Dars 13
ولایت در قرآن • آیة الله جوادی آملی
عبادت و ولایت ولایت کو ثابت کرنے والی راہوں کے بارے میں ہماری بحث یہاں تک پہنچی تھی کہ اگر کوئی ولی اللہ بنا چاہے تو اس کی راہ عبادت خدا ہے کیونکہ انسان عبادت و بندگی کے ذریعے ہی محبوب خدا ہوتا ہے، البتہ عبادت و بندگی اپنے وسیع مفہوم میں کہ جی میں تمام احکام الہی کی اطاعت شامل ہے اور محبوب خدا ہی ولایت الٹی کے میسم تک پہنچتا ہے۔ قرب نوافل کی حدیث اہل بیت علیہم السلام کی احادیث کہ جن کا مرتبہ قرآن حکیم کے بعد ہے ہمیں بھی یہ بات موجود ہے ہم چند روایات کا ذکر کرتے ہیں کہ جو مذکورہ آیات کی تائید کرتی ہیں۔ اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ مقام ولایت کا حصول فقط احکام الہی کی ہمہ پہلو اطاعت کے ذریعے ممکن ہے۔ فریقین نے رسول اللہ سے ایک روایت اپنی کتب احادیث میں نقل کی ہے۔ یہ روایت حدیث قرب نوافل" کے نام سے مشہور ہے اس کا شمار مشہور اور معتبر مادیے میں ہوتا ہے۔ عربی لٹریچر کی نظم و نثر میں بھی اس کا ذکر آیا ہے۔ یہ روایت ابان بن تغلب نے حدیث قدسی کے عنوان سے امام محمدباقر علیہ السلام سے یوں نقل کی ہے " لما اسرى بالنبي صلى الله عليه وآله وسلم قال يارب ما حال المؤمن عندك ؟ قال يا محمد صلی اللہ علیہ واله وسلّم من امان لى وليا فقد بارز في بالمحاربة وانا اسرع شيء الى نصرة اوليائي وما يتقرب الى عبد من عبادي بشي احب الى مما افترضت عليه یعنی جب معراج کی رات اللہ تعالے نے رسول اللہ کو مہمان بلایا تو انہوں نے اللہ سے سوال کیا : پروردگارا ! تیر سے نزدیک مومن کی منزلت کیا ہے ؟ تواللہ تعالی نے فرمایا " اے محمد جو کوئی میرے کسی ولی کی اہانت کرتا ہے وہ کھلے بندوں میرے خلاف جنگ کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور میں اپنے اولیاء کی نصرت میں ہر چیز سے زیادہ سریع ہوں میرے بندوں میں سے کوئی بھی فرائض کی انجام دہی سے بڑھ کر کسی پسندیدہ وسیلے سے میرا تقرب حاصل نہیں کر سکتا۔ یعنی اللہ تعالے کے تقرب کی بہترین راہ فرائض کی انجام دہی ہے۔ جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے تمام واجبات تقرب الہی کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔ یہ جو نماز کے بارے میں آیا ہے کہ " الصلاة قدمان کل تقی یہ نمونے کے طور پر ہے اور فقط نماز کو یہ خصوصیت حاصل نہیں ہے بلکہ زکواۃ کے بارے میں بھی یہی تعبیر وارد ہوئی ہے ۔ جیسا کہ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: ثمران الزكاة جعلت مع الصلاة قربانا لاهل الاسلام له مختصر یہ کہ سہر وہ عمل جس کی درستی میں قصد قربت شرط ہے مثلا زکواۃ ، حج اور جہاد وغیرہ اور سالک اسے قصد قربت سے ہی بجالائے تو یہ عمل اس کا ۔ قربان، قرار پائے گا یعنی اسے اللہ کے نزدیک کرے گا۔ البتہ جو تقرب فرائض کی بجا آوری سے حاصل ہوتا ہے وہ اس تقریب سے زیادہ ہے جو نوافل کی انجام دہی سے حاصل ہوتا ہے۔ بعد میں آپ نے فرمایا : وانه ليتقرب الى بالنافلة یعنی جس طرح فرائض کی بجا آوری تقریب کا باعث بنتی ہے نوافل کی انجام دہی بھی قربت النبی کا سبب ہوتی ہے قربت کا ہر وہ عمل جو واجب کی مقدار سے زیادہ ہو نافلہ کہلا تا ہے۔ " فل " یعنی اضافی مقداد حضرت ابراہیم علیہ السلام کہ جنہوں نے الہ تعالی ر حاشیہ تھے تو پیر کی بارگاہ میں اولاد کی دعا کی تھی کے جواب میں اللہ نے فرمایا کہ ہم نے اسحاق کے علاوہ لیعقوب ابراہیم کی درخواست سے زیادہ اور نافلہ کے طور پر اسے عطا کیا اس نے ہم سے فرزند کی خواہش کی اور ہم نے اسے اس کے بیٹے اسحاقی کے علاوہ ایک پوتا بھی بنام یعقوب بخش دیا۔ ووهبناله اسحق و یعقوب نافلة وكلا اجعلنا صالحين اس حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ عید سالک نافلہ کے وسیلے سے ہی میرے نزدیک ہوتا ہے ، حتی احبہ ، یہاں تک کہ وہ میرا محبوب ہو جاتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ نوافل ومستحمات کو بیہا لانے والے سب لوگ محبوب حق تعالے نہیں ہوتے بلکہ ان میں سے ایک چھوٹا ساگروہ ہی اس سیر نوافل کو جاری رکھتا ہے یہاں تک که محبوبیت خدا کے بلند مقام تک پہنچنا ہے۔ ان گھوڑے سے افراد کی خصوصیت یہ ہے کہ اولاً وہ نوافل کو محبت خدا میں بجالاتے ہیں نہ کہ جنت کے شوق میں یا جہنم کے خون سے، اپنی برائیوں کو محو کرنے کے لیے یا پھر فرائض میں نقص کی تلافی کے لئے ۔ جس طرح کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ نافلہ کی انجام دہی اور اسی طرح نماز کے بعد سجدہ شکر کی بجا آوری فریضہ نماز میں حضور قلب نہ ہونے کی تلافی کرتے ہیں۔ ثانیاً وادی محبت میں وہ اس سفر کو جاری رکھتے ہیں یہاں تک کہ وہ محب خدا سے محبوب خدا کی منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔ جی ہاں ! بہت سے سالکین محب خدا تو ہیں لیکن اس کے محبوب نہیں ہیں۔ سورہ آل عمران میں اللہ تعالٰے نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ لوگوں سے کہو کہ اگر آپ اللہ کے دوست ہیں تو جبیب خدا کی پیروی کریں یہاں تک کہ خود محبوب خدا بن جائیں: ان كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله حبیب خدا کے پیچھے چلنا مہر سالک کو جبیب خدا بنا دیتا ہے اور اس مرتے کا حصول مقام ولایت کا آغاز ہے کیونکہ ہر محب اپنے آثار محبوب کے ہاتھوں ظاہر کرتا ہے۔ اس لحاظ سے مذکورہ حدیث میں بعد ازاں فرمایا گیا ہے فاذا احبته كنت سمعه الذي يسمع به بصره الذي يبصر به ولسانه الذي ينطق به ويده التي يبطش بها ان دعاني اجبته وان سألني اعطيته » اگر وہ میرا محبوب اور میں اس کا محب ہو گیا تہیں کی تمام اور اک د تحرک کی قوتوں کی حرکت کو میں اپنے ذمہ لیتا ہوں۔ لہذا اگر وہ سمجھتا ہے تو میرے نور علم کے ذریعے سمجھتا ہے۔ اس لحاظ سے مسائل علمی میں نہ وہ پیچھے رہ جاتا ہے اور نہ سمجھنے میں غلطی کرتا ہے اور گردہ کام انجام دیتا ہے تو میری قدرت سے انجام دیتا ہے۔ لہذا اس کے کاموں میں حجز ہے نہ معصیت ایسے ہی مقام پر وہ اس خطاب سے مشرف ہوتا ہے : و مارمیت اورمیت ولكن الله رضی رجب تم نے کنکریاں ماریں تو وہ تم نے نہیں ماریں بلکہ وہ اللہ نے ماریں ۔ ( انقال - ) البتہ یہ مسئلہ فقط کنکریاں مارنے سے مختص نہیں ہے بلکہ اس کا ذکر ایک مصداق کے عنوان سے کیا گیا ہے وگرنہ اس منزلت کو حاصل کر لینے والوں کیلئے قانون کی یہ ہے : وما فعلت از فعلت ولكن الله فعل دما علمت ان علمت ولكن الله علم، یہ امور چونکه صنعت فعل خدا کی حدود میں آتے ہیں لہذا ان افعال کی اللہ تعالے سے نسبت دینے میں کوئی قباحت لازم نہیں آتی کیونکہ یہاں صفت ذات بیان نہیں کی جارہی مقام ذات سے نسبت تو دور کی بات ہے کہ جو عرفان نظری تک میں کسی قضیے کا موضوع نہیں۔ وہ کم ہمت سالکان کہ جو ہر اس دوزخ کی وادی یا شوق بہشت کے بیابان میں ٹھہرے ہوئے ہیں یا ان دو منزلوں سے گزر چکے ہیں لیکن محبت خدا اور محب حق ہونے کو اپنی منزل سمجھ لیا ہے محبوب خدا ہونے کے انتہائی بلند مقام تک نہیں پہنچے بہت بلند ہمت مسلسل کوشش اور طاقت فرسا مجاہدہ اس گراں قدر اللہی عطیہ کے حصول کیلئے ضروری ہے۔ اگر چہ ممکن ہے کہ عمر دولت آن است که بی خون دل آید به کناره که مصداقی کوئی بندہ بغیر خون دل کے مجذوب حق ہو جائے اور کوئی سالک بغیر خون جگر کے اس کا محبوب بن جائے۔ امیر المومنین علیہ السلام کا فرمان نہج البلا فر میں بھی اولیاء النبی کی سے خصوصیت واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ ان اور کی اور تحریکی قوتوں کو خداوند متعال خود ہی کنٹرول کرتا ہے علمی مسائل اور اورا کی قوتوں کے بارے میں آپ فرماتے ہیں : وانما سميت الشبهة شبهة لانها تشبه الحق فاما اولياء الله فضيا وهم فيها اليقين ودليلهم سمت الهدى و أما اعداء الله فدعا وهم فيها الحلال ودليلهم العلمي على یعنی شہر کو اس لیے شبہ کہا جاتا ہے کہ باطل حق کے مشابہ ہوتا ہے۔ اولیا الہی جب شبہات کا سامنا کرتے ہیں تو وہ اپنے نور یقین اور منیا نے حق کی بدولت حق نما اور حق کو پہچان لیتے ہیں، ان میں تمیز کر لیتے ہیں اور اس خطر ناک مقام سے سلامتی کے ساتھ نکل جاتے ہیں ، جب کہ دشمنان خدا چونکہ ہر نور سے بے بہرہ ہوتے ہیں، انہیں ان کے حال پر اس طرح سے چھوڑ رہے کہ ان کے کام میں بالکل مداخلت نہ کرے کیونکہ اس کی ربوبیت لامحدود اور نا قائل تقطیع ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ فقر موجود است ممکن کا مقوقم ذات سے ہے اور جو چیز ذاتا فقیر ہے اسے اس کے حال پر نہیں چھوڑا جاسکتا، کیونکہ اس صورت میں وہ سرے سے معدوم ہو جائے گا اور دیگر کاموں کو اس کے سپرد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسے تو اپنے امور میں قیم و سر پرست کی ضرورت ہے دوسرے کے کام کی تو بات ہی ہیں سے بالا تر ہے لہذا دوسری دلیل کی متوسط موجود است ممکن کا فقر ذاتی ہے ان وو دلیلوں کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ انبیاء، اولیاء اور فرشتوں کو تفویض کار معقول ہے اور یہ اعداد النبی کے لیے توکیل ممکن ہے۔ خود انہیں ان کے حوالے کیا جا سکتا ہے اور نہ شیاطین کے ۔ البته " اللهم لا تكلني إلى نفسی کا مطلب یہ ہے کہ خدایا پناہ لطف خاص، محمد سے سلب نہ کر تاکہ میں شیطان کے تحت تدبیر بن جاؤں چونکہ اللہ اللہ تعالے کی رحمت و ربوبیت دو طرح کی ہے، ایک تدبیر عمومی کہ جور بوبیت مطلقہ ہی ہے کہ جس کا ذکر ایسی آیتوں میں موجود ہے؟ الحمد لله رب العالمين فلله الحمدرب السموات ورب الأرض رب العالمين یہ ربوبیت مطلقہ اس قدر وسیع ہے کہ جو ہر ماسوا اللہ پر محیط ہے اس میں اولیائے الہی ، ملائکہ شیاطین، جنت اور جہنم وغیرہ سب شامل ہیں ۔ دوسری ربوبیت اس کی رحمت و تدبیر خاص ہے کہ جو صرف بعض اولیائے الہی کے شامل حال ہوتی ہے ۔ موسٹی کلیم اللہ سلام اللہ علیہ فرماتے ہیں : ان معنى ربي سيهدين (شعراء ) رسول اللہ فرماتے ہیں : ان الله معنا له دو طرح کی اس تدبیر اور ہدایت درحمت کے ثابت کرنے کے لئے کئی شواہد پیش کئے جاسکتے ہیں ان میں سے تمام چیزوں کے بارے میں اللہ تعالے کے بغیر ہونے کی آیات ہیں اور یہ آیات قرآن کی آیات محکمات میں سے ہیں، مثلاً - ه انه بكل شئ بصير اس کے باوجود بعض افراد کے بارے میں فرماتا ہے۔ لا ينظر اليهري اللہ تعالے ان کی طرف نہیں دیکھتا ) واضح ہے کہ کسی مورد میں بھی یہ بات عقل نہیں مانتی کہ کوئی چیز خدائے بصیر کی نظر میں نہ ہو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالے کی نظر دو طرح کی ہے، ایک عمومی نظر کہ جو ہر کسی اور ہر چیز کے بارے میں سیکساں ہے اور دوسری اس کی نگاہ لطف و کرم کہ جس سے فقط بندگان خاص مشرف ہوتے ہیں لہذا جس دعا میں ہے کہ " خدایا مجھے پلک جھپکنے کی مدت بھی خود مجھ پر نہ چھوڑنا اس سے مراد یہ ہے کہ اپنا لطعب خاص ہمیشہ میرے شامل حال رکھ اور اپنی رحمت خاص کو لحظہ بھر بھی مجھ سے منقطع نہ فرما۔ اسی لیے مذکورہ حملوں کے ساتھ یہ عبارت بھی ذکر ہوئی ہے: .... ولا تكلنا الى غيرك ولا تمنعنا من خيرك » راپنے غیر پر مجھے نہ چھوڑ اور اپنے خیر کو مجھ سے منقطع نہ فرما ) حاصل مطلب یه که نه بیضی و توکیل عقلاً محال ہے لہذا اگر اولیا ء الہی کے لئے تکوینی یا تشریعی ولایت ثابت ہو تو وہ تفویض کی صورت میں ہرگز نہیں ہے بلکہ جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے کہ ولایت فعل خدا کی صفات میں سے ہے اور صفات فعل کو چونکہ مظاہبر امکانی کی ضرورت ہوتی ہے لہذا یہ بندگان خاص اس ولی مطلق کی ولایت کے مظاہر ہیں۔ نیز اگر بعض افراد پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور انہیں بشارت دیتے ہیں اور ان کے ایمان کو مضبوط کرتے ہیں تو یہ تفویض کی صورت میں نہیں ہے مثلاً یہ آٹہ کریمیہ ملاحظہ ہو : ان الذين قالوا ربنا الله ثم استقاموا تتنزل عليهم الملائكة الاتخافوا ولا تحزنوا والبشروا بالجنة التي كنتم توعدون له ین لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر استقامت کی ان پر ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نہ خون کھاؤ اور نہ تزن کرو اور تمہیں اس جنت کی بشارت ہو جس کا وعدہ تم سے کیا گیا ہے۔ دیل نے ایک زبر دست قصیدہ حریم ولایت کی پاسداری میں کہا تو امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : نطق روح القدس على لسانك سے روح القدس نے تیری زبان سے کلام کیا ہے۔) ان میں سے کوئی بھی تفویض کی صورت میں نہیں ہے۔ اسی طرح بعض دیگر آیات قرآن اور روایات اہل بیت علیہم السلام اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اعداء النبی شیاطین کے زیر تدبیر آجاتے ہیں۔ خداوند عالم فرماتا ہے : انا ارسلنا الشياطين على الكافرين تؤز هم ادا ٢٠ دہم نے کافروں پر شیاطین کو نکلا ہے کہ جو انہیں بہکائے رکھتے ہیں۔) یا انا جعلنا الشياطين اولياء الذين لا يؤمنون ، دہم نے شیاطین کو ایمان نہ لانے والوں کے اولیا قرار دیا ) یا • هل أنبتكم على من تنزل الشياطين، تنزل على كل اقاك اليحر له دکیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیطان کن لوگوں پر نازل ہوتا ہے وہ ہر جھوٹے بد کردار پر نازل ہوتا ہے ) البتہ آخری آیت کے بارے میں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ شیاطین کے لیے اوج ویستی نہیں ہے۔ لہذا ان کے بارے میں لفظ تنزل کا استعمال اس تنزل کے معنی میں نہیں ہے جو فرشتوں کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن چونکہ ہر فاسد شخص اپنے ولی یعنی شیطان کے زیر تسلط ہوتا ہے اور سبر ولی کو اپنے موتی علیہ پر برتری حاصل ہوتی ہے پس گویا وہ اس پر مبندی سے نازل ہوا ہوتا ہے۔ بہر حال مذکورہ بالا آیات سے یہ حقیقت بخوبی واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے لا تعداد سپاہیوں میں سے شیاطین کا انتخاب کر کے انہیں اپنے دشمنوں پر مامور کرتا ہے جیسے سدھائے ہوئے کتے کو شکار پر بھیجا جاتا ہے اس حقیقت کا ذکر مولا نے متقین امیر المومنین علیہ السلام نے بھی کیا ہے ۔ آپؐ فرماتے ہیں: واتخذوا الشيطان لامرهم ملاگا واتخذهم له اشر اكا نباض و فرخ في صدورهمرورت و درج في حجود هم فنظر با عينهم ونطق بالنتهوية یعنی انسان انتہائی پست ہوتے ہوئے اس مقام تک آپہنچتا ہے کہ شیطان س کے اندر آشیانہ بنالیتا ہے اور پھر انڈے دیتا ہے اور اپنے بچوں کو اس کے اندر ہی پروان چڑھاتا ہے یہاں تک کہ اس کی زبان سے بولتا ہے اور اس کی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ ببین تفاوت ره از کجا است تا به کیا دو یکھیں کہ دو گروہوں کے مابین فرق کس قدر ہے؟ بعض افراد اس قدر اورج حاصل کر لیتے ہیں کہ وہ اللہ تعالے کی محبوبیت کی بلند چوٹی تک جا پہنچتے ہیں۔ خدا ان کی زبان سے کلام کرتا ہے اور ان کی آنکھوں سے دیکھتا ہے جبکہ بعض اور اس طرح کفر، فسق اور گناہ کے گڑھے میں جا گرتے ہیں کہ شیطان ان کی زبان، آنکھ اور کان کو مسخر کر لیتا ہے اور ان کے قوائے اور اک دو تحریک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ میں : اسی وجہ سے سرور اولیاء راہ ولایت کے سالکوں کو خبردار کرتے ہوئے فرماتے ه وحذركم عدوا نفذ في الصد ويخفيا ونفث في الأذان نجياء یعنی خداوند تعالے نے تمہیں ایک ایسے دشمن سے ڈرایا ہے جن کی راہ نفوذ بہت ظریعت ہے۔ اس نے تمہاری جانوں میں نفوذ کیا ہے اور تمہاری فکر کی باگڑھ اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے اور تم سے کا نا پھوسی کرتا ہے۔ اس کے بعد اصول کلی کو بعض مصادیق پر آپ تطبیق کرتے ہیں نیز اس شخص کا جواب دیتے ہیں جس نے آپ پر اعتراض کیا کہ تمام پر آپ کے موعظہ کا اس طرح اثر ہوا کہ وہ غش کھا کر گرا اور مرگیا جبکہ خود آپ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا ۔ آپ نے فرمایا: . ويحك ان لكل جل وقتاً لا يعدوه، وسبباً لا يتجاوز فمهلا لا تعد لمثلها فانما نفث الشيطان على لسانك لله یعنی ہر موت کا ایک خاص سبب ہوتا ہے۔ یہ اس امر کے لئے کنایہ ہے کہ یہ کلام سیلاب کے ایک ریلے کی مانند ہے ممکن ہے عام گھروں کو وہ اکھاڑ پھینکے اور بہائے جائے لیکن مجھ جیسے استوار اور با صلابت پہاڑ کے سامنے سیلا کے اس ریلے کو مجال جسارت نہیں ۔ پھر فرمایا کہ ہر بات کو یوں گستاخانہ اور عاجلانہ زبان پر نہ لاڈ کیونکہ یہ شیطان ہے جس نے تمہاری زبان سے گفتگو کی ہے۔ اس نے تمہارے اندر پھونکا اور تم اس کی پھونک کے نتیجے میں گویا ہوئے۔ برہان بھی اس بات کی تائید کرتی ہے۔ اس لیے کہ (الف): انسان کے ذہن میں جو خیالات پیدا ہوتے ہیں وہ وجودی امور میں سے ہیں۔ (ب) ، امر وجودی اتفاقا اور حادثاتی طور پر پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے۔ ج : انسان ان خیالات و افکار کے لیے سبب قابی ہے نہ کہ سبب فاعلی، کیونکہ ابتدا میں وہ یہ افکار و خیالات نہ رکھتا تھا، یہ بعد میں پیدا ہوئے۔ 2 : جب کوئی فعل فاعل کے بغیر ممکن نہیں تو یقینا کوئی عامل ہے جس نے یہ فکر اس کے ذہن میں ڈالی ہے۔ ان مقدمات کی بنیاد پر یہ بات روشن ہو جاتی ہے که اگر فکر خیر ہو تو اس کا سبب فرشتہ ہے۔ " تتنزل عليهم الملائكة، ولحم السجده - ٣٠) دان پر ملائکہ نازل ہوتے ہیں) اور اگر فکر ہد ہو اور اس کے ساتھ دعوت گناہ بھی ہو تو یقیناً اسے شیطان لاتا ہے کہ تنزل على كل افاك انیمه (شعراء - ۲۲۲) (شیطان) ہر چھوٹے بد کردار پر نازل ہوتا ہے۔] اس بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ مقام ولایت کے حصول کا واحد ذریعہ احکام الہی کی اطاعت ہے، جس کے ذریعے انسان خدا کے قریب ہوتا ہے۔ اگر قربت کے ان مراحل سے گزر جائے اور محبوب حق تعالے ہو جائے تو خدا وند تعالے اس کی اوراک و تحریک کی قوتوں کو اپنے ذمہ لے لیتا ہے۔ محبوبان النبی قرآن کریم میں مشخص و معین کیے گئے ہیں : ان الله يحب التوابين ويحب المتطهرين» له بیشک خدا تو یہ کرنے والوں اور پاکیزہ رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔) ان الله يحب المقسطين يمه دخدا عدل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے؟ ان الله يحب الذين يقاتلون في سبيله صفا كانهم بنیان مرصوص له د بیشک اللہ تعالے ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر لڑتے ہیں۔ یہ سب خدا کے محبوب ہیں ۔ منطقی قیاس کے صغرنی کو قرآن مجید نے بیان فرمایا جبکہ کبرٹی کو حدیث قدسی نے واضح کیا کہ جو بھی محبوب خدا ہو خدا اس کی اور اک د تحریک کی قوتوں کو اپنے ذمہ لے لیتا ہے گویا ایک اصول کلی کے عنوان انھیں فرماتا ہے: و ما فعلت اذ فعلت والكن الله فعل» د اور جو کچھ تم نے انجام دیا درحقیقت تم نے انجام نہیں دیا بلکہ خدا نے انجام دیا ہے۔ یہ چیز صرف تیراندازی یا کنکریاں پھینکنے یا اسی طرح کے دوسرے کاموں سے مختص نہیں اور یہ ولایت الہی تفویض کے لحاظ سے بھی نہیں ہے جس طرح کہ خدا کی دشمنی بھی باعث توکیل نہیں ہوتی ۔ والحمد لله رب العالمين