ولایت در قرآن

ہماری بحث اس بارے میں تھی کہ اگر انسان چاہتا ہے کہ وہ ولایت کے بلند بالا مقام پر فائز ہو اور مظہر اسم ولی بن جائے کہ جو اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک ہے تو ضروری ہے کہ وہ پہلے مظہر اسم "صمد" بنے۔ اور چونکہ حقیقت انسان ایک فکر کرنے والے موجود ہونے کے لحاظ سے علم و عمل سے عبارت ہے لہذا مظہر صمد ہونے کے لیئے ضروری ہے کہ وہ علمی پہلو سے بھی مظہر صمد ہو اور عملی لحاظ سے بھی۔ علمی اعتبار سے انسان اس وقت مظہر صمد بنتا ہے جب اس کے افکار وہم و خیال سے محفوظ ہوں اور اس کے افکار اور استدلال یقینیات پر مشتمل ہوں۔ عملی پہلو سے وہ اس وقت مظہر صمد ہوگا کہ اس کی نیت اور ارادے پر اخلاص کے علاوہ کسی چیز کی حکومت نہ ہو کیونکہ شیطان اگر انسان پر مسلط ہونا چاہے تو وہ افکار کے ذریعے داخل ہوتا ہے یا پھر ارادے اور نیت کے راستے سے۔ اصالت معرفت اس بات کی طرف توجہ ضروری ہے کہ فکر ومعرفت عقل نظری کی صفات میں سے ہیں جب کہ نیت اور ارادہ عقل عملی کا حصہ ہیں اور یہ ایک دوسرے کے بالمقابل نہیں میں معرفت ہرگز را ده ویت کی مہم نہیں ہوسکتی کہ عقل عملی کا سرچشمہ عقل نظری ہے۔ اگر چہ یہ دونوں ایک دوسرے پر متقابلاً اثر انداز ہوتی ہیں اور ایک دوسرے کی تقویت کا باعث بنتی ہیں لیکن معرفت و شناخت جڑ ہے اور نیست و ارادہ اس کی شاخ ہے۔ اس لحاظ سے ابتداء میں شیطان یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ انسان کی فکری بنیادوں میں رخنہ اندازی کرے۔ اس طرح عمل پر اس کے نفوذ و تسلط کی راہ خود بخود ہموار ہو جاتی ہے لہذا شیطان کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی اور کی اور تحریکی قوتوں کو ولایت خدا کے ماتحت قرار دے اور اپنے حریم دل کو ہمیشہ شیطان کی دستبرد اور تصرف سے محفوظ رکھے وگرنہ اس کی اور اک د تحریک کی قوتوں کی سرپرستی اس کے بجائے شیطان ہے ذمہ لے لے گا اور امیر المومنین علیہ السلام کے الفاظ میں اس کی عقل ہوائے نفس کے زندان میں امیر ہو جائے گی۔ آپ فرماتے ہیں " کو من عقل اسلیو عند هوی امیر یعنی کتنی ہی عقلیں جہاد اکبر میں شکست کھا گئیں اور ہواد ہوس کی اسیر ہو گئیں ۔ اور اک پر کنٹرول کے ذریعے جذبات پر تسلط یہاں ایک نکتہ جو قابل اہمیت ہے یہ ہے کہ اگر چہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے ادراک و جذبات پر مسلط ہوتا کہ رفتہ رفتہ وہ مظہر ہ ولی ، بن جائے لیکن اور اک کی قوتوں اور صلاحیتوں کی سرپرستی اور انھیں وہم وخیال کے تصرف سے محفوظ رکھنا ہی در حقیقت تحریک و جذبات کی قوتوں کو کنٹرول کرنے اور انہیں شہرت و غضب کے نقصان سے بچانے کی اساس ہے۔ اس سلسلے میں ہم کتاب " عزر الحکم و در الکلم سے میرالمومنین علیہ السلام سے چند روایات نقل کرتے ہیں تاکہ یہ مسئلہ اچھی طرح واضح ہو جائے۔ امیر المومنین علیہ السلام کے فرمودات امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں : أصلُ العَزْمِ الْحَرُمُ وثَمَرَتُهُ الظَّفَرُ جس طرح کہ پہلے بیان کیا گیا ہے راہ ولایت میں وہ دو رکن کہ جو فریضے کی حیثیت رکھتے ہیں معرفت و اخلاص سے عبارت ہیں جبکہ دیگر امور نافلہ شمار ہوتے ہیں اور یہ دونوں ایک دوسرے کے ہر نہیں ہیں کیونکہ اخلاص عقل عملی کے ذمہ ہے اور معرفت عقل نظری کے حصے میں آتی ہے جو اساس و بنیاد ہے۔ لہذا آپ نے فرمایا :" أَصْلُ الْعَزْمِ الْحَزم، عزم کی بنیاد دور اندیشی اور فراست ہے۔ عزم و ارادہ عقل عملی کا کام ہے جبکہ فراست و دور اندیشی عقل نظری کے حصے میں ہے اس لحاظ سے وہ شخص اہلِ عزم وارادہ ہے جو اچھی طرح سمجھے۔ دوسرے لفظوں میں عزم کہ جو عقل عملی کا کام ہے اس دور اندیشی کا مرہونِ منت ہے جو عقل نظری کا کام ہے۔ لہذا وہ عزم جو دور اندیشی کے ساتھ ہو اس کا نتیجہ کامیابی وکامرانی ہے، چاہے جہاد داخلی ہو اور چاہیے جہاد خارجی ۔ آپ کا یہ بھی فرمان ہے : افضل القلوب قلب حشى بالفهم لله روٹی یا پرندوں کے پروں سے بھرے ہوئے تکیے کو عربی میں " وسادة محتشیه ، کہتے ہیں نیز زیادہ دانوں پرمشتمل انار کو " احْتَشَتِ الرمانة بِالْحَت کہتے ہیں یعنی انار دانوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس بنا پر حدیث شریف کا معنی یہ ہے کہ دلوں میں سے بہترین دل وہ ہے جو فکر سے لبریز ہو جس طرح بدترین پیٹ بھرا ہوا پیٹ ہے کیونکہ پر خوری اور اک کی سب سے بڑی رکاوٹ شمار ہوتی ہے، اسی طرح بہترین دل وہ ہے جو فہم و فراست سے پُر ہو۔ جو بہت سے مسائل کو نہیں جانتا وہ اخوت ہے (یعنی خالی ہے نہ کہ صمد - لہذا ایسا شخص اہل عزم و ارادہ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح وہ فتح مند اور کامیاب بھی نہ ہوگا۔ نتیجتا ایسے افراد کے افکار پراگندگی کا شکار ہوتے ہیں اور قرآن کریم کے الفاظ میں نہوئی امر مریج ہے یعنی بعض پراگندگی کا شکار ہیں کیونکہ انسان اپنے آپ کا مولا و مالک نہ بنے اور اپنے دل کی بنجر زمین کو خود آباد نہ کرے تو شیطان اس میں بیج ہوتا ہے اور یوں انسان کا حریم دل تاریک ہو کر رہ جاتا ہے۔ لہذا امیرالمؤمنین علیہ السلام علمی خلا کو پر کرنے کے لیے سب کو ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں : اعلم الناس المُستهتر با لعلمية یعنی سب سے زیادہ عقلمند وہ لوگ ہیں جو انتہائی شوق و ذوق سے تحصیل - علم کی کوشش کرتے ہیں اور سعی کرتے ہیں کہ ان خالی ظروف کو بھر لیں۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں : اصل صلاح القلب اشتغاله بذكر الله اگر چہ بہت سے عوامل تہذیب و تزکیہ نفس میں حصہ دار ہیں لیکن اصلاح دل کی اساس یا د حق میں مشغول رہنا ہے۔ البتہ یہ بات واضح و روشن ہے کہ پہلے معرفت حق ذکر حق کیلئے زمینہ ہموار کرتی ہے اور اس کے بعد ذکر حق اصلاح دل کا موجب بنتا ہے اور جس طرح معرفت نفس تمام کمالات کی جڑ ہے اسی طرح اس کی عدم شناخت تمام مفاسد کا باعث ہوگی ۔ اس جہت سے حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: اعظم الجهل جهل الانسان امر نفسه يه مینی سب سے بڑی جہالت یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو نہ پہچانے کیونکہ اگر اپنے آپکو ایک جو ابدی حقیقت ہے ، نہیں پہچانے گا تو اسے سستے داموں بیچ ڈالے گا۔ اسی ضمن میں آپ مزید فرماتے ہیں : اعظم ملك ملك النفس ہے یعنی بالاترین تسلط نفس پر تسلط ہے جو جہاد اکبر میں مجاہد کو نصیب ہوتا ہے۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں: اقوى الناس من قوى على نفسه یعنی طاقت ور ترین لوگ وہ ہیں جو اپنے نفس پر تسلط رکھتے ہوں۔ ایک طرف استدلال کے ذریعے حق خیال اور وہم کو عقل نظری کے کنٹرول میں لے آئیں اور دوسری طرف عملی میدان میں اپنی شہوت اور غضب پر قابو پاتے ہوئے انہیں عقل عملی کے ماتحت قرار دیں جو شخص عقلی دلائل و براہین میں بھی مثال کا خواہاں ہو وہ ابھی تک مرحلہ احق میں ہی سر گرداں ہے کیونکہ جو شخص اس مرحلے سے گزر جائے وہ کبھی مثال کی فکر نہیں کرتا بلکہ وہ برہان کے حد وسط کی فکر میں ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ نیرومند اور سب سے طاقتور انسان وہ ہے جو اپنی علمی اور عملی قوتوں پر غالب آجائے۔ اعقل الناس البعد هم عن كل دنية ہے. عقلمند ترین انسان وہ ہے جو ہر پستی و ذلت سے سب سے زیادہ دور ہو۔ اس لحاظ سے سب سے زیادہ عقلمند انسان وہ ہے جو علمی مسائل میں حسن خیال اور وہم سے پر ہیز کرے اور عملی مسائل میں شہرت اور غضب سے اجتناب کرے۔ اكبر البلاء فقر النفس ہے یعنی بدترین بلا فقیر روح ہے اور فقر روت یہ ہے کہ وہ علم و اخلاص سے عاری ہو۔ اقرب الآراء من النهى البعدها من الهوى ہے یعنی بہترین اور عقل سے قریب ترین رائے وہ ہے جو ہوا و ہوس سے دور تر ہو ۔ عقل کو اس لیے نہیة، کہا جاتا ہے کہ وہ انسان کو ہر چیتی وذلت سے نہی کرتی ہے۔ اس کی جمع " منھٹی ، ہے جو قرآن کریم میں بھی آئی ہے۔ ان في ذلك لآيات لأولي النهى ہے آپ ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں : اقيم الصدق ثناء الرجل على نفسه له قیح ترین سچ وہ ہے جو انسان اپنی تعریف و تمجید میں بولتا ہے۔ اگر کسی میں کمال نہ ہو اور پھر بھی وہ اپنے آپ کو اس کمال سے متصف ظاہر کرے تو اس نے جھوٹ کہا ہے لیکن اگر وہ صاحب کمال ہو اور اس کمال کی وجہ سے اپنی تعریف و تمجید کبر سے تو وہ بدترین پیچ زبان پر لایا ہے کیونکہ اپنی ستائش و تعریف کے دوران میں نفس دوسرے مواقع کی نسبت زیادہ غرور اور خود خواہی کے جال میں پھنستا ہے۔ لہذا عہد نامہ مالک اشتر میں یوں ہے ؟ اسے مالک ! جب تیری مدح و ستائش کی جائے تواس وقت شیطان کے حملے کے لیے بہترین اور مناسب موقع ہوتا ہے۔ لہذا اس وقت تو اپنی طرف پوری طرح متوجہ رہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا ایک اور فرمان بھی ہے جو اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ عقل عملی کے بجائے عقل نظری کو اصالت اور فوقیت حاصل ہے۔ وہ فرمان یہ ہے : الزهد ثمرة اليقين له زہر اور اک یقینی کا نتیجہ ہے ۔ زہد عقل عملی کا کام ہے کیو نکہ عقل عملی ہی وہ طاقت ہے کہ جذبات کو اعتدال پر رکھنا میں کے ذمہ ہے ۔ اگر چہ بعض نے عقل عملی کو حکم عملی کی شناخت کا ذریعہ سمجھا ہے لیکن اگر عقل عملی کو نفس کے لیئے مدیر عمل قرار دیں تو اس سے منطقی ترتیب بھی ملحوظ رہے گی اور باست روایات سے ہم آہنگ بھی سر جائے گی۔ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے : الْعَقْلُ مَا عُبِدَ بِهِ الرَّحْمَنِ وَ التيْبَ بِهِ الجِنان ہے عقل ایسی چیز ہے جس کے ذریعے رحمن کی عبادت کی جائے اور یہ بہشت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ ایک اور جگہ پر امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: لا عقل كالتد بيرت واضح سی بات ہے کہ عبادت، کسب بہشت اور تدبیر کا شمار اعمال میں ہوتا ہے اور عقل عملی سے ان اعمال کی بجا آوری قوت اور اک کے لحاظ سے نہیں ہے بلکہ عزم ارادہ ہے جو ان کا موں اور دوسرے افعال کی بجا آوری کا باعث بنتا ہے۔ لہذا فیصلہ کرنے والی قوت عقل عملی ہے نہ کہ قومت اور اک ۔ مذکورہ کتے کو مد نظر رکھتے ہونے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ زید عقل عملی کا کام ہے اور یقین عقل نظری کا اور عقل عملی عقل نظری ہی کا نتیجہ و ثمر ہے۔ البتہ زید چونکہ ایک مشکل کام ہے لہذا ابتدا میں زحمت و مشقت سے زید کو اختیار کیا جائے تاکہ رفتہ رفتہ " یہ ملکہ بن جائے۔ امیر المومنین علیہ السلام کی تعبیر کے مطابق، اول الزهد التزهَدُ ل یعنی تکلف و زحمت سے زہد کو قبول کرنے اور پھر اس کی مشتق کرنے سے زاہد ہونے کے لیے راہ ہموار ہوتی ہے۔ - تزهد، اس زبر حقیقی کو کہتے ہیں جیں ہیں زحمت و مشقت اٹھانا پڑے اور یہ " تزهد سے مختلف ہے جو زہر کا تظاہر اور دکھلاوا کرنے کا نام ہے کیونکہ " تزید " کا نتیجہ زہد ہے۔ التزهد يؤدى الى الزهد ت ( تزید زہد تک پہنچاتا ہے) جب کہ " تزید ، منافقت اور ہلاکت پر منتہی ہوتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام حقیقت زہد کے بارے میں یوں فرماتے ہیں : الزهد تقصير الأمال و اخلاص الأعمال یعنی زبد خواہشوں اور آرزوؤں کو کم کرنے اور اعمال کو غیر خدا کے شانے سے خالص و پاک کرنے کا نام ہے۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں : ان عقلت امرك او اصبت معرفة نفسك فأعرض عن الدنيا وازهد فيها له یعنی اگر تو نے اپنے آپ کو پہچان لیا اور اپنے نفس کی معرفت حاصل کر لی تو دنیا سے منہ پھیر لینا اور زاہد ہو جاتا۔ یہاں زہد کو معرفت پر منحصر قرار دینے سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ اگر زہدہ معرفت کی بنیاد پر ہو تو پائدار ہوتا ہے ورنہ کسی اور صورت میں اس کی تاثیر یا بقا کی کوئی امید نہیں ۔ اس امر کی طرف توجہ ضروری ہے کہ اگر چہ عقل عملی عقل نظری کے بغیر ممکن نہیں اور وہ ہمیشہ عقل نظری سے ہی مدولیتی ہے لیکن جس طرح ہم نے پہلے اشارہ کیا ہے یہ اسے اور نکھارتی ہے۔ اس ضمن میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: بالزهد تثمر الحكمة ل یعنی معرفت زہد کے ساتھ ثمر آور ہوتی ہے۔ اصولی طور پر یقین کے پنپنے کی بہترین راہ عبادت حق تعالے ہے۔ اس طرح کی عبادتیں علم کو ملکہ میں تبدیل کر دیتی ہیں اور دوسری طرف معرفت جب تک جامعہ عمل نہ پہن لے اس وقت تک ایک دنیاوی پیشہ ہے۔ لیکن جب عملی صورت اختیار کرے کھل اٹھتی ہے اور ثمر آور ہوتی ہے۔ لہذا آپ فرماتے ہیں کہ اگر عارف ہو جاؤ تو زید اختیار کرنا تاکہ وہ حکمت ثمر بخش ہو اور اگر چاہتے ہو کہ حکمت کو ثمر کرو تو عبادت و سجود بجا لاؤ۔ امیر المومنین علیہ السلام کے الفاظ میں سجدے کی دو قسمیں ہیں۔ سجد ہ بدنی اور سجدہ نفسانی۔ سجدہ بدنی معروف سجدہ ہی ہے جس میں پیشانی، دو ہاتھ ، دوزانو اور دونوں پاؤں کے انگوٹھوں کو زمین پر لگایا جاتا ہے جبکہ سجدہ نفسانی کچھ اس طرح سے ہے: " السجود النفساني فراغ القلب من الفانيات والاقبال بكته الهمة على الباقيات یعنی سب سے پہلے جو کچھ بھی فانی اور ناپائیدار ہے اسے دل سے باہر نکالے تاکہ دل خالی ہو جائے اور پھر جو کچھ باقی اور ابدی ہے اسے دل میں جگہ دے اور انہی سے اپنے دل کو پھر لے تاکہ تخلیہ کے بعد تحلیہ وقوع پذیر ہو ، یعنی اس کے صاف پاک ہونے کے بعد وہ مزین ہو جائے ۔ اس کے بعد آپ نے اس کے کچھ نمونے بھی ذکر فرمائے : " وَخَدُعُ الكَبْرِ وَالْحَمِيَّةِ وَقَطْعُ الْعَلَائِقِ الدُّنْيَوِيَّةِ وَالتَّعَلَى بِالخَلائِقِ النَّبَوِيَّةِ " یعنی مغرور، تکبر، تعصب اور دنیاوی وابستگیوں سے جدا ہونا اور اپنے آپ کو اخلاق انبیاء سے مزین کرنا ہی سجدہ نفسانی ہے۔ مختصر یہ کہ یقین و معرفت کے پنپنے کے لیئے اہم ترین عامل عبادات ہی ہیں۔ اول الحكمة ترك اللذات وأخرها مقت الغانيات اول حکمت لذتوں کا ترک کرنا ہے۔ میر و سلوک کی ابتداء میں انسان لذتوں کو ترک تو کر دیتا ہے لیکن ان سے متنفر نہیں ہو پاتا۔ آہستہ آہستہ وہ ان لذتوں کی اندرونی اور ملکوتی صورت کو پہچاننے لگتا ہے اور پھر اس مرحلے کے بعد یعنی جب اس کا تسلیم حصولی شہود کی منزل تک پہنچ جائے اور وہ دنیا اور اس کی زود گزر لذتوں کے قبیح د کر یہ چہرے کو دیکھنے لگے تو پھر مغصے کی حالت میں ان سے بھاگنے لگتا ہے لیکن ہے کہ کوئی جاہ و مقام سے دور رہے لیکن ہر کوئی یہ نہیں کر سکتا کہ اسے بھیڑ کی چھینک سے کمتر سمجھے یہ امیرالمومنین علیہ السلام جیسے بلند مرتبہ عارف کا کلام ہے کہ جو آخرت کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ جو در حقیقت دنیا ہی کا باطن ہے۔ اس لحاظ سے دنیا نہ صرف اس کی محبوب نہیں ہے بلکہ وہ اس سے قنفر اور بیزار ہے۔ اصل الاخلاص اليأس متافی ایدی الناس ہے یعنی اخلاص کی بنیاد یہ ہے کہ انسان جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے مایوس اور نا امید ہو، اور جو کچھ خدا کے ہاں ہے ہمیشہ اس کی امید رکھے۔ اس بات کی تائید میں امیر المؤمنین علیہ السلام اپنے ایک اور نورانی کلام میں غیر خدا سے سوال سے پر ہیز اور خدا سے درخواست اور التجا کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں : التقرب الى الله تعالى بمسألته والى الناس بتركها ہے یعنی اگر کوئی معاشرے میں ہر دلعزیز اور لوگوں کا مقرب بننا چاہتا ہے تو ا سے چاہیئے کہ ان سے کوئی چیز نہ مانگے لیکن اگر خدا کے نزدیک ہونا چاہتا ہے تو جو کچھ خدا کے ہاں ہے اس کا سوال کرے۔ خدا سے سوال کرنا اور جو کچھ اس کے پاس ہے اس کی درخواست کرنا انسان کو خدا کے قریب کرتا ہے۔ اعلم الناس بالله اکثر هم له مسالة جو خدا کو بہتر اور زیادہ پہچانتا ہے وہ خدا سے زیادہ طلب کرتا ہے۔ سوال کہ جو دعا ہی ہے ایک طرح کی عبادت ہے یہ جملہ بھی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عقل عملی کا دائرہ کار معرفت سے مربوط ہے کہ جو عقل نظری کا کام ہے لہذا جس طرح ہم پہلے کئی بار کہ چکے ہیں کہ معرفت اصل اور جڑ ہے جبکہ اخلاص اور عقل عملی کے دوسرے پہلو اس کی شاخیں ہیں۔ سلوا الله العفو و العافية وحسن التوفيق الله من سأل الله اعطاه "د ليكن مسألتك ما يبقى لك جماله وينفى عنك وباله له ما من شي احب الى الله سبحانه من ان يسأل ل نسأل الله سبحانه تعالى لمنته تماما وبحبله اعتصامات نسال الله سبحانه منازل الشهداء ومعايشة التعداء ومرافقة الانبياء یہ سب کلمات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ معرفت حق تعالے انسان کو تقریب دیتی ہے کہ اللہ تعالے سے جو کچھ اس کے پاس ہے اسے طلب کرے۔ شہید کا مقام و مرتبہ، انبیاء سے دوستی و رفاقت اور سعادتمند لوگوں کے ساتھ زندگی اور اچھی عاقبت حضرت علی علیہ السلام کی ان اہم دعاؤں میں سے ہیں کہ جو آپ کے کلام میں نظر آتی ہیں۔ مختصر یہ کہ اگر کوئی معرفت میں بھی اور عمل و اخلاص میں بھی صمد ہو جائے تو وہ خود اپنا مولا بن جائے گا نتیجتاً اس دائرہ ولایت میں شیطان داخل نہیں ہو سکتا اور جو جگہ شیطان کے تصرفات سے محفوظ ہو و زمان کا محل ظہور ہو گی اور جب رحمان ظہور کرے گا تو اس وقت ایسا شخص " ولی کے بلند و بالا اسم کا مظہر بن جائے گا اور پھر وہ مسائل تکوینی میں بھی اور مسائل تشریعی میں بھی ایسے کام انجام دے گا کہ جو کار خدا کا مظہر ہوں گے۔ الحمد لله رب العالمين