی نہ ہو گا لہذا شیطان اسے اپنی ولایت میں لے لے گا۔ نیز ممکن ہے وہ ایک عمر ولایت شیطان کے ماتحت رہے اور اسے خبر نہ ہو۔ سورہ مبارکہ محمد میں یوں فرمایا گیا ہے : أفلا يتدبرون القران ام على قلوب اقفالها د کیا وہ قرآن پر غور نہیں کرتے یا پھر ان کے دلوں پر تالے پڑے ہیں) ( محمد - ۲۴) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات دل مقفل ہو جاتے ہیں۔ قفل دل معصیت ہی ہے جو معارف کو اس میں جانے نہیں دیتی نتیجتا ایسا دل و ہم ، خیال ، مغالطہ اور فکر باطل کی جولان گاہ بن جاتا ہے۔ اسی حال میں اگر وہ اس دار فانی سے چل بسے تو روز قیات تہی دل اور فقیر محشور ہوگا کیونکہ ایک طرف وہ حقیقی چہرہ آشکار ہو جائے کہ جس نے اس عالم طبیعت میں خیالات و اوہام جمع کر رکھے تھے کیونکہ وہ ظہور حقائق کا عالم ہوگا اور اس دن وہ سمجھے گا کہ دنیا میں اس نے سراب سے دل لگا رکھا تھا اور معرفت کے ابلتے ہوئے سرچشمہ شیریں سے بے بہرہ و محروم رہا ہے اور دوسری طرف قیامت علوم و معارف کے حصول کا مقام بھی نہیں کہ جہاں جاہل تحصیل کمال کی جستجو کر سکے۔ اتمام حجت : ایسے افراد کے لیے ایک اور نکتہ قابل توجہ ہے ۔ وہ یہ کہ فرمایا گیا ہے : " ان گناہگاروں کے دلوں پر معارف قرآن پیش کیے جاتے ہیں لیکن وہ قبول نہیں کرتے؟ معرفت و آگاہی کے نقطہ نظر سے انسان میں اور اک کی بہت سی قوتیں موجود ہیں جیسا کہ عمل کے لحاظ سے بھی اس میں بہت سے میلانات پائے جاتے ہیں۔ حسن، دیم ، خیال اور عقل کا تعلق انسان کی اور کی قوتوں سے ہے جبکہ شہوت ، محبت، ارادہ، توقی، غضب، عداوت، کراہت اور تیزی کا تعلق عقل عملی سے ہے اور یہ جذبات تحریک کنندہ قوتوں میں سے شمار ہوتے ہیں۔ اور اک دو تحرک کی یہ قوتیں انسان کے اندر موجود ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : " جیسے ہم زیر زمین پانی جاری کرتے ہیں اور صحت الارض چشمے ایجاد کرتے ہیں ان کے دلوں میں بھی علوم ومعارف جاری کرتے ہیں لیکن ان کے اور اک و تحرک کی کوئی قومت انہیں قبول نہیں کرتی۔ سورہ مبارکہ تجبر کی آیت 44 میں ہے ما نأتيهو من رسول الأكانوا به يستهزون، كذلك نسلكه في قلوب المجرمين، لا يؤمنون به و قد خلت سنة الاولين » (حجر ۱۳۲۰) ر کوئی رسول ان کے پاس ایسا نہیں آیا جس کا انہوں نے مذاق نہ اڑایا ہو۔ اسی طرح ہم مجرموں کے دلوں میں اس (روش کفر کو داخل کر دیتے ہیں کہ وہ اس پر ایمان نہیں لاتے اور یہی اس سے پہلے گورے ہوؤں کی روش رہی ہے ۔ سلکہ" اور" اسلکہ ایک ہی معنی میں ہیں ۔ اگر آپ دھاگے کو سوئی کے سوراخ میں داخل کریں تو کہیں گے کہ سکتہ یا ۔ سکتہ ، یعنی دھاگے کو میں نے اس سوراخ میں داخل کر دیا۔ قرآن کریم نے یہ لفظ زیر زمین پانی کے لیے استعمال کیا ہے۔ فرماتا ہے : فلكه ينابيع في الارض» د اور اسے زمین میں چشمے بنا کر بہاتا ہے) (زمر - (۲۱) بارش کے ذریعے پانی زمین پر اتارا پھر زمین کو حکم دیا کہ اس پانی کو نگل جائے، پھر نیچے اتر جانے والے اس پانی کی راہنمائی کی تاکہ وہ خاص در اڈوں اور درزوں میں سما جائے تاکہ کہیں زیر زمین تالیاں بن جائیں ، کہیں چشمے پھوٹ پڑیں اور کہیں کنویں بن جائیں۔ اسی طرح معارف قرآنی جو آپ حیات ہیں کو انسانوں کی سرزمین حیات جوان کے دل میں ہیں جاری کرنے کے لیے بھی ایسی ہی تعبیر لائی گئی ہے ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے ان معارف کے آپ حیات کو لوگوں کے دلوں کی سرزمین کی طرف چلایا۔ وہ دل جو رقیق میں فوراً اسے قبول کرلیتے ہیں لیکن بعض دل سنگ خارا کی طرح سخت اور اثر نا پذیر ہوتے ہیں ، وہ اسے قبول نہیں کرتے یہ كذلك تسلكه في قلوب المجرمين لا يؤمنون به مختصر یہ کہ فرماتا ہے کہ ہم اپنی آیات کو ان کے دلوں میں لے گئے معارف اللی انہیں یوں پیش کیسے کہ اور اک د تحرک کے ایک ایک سوراخ تک انہیں دھاگے کی طرح پہنچایا لیکن حق واضح ہونے کے باوجود انہوں نے قبول نہ کیا۔ لہذا ان کی ہلاکت اتمام محبت کے بعد تھی۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَينة انقال - اگر چہ بعض آیات میں ہے کہ آیات الہی ان کے سامنے فقط تلاوت کی گئیں لیکن اس تعبیر کا راز یہ ہے کہ ان کے سامنے استدلال کا چونکہ کوئی فائدہ نہیں ہوا تو گویا آیات الہی فقط ان کے کانوں سے گزری ہیں ورنہ قرآن کا اصولِ مسلم یہ ہے کہ حجت خدا بالغہ ہے اور تحجبت تبھی بالغہ اور رسا ہو سکتی ہے جب آیات النبی دل کو پیش کی جائیں ، آدمی سمجھے اور محبت اس پر تمام ہو۔ اس صورت میں اگر وہ قبول نہ کرے تو عذاب الہی سے دو چار ہو گا یہ ہلاکت اتمام حجیت کے بعد ہوگی۔ وقد خلت سنة الاولین» کا مفہوم یہ ہے کہ یہ فقط انہی کی روش نہ تھی بلکہ تمام کمی فکروں کا شیوہ رہا ہے کہ جب بھی انبیاء الہی نے انہیں آیست خدا پیش کی انہوں نے قبول نہ کی اور اس سے پیٹھ پھیر لی۔ اسی بات کا ذکر سورۂ مبارکہ شعرا میں اس طرح سے ہے : " ولو نزلت على بعض الاعجمين فقرأه عليهم ما كانوا به مؤمنين ، كذلك سلكناه في قلوب المجرمين لا يؤمنون به حتى يروا العذاب الاليم د شعرا - ۱۹۸ تا ۲۰۱) یعنی اگر قرآن عجمی زبان میں ہوتا اور نبی غیر عرب ہوتا اور اللہ تعالے سے کتاب حاصل کرتا اور عربوں کے سامنے پڑھتا تو ان کی خوٹے عربیت تقاضا کرتی کہ اسے قبول نہ کریں لیکن اب ان کے پاس کوئی عذر نہیں۔ اب جبکہ کتاب ان کی اپنی زبان میں ہے اور اس کے بلند معانی اور معارف کو ان گناہگاروں کے دلوں کے اور اک و تحرک کے ایک ایک روزن کے سامنے ہم نے پیش کیا ہے اور ان میں سے کسی نے قبول نہیں کیا، جو دل پتھر کی طرح سخت ہو حرف اس پر اثر نہیں کیا کرتے مگر یہ کہ وہ اللہ کے درد ناک عذاب کا مشاہدہ کرتے حتی سیروا العذاب الاليم قیامت کی یاد گناہ سے بچاتی ہے ایک عامل کہ انسان کو گناہ سے بچاتا ہے اور اسے اخلاص کے مقام تک پہنچاتا ہے معاد کی یاد ہے۔ اللہ تعالے فرماتا ہے کہ ہم نے ابراہیم اور آل ابراہیم کو ایک انعام عطا کیا اور وہ یہ کہ : انا اخلصنا هم بخالصة" (ص -(٢) وہ انعام یہ تھا کہ ہم نے انہیں مخلصین میں سے قرار دیا ۔ پھر انہیں یہ مقام عطا کرنے کی وجہ بیان فرماتا ہے : بخالصة ، کیونکہ وہ ایک امتیاز اور فصلت بے شائبہ کے حامل تھے اس لیے ہم نے انہیں اس مقام تک پہنچایا اور یہ امتیاز ذکری الدارے کی مانند تھا ۔ داره یعنی گھر ۔ اگر یہ لفظ بطور مطلق استعمال ہو تو اس سے مراد دنیا نہیں ہے کیونکہ اگر دار سے خاص طور سے دنیا مراد لینا ہو تو دنیا کو اس کی صفت کے طور پر لایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے ۔ وار دنیا وہ جیسے اگر کوئی مسافر خانہ کہنا چاہیے تو صرف خانہ نہیں کہے گا بلکہ مسافرخانہ کہے گا لیکن اگر کوئی اپنے اصلی گھر کا ذکر کرنا چاہے تو صرف گھر کیے گا۔ قرآن کریم بھی آخرت کو دار ہا کے نام سے یاد کرتا ہے لیکن دنیا کو ، دار دنیا ، کہتا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصلی اور دائی گھر قیامت میں ہے اور دنیا ایک گزرگاہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ مختصر یہ کہ فرماتا ہے کہ وہ چونکہ گھر کی یاد میں تھے اور قیامت پر ان کی نظر تھی اس لیے ہم نے انہیں چن لیا اور مقام مخلصین تک پہنچا دیا۔ نتیجہ سخن یہ ہ گناہ انسان کی نگاہ بصیرت کے لیے حجاب ہے اور یہ انسان کو را وحق اور اس کے اسرار کو دیکھنے نہیں دیتا۔ راہ حق بہت واضح ہے۔ اس میں کوئی ابہام اور پیچیدگی نہیں ہے۔ جو کوئی اس پر عمل کرے کہ جو وہ جانتا ہے تو اس پر وہ کچھ روشن ہو جائے گا جو وہ نہیں جانتا۔ مَن عَمِلَ بِمَا عَلِمَ كَفَى مَا لَم يَعْلَمُ اگر کوئی یہ چاہے کہ کم از کم اپنے دائرہ حیات میں ولی اللہ ہو جائے اور اپنے آپ کو ولایت شیطان سے نجات دے اس کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ اپنی زندگی کے ضعیف دائرہ کار میں سہی، مظہر محمد ہو جائے۔