Dars 7
ولایت در قرآن • آیة الله جوادی آملی
ولی کون ہے؟ گذشتہ گفتگو سے ولی کی صفات بطور کلی واضح ہو گئیں لیکن کلی شناخت کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ انسان کو چاہیے کہ وہ کسی معین ولی کی شناخت کرے تاکہ اپنے دینی اور اس سے حاصل کرے لہذا ناگزیر ہے کہ مصداق ولی کی جستجو کی جائے یہی ہماری پانچویں فصل کا موضوع بحث ہے یعنی " الولى من هو ؟ ولی کون ہے ؟ مصداق ولی کی جستجو کلامی بخشوں سے مدد لیے بغیر مکن نہیں چونکہ خالص عقلی بحثوں کے ذشخصی و انفرادی مسائل نہیں ہیں اس لیے کہ قضا یائے شخصی میں برہان کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ہربان کے مقدمات کو کلی، ذاتی ، دائمی اور ضروری ہونا چاہیئے اس لحاظ سے اگر ہم کسی انسان کامل کی ولایت شخصی کا سراغ لگانا چاہیں تو مباحث نقلی کا سہلا لیے بغیر ممکن نہیں۔ البتہ عقل کی روشنی میں۔ معرفت و اخلاص راہ ولایت میں ناگزیر ہیں ، بحث ولایت میں اہم ترین فصل میں فصل سوم ہے کہ جو ولایت تک پہنچنے کے لئے راستے کی نشاندہی کرتی ہے جس طرح پہلے گزر چکا ہے کہ ہر وہ عمل باحث تقرب الہی ہے جو بذات خود تقرب خدا کی صلاحیت رکھتا ہو اور اس عمل کو انجام دینے والا کبھی اسے خدا کے لئے بجا لائے یعنی حسن فعلی بھی ملحوظ نظر ہو اور حسن فاعلی بھی اور اگر کوئی بندہ خدا کے نزدیک ہو تو اس کی قربت سے بہرور ہو سکتا ہے ان خصوصیات پشتمل اعمال دو طرح کے ہیں۔ مقام ولایت کے حصول کے لیے ان میں سے بعض اعمال فرض کی حیثیت رکھتے ہیں اور بعض نفل کی ۔ جیسے بہشت تک پہنچنے کے لیے کچھ فرائض مہیں اور کچھ نوافل اسی طرح بلند مقامات انسانی کہ جو در حقیقت ایک طرح کی بہشت ہی ہے تک پہنچنے کے لیے بھی کچھ واجبات میں اور کچھ مستحبات۔ اس راہ میں جو چیز بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور فریضے کا مقام رکھتی ہے وہ عمل میں معرفت اور اخلاص ہے جتنی معرفت زیادہ ہوگی عمل میں اخلاص بھی اتنا ہی بیشتر ہو گا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابو ذر رضوان اللہ علیہ سے فرمایا : اے ابو ذر ! اگرانسان نیکی کا حامل ہو د نیکی اپنے اسی معنی میں کہ جو قرآن میں ذکر ہوا ہے، تو اسے بہت زیادہ دعا کی ضرورت نہیں ہے بلکہ تھوڑی سی دعا سے ہی اپنی مشکل حل کر لیتا ہے۔ دعا کھانے میں نمک کی مانند ہے۔ جو چیز انسان کے لئے فرض ہے وہ یہ ہے کہ وہ عمل میں معرفت اور اخلاص کا حامل ہو اور زبان حال دلسان استعداد سے دعا کرے۔ اس صورت میں لفظی دعائیں نقل اور کھانے میں نمک کی مانند ہیں۔ لیکن اگر انسان اس امید پر معرفت واخلاص میں کمی کرے اور دعا زیادہ کرے کہ مقام ولایت اسے مفت میں مل جانے یا بہشت کے دروازے اس کے لیے کھول دیئے جائیں تو جان لے کہ اس کام سے اسے کوئی فائدہ نہ ہو گا ۔ اللہ تعالے نے بھی وعدہ کرتے ہوئے فرمایا ہے: " والذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا یعنی اگر کوئی ہماری راہ میں کوشش کرے تو ہم اس کی راہنمائی کرتے ہیں۔ اللہ کی راہ میں جہاد و کوشش کے کئی مصداق اور نمونے ہیں یقینا معرفت اور شناخت حق کے لیے کوشش اس کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ اسی طرح راہ حق کو طے کرنے کے لیے کوشش اور اس راہ سے مہر طرح کے فردی اور اجتماعی مواقع کو دور کرنے کے لیے جدو جہد نیز اس راہ کو راہزنوں سے پاک کرنا اللہ کی راہ میں جہاد شمار ہوتا ہے اور اس مجاہدہ اور کوشش کا نتیجہ یہ ہے کہ کوشش اور جد وجہد کرنے والا اللہ تعالے کی خاص راہنمائی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ البتہ یہ راہنمائی راستہ دکھانے کے معنی میں نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالے نے ایسی رہنمائی تو سب انسانوں چاہے مومن ہوں یا کافر، گوگردی ہے بلکہ یہاں مراد مطلوب تک پہنچانا ہے کہ جو دلایت سے متحد ہے۔ پس ولایت کے بند و بالا مقام تک پہنچنے کے لئے بہترین راہ عمل میں معرفت اور اخلاص اور ان دو مقدمات کے حصول یا ان کی تقویت کے لئے کوشش ہے۔ ایسی آیات میں تدبر اور سوچ بچار کہ جو راہ وصول معرفت و اخلاص) کو بیان کرتی ہیں اس ہدف میں کارآمد ہیں ۔ عبادت ہی تقریب کا ذریعہ ہے : متعدد آیات کہ جو یہ بیان کرتی ہیں کہ عبادات کے ذریعے تقرب الہی ممکن ہے ہیں۔ سے ایک یہ آیہ کریمیہ ہے : " كلا لا تطعه واسجد واقترب » د تو ہر گز اس کا کہا نہ مان ۔ اس سجدہ کر اور تقرب حاصل کر ) (علق - ۱۹) اس کی تلاوت سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالے اپنے رسول کو حکم دیتا ہے کہ سجدہ کرو اور اللہ کے نزدیک ہو جاؤ یہ بات واضح ہے کہ سجدہ سے مراد نماز د عبادت ہی ہے۔ سجدہ چونکہ نماز کا اہم ترین مقام ہے اس لیے جز کہہ کہ کل مراد لیا گیا۔ ہے اور نماز پر اس کا اطلاق ہوا ہے۔ عبادت دینہ یقین : ایک اور آیت کر یہ کہ جو یہی نکتہ بیان کرتی ہے یہ ہے : فسبح بحمد ربك وكن من الشجدين واعبد ربك حتى يأتيك اليقين اپس اپنے پروردگار کی حمد کی تسبیح کر اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جا اور اپنے رب کی بندگی کیسے جانتی کہ تو منزل یقین تک پہنچ جائے) تمبر 993) یہ آیہ شریفہ عبادت کو معرفت و یقین کا ذریعہ قرار دے رہی ہے۔ اس آیہ مبارکہ میں کلمہ یقین، اپنے لغوی معنی میں ہی استعمال ہوا ہے اور اگر روایت میں یقین کو موت سے جبر و تفسیر کیا گیا ہے تویہ اس کا ایک مصداق ذکر کیا گیا ہے نہ کہ خود یقین کے مفہوم کی تفسیر کی گئی ہے اور یقین پر موت کے اطلاق کی وجہ یہ ہے کہ اس حالت میں عالم طبیعت کے تاریک اور ظلمانی پردے ہٹ جاتے ہیں اور تیز بین برزخی نگا ہیں جمال حقائق کا نظارہ کرتی ہیں اور یوں تمام شک وشبہات دور ہو جاتے ہیں اور یقین ان کی جگہ لے لیتا ہے۔ یہاں لفظ " حتی ، بھی غایت کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس سے منفعت کا مفہوم معلوم ہوتا ہے لہذا یہاں آیت کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ عبادت کا ہدف حصول یقین ہے یعنی عبادت کرو تا کہ یقین تک پہنچ جاؤ اور نتیجتا اگر کو اب یقین تک پہنچ گیا تو عبادات کو چھوڑ سکتا ہے ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ عبادت کا ایک فائدہ حصول یقین ہے اور یقین تک دسترس بغیر عبادت اور بندگی کے ممکن نہیں مثلاً اگر کہا جائے کہ سیڑھی سے اوپر جاؤ تا کہ تمہارا ہاتھ اس بلند ٹہنی تک پہنچ جائے، اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ ٹہنی تک ہاتھ پہنچتے ہی سیڑھی کو چھوڑ دو کیونکہ سیڑھی کو چھوڑنا یقینا گرنے اور مرنے کا باعث ہے۔ لہذا آیت کر عید کا مفہوم یہ ہے کہ یقین زینہ عبادت کے درجوں پر استوار ہے اور بلندی کی طرف لے جانے والی اس چیز سے کنارہ کشی انسان کو تنزل کے گڑھے میں پھینک دیتی ہے: " ومن يشرك بالله فكأنما خر من السماء فتخطفه الطير او تهوى به الريح في مكان سحيق . ا اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے گا تو گویادہ ایسا ہے کہ آسمان سے گرا ہو اور اسے پرندے نے اچک لیا ہوی دالج - ۳۱) توحید افعالی حاصل عبادت : ایک اور نکتہ جو اس آیا کر میہ میں قابل غور ہے یہ ہے کہ یقین کس کے بارے میں ہے اور وہ کون سایقین ہے کہ جس کے حصول کے لیے یہ آیت ہمیں عبادت کی دعوت دیتی ہے ؟ مسلما ہ وجود میداد کے بارے میں یقین نہیں ہے کیو نکہ ایسا یقین تو خو د عبادت کا سرچشمہ ہے نہ یہ کہ عبادت کا عمدہ نتیجہ اور اولیاء الہی کے مقامات کا ایک مقام، بلکہ یہ یقین تمام تر اوصاف مطلقہ کے ساتھ اللہ تعالے کے وجود پر یقین سے عبارت ہے۔ اللہ تعالے کی ربوبیت مطلقہ پر یقین ہو تو کسی اور کی تدبیر و ربوبیت کا تصور ہی باقی نہیں رہتا۔ اسی طرح اس کی مالکیت مطلقہ کا یقین مالکیت غیر کو مسترد کر دیتا ہے ۔ اگر کوئی یقین کے اس مرحلے پر آپہنچے یعنی وجود خدا پر یقین کے علاوہ اسے عالم پر اللہ کی ربوبیت و مالکیت مطلقہ کا بھی یقین ہو تو پھر خود سے اعتباری مالکیتوں کی نفی کرنے لگتا ہے اور انہیں اللہ کی مالکیت جانتا ہے بلکہ اپنے آپ کو اور اپنے تمام امور کو اللہ ہی کا سمجھتا ہے اگر کسی پر یہ بات واضح ہو جائے کہ انسان کی اور اک دو تحریک کی قوتیں ملک و ملک خدا ہیں تو وہ ان قوتوں سے جو بھی کار خیر انجام دیتا ہے تو انہیں ملک و ملک خدا جانتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اس کے ہاتھ ، آنکھ اور دیگر اعضاء سے کار خیر انجام پایا ہے کیونکہ ساری کائنات میں جو کوئی بھی کچھ کرتا ہے وہ حق تعالے کا کارندہ ہے ۔ اللہ جنود السموات والارض، (آسمانوں اور زمین کے شکر اللہ ہی کے لیئے ہیں اور اگر اس امر کی طرف توجہ کیجائے کہ نظام ہستی میں اس عمل اور کار خیر کے وجود میں آنے کی ضرورت تھی تو ممکن ہے کہ اللہ تعالے اسے کسی اور شخص کی آنکھ، کان اور اعضاء سے کروالینا ۔ لہذا اگر انسان کو نیک کام کرنے کی توفیق ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو مالک مطلق ، رب مطلق اور قادر مطلق کا مدیون اور رہین سمجھے اور میم دل سے اس کا شکر گزار ہو۔ آیات میں توحید افعالی : سور را مبارکہ یونس میں توحید ربوبی اور اس کے نتیجے میں توحید افعالی کا ذکر یوں فرماتا ہے: " قل من يرز فكو من السماء والارض الله کہ یا آسمان اور زمین سے تمہیں کون رزق دیتا ہے ؟ مکن ہے کہ لوگ یہ مجھ سکیں که خدا رازق ہے لہذا دقیق تر سوال فرماتا ہے : ا من يملك السمع والابصارة تمہارے گوش وچشم کا کون مالک ہے ؟ جواب یہ ہے کہ اللہ کا اور آنکھ کا مالک ہے یعنی آنکھ اور کان کا جسم بھی اللہ کی بنک ہے اور ملک چشم و گوش بھی اللہ کے احاطہ تصرف میں ہے یعنی بیدہ الملک کا وہ مالک ہے اور بیدہ الملک کا وہ ملک ہے اللہ مالک بھی ہے۔ اللہ مافی السموات والارض ، اور بلک بھی ہے۔ الله ملك السموات والارض گذشتہ گفتگو سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ ادعا نہیں کیا جا سکتا کہ اللہ تعالی نے پہلے ہمارے قومی کو خلق فرمایا اور پھر عاریتاً انہیں ہمیں سونپ دیا۔ کیونکہ یہ توجیہ اگر چہ قوی کی ملکیت کو اللہ تعالے کے لئے ثابت کرتی ہے لیکن اُن کا ملک بندے کو تفویض کر دیتی ہے کیونکہ جب کوئی مال کسی کو عاریتا دیا جاتا ہے تو اس مدت میں وہ مال مستعار لینے والے کے تسلط اور کنٹرول میں ہوتا ہے نہ کہ دینے والے کے۔ دوسرے لفظوں میں اس کی ملک تو دینے والے سے حاصل کی گئی ہوتی ہے لیکن منک لینے والے کے اختیار میں ہوتا ہے۔ تہذا یہ توجیہ بھی للہ تعالے کو مالک مطلق کے طور پر پہچاننے سے ہم آہنگ نہیں۔ وہ واحد توجیہ کہ جو ادراک و تحریک کی قوتوں کی انسان کی طرف نسبت کے لیے مناسب ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی مالکیت مطلقہ کے منافی بھی نہیں ہے وہ یہ ہے کہ ہم یہ کہیں کہ انسان جمال حق کا آئینہ ہے۔
آئینہ ہونے کا مفہوم اس امر کا ذکر ضروری ہے کہ مرآت (آئینہ اہل معرفت کی اصطلاح میں اس صورت کو کہتے ہیں کہ جو آئینے میں دکھائی دیتی ہے نہ کہ آپکنے کے جسم کو، کیونکہ وہ چیز کہ جو سب فیتی ہے کہ انسان اپنے تئیں دیکھ سکے درحقیقت وہ صورت ہے کہ جو آیلنے میں موجود ہے اور صاحب صورت کے تمام خدو خال کی نشاندہی کرتی ہے نہ کہ شیشہ اور اس کے پیچھے کالا ہوا مصالحہ کہ جسے عام لوگ آباد کہتے ہیں۔ مظہریت انسان اس نقطۂ نظر سے انسان ایک ایسی ذاست کا مظہر ہے کہ جو تمام کمالات کی جامع ہے۔ یوں اللہ تعالے کی ذات مقدس میں ولایت کے منحصر ہونے کا مفہوم پوری طرح سے واضح ہو جاتا ہے کیونکہ جس نے ، فالله هو الولی» یا « هو الولی الحمید کی بنیاد پر یہ قبول کر لیا کہ ولی مطلق خدا ہے وہ اپنے لیے یا کسی اور کے لیے جہانِ امکان کے کسی گوشے میں ولایت کا قائل ہرگز نہیں ہو سکتا ۔ لہذا اگر کوئی کہتا ہے کہ اپنے اور کی اور تحریکی قولی پر ولایت رکھتا ہوں یا کہتا ہے کہ میں نے بہت زحمت کے ساتھ علم حاصل کیا ہے ایسا شخص معرفت کے ابتدائی کو چوں کے پیچ و خم میں ہے اور توحید حقیقی کی راہ نہیں پاسکا۔ توحید افعالی کے مراحل کو ایسے شخص نے بخوبی طے کیا ہے کہ جو یہ پالے اور جان لے کہ انسان تمام حالات میں آئینہ حق ، مظہر کمال مطلق اور ھوا لولی کا نمونہ وآیت ہے۔ اگر آئینے میں موجود صورت بات کرنا چاہے تو وہ یوں کہے گی کہ میں صاحب صورت کی آسیت و مظہر ہوں لہنڈا ایک کامل انسان کہ جس کے لئے یہ معارف واضح ہیں وہ کہتا ہے میں " هو الولی کا مظہر ہوں یعنی کام کوئی اور کرتا ہے ہیں فقط اس کی علامت ہوں اور اس چیز کی نشاندہی کرتا ہوں کہ یہ کام اس نے انجام دیا ہے اگر معرفت کا یہ مقام حاصل ہو جائے تو انسان نہ فقط سماعت و بصارت کے بارے میں کہتا ہے۔ امن يملك السمع والابصار، بلکہ وہی بات کہتا ہے کہ جس کا اللہ تعالے نے اپنے رسول کو حکم دیا ہے۔ ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتي لله رب العالمین بینی انسان کی حیات وموت اور عبادات بھی ملک و ملک خدا میں بہر حال یہ توجیہ وہ صراط مستقیم ہے کہ جو انسان کو جبر و تفویضین کے جال میں پھننے سے بچاتی ہے اور ولایت کے صحیح معنی کو قبول کرنے کی راہ ہموار کرتی ہے اگر چہ بال سے زیادہ باریک ہے اور شمشیر سے زیادہ تیز امر بین الامرین کا مفہوم جبر و تفویض کا مسئلہ توحید افعالی سے جدا نہیں ہے امر بین الامرین کا دو طرح سے معنی کیا جاتا ہے ان میں سے ایک دقیق ہے اور دوسرا دقیق تر ۔ وقیق معنی کہ جو معروف ہے یہ ہے کہ انسان صاحب اختیار ہے اور خیر و شر کے دوراہے پر کھڑا ہے، اگر اس نے برائی کی تو اس کی سزا پائے گا گر بھلائی کی تو جزا کا مستحق ہو گا نہ جیر ہے اور نہ تعویض لعینی نہ تو سارے کام اللہ تعالے نے اس پر ٹھونس دیتے ہیں اور نہ سارے کام اسے سونپ دیئے ہیں بلکہ امر بین الامرین ہے البتہ عقلی مباحث میں اس کی تفسیر کچھ وقیق ترکی جاتی ہے کہ جس کا نتیجہ توحید افعالی ہے اور اسی سے صور مرآیتہ و مظہریت کا نظریہ مطابقت رکھتا ہے اللہ تعالے سورۂ محل میں فرماتا ہے۔ «ما بكم من نعمة فمن الله ، ان ۵۳) تمہارے پاس سب نعمتیں اللہ کی طرف سے ہیں اگر کسی نے اطاعت کی تو یہ اطاعت نعمت ہے اس نعمت کا ولی کون ہے؟ ممکن ہے کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل اور اختیار عطا کیا، نبی بھیجے اور ہم نے انہی کے باعث اطاعت کی ۔ ملاحظہ کریں کہ اس توجیہ کے اعتبار سے انسان کو انتخاب میں مستقل اور آزاد فرض کیا گیا ہے اور تفویض سوائے اس کے کچھ نہیں کہ اللہ تعالے کے مقابلے میں عہد کو با استقلال اور آزاد فرض کر لیا جائے۔ اسی لیے فقیہ ہمدانی قدس سرہ - کتاب طہارت میں فرماتے ہیں کہ بہت سے علماء کہ جو نفی جبر کے در پے تھے واہم تفویض میں گرفتار ہو گئے اور یہ خیال کیا ہے کہ انہوں نے امر بین الامرین کو ثابت کر دیا ہے راز مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ کی ولایت در بوبیت لا محدود و مطلق ہے تو پھر اس تدبیر و ولائے لا محدود کے مقابلے میں کسی بھی دوسری ربوبیت و ولایت کا فرمن کرنا معقول نہیں ہے۔ معقول اللہ کے حضور انسان کی مظہریت اور آئینہ ہونا ہی ہے۔ توحید افعالی کا اثر انسانی کردار پر اگر انسان اس انتہائی بلند مقام کو حاصل کرے یعنی نہ صرف یہ کہ آسمانوں اور زمین کو ملک و ملک خدا سمجھے بلکہ اپنے آپ کو اور اپنے سارے آثار کو بھی اسی کی تدبیر و ولایت کے تحت مشاہدہ کرے اور اپنے آپ کو ظہور حق کا ایک مظہر اور اس کی تجلی کا مقام اور اس بے نشان کی نشانی سمجھے تو وہ اپنے کردار و رفتار پر بہت زیادہ توجہ دے گا اور کوشش کرے گا کہ اس سے محضر ربوبیت میں کوئی بے ادبی اور غفلت نہ ہو جائے اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوذر رضوان اللہ علیہ کو جو نصیحت کی وہ قابل ملاحظہ ہے آپ فرماتے ہیں : يا اباذر أتحب ان تدخل الجنة " داے ابا ذرا کیا تم چاہتے ہو کہ جنت میں جاؤ؟ انہوں نے کہا : " نعم فداك الى » جی ہاں میرے باپ آپ پر فدا ہوں ؟ تو رسول اللہ (ص) نے فرمایا : فاقصر من الامل واجعل الموت نصب عينيك تو پھر اپنی آرزوں کو کم کر دو اور موت کو اپنا نصب العین قرار ودو) - واستح من الله حق الحياء " اور اللہ سے یوں حیا کرد جیسے حیا کرنے کا حق ہے۔ ابو ڈر کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی : " يا رسول الله كلنا نستحيى من الله " دیارسول اللہ ہم سب اللہ سے حیا کرتے ہیں۔ تو نبی پاک (ص) نے فرمایا : " ليس ذلك الحياء ولكن الحياء من الله ان لا تنسى المقابر والبلى والجوف وما وعى والرأس وما حوى و من اراد كرامة الله فليدع زينة الدنيا فاذا كنت كذلك اصبت ولاية الله " خدا سے حیا یہ نہیں ہے بلکہ حیا یہ ہے کہ قبر اور اس میں بوسیدہ ہو جانے کو فراموش نہ گردش کم اور غذا کو کنٹرول کرد، سر اور اس میں پروان چڑھنے والے افکار کو قابو میں کرو کیونکہ یہ سب اللہ کی نظروں میں میں جس کسی کو کرامت الہی کی طلب ہوا سے چاہیے کہ زینت دنیا کو چھوڑ دے اگر تم نے ان مراحل کو طے کر لیا تو تم نے ولایت الہی کو پالیا۔ ایک اور جگہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے : " يا اباذران اهل الوسع والزهد في الدنيا هم اولياء الله حقًّاء یعنی اسے ابوذر! جو دنیا کو چشیم بