Dars 9
ولایت در قرآن • آیة الله جوادی آملی
گذشتہ گفتگو میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ معرفت اور عمل صالح میں اخلاص حصول ولایت کے لیے اصلی رکن ہیں ان کی حیثیت فریضے کی سی ہے اور دیگر تمام اخلاقی امور نافلہ کی حیثیت رکھتے ہیں معرفت عقل نظری کے کمالات میں سے ہے اور اخلاص عقل عملی کے کمالات میں سے ہے معرفت کے بارے میں کچھ گفتگو ہو چکی ہے اب ہم اخلاص کے بارے میں قرآن کریم کی کچھ آیات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اخلاص کے بارے میں آیات اللہ تعالے سورہ زمر میں فرماتا ہے: انا انزلنا اليك الكتاب بالحق فاعبد الله مخلصا له الدين دہم نے تیری طرف حق کے ساتھ کتاب نازل کی لپس اس کے دین کا مخلص ہو کر اس کی عبادت کری) (زمر ۲۰) بالحق میں اگر بار ملابسہ ہو تو آپٹا کر یہ کا معنی یہ ہے کہ یہ کتاب لباس حق میں نازل ہوئی ہے اور اگر باد مصاحبہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب حق تعالے کی صحبت و سمبرا ہی میں نازل ہوئی ہے بہر حال یہ کتاب یا لباس حقیقت میں ہے یا ہمراہ حقیقت کیسی صورت میں بھی حق سے جدا نہیں ہے اس لحاظ سے « فاعبد الله مخلصلہ الدین کا مطلب یہ ہے کہ نہ فقط عبادات میں بلکہ پورے دن میں اخلاص کو ملحوظ رکھ اور اخلاص سے مراد یہ ہے کہ غیر خدا کی خواہش اور ہوا و ہوس عمل میں رشتہ انداز نہ ہو۔ بعد کی آیت میں فرمایا گیا ہے : " ألا يله الدين الخالص د خبر دار ہو کہ دین خالص اللہ ہی کے لیے ہے)۔ دین کو خالص سے توصیف کرنا اس امر کی علامت ہے کہ پورے دین میں نشاء انہی کے سوا کسی چیز کی گنجائش نہیں اور دین وہ ہے جو خالص ہو ۔ واصب و خالص میں فرق : رآن کریم جب کمیت دین کے بارے میں بات کرتا ہے تو فرماتا ہے : وله الدين واصبا (نحل :) یعنی تمام تروین خدا کے اختیار میں ہے. تمام تر قوانین اسی کو بنانا ہمیں چاہیے واجبات ہوں ، مستحبات ہوں ، عبادات ہوں یا معاملات وغیرہ جب احکام دین کی کیفیت کا ذکر کیا تو فرمایا : الا الله الدین الخالص اللہ تعالے صرف دین خالص کو قبول کرتا ہے تنہا تمام قوانین و احکام کو خلوص کے ساتھ انجام پانا چاہیئے۔ اسی سورۃ مبارکہ میں رسول کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا گیا ہے : قل اني امرت ان اعبد الله مخلصاله الدین » ر کہیے کہ میں مامور ہوں کہ اللہ کی عبادت خلوص کے ساتھ انجام دوں۔ (زمر (1) وامرت لأن اكون اول المسلمين د اور میں مامور ہوں کہ اولین مسلمان ہوں۔ (زمر - ۱۲) البتہ یہ مقام رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مخصوص ہے۔ اولین مسلمان رسول اکرم قرآن کریم میں دو مقام پر رسول اکرم کی صفت " اول المسلمین، بیان کی گئی ہے۔ واضح ہے کہ اس اول سے مراد اول نسبی یا اول زمانی وغیرہ نہیں کیونکہ ہر نبی کا اپنی امت کی نسبت ایمان اول زمانی تو ہوتا ہی ہے جب کہ کسی بھی نبی یہاں تک کہ آدم سلام اللہ علیہ کے بارے میں بھی یہ وصف بیان نہیں ہوا البتہ موسیٰ کلیم اللہ کے ہاسے میں کہ انہوں کہا میں ولا مومنین ہیں لیکن یہ تعبیر مورد بحث تعبیر سے مختلف ہے رسول اکرم کو اس صفت سے متصف کرنے کا راز یہ ہے کہ وہ دین خدا کہ جسے سب انبیاء لے کر آئے ہیں اور جس پر وہ ایمان رکھتے تھے اسلام ہی ہے اور سب مسلمانانِ عالم انبیاء ہوں یا امتیں ہیں سے حضرت رسول اکرم - اول المسلمین، ہمیں اور یہ اولیت مطلق رہتے ہی کی اولیت اور تقدم کی علامت ہے کیونکہ جو انسان ظاہر اول یا صادر اول ہو۔ عرفاء اور حکماء کے نقطۂ نظر میں اختلافت کی بناء پر۔ اور جو اخذیشان اور اطاعت مطلق کے موقع پر دوسروں سے پہلے مطبع ہوا ہو وہ کہہ سکتا ہے " انا اول المسلمین، جیسا کہ سورۂ مبارکہ اعراف کی آیت ۲۹ میں فرمایا گیا ہے: قل امررتي بالقسط واقيموا وجوهكم عند كل مسجد و ادعوه مخلصين له الدين كما بدأكم تعودون د کہدے میرے پروردگار نے انصاف کا حکم دیا ہے اور ہر سجدے کے وقت اپنے آپ کو داسی کی طرف متوجہ کر لو اور دین کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے اسے اپکا رو جس طرح اس نے تمہیں پیدا کیا ویسے ہی تم لوٹ کر جاؤ گے) اپنی دعا اور دعوت میں مخلص ہوں اور غیر خدا کا آپ کے عقیدے میں داخل ہو اور نہ خلق دوعمل میں البتہ اس سلسلے میں فراواں آیات ہیں جن کے بارے میں تحقیق ہم کسی اور موقع پر اٹھا رکھتے ہیں اب ہم تبر کا چند روایات کا ذکر کرتے ہیں کہ چین میں سے کچھ معرفت کے بارے میں اور کچھ اخلاص کے بارے میں ہیں۔ کلام معصومین میں معرفت : اصول کافی کی کتاب ایمان و کفر، میں ایک باب ہے جس کا نام ہے باپ حقیقت ایمان ویقین کہ جو اولین فریضے اور اصول کے بارے میں ہے اس باب کی پہلی روایت یہ ہے: ایک سفر کے دوران میں چند سوار رسول اللہ کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور عرض کی : السلام عليك يا رسول الله آپ نے فرمایا : «ما انتحر تم لوگ کون ہو ؟ کہنے لگے : «نحن مؤمنون یا رسول الله . اسے اللہ کے رسول ہم مومنین ہیں ۔ آپ نے سوال فرمایا : تم ایمان کے کیس درجے میں ہو ؟ تو انہوں نے عرض کی ہم مومن ہیں ، البتہ ان کا ایمان اصولاً واضح تھا کیونکہ انہوں نے آپ کو یا رسول اللہ کہہ کر خطاب کیا تھا۔ لہذا رسول اکرم نے ان کے درجہ کمال کے بارے میں دریافت فرمایا : فما حقيقة ايمانكم» تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے ؟ وہ کہنے لگے : الرضا بقضاء الله والتفويض إلى الله والتسليم لأمر الله قضائے الہی پر رامنی ہوتا امور کو اللہ کے سپرد کرنا اور امرانی کے سامنے سرتسلیم ثم کرنا ۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : " علماء حكماء كادوا ان يكونوا من الحكمة انبياء ان كنتم صادقين فلا تبنوا ما لا تسكنون ولا تجمعوا ما لا تأكلون واتقوا الله الذي اليه ترجعون " اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تم سے کہتے ہو تو پھر تم ایسے علماء و حکماء ہوکہ فرط حکمت کے باعث سرحہ نبوت کے قریب ہو گئے ہو کیونکہ انبیاء رضا تسلیم کے مقام کامل پر فائز ہوتے میں اگر تم نے اس مقام کی طرف سبیل پالی تو زہد، قناعت اور پرہیزگاری جیسے اعمال صالحہ کے ذریعے اس کی حفاظت کرو۔ ممکن ہے بعضی اوقات کسی خاص حالت میں انسان کو اپنے اندر انقطاع ہے کی کیفیت کا ہلکا سا احساس ہو مثلاً کسی جنازہ کو دیکھ کر یا قبور مومنین کی زیارت کے موقع پر یا ایک شہید کی شہادت کے بعد کے مناظر کو دیکھ کر کوئی خاص ایسی کیفیت پیدا ہو جائے تو اس کیفیت کی حفاظت بہت مشکل ہوتی ہے دوسرے الفاظ میں اخلاقی کمالات کی ایسی حالت کو پیدا کرنا تو آسان ہے لیکن ریاضت اور مجاہدہ کے بغیر اس حالت کو مکہ میں تبدیل کرنا میسر نہیں لہذا کبھی یہ انداز اثبات " اهدنا الصراط المستقیم، کہر کر اور کبھی یہ کیفیت سلب، ربنا لا تزغ قلوبنا بعد إذ هديتناه کہہ کر ہمیشہ اس کے بقاء کا تقاضا کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر تم سچی کہتے ہو تو اپنی احتیاج سے زیادہ تعمیرات میں نہ پڑتا اور اپنے تو شہ سے زیادہ ذخیرہ اندوزی بند کرنا اور اس خدا سے ڈرنا کر جس کی طرف تمہیں لوٹ جانا ہے ، روایت میں مسکن کا ذکر کچھ اس طرح سے آیا ہے کہ دیگر اولہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی اپنی حاجت سے زیادہ منزل پہ منزل بناتا چلا جائے تو ایک فرشتہ اسے کہتا ہے : این ترید یا فاسق ہے داے فاسق کہاں کا ارادہ ہے ؟) خوف عقلی اور خوف نفسی : مندرجہ بالا حدیث کا آخری جملہ یہ ہے " واتقوا الله الذی الیه ترجعون اور اس خدا سے ڈریں جس کی طرف تمہیں لوٹ جانا ہے ، کبھی بات کو اس انداز میں بیان کیا جاتا ہے کہ فاتقوا النار التي وقودها الناس والحجارة، (پس اس آگ سے ڈرو کہ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں) اور کبھی یوں فرمایا جاتا ہے۔ واتقوا الله الذى اليه ترجعون . یہاں تقویٰ سے مراد خوب عقلی ہے نہ کہ خوب نفسی ۔ اگر چہ جہنم کا خوف بھی ایک کمال ہے لیکن یہ خون خوب نفسانی ہے جیکہ للہ تعالیٰ سے خوف ایک برتر کمال اور عقلی خوف ہے مثلاً مقام عصمت سے آگاہ ایک انسان جب کیسی معصوم سلام اللہ علیہ کے حرم میں داخل ہوتا ہے تو نہایت احترام دادب سے داخل ہوتا ہے اور معصوم سلام اللہ علیہ کی عظمت و جلال سے مرعوب ہوتا ہے اور اپنے آپ میں احساس حقارت کرتا ہے۔ یہ خوب عقلی ہے البتہ جب وہ آگ یا ان جیسی چیزوں سے ڈرتے ہوئے ان سے دور ہوتا ہے تو یہ خوف ایک نفسانی خون ہے قرآن کریم میں مذکور تمام خوف ایک جیسے نہیں میں کہیں جہنم کے ڈر کا ذکر ہے اور کہیں مقام الہی کے خوف کا، مثلاً کہیں فرمایا گیا ہے۔ واتقوا النار ، اور کہیں ارشاد ہوتا ہے و لمن خاف مقام ربه جنتان درجن - وی مختصر یہ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان قافلے والوں کو مذکورہ حکم دیا ۔ رہا یہ سوال کہ وہ قافلے والے تھے کون ؟ کیا واقعا خارج میں کوئی قافلہ تھا یا مراد سالکان الی اللہ ہیں؟ کوئی صورت بھی ہو مقصود میں فرق نہیں پڑتا دوسری روایت اسحاق بن عمار سے منقول ہے کہتے ہیں میں نے امام جعفر صادق سلام اللہ علیہ سے سنا آپ نے رسول اکرم کے بارے میں فرمایا : " صلى بالناس الصبح فنظر إلى شاب في المسجد وهو يخفق ويهوى برأسه مصفرا لونه قد نحت جسمه وغارت عيناه في رأسه " ایک روز رسول اللہ نے صبح کی نماز با جماعت کے بعد مسجد میں دیکھا کہ ایک جوان کی حالت ایسے ہے جیسے وہ رات بھر نہ سویا ہو اس کا جسم نحیف ہو چکا تھا اور رخسار زرد پڑ چکے تھے اس کی آنکھیں اندر دھنس چکی تھیں۔ فقال له رسول الله (ص) کیت اصبحت یا فلان رسول اللہ نے اس کا حال پوچھتے ہوئے کہا کہ تم نے کیسے صبح کی ؟ " قال اصبحت يا رسول الله موقنا » کہنے لگا یا رسول اللہ میں نے حالت یقین میں صبح کی ۔ یہ کوئی عام قسم کے سوالات اور احوال پرسی نہ تھی بلکہ یہ اس طرح کے سوالات تھے جیسے استاد اپنے شاگردوں سے کرتا ہے اس کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیے ۔ کلینی مرحوم نے روضتہ الکافی ، میں نقل فرمایا ہے کہ رسول اللہ کبھی کبھی اپنے صحابہ سے پوچھا کرتے تھے کل رات تم نے خواب میں کیا دیکھا ؟ اس لیے کہ رویا و صالحہ نبوت کا ایک جبر ہیں اور ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہیں لہذا آپ ایک آگاہ مربی کی طرح اپنے شاگردوں سے یہ سوال کرتے اور اس طرح سے انہیں پاکیزگی روح اور تہذیب نفس کی ہدایت کرتے تاکہ وہ رویاء صالحہ بھی دیکھیں ۔ بہر حال آپ نے اس جوان سے پوچھا کہ تم نے کیسے صبح کی اس نے عرض کی کہ میں مقام یقین تک پہنچ گیا ہوں ۔ فعجب رسول الله من قوله " رسول اللہ کو اس جوان کے جواب پر تعجب ہوا ۔ یہاں اس امر کی طرف توجہ کیجئے کہ جنہوں نے کہا تھا کہ ہم مقام ایمان تک پہنچ گئے ہیں تعجب نہیں فرمایا جب کہ اس شخص کے جواب پر تعجیب فرمایا کہ میں نے کہا کہ میں مقام یقین تک پہنچ گیا ہوں اس پر آپ نے اس سے کہا : ان لكلّ يقين حقيقتًا فما حقيقة يقينك ، یعنی ہر چیز کی ایک حد و حقیقت ہے یقین بھی ایسا ہی ہے تمہارے یقین کی حقیقت کیا ہے ؟ فقال ان یقینی یارسول الله هوازی امری را سهر ليلي و الها هوا جونی یعنی میرے یقین کا عالم یہ ہے یا رسول اللہ کہ وہ مجھے ہمیشہ غمگین رکھتا ہے چونکہ جیسے میں چاہتا ہوں وہ میری دسترس میں نہیں اور جو میری دسترس میں ہے وہ میرا مطلوب نہیں میں اس پر غمزدہ ہوں لہذا راتوں کو مجھے نیند نہیں آتی اور گرم دن میرے تشنگی میں گزرتے ہیں۔ یہ اس امر کے لیے گنا یہ ہے کہ دن کو روزہ رکھتا ہوں اور میری رات عبادت میں لبر ہوتی ہے۔ وہ مزید کہتا ہے: فعرفت نفسى عن الدنيا وما فيها ، در معروف و در غروب کے معنی میں ہے یعنی میں نے دنیا کو طلاق دے دی ہے میرا نفس دنیا سے بیزار ہے خلق خدا سے بیزار نہیں اور نہ ہی رضائے الہی اور لوگوں کی خدمت کے کاموں سے دنیا سے کنارہ کشی پسندیدہ ہے۔ لیکن مخلوق سے دوری اور رضائے الہی کے لیے خدمت خلق سے چشم پوشی نا پسندیدہ اور مذموم ہے ۔ اس جوان نے مزید عرض کیا : حثی کافی انظر الى عرش رتی » دیہاں تک کہ ایسا ہے گویا میں اپنے رب کا عرش دیکھ رہا ہوں) رسول اللہ کے حضور یہ ایک ادعا تھا۔ اللہ کا وہ مقام فرمانروائی کہ جہاں سے تمام احکامات صادر ہوتے ہیں، اسے عرش کہتے ہیں۔ اس جوان کا دل چونکہ عرش الہی تھا ۔ قلب المومن عرش الرحمن ، گویا وہ اس کا نظارہ کر رہا تھا۔ وہ جوان مزید کہتا ہے : " وقد نصب للحساب وحشر الخلائق لذلك » ایسا ہے جیسے میزان حساب نصب کر دیا گیا ہو اور مخلوقات کو اس کے لیے حاضر کر دیا گیا ہو۔ ) یعنی وہی عرش قیامت میں تخت فرمانروائی اور مقام عدل کی صورت میں ظہور کرے گا وہ کہتا ہے کہ گویا سب لوگوں کو حشر کے لیے زندہ کر دیا گیا ہو۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ : " ان الاولين والأخرين لمجموعون إلى ميقات يوم المعلوم ، اولین اور آخرین ایک یوم معلوم کے مقرر وقت پر جمع ہیں۔ (واقعہ 9۔ ) وانا فيهم اور میں ان میں ہوں ۔ " وكاني انظر الى اهل الجنة يتنعمون في الجنة و يتعارفون وعلى الارائك متكتون اور گویا میں اہل جنت کو نعمات جنت سے بہرہ مند ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ۔ وہ تکیے لگائے بیٹھے ہیں اور اللہ کی خاص نعمت انہیں حاصل ہیں اور وہ ایک دوسرے کو پہچانتے بھی ہیں۔ وكاني انظر الى اهل النار وهم فيها معذبون مصطرخون» گویا میں اہل نار کو بھی دیکھ رہا ہوں کہ انہیں آتش جہنم میں عذاب دیا جارہا ہے اور وہ واویلا کر رہے ہیں۔ وكاتى الأن اسمع - فير النار يدور في مسامعي » گویا میں اس وقت آگ کے جوش و خروش کوسن رہا ہوں اور اس کا شور میرے کانوں میں گونج رہا ہے؟ " فقال رسول الله لاصحابه هذا عيد نور الله قلبه بالایمان» اس پر رسول اللہ نے فرمایا ، یہ وہ بندہ ہے کہ جس کے دل کو اللہ نے نور ایمان سے روشن کر دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نورانی ہونے کا مرحلہ عبودیت سے ہی شروع ہوتا ہے ہیں وجہ ہے کہ آپ نے جملے میں پہلے عہد کا ذکر کیا ہے پھر آپ نے اس جوان سے کہا : الزم ما انت عليه یعنی اسی راہ پر ثابت قدم رہنا کیونکہ اس مقام کی حفاظت اس کے حصول سے وشوار تر ہے یہی وجہ ہے کہ ایک دعا میں آیا ہے۔ ولا تنزع عنى صالح ما اعطيتني » اور مجھ سے وہ خوبی واپس نہ لے جو تو نے مجھے عطا کی ہے اس پر وہ جوان کہنے لگا : ادع الله لى يا رسول الله ان الرزق الشهادة معك" یا رسول اللہ اللہ سے دعا کیجئے کہ مجھے آپ کی رکاب میں شہادت نصیب ہو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حفظہ اسلام اور حکومت اسلامی کے استحکام کے لیے جنگ کرنا امور دنیا میں سے نہیں کیونکہ وہ جوان دنیا کو چھوڑ چکا تھا اور اس سے بالکل بیزار تھا کیونکہ یہ وہی شخص ہے کہ جس کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا " هذا عبد نور الله قلبه بالایمان اس کا یہ عرض کرنا کہ میرے لیے دعا کریں کہ میں آپ کے رکاب میں شہید ہوں بظاہر کرتا ہے کہ ترک دنیا ایک اور چیز ہے اور استحکام حکومت اسلامی کے لیے قتال کا ترک کرنا اور چیز ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت امیر علیہ السلام جنگ جمل میں کامیابی کے بعد جب بصرہ کے بیت المال میں داخل ہوئے تو فرمایا کہ میں دنیا کو طلاق ہے چکا ہوں جب کہ آپ کی تلوار سے خون کے قطرے ٹپک رہے تھے لہذا دنیا کو طلاق دینے کا معنی یہ نہیں کہ انسان گوشہ نشین ہو جائے۔ اس وقت بھی کہ جب خلافت الہی کا حق مسلم آپ سے چھپن چکا تھا اور کھیتی باڑی کیا کرتے تھے فرمایا کرتے تھے کہ میں دنیا کو طلاق ہے چکا ہوں اور جب ملک کی باگ ڈور آپ کے ہاتھ میں تھی یہی بات دہرایا کرتے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ترک دنیا سے مراد دنیا سے دلبستگی سے پر ہیز ہے۔ اس جوان کی اس دعا کی خواہش کے جواب میں رسول اللہ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔ اس کے بعد وہ شخص آپ کے ہمراہ ایک غزوہ میں شریک ہوا تو اس میں نو افراد کی شہادت کے بعد دسواں شہید یہی جوان تھا ۔ تیسری روایت عبداللہ بن مسکان سے ہے وہ ابی بصیر سے اور وہ امام جعفر صادق سلام اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ، استقبل رسول الله حارثة بن مالك بن النعمان الانصاري فقال له كيف انت يا حارثة بن مالك " رسول اللہ نے خود حارثہ بن مالک کی طرف رخ کیا اور فرمایا تم کس حال میں ہو؟ وہ کہنے لگے : یا رسول الله مؤ من حقاء عام لوگوں کے پاس پہنچتے تو اس طرح سے سوال نہ فرمایا کرتے لیکن جب شاگردان خاص کے پاس جایا کرتے تو پوچھتے تم کس حد تک پہنچے ہو؟ تم نے جو سفر شروع کیا تھا تو اب کہاں ہو ؟ حارثہ سے بھی یونہی دریافت فرمایا۔ انہوں نے عرض کی مؤمن حقا ، تو رسول اللہ نے مزید پوچھا: لكل شي حقيقة فما حقيقة قولك " یعنی ہر چیز کی کوئی بنیاد اور حد ہوتی ہے تمہاری حقیقت ایمان کی علامت وہ کہنے ۔ " يا رسول الله : عرفت نفسى عن الدنيا " یا رسول اللہ میرا نفس دنیا سے دوری اختیار کر چکا ہے، فاسهرت ليلى واظمات هواجرى » میں راتوں کو جاگتا ہوں اور دن پیاسا بسر کرتا ہوں ، " وكاني انظر الى عرش الرحمن وقد وضع للحساب، یعنی گویا میں رحمن کا تخت فرمانروائی کہ جو وسیع حساب کے لیے قیاست میں ظاہر ہو گا اسے دیکھ رہا ہوں اور وہ گویا تا ہے کے لیے بچھ چکا ہے اور لوگ حاضر کیسے جاچکے ہیں۔ "وكاني انظر الى اهل الجنة يتزاورون في الجنة گویا میں اہلِ جنت کو دیکھ رہا ہوں کہ جو ہشت میں ایک دوسرے کی زیارت کر رہے ہیں۔ " وكاني اسمع عواء اهل النار في النار » اور گویا میں جہنم میں سگان جہنم کا شور سن رہا ہوں ۔ البتہ وہ لوگ جو اس مرحلے سے آگے بڑھ چکے ہیں ، ان کے لئے پھر کان نہیں بلکہ ان ہے یعنی وہ بھی سنتے ہیں اور ابھی ہی دیکھتے ہیں، جیسا کہ مہدار کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام سے اس طرح سے منقول ہے کہ فرمایا : " ماكنت اعيد بالمازه میں ایسے رب کی عبادت و پرستش نہیں کرتا کہ جسے میں دیکھتا نہ ہوں۔ اور معاد کے بارے میں آپ نے یوں فرمایا : لوكشف الغطاء ما ازددت يقينا . اگر پردے ہٹ جائیں تو بھی میرے یقین میں کچھ اضافہ نہ ہو ۔ کیونکہ بہشت و جنینم ابھی موجود ہیں اور بعض لوگ ابھی سے ان میں مستقر ہیں رسوا ندا نے فرمایا " عبد نورالله قلب دیہ ایسا بندہ ہے کہ خدا نے جس کے دل کو نورانی کر دیا ہے)۔ اس راہ کے کلی قوانین و خطر را کو حضرت امیر علیہ السلام نے خطبہ تمام میں بیان فرمایا ہے کہ :"هم والجنة كمن قدرا ها.... وهم والتاركمن قدراها دگویا وہ جنت کو دیکھ رہے ہیں ... اور گویا وہ آتش جہنم کو دیکھ رہے ہیں۔ روایات میں ان کے مصادیق کو مشخص کیا گیا ہے جیسا کہ حضرت نے فرمایا ، معبد نور الله قلبه ، معلوم ہوتا ہے کہ مقام ولایت تک پہنچنا را و عبودیت سے ہی ممکن ہے اور وہ بھی معرفت و اخلاص کے ساتھ ۔ ابصرت فاثبت ، تم بصیر بینا ہو گئے ہو لہذا ثابت قدم رہنا اور اس حال کو محفوظ رکھتا۔ انہوں نے یہ جو کہا وادع الله لى ان يرزقني الشهادة معك ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حالت میں انسان جو چیزیں دیکھتا ہے ان میں سے ایک شہادت کی کا میابی ہے اس پررسول اللہ نے فرمایا : اللهواء زق حارثة الشهادة » خدایا حارثہ کو رزق شہادت عطا فرما ۔ اس کے بعد ابھی چند ہی دن گزرے تھے رسول اللہ کسی سریہ پر تشریف لے گئے۔ حارثہ بھی اس میں موجود تھے انہوں نے اس میں جنگ کی بو یا آٹھ افراد کو قتل کیا اور پھر خود شہید ہو گئے۔ اس روایت کا گذشتہ روایت سے فرق یہ ہے کہ وہاں غزوہ کا ذکر تھا اور یہاں سریہ کا لہذا وہ جوان حارثہ بن مالک سے مختلف تھا مگر یہ کہ غزوہ سریہ سے ائم ہو اور اس جوان سے مراد حارثہ بن مالک ہی ہوں ۔ اخلاص اقوال معصومین میں بہر حال اس طرح کی روایات سے پتا چلتا ہے کہ یقین ہی انسان کو اُس بلند مقام تک پہنچاتا ہے۔ اخلاص کے بارے میں دیگر روایات کو بھی کلینی مرحوم نے باپ اخلاص میں ذکر کیا ہے کہ جو فریضے اور اصل دوم پر دلالت کرتی ہیں ۔ اس باب کی پہلی روایت میں حنیفا مسلما کو خالصا مخلصا ليس فيه شئ من عبادة الاوثان سے تفسیر کیا گیا ہے۔ روایت دوم میں یہ ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : " يا ايها الناس انما هو الله والشيطان، والحق والباطل، والهدى والضلالة، والرشد والغى، والعاجلة والأجله والعاقبة و الحسنات والسيئات، فما كان من حسنات فالله وما كان من سينات فللشيطان لعنه الله اے لوگو ! بیشک اللہ اور شیطان، حق اور باطل ، ہدایت اور گری عروج اور تنزل، دنیا اور آخرت ، نیکی اور بدی سب موجود ہیں پس جو اچھائی ہے وہ خدا کی طرف سے ہے اور جو برائی ہے وہ شیطان لعنتہ اللہ علیہ کی طرف سے ہے ۔ تیسری روایت امام رضا سلام اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ ان امیر المومنین صلوات الله علیه كان يقول (امیرالمومنین صلوات للہ علیہ فرمایا کرتے تھے "کان یقول کی تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یہ بات بار بار تکرار کیا کرتے تھے کہ طوبى لمن اخلص الله العبادة والدعاء ولم يشغل قلبه بما ترى عيناه ولم ينس ذكر الله بما تسمع اذناه ولم يحزن صدره بما اعطى غيره " یعنی درخت طوبی (پاکیزه) یا با سعادت زندگی اس شخص کے لیئے مختص ہے کہ جو عبادت دوعا کو مخلصانہ بجالائے اور جو کچھ وہ آنکھ سے دیکھتا ہے اس کا دل اسی میں مشغول نہ ہو جائے اور جو کچھ کانوں سے سنتا ہے وہ اسے یاد خدا سے باز نہ رکھے اور جو کچھ دوسروں کے پاس ہے اور اس کے پاس نہیں ہے وہ اسے غمزدہ نہ کر رہے۔ کیونکہ مال و دولت اور عیش و عشرت کے دوسرے امکانات باعث عزت د تحریم نہیں بلکہ وسیلہ امتحان میں اور اگرکسی کی یہ حالت ہو کہ عالیہ طبیعت نے اس کا دل اپنی طرف نہ لگا لیا ہو اور اسے یاد خدا سے روک نہ لیا ہو تو وہ اخلاص سے بہت فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ والحمد لله رب العالمين.