Dars 5
ولایت در قرآن • آیة الله جوادی آملی
ہماری گفتگو قرآن کریم میں ولایت انسان کے بارے میں جاری ہے اس کی منطقی ترتیب یہ ہے: پہلے " الولاية ماهی ، ولایت کیا ہے اور پھر الولایة هل هی ؟ یعنی کیا ولایت موجود بھی ہے یا نہیں اور میرے مرحلے پر الولاية نمرهی به یعنی اثبات ولایت کا راستہ کیا ہے اور آخر میں " الولاية كوهی ؟
یعنی ولایت کی اقسام کیا ہیں ؟
ولایت و موالات
پہلی فصل کا خلاصہ یہ ہے کہ ولایت " ولی سے مشتق ہے اور اس کا معنی ہے قرب اور نزدیکی، اور اگر کوئی اللہ کے نزدیک ہو جائے تو اس قربت کو ولایت کہتے ہیں اور اس کا نتیجہ ہے نصرت محبت وغیرہ۔ یہ جو انسان اللہ کے نزدیک ہوتا ہے اور ولایت الہی کو قبول کرتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اپنے آپ میں جس ذلت کا احساس کرتا ہے اسے قرب خدائے عزیز کے زیر سایہ دور کرنا چاہتا ہے لیکن انسان کے لیے خدا کی طرف سے ولایت و قربت کی وجہ اس ذات مقدس میں احساس ذلت نہیں بلکہ اللہ تعالے کا مقصد ان بندوں کی تربیت و پرورش ہے کہ جن کی ولایت اس نے اپنے ذمہ لی ہے لہذا اللہ تعالے اور بندی کے مابین جو ولایت ہے وہ اس ولایت سے مختلف ہے جو انسانوں کے مابین موجود ہے، کیونکہ انسانوں کے مابین مرتج ولایت میں طرفین ولاء ایک جیسے ہوتے میں میسورۂ توبہ کی آیت اے میں ہے:
والمؤمنون والمؤمنات بعضهم أولياء بعض يأمرون
بالمعروف وينهون عن المنكر
مومنین اور مؤمنات ایک دوسرے کے ولی ہیں جو اچھائی کی دعوت دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔
مومنین کے درمیان ولایت ولائے متقابل یا موالات ہے اور اس کا نتیجہ بھی یکساں اور متقابل ہوتا ہے اس معنی میں کہ وہ ایک دوسرے کو دوست رکھتے ہیں لنڈا ایک دوسرے کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرتے ہیں، ایک دوسرے کو نصیحت ہدایت کرتے ہیں جہاں ضرورت ہو تعاون کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی مد
نصرت سے دریغ نہیں کرتے ۔ تاہم وہ ولایت کہ جو انسانوں اور خدائے سبحان کے درمیان موجود ہے اگر چظاہری طور پر اس کا اطلاق جس طرح خدائے سبحان کا انسان کے ساتھ رابطے پر ہوتا ہے اسی طرح انسان کے حضرت حق سے رابطے پر بھی ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ولایت کی موالات اور دو طرفہ روابط کی طرف بازگشت یکساں نہیں ہے بلکہ اس رابطه ولائی میں اللہ تعالے کا ولی ہونا " والی " کے معنی میں ہے اور بندہ مولی علیہ " ہے۔ خداوند متعال کی ولایت کا سبب احساس ذلت نہیں ہے ۔ لم یکن لہ ولی من الذل سیٹ رہی بات بندوں کی تو ذلت و فقر کے سوا اُس غنی محض سے انکی کوئی اور نسبت ہی نہیں ، جیسا کہ سورۂ فاطر کی آیت ۱۵ میں ہے،
يا ايها الناس انتم الفقراء الى الله
اے انسانو! تم اللہ کے حضور فقیر ہو۔
سب " ذل الی الله - اللہ کے سامنے ذلیل و فقیر) کے مقام پر ہیں سب اللہ کے محتاج ہیں لیکن وہ سبحان ذات بے نیاز ہے لہذا خدا کو کسی سے ذل وذلت کی نسبت نہیں ہے نتیجتا اللہ تعالے اور مومنین کے مابین ولایت کی نسبت
متخالفة الاطراف ہے جیسے علت و معلول کے درمیان ہوتی ہے۔ اس کے بر خلاف انسانوں کے مابین نسبت ولایت متوافقة الاطراف
ہے۔
دوسری فصل کا خلاصہ یہ ہے کہ ولایت موجود ہے کیونکہ قرآن کریم کی بہت سی آیات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ بعض لوگ اولیاء خدا ہیں ۔
تاثیر عمل
بحث کی تیسری فصل میں ہم نے کہا کہ ہر وہ عمل جو انسان کو خدا سے قریب کرتا ہے اثبات ولایت کا ذریعہ ہے کیونکہ اگر لفظی بحث ہو تو ممکن ہے کہ جائے کہ ولایت اور ہے اور تقرب اور لیکن بحث معنوی ہے لہذا چاہے لفظ ولایت زیر بحث آئے یا لفظ تقرب دونوں کا نتیجہ ایک ہے ۔ ہر عمل صالح کہ جو انسان اللہ کے لیے انجام دیتا ہے اپنی جو حسن فعلی بھی رکھتا ہے اور حسن فاعلی بھی، اسے اللہ کے قریب کرتا ہے اور جب وہ اللہ کے قریب ہو جاتا ہے تو ولایت الہی کے تحت آجاتا ہے لہذا وہ سب آیات جو تقرب کی دعوت دیتی ہیں آیات دلاء ہیں اور ان آیات کے مضمون پر عمل درآمد انسان کو اللہ کے قریب کرتا ہے اور باعث بنتا ہے کہ انسان اللہ کی ولایت، تدبیر اور سرپرستی سے بہرہ مند ہو البتہ جو کوئی بھی اس راستے کو بہتر طے کرے گا وہ بہتر مستفید ہو گا، جو کوئی بھی تقرب کے راستوں کو پوری طرح سے پہچان کرطے کرے گا قرآن کریم کی اصطلاح میں وہ مقربین میں شمار ہوگا اور اللہ تعالے اسے اپنا محرم راز بنا لے گا ۔ فرماتا ہے کہ ہم نے موسیٰ کلیم کو اپنے نزدیک کر کے اس سے مناجات کی۔ وقربناه نجیان پنجی یعنی جس سے مناجات کی جائے۔ مناجات ایسی
آرام سے کی جانے والی گفتگو کو کہتے ہیں کہ جو کسی انسان سے قربت کی وجہ سے
کی جائے۔ جو دور ہوتے ہیں وہ ایک دوسرے کو صدا کرتے ہیں۔ وہ بھی اللہ کو آواز دیتے ہیں اور اللہ بھی انہیں پکارتا ہے جو مومنین دور ہوتے ہیں اللہ تعالے انہیں خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے " یا ایها الذین امنوا ، جو لوگ زیادہ دور ہیں وہ اللہ تعالے کے اس بلا واسطہ خطاب سے محروم ہیں ان کے لیے اللہ تعالے رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ قوم کو واسطہ قرار د سے کہ آنحضرت سے فرماتا ہے ان سے کہہ دے مثلاً . قل للذین اوتوا الكتاب " یا " قل یا اھل الکتاب : جو لوگ ان سے بھی دور تر ہیں انہیں "یا ایها الناس - کہ کر خطاب کیا گیا ہے اور آخر کار ایک گروہ
وہ بھی ہے کہ : لا يكلمهم الله ولا ينظر اليهم
اللہ ان سے کلام بھی نہیں کرتا اور نہ ان کی طرف دیکھتا ہے۔) (آل عمران -۷۷)
ان کے بالمقابل جو لوگ اللہ سے بہت نزدیک ہیں اللہ انہیں اپنے آپ
سے مربوط جانتا ہے اور ان سے مناجات کرتا ہے حضرت علیسی سلام اللہ علیہ کے
بارے میں آیا ہے: " وجيها في الدنيا والأخرة ومن المقربين
وہ دنیا و آخرت میں باد جاست و باوقار ہیں اور مقربین میں سے ہیں)۔ (آل عمران - ۴۵)
ایک اور گروہ کے بارے میں بطور عموم آیا ہے کہ وہ مقربین میں سے ہے۔
ولایت، آیات کی روشنی میں
آب ہم ولایت کے بارے میں آیات کا تذکرہ کریں گے چاہے وہ کسی کے لیے ولایت ثابت کرتی ہوں یا سلب کرتی ہوں اسی طرح تقریب سے متعلق آیات
پر بھی گفتگو ہوگی۔ سورۃ مبارکہ مائدہ کہ جین کی بہت سی آیات ولایت سے مربوط ہیں ہیں ولایت
امیر المومنین کے ذکر کے بعد فرمایا گیا ہے :
يا ايها الذين امنوا لا تتخذوا الذين اتخذوا دينكو هزر و لعبا من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم والكفار اولياء
داے ایمان والو ! تم سے پہلے جنہیں کتاب دی گئی ہے اور کافروں میں سے جنہوں نے تمہارے دین کو تمسخر اور کھیل بنا رکھا ہے انہیں اپنا ولی نہ بناؤ)۔
(مائده - ۵۷)
واضح ہے کہ اس بات کا یہ مطلب نہیں کہ واقعاً دنیا میں دو راستے ہیں ایک حق اور دوسرا باطل کیونکہ باطل راستہ نہیں بلکہ بے راہ روی ہے راستہ تو وہ ہے کہ جس کا کوئی اختتام اور منزل ہو جو انسان گناہ کی طرف چلتا ہے وہ بے راہ روی کا شکار ہے لہذا ایسے
افراد کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
" يوم لا يغنى مولى عن مولى شيئًا»
رحیں دن کوئی دوست کسی دوست کے ذرا بھی کام نہ آئے گا۔)
(دخان - اسم)
جو دنیا میں ایک دوسرے کے ولی تھے قیامت میں وہ کچھ نہ کر پائیں گے معمولی سے یہاں متصف کرنا ۔ ماکان (جو تھا) کے تعلق سے ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ یہ لوگ قیامت میں ایک دوسرے کے ولی ہیں لیکن کر کچھ نہیں پاتے کیونکہ اس ون تقطَّعَتْ بِهِمُ الاسباب سے ان کے اسباب و وسائل منقطع ہو جائینگے)
اور ہ لا انساب بلین سے اعلان کے درمیان نسب اور رشتہ داری نہیں رہے گی ) سب علل و اسباب منقطع ہو جائیں گے کوئی والی ان کے مابین نہ ہوگی مقصود یہ ہے کہ جو دنیا میں ایک دوسرے کے اولیاء تھے قیامت میں ان سے کچھ نہ بن پائے گا۔
مثلاً یہ آیہ کریمیہ ملاحظہ ہو :
"يوم يفر المرء من اخيه وامه وابيه داس دن آدمی اپنے بھائی سے بھی بھاگے گا اور ماں باپ سے بھی۔
(علیس - ۳۴-۳۵)
اس سے دنیا دی بھائی اور ماں باپ مراد ہیں نہ کہ قیامت میں کوئی بیٹے یا باپ کا رشتہ ہوگا وہاں سب خاک سے اٹھائے جائیں گے اور ایک دوسرے سے گریزاں
ہوں گے:
" فاذا هم من الاحداث الى بهم ينسلون
) تو وہ اپنی قبروں سے اپنے رب کی طرف چل دیں گے ۔) دلیں۔(۵)
ولایت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے :
يوم لا يغنى مولى عن مولى شيئًا
کیونکہ سوره مبارکه حدید آیت ۱۵ میں کافروں کے بارے میں فرمایا گیا ہے : مأوبكو النار هي مولئكم
تمہارا لیس ایک ہی مولا ہے اور وہ آگ ہے اور بعض اوقات فرماتا ہے آگ
ان کی ماں ہے :
فَأَمَّهُ حَاوِيَةٌ ہے جیسے ماں بچے کو پالتی ہے اور اسے غذا مہیا کرتی ہے آگ بھی انہیں پالتی ہے کیونکہ یہ آگ کے تحت تدبیر حرکت کرتے ہیں لہذا ان کا مولا
آگ ہے۔
سورۂ مبارکہ مائدہ میں اولیاء بنانے کے بارے میں یوں فرمایا گیا ہے : ولو كانوا يؤمنون بالله والنبي و ما انزل اليه ما اتخذوهم اولياء ولكن كثيرا منهم فاسقون
داگر وہ اللہ پر اور نبی پر، اور جو کچھ اس پر نازل کیا گیا ہے ایمان لے آتے توان ( انکار کرنے والوں) کو دوست نہ بناتے لیکن ان میں اکثر بدکار ہیں)
دمانده - (۸)
قیاس استثنائی کی صورت میں فرماتا ہے ،اگر یہ مومن ہوتے تو غیر خدا کو ولی نہ بناتے لیکن تالی باطل ہے ابدا مقدم بھی باطل ہے، پس وہ مومن نہیں۔ مقدم و تالی کے درمیان ملازمہ اور لازمی تعلق یہ ہے کہ اگر کوئی مومن ہے تو وہ اللہ کے نزدیک ہے اور باطل سے دور ہے اور جو کوئی باطل سے دور ہے وہ باطل کو اپنا سر پرست نہیں بناتا اور ولایت باطل کو قبول نہیں کرتا ۔ قرآن کریم میں جب اقتدار شیطان کے بارے میں بات کی گئی ہے تو فرمایا گیا ہے کہ شیطان کا اقتدار اسی پر ہوتا ہے جواس کا اقتدار قبول کرتا ہے :
"إِنَّمَا سُلطانة عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلُونَة : الحل ...
متولی یعنی ولایت کو قبول کرنے والا۔
سورۃ مبارکہ انفال کی آیت ۲ میں مومنین کی باہمی موالات کا ذکر کرتے ہوئے
فرمایا گیا ہے : ان الذين أمنوا وهاجروا وجاهد وابأموالهم وانفسهم في سبيل الله والذين او واو نصروا اولثك بعضهما ولياء بعض والذين
أمنوا ولم يهاجروا مالكو من ولا يتهم من شيء ؟ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور اپنی جانوں اور اپنے مالوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنہوں نے انہیں (مدینہ میں پناہ دی اور ان کی مدد کی وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں،
اور وہ جو ایمان لائے مگر انہوں نے ہجرت نہیں کی پس تمہارے ذمہ ذرا بھی
ان کی سرپرستی نہیں۔ یہ جو کہا جاتا ہے "ولایت محبت و نصرت کے معنی میں ہے اور ولایت سرپرستی و تدبیر کے معنی میں ہے، ہر جگہ صحیح نہیں کیونکہ اسی آیت میں جو دلایت آیا ہے ، موالات اور محبت و نصرت کے معنی میں ہے جبکہ " هنالك الولاية الله الحق میں سرپرستی و تدبیر کے معنی میں ہے یعنی جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت نہیں کی تمہاری ولایت میں ان کا کوئی حصہ نہیں اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے۔ " والذين كفروا بعضهم أولياء بعض الا تفعلوه تكن فتنة في الارض وفساد كبير د اور وہ لوگ جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اگر تم ایسا نہ کرو گے وآپس میں دوست نہ بنو گے) تو روئے زمین پر بہت بڑا فتنہ و فساد برپا ہو گا ۔) (انفال -۷۳)
