Dars 4
ولایت در قرآن • آیة الله جوادی آملی
ہمارا موضوع سخن قرآن کریم میں ولایت انسان ہے۔ درس ما قبل کہ جو ماہیت ولایت کے بارے میں ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ولاد کا معنی ہے قرب و نزدیکی اگر و و امر ایک دوسرے کے یوں نزدیک ہوں کہ ان کے مابین کوئی چیز فاصل نہ ہو تو کہتے ہیں کہ یہ باہم متوالی ہیں انسانوں کی آپس میں ولایت سے مرادان کی ایک دوسرے سے روحانی قربت ہے چاہے وہ خوب ہوں یا بد ، مومنین باہم دیگر اولیاء میں اسی طرح منافقین بھی ایک دوسرے کے اولیاء ہیں۔ اگر معیار قربت النبی ہو تو یہ ولایت باطنا بھی ولایت ہو گی لیکن اگر معیار غیر الہی کی قربت ہو تو ظاہراً یہ ولایت قرب و محبت ہوگی اور باطنا عداوت و دشمنی لہذا اللہ تعالی فرماتا ہے: الأخلاء يومئذ بعضهم لبعض عدو الا المتقين اس روز دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے مگر متقین زخرف کیونکہ اگر دوستی کا محور باطل ہو تو دوست ایک دوسرے کو برے کاموں کی تشویق کرتے ہیں لہذا در حقیقت وہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں البتہ یہ دشمنی دونیا میں مستور ہے اور قیامت میں آشکار ہو جائے گی کیونکہ وہ یوم ظہور حق ہے یہی وجہ ہے کہ جہنم میں وہ ایک دوسرے سے لڑیں گے اور ایک دوسرے پر امنت کریں كلما دخلت امة لعنت اختها جب کوئی گروہ داخل ہوگا تو دوسرے پر لعنت کرے گا ۔ الا علات ۲۰ اساس ولاد یہ ہے کہ انسان حق کے نزدیک ہو اور اس کے آثار سے بہرہ یاب ہودہ قرآن کریم میں اللہ تعالے نے ان آثار کی کہ جو محبت و نصرت سے عبارت ہیں اپنے اولیاء کو ضمانت دی ہے، کبھی قطعی صورت میں اور کبھی مشروط انداز میں سورۃ آل عمران آیت ۳۱ میں ہے:
ان كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله اگر آپ محب خدا ہیں تو رسول اللہ کے تابع ہو جائیں تاکہ اللہ تمہیں اپنا محبوب بنا لے یہ محبت کہ جو حاصل ولایت ہے اس کا مشروط طور پر وعدہ کیا جا رہا ہے یہی مفہوم قطعی پیرائے میں ایک اور آیت میں ذکر ہوا ہے : فسوف يأتى الله بقوم يحبهم ويحبونه » اللہ جلد ہی ایسی قوم کو لے آئیے گا جس سے اللہ محبت کرتا ہوگا اور جواللہ
سے محبت کرتی ہوگی۔ مائدہ - ۵۲ فرماتا ہے کہ اگر کوئی گروہ دین حق کی نصرت نہ کرے تو اللہ تعالے ایسے لوگوں کو لا کھڑا کرے گا کہ جو محبوبان الہی ہیں اور اللہ بھی ان کا محبوب ہے۔ آپ نے دیکھا کہ یہاں پر قطعی انداز میں انہیں محبوبان الہی قرار دے رہا ہے نصرت کے بارے میں بھی اس سے ملتی جلتی تعبیر وارد ہوئی ہے، ارشاد ہوتا ہے۔ ان تنصروا الله ينصركم اگر تم نے اللہ کی نصرت کی تو وہ تمہاری مدد کرے گا ۔ ( محمد ) یہاں وعدہ نصرت مشروط ہے اب سورۂ مومن کی آیت او ملاحظہ کیجئے: " انا لننصر سلنا والذين امنوا في الحيوة الدنيا و يوم يقوم الاشهاد " ہم اپنے رسولوں اور مومنین کی یقینا مدد کریں گے اس دنیا میں بھی اور اس روز بھی جس دن گواہی دینے والے اٹھیں گے یہاں پر وعدہ نصرت قطعی ہے ۔ یہاں تک پہلے مرحلے کے بارے میں کہ جو معنی ولایت سے متعلق ہے کچھ مطالب بیان کیئے گئے۔ ے ہیں کہ ہم معنی سے کچھ ولایت کا وجود خارجی ہمارا دوسرا موضوع بحث ہے۔ الولاية هل ھی ، کیا ولایت موجود ہے؟ ولایت جہانِ خارج میں یقینا موجود ہے اگر جہان خارج میں وجود ولایت کے بارے میں ہمیں شک ہو تو اپنے نفس پر غور کرنے سے ہی ہم ہر طرح کا شک دور کر سکتے ہیں کیونکہ معرفت نفس تصویر کائنات کے بہت سے مسائل کو حل کر دیتی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے نفس کو ہمارے درونی امور اور قومی پر ولایت حاصل ہے نفس کے یہ شنون و امور کہ جن کا نفس سے ارتباط ہے تدبیر نفس کے ماتحت ہیں اور یہ تدبیرینفس تمام امور پر محیط ہے البتہ یہ ولایت تدبیری ہے کہ جس کی نسبت متخالفة الاطراف
ہے، ایک ولی ہے اور دوسرا مولی علیہ انسان ولی اللہ کیا ممکن ہے کہ انسان ولی اللہ ہو اور اللہ ولی انسان ہو اور اگر انسان کی ولایت اس کے اپنے شعون نفس کے بارے میں تقویت پا جائے تو کیا امور بخارج پر بھی وہ ولایت حاصل کر لیتا ہے یا نہیں؟ اس ولایت کے ممکن ہونے پر عقلی دلیل موجود ہے اور اس کے وقوع پر دلیل قرآنی موجود ہے لہذا قرآن کی اس دلیل کے بعد ہمارے لیے امکان کی بحث کی گنجائش باقی نہیں رہتی قرآن کریم خیر دیتا ہے کہ بعض لوگ اولیا الہی میں اور اللہ تعالیٰ بھی ان کا ولی ہے: " الا ان اولیاء الله لا خوف عليهم ولا هم يحزنون " آگاہ رہیں کہ اولیاء الہ کونہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ کوئی حزن کرنے والے ہیں۔ یونس ۲ فرماتا ہے کہ بعض افراد اللہ کے ولی ہیں اور ان کی ولایت کا لازمہ یہ ہے کہ ان کے پاس خون و خون کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ اگر انسان اللہ کے نزدیک ہو تو وہ توحید کی پناہ گاہ اور قلعے میں ہو گا : لا اله الا الله حصنى له لا الہ الا اللہ میرا قلعہ ہے اور اگر کوئی قلعہ توحید میں ہو تو نہ اسے کوئی خوف ہے۔ اور نہ حزن کیونکہ اس نے کچھ نہیں گنوایا کہ مین ہو اور نہ ہی کچھ گنوائے گا کہ ہراساں ہو کیونکہ اس قلعے میں کسی غیر کا نفوذ ممکن نہیں جو کچھ محبوب مومن ہے وہ کھو جانے والا نہیں اور جو کچھ کھو جانے والا ہے وہ اس کا محبوب نہیں بندا کچھ اولیاء الٹی ہیں جیسے اللہ تعالی بھی بعض کا ولی ہے۔ اللہ ولی الذین امنوا ہے اسی مطلب پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالٰے ولی مومن ہے۔ ولایت الہی کی اقسام اللہ تعالے کی ولایت تین طرح کی ہے پہلی ولایت ولایت عام ہے کہ جو اللہ کی ربوبیت مطلقہ کے ساتھ ہے تمام موجودات اس کے دائرہ کار میں ہیں مومنین، کفار بلکہ شیطان تک اس ولایت کے تحت ہیں شیطان اللہ کی مخلوق ہے اللہ تعالیٰ کے حضور وہ ذلیل ہے یہ ولایت کہ جو اللہ تعالے کی ربوبیت مطلقہ کا نتیجہ ہے سب مخلوقات پر محیط ہے اور یہ محل بحث نہیں ہے دوسری ولایت وہ ولایت خاص ہے کہ جو اللہ تعالے سب مومنین پر رکھتا ہے آیتہ الکرسی کا آغاز اسی ولایت کے بارے میں ہے تیسری اور بالاترین ولایت وہ خاص الخاص ولایت ہے کہ جس سے انبیاء اور اولیاء النبی مشرق ہیں۔ لہذا اللہ تعالے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان سے فرماتا ہے، ان و ليتق الله الذى نزل الكتاب وهو يتولى الصالحين میرا ولی وہ اللہ ہے کہ جس نے کتاب نازل کی اور وہ صالحین کا ولی ہے۔ (الاعراف (۱۹۹) یہ ولایت اللہ تعالے کی وہ خاص رحمت و عنایت ہے کہ جو انبیاء و اولیار کے لیے ہے دیگر مومنین کے لیے وہ یہ ولایت بروئے کار نہیں لاتا ۔ ہماری گفتگو ولایت خاص کے بارے میں ہے اور انشاء اللہ ہم ولایت خاص الخاص کے بارے میں بھی بات کریں گے مختصر یہ کہ یہ آیات قرآنی اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ مومنین بھی اولیاء الہی میں اور اللہ تعالے بھی مومنین کا ولی ہے۔ مومنین کی اللہ سے ولایت سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے عقائد، اخلاق اور اعمال اللہ تعالے کے اختیار میں دیتے ہیں اور اللہ کی مومنین سے ولایت سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنی محبت، لطف اور نصرت
مومنین پر نثار کرتا ہے اور نتیجہ " يخرجهم من الظلمات الى النور ران کو ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے۔ ولی اللہ کی پہچان کا طریقہ بھی اللہ تعالے نے اس آیت میں بتا دیا ہے ایک
گروہ کے بارے میں فرماتا ہے: ان نعمتو انكم اولياء الله من دون الناس فتمنوا الموت ان كنتم صادقين د اگر تمہیں یہ گمان ہے کہ تم دوسرے لوگوں کو چھوڑ کر اللہ کے ولی ہو تو پھر اگر تم سچے ہو تو موت کی تمنا کرد) (جمعہ - ۲) یعنی اگر تمہیں یہ زعم ہے کہ تم اولیاء الہی ہو تو پھر تمہیں چاہیئے کہ لقا وحق کے مشتاق بنو اور موت سے نہ ڈرہ اگر تمہیں موت کی تمنا نہیں اور اس سے ہراساں ہو تو پھر جان لو کہ تم اللہ کے ولی نہیں ہو ۔ تحقق ولایت کے اسباب: تمیرا موضوع سخن ہے۔ الولاية برهی ، یعنی جو چیز روح انسانی میں ولایت الہی کے وجود میں آنے کا باعث بنتی ہے وہ کیا ہے ؟ قرآن کریم اثبات ولایت کے راستوں کو نہ فقط استدلال کے ذریعے بیان کرتا ہے بلکہ وقوع خارجی کا ذکر بھی کرتا ہے۔ بات کے اثبات کے لیے جو دلیل ذکر ہوتی ہے وہ کبھی فقط اثبات کے لیے واسطہ ہوتی ہے اور کبھی ثبوت کے لیے بھی لیکن وجود آتش کو ثابت کرنے کے لیے دھوئیں کے موجود ہونے کا سہارا لیا جائے تو یہ فقط اثبات کا ذریعہ ہے ثبوت کا ہیں۔ قرآن کریم میں ولایت ثبوت واثبات میں واسطہ : اللہ تعالے ایسی دلیلیں پیش کرتا ہے جو ثبوت میں بھی واسطہ ہیں اور اثبات میں بھی ایسی راہیں ذکر کرتا ہے کہ اگر سالک ان پر چلے تو اللہ کے نزدیک ہو جائے اور قرب الہی کے باعث خود بھی اللہ کا ولی بن جائے اور اللہ بھی اس کا ولی ہو