سوره مبارکہ توبہ کی آیت ۲۳ میں فرماتا ہے؟
يا ايتها الذين امنوا لا تتخذوا أباتكم واخوانكم اولياء ان استحبوا الكفر على الايمان
رائے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اپنے آباء اور اپنے بھائیوں کو دوست
نہ بناؤ اگر وہ ایمان کی نسبت کفر سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔)
رشتہ داری کا کوئی بھی تعلق اسی وقت محترم ہے کہ جب وہ حدود الہی کو کوئی نقصان نہ پہنچائے ۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کے اقوال محکمات میں سے ایک قول
یہ ہے کہ :
الاطاعة لمخلوق في معصية الخالق من لايحضره الفقيه لاله ها اللہ کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں کی جا سکتی۔
یہ بات تمام دیگر عناوین پر حاوی ہے یعنی دوسروں کی اطاعت وہاں پر ہے کہ جہاں باعث گناہ نہ ہو دوسروں کی ولایت بھی ایسے ہی ہے۔ ولایت اخوت، باپ کی ولایت اور مومنین کے درمیان ولایت کی شرط بھی یہی ہے کہ وہ اللہ کی نا فرمانی کا باعث نہ ہو۔ لہذا اس آیہ کریمیہ میں فرمایا گیا ہے کہ اگر تمہارے قریبیوں میں سے کوئی کافر ہو جائے تو پھر تمہارے اور اس کے مابین تبرا ہے، تولا نہیں۔ ومن يتولهم منكم فاولئك هم الظالمون ، اگر تم میں سے کسی نے ایسوں سے تو لا اختیار کیا تو وہ ظالم ہے اس سے بعد کی آیت میں بھی
انہیں تہدید فرمائی گئی ہے ۔
اسی طرح اسی سورہ مبارکہ میں یہ بھی فرمایا گیا ہے :
" ومن الاعراب من يتخذ ما ينفق مغرماء بعض بادیہ نشین انفاق فی سبیل اللہ کو تا دان سمجھتے ہیں ۔ (تو یہ ۹۸) ويتربص بكوالد واثر عليهم دائرة السوء والله سميع عليم ومن الاعراب من يؤمن بالله واليوم الأخر ويتخذما ينفق قريات عند الله وصلوات الرسول اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض ایسے ہیں کہ جو انفاق کو باعث تقریب اور صلوات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذریعہ سمجھتے ہیں لہذا وہ انفاق کرتے ہیں تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان پر صلوات بھیجیں اور صلوات پیغمبر سے مراد ان کی دعا اور طلب رحمت ہے کہ جو مومنین کے لیئے سکون و آرام کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالے فرماتا ہے : خذ من اموالهم صدقة تطهرهم وتزكيهم بها وصل عليهم ان صلوتك سكن لهم
دان کے اموال میں سے صدقہ قبول کر کے اس صدقہ سے ان کو پاک کر اور ان کا تزکیہ کر اور ان کے لیے دعاء خیر کر، بیشک تیری دعا ان کے لیے باعث تسکین ہوگی) (توبہ - ۱۰۳)
پھر قرآن ایسے لوگوں کی تائید کرتا ہے اور فرماتا ہے : ألا انها قربة لهم » ہاں یقیناً یہ انفاق ان کے لیے تقرب کا ذریعہ اور دعاء رسول (ص) کا وسیلہ ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالے انہیں اپنی رحمت میں داخل کرے گا : سید خلهم الله في رحمته ان الله غفور رحیم
اللہ انہیں جلد اپنی رحمت میں داخل کرے گا تحقیق اللہ غفورالرحیم ہے ؟
وتویه - ۱۹۹
سورۂ مبارکہ رعد کی آیت لا میں فقط مومنین کے والی دسر پرست ہونے کے
بارے میں فرمایا گیا ہے : ان الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم واذا اراد الله
بقوم سوء افلا مرد له و مالهم من دونه من واله
بیشک اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو نہ بدلیں اور جب اللہ کسی قوم کو عذاب دینے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کوئی ٹالنے والا نہیں پھر اس کے سوا اس کا کوئی مددگار نہیں ۔)
انسان بالضرورت محتاج ہے اور بالضرورت اسے غیر خدا کی حاجت نہیں ہے، ان دو قضیہ ضروریہ کی بنیاد پر کہ جنہیں اس آیہ شریقہ میں بھی واضح کیا گیا ہے : يا ايها الناس انتم الفقراء الى الله ،
داے انسانو! تم اللہ کے محتاج ہو ) (فاطر ۱۵)
سے بھی ثابت کیا جاسکتا ہے کہ انسان کے لئے اللہ تعالے کے علاوہ کوئی والی
د سرپرست تصویر نہیں کیا جاسکتا اللہ فرمایا گیا ہے۔
مالهم من دونه من وال "
دان کے لیے اس کے علاوہ کوئی ولی وسرپرست نہیں ۔
سورۃ بنی اسرائیل کی آخری آیہ اس نکتے کو بیان کرتی ہے کہ ولایت الہی اس کی طرف سے سر پرستی کے معنی میں ہے اور یہ ایک متخالفۃ الاطراف نسبت ہے۔
فرماتا ہے۔
" وقل الحمد الله»
حمد جہاں بھی ہے اللہ سے مختص ہے کیونکہ غیر خدا والی ہی نہیں کہ کسی چیز کا حامل ہو ، عطا کرے اور ستحق حمد قرار پائے، الذي لم يتخذ ولدا ولم يكن له شريك في الملك : یعنی اس کی کوئی اولاد اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ ولم يكن له ولى من الذل، اس کا ولی لیکن اس کا کسی کو ولی بنانا ذلت کی وجہ سے نہیں لیکن دوسرے چونکہ ذلیل ہیں اس لیے ان کا ولی ہے جب کہ خدا وند عزیز کا کوئی ولى من الذل ، نہیں ہے اس کے ہاں ذلت کی گنجائش ہی نہیں کہ اسے دلی کی ضرورت ہو = و کتبرہ تکبیرا ، یعنی اسے بزرگ جان ۔ اللہ اکبر کہنا ایک لفظی تکبیر و عبادت ہے لیکن اگر انسان اللہ کی کبریائی کو پہچان سے تو غیر خدا کا اس کی نظر میں کوئی حلوہ ہی نہ ہو گا۔ ممکن نہیں کہ انسان اللہ کو بڑا جانے اور آسمان و زمین کو بھی امیر المومنین علیہ السلام خطبہ ہمام میں متقین کے بارے میں فرماتے ہیں : عالم الخالق فى انفسهم فصفر مادونه
في اعينهم و اللہ کی عظمت ان کی روحوں میں ایسی سمائی کہ ہر دوسری چیز ان کی نظروں
میں چھوٹی ہو گئی .
یعنی عظمت خدا کا اور اک دوسروں کی تصغیر و تحقیر کے ساتھ ساتھ ہے جب
انسان اللہ کو عظیم جان نے دوسرا جو کوئی اور جو کچھ بھی ہے اس سے کہیں چھوٹا ہے کہ
انسان اسے ولی بنالے، اور اس سے عزت ، قدرت اور دیگر کمالات حاصل کرنے
کی جستجو کرے لہذا اللہ تعالی فرماتا ہے : "ايبتغون عنده والعزة "
یعنی یہ لوگ حصول عزت کے لیے غیر خدا کے پیچھے ہیں ۔ دنساء- ۳۹)
جبکہ :
فلله العزة جميعا (فاطر ۱۰)
اگر تمام تر عزت خدا ہی کے لیے ہے تو پھر حصولِ عزت اور رفع ذلت کے لئے اس کے سوا چارہ ہی نہیں کہ اس کی ولایت کو قبول کر لیا جائے لہندا فرماتا ہے فالله هو الولی اس کا لہجہ اس آیہ شریفہ کی طرح کا ہے، ذلك بان الله هو الحق میہ انداز حصر کا ہے بغیر فصل " ھو آئی ہے اور ساتھ خبر معرفہ ہے کہ جو مفید حصر ہے یعنی اللہ کو چھوڑ دیا تو سب کچھ باطل ہے زیر بحث آیت میں مراد یہ ہے کہ اللہ
کے علاوہ کوئی ولی نہیں ۔ سورہ رعد کی آیت 11 میں ہے :
واذا اراد الله بقوم سوء ا فلا مرد له وما لهم من دونه من وال رجب اللہ کسی قوم کو عذاب دینے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کوئی ٹالنے والا نہیں پھر اس کے سوا اس کا کوئی مدد گار نہیں) اور سورہ کہف کی آیہ ۱۷ میں ہے:
" ومن يضلل فلن تجد له ولياً مرشدا ا اور جسے وہ گمراہ کر دے تو تو اس کے لیے ہر نہ کوئی سر پرست و ہادی نہیں
پائے گا۔ ہ اگر اللہ تعالے کسی کو گمراہ کر دے" سے مراد یہ ہے کہ اسے فین ہدایت سے محروم کر دے تو پھر ممکن نہیں کہ کوئی اسے ہدایت کر سکے سورہ رعد کی آیت فعل خدا میں ولایت کے بارے میں ہے اور سورۂ کہف کی آیت اس کے علم میں ولایت
سے متعلق ہے ان دونوں آیتوں سے مجموعی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مسائل علمی ہوں یا عملی انسانوں کا واحد والی و سر پرست اللہ تعالیٰ ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی آیت اللہ تعالے کے لیے ولایت مطلقہ ثابت نہیں کرتی بلکہ سورہ کہف کی آیت کا موضوع خاص طور پر ہدایت میں ولایت الہی ہے ۔ جبکہ سورہ رعد کی آیت خاص طور پر رفع عذاب میں ولایت الہی کا ذکر کرتی ہے لیکن سورہ شوری کی آیہ۔ فالله هو الوئی اس کی ولایت مطلقہ کی طرف متوجہ کرتی ہے اور ان دونوں میں سے ہر ایک اس ولایت جامعہ کی شرح کی حیثیت رکھتی ہے۔ لہذا دوسری سے حاصل ہونے والی ولایتیں بھی ولایت النبی کا پر تو ہمیں نہیں بندوں کی طرف سے محبت و نصرت دکھائی دے تو دراصل وہ محبت و نصرت خدا ہے اور وہ بندے وسیلے
سے زیادہ کچھ نہیں۔
حاصل سخن
اب تک کی جانے والی بحث کا خلاصہ یہ ہے :
الہ اور بندوں کے درمیان یک جانبہ ہے یعنی در حقیقت ولایت اللہ کی ہے اور
انسان موٹی علیہ ہے۔ اللہ ہی والی و ولی ہے۔
سر عمل قربت باعث ولایت ہے۔
جس عمل کا قرب زیادہ ہو گا حصول ولایت اس سے زیادہ ہو گا۔ جو کوئی اللہ کا ولی ہے وہ قلات سے نکل کر نور کی راہ پائے گا یا معصومین کی طرح دفعاً یا
دوسرے انسانوں کی طرح رفعا لیے اعمال صالح کو « لوجه الله » بجالانا داس طرح سے کہ حین فعل اور حسن فاعلی
دونوں کو ملحوظ رکھا جائے) کہ جو اس چیز کی علامت ہے کہ انسان اللہ کی ولایت کے ما تحت ہے لیکن اگر انسان اعمال قربت کی بجا آوری سے محروم ہو جیسے انفاق کو
تاوان سمجھنے والا یا اعمال قربت کو غیر خدا کے لئے بجا لانے والا تو جان لے کہ وہ ولایت شیطان کے ماتحت ہے ۔