جائے۔ سورۃ فاطر کی آیت 4 میں فرمایا گیا ہے : ان الشيطان لكو عدو فاتخذوه عدوا ریقینا شیطان تمہارا دشمن ہے پس تم بھی اسے دشمن قرار دو۔ یعنی جو تمہیں گناہ کی دعوت دیتا ہے تمہارا دشمن ہے، اگر چہ وہ اپنے آپ کو دوست کے طور پر ظاہر کرتا ہے شیطان جنوں میں ہی سے مختص نہیں ہے بشیاطین جن بھی انسان کے دشمن ہیں اور شیاطین انس بھی ، کیونکہ وہ انسان کو گناہ کی طرف دعوت دیتے ہیں جبکہ گناہ آگ ہے اور جو کوئی بھی انسان کو آگ کی طرف دعوت دے انسان کا دشمن ہے اگر چہ دوست کے لبادے میں ہو ۔ اسی سورت کی دسویں آیت میں ہے ؟ " من كان يريد العزة فالله العزة جميعا
اگر آپ کو عزت کی خواہش ہو تو پھر عزت تو ساری کی ساری اللہ کے لئے ہے۔ اگر آپ عزیز ہونا چاہیں تو ضروری ہے کہ سر چشمہ عزت کے قریب ہوں، مبدأ عزت کے قریب ہوں " ولی العزیز ، ہو جائیں تاکہ آپ اس کی عربیت سے بہرہ ور ہو سکیں۔ آیہ کریمہ کا یہ معنی نہیں کہ " من كان يريد ان يعلم العزة لعيني اگر کوئی جاننا چاہیے کہ عزت کہاں ہے تو جان لے کہ اللہ کے پاس ہے یہ بات فقط علمی ہے یعنی خیر کے طور پر بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ اگر کوئی عزت کی جستجو میں ہے اور چاہتا ہے کہ عزیز ہو جائے تو جان لے کہ تمام تر عزت اللہ کے پاس ہے اور ذیل کی آیت کریمہ اس تک پہنچنے کے راستے کی راہنمائی کرتی ہے
" اليه يصعد الكلم الطيب والعمل الصالح يرفعه کلام پاک اسکی طرف بلند ہوتا ہے اور عمل صالح اسے بلند کرتا ہے ، وفاطر ۱۰) اچھا عقیدہ اور نیک عمل حصولِ عزت کا ذریعہ ہیں اگر کسی کا عقیدہ طیب اور عمل صالح ہو تو وہ خدا کے نزدیک ہو جاتا ہے اور ولی اللہ بن جاتا ہے پھر اللہ بھی اس کا ولی ہے نتیجتا اسے ہر تاریکی سے نجات عطا کرتا ہے اور اسے نورانی اور روشن کر دیتا ہے کیونکہ ولاء الہی کا پر اثر ہے:
" يخرجهم من الظلمات الى النور ولایت باطل جو کچھ گزر چکا ہے وہ ولایت حق سے متعلق گفتگو تھی۔ ایک ولایت باطل بھی ہوتی ہے جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے اگر محور ولایت حق ہو تو ایسی دلایت کا
ظاہر و باطن ولایت و محبت ہے لیکن اگر محور ولایت باطل ہو تو ظاہر ولایت محبت ہے البتہ باطن ولایت عداوت و دشمنی ہے اور ولایت باطل کی راہ کو اس آیت مبارکہ میں بیان فرمایا ہے۔ " والذين كفروا أولياؤهم الطاغوت يخرجونهم من النور الى الظلمات» داور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے اولیاء طاغوت ہیں جو انہیں نور سے نکال کر ظلمتوں میں لے جاتے ہیں۔ بقرہ ۲۵۰ اس منحوس ولایت کا نتیجہ سورۂ حدید کی آیت ۱۵ میں بیان فرماتا ہے: " فاليوم لا يؤخذ منكو فدية ولا من الذين كفروا مأوبكم النار هي مولكو وبئس المصيره ر آج تم سے نہ کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ کافروں سے۔ تم سب کا ٹھکانا جہنم ہے وہی تمہارا رفیق ہے اور وہ (واقعی) برا ٹھکانا ہے۔) اگر کوئی باطل کی طرف جائے تو در حقیقت وہ ولایت آتش کے ماتحت ہے۔ آتش ہی اس کا مولا ہے اور وہ ولی نار ہے کیونکہ وہ گناہ سے محبت کرتا تھا اور شیطان بھی اسے محبت گناہ کی تشویق کرتا تھا۔ قرب و ولایت کا اتحاد نتیجہ کے اعتبار سے ولایت حق و باطل کی وضاحت ، ان تک پہنچنے کے طریقے اور ان دونوں کے نتائج کے بارے میں بحث کے بعد اب اس موضوع تک پہنچتے ہیں کہ تمام وہ آیات جو انسان کو خدا سے قریب کرنے والے اعمال کو بیان کرتی ہیں وہی ولایت کی مختلف راہوں کو بھی ثابت کرتی ہیں۔ ان سب میں سے جامع سورۂ مبارکہ اعراف کی آیت ۱۹۶ ہے کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے بیان ہوئی ہے۔ ان ولي الله الذى نزل الكتاب وهو يتولى الصالحين دیقینا میرا ولی اللہ ہے کہ جس نے کتاب نازل کی اور وہ صالحین کا متولی ہے۔ البتہ یہ ولایت خاص الخاص ہے کہ جو عام و متوسط مومنین کے لئے نہیں بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ آلہ کم اور دیگر انبیاء الہی کے بارے میں ہے ارشاد ہے :بیشک میرا ولی وہ خدا ہے کہ جس نے قرآن کو نازل کیا ہے۔ یہاں حکم کا وصف پر معلق ہونا علیت کی نشاندہی کرتا ہے فرماتا ہے میرا ولی وہ خدا ہے کہ جس نے قرآن نازل کیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ولایت کی راہ راہ قرآن ہی ہے، اس کے بعد فرماتا ہے وهو يتولى الصالحین » وہ خدا کہ جو صالحین کا متولی ہے یعنی میں قرآن اور حبل اللہ سے تمسک کی وجہ سے صالح ہو گیا اور جو صالح ہوا وہ خدا کی ولایت کے ماتحت ہے۔ دو صغری و کبری کو آپ نے اس مجلہ میں بیان کیا ہے ایک یہ کہ قرآن کو اللہ نے بھیجا ہے جس نے بھی اسے پالیا وہ صالح ہو گیا ۔ میں نے قرآن کو پالیا ہے لہذا میں صالح ہو گیا ہوں۔ دوسرا یہ کہ جو کوئی بھی صالح ہو جائے وہ ولایت الہی کے ماتحت ہے۔ میں صالح ہو گیا ہوں الہذا ولایت النبی کے ماتحت ہوں ۔
قبل کی گفتگو سے بھی یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اللہ نے اپنے پاس سے اس قرآن کو اتارا اور آویزاں کیا ہے نہ یہ کہ پھینک دیا اور ڈال دیا ہے قرآن کی ایک طرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسری طرف رسی کی صورت میں آویزاں ہے اور وہ ہم سے فرماتا ہے کہ اس رسی کو پکڑ کر اوپر کو آجائیں : واعتصموا بحبل الله جميعا (ال عمران : ۱۳) یہ دو اصول کہ جن سے دو قیاس نطقی تشکیل پائے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مختص نہیں ہیں۔ راہ سب کے لیے کھلی ہے البتہ جو کوئی بھی اس راستے کو بہتر طور پر طے کرے گا زیادہ فائدہ اٹھائے گا۔ قرآن سب کے لیے آیا ہے اور سب کی دسترس میں ہے جو کوئی بھی بھلائی کا راستہ جس قدر طے کرے گا اسی قدر ولاء الہی سے بہرہ مند ہوگا تا ہم بلند ترین درجه حضرت رسول اکرم صلی الہ علیہا کہ تم سے مختص ہے مصالح اور عمل صالح انجام دینے والے میں فرق ہے، ایک اور نکتہ کہ جس کا ذکر مفید ہے یہ ہے کہ صالحین اور و الذین یعملون الصالحات، میں فرق ہے۔ صلاح کا ایک مرتبہ فقط انجام میں ہے لیکن اس کا بالا تر مرتبہ مقام ذات
میں صلاح کا ہے جو ابتداء راہ میں ہیں اور اچھے کام انجام دیتے ہیں وہ الذین امنوا و عملوا الصالحات میں سے ہیں لیکن جو اختتام راہ پر ہیں اور ایمان و عمل صالح ان کا ملکہ ہو گیا ہے اور وہ صلاح عمل کے مقام سے صلاح ذات تک جا پہنچے ہیں وہ صالحین میں سے ہیں کہ جن کی ذات سے کار خیر کے علاوہ کوئی چیز صادر ہی نہیں ہوتی ۔ جو لوگ ایمان اور عمل صالح کی حد میں ہیں وہ اسی محدود پیمانے پر ولاہ الہی سے بہرہ مند ہیں لیکن جو مقام صالحین تک پہنچ گئے ہیں وہ کامل تر ولاء کے حامل ہیں لہذا اللہ ولی الذین امنوا يخرجهم من الظلمات الى النور ، سب کے لیے یکساں نہیں یعن کے لیے یہ دفع کی حیثیت رکھتی ہے اور بعض کی رفع ۔ جو لوگ ابھی شروع امر پر ہیں اللہ تعالے ان سے ظلمت کو رفع کرتا ہے یعنی ان سے تاریکیوں اور تباہیوں کو دور کرتا ہے تاکہ وہ خالص تھر جائیں لیکن جو لوگ راستہ طے کر کے آخر تک آپہنچے ہیں ان کے لیے اللہ تعالے کی ولاد کا نتیجہ دفع ظلمات ہے یعنی اللہ انہیں آلودہ نہیں ہوتے دیتا نہ یہ کہ آلودگی کے بعد ان کی تطہیر کرتا ہے جیسا کہ آیہ تطہیر میں ہے : " انما يريد الله ليذهب عنكم الرجس اهل البيت ويطهركم تطهيراء اللہ کا حتمی ارادہ ہے کہ اہل بیت سے رجس و ناپاکی کو دور رکھے اورتمہیں یوں پاک رکھے کہ جیسا پاک رکھنے کا حق ہے۔ (سورۂ احزاب - ۳۳) یہ اذہاب و دوری رجیں اور تطہیر دونوں سے یہاں وضع مراد ہے نہ کہ رفع یعنی اللہ اجازت نہیں دیتا کہ شیطان تمہاری طرف آئے اور تمہیں آلودہ کرے نہ یہ کہ آلودگی کے بعد وہ تمہاری تطہیر کرتا ہے۔ ولایت کی اقسام کے بارے میں ولایت تکوین و تشریعی کی تقسیم کے حوالے سے انشاء اللہ ہم گفتگو کریں گے ۔ ترتیب بحث کے لحاظ سے ہم اس مرحلے پر نہیں پہنچے کہ تکوین و تشریع پر بحث کریں ۔ ابھی گفتگو اس بارے میں ہے کہ انسان محبت و نصرت کی حد تک ولی خدا ہو جائے اور اسی حد تک اللہ تعالے اس کا ولی ہو جائے اور اس کا راستہ کلیم طیب اور عمل صالح ہی ہے ۔ . والحمد لله رب العالمين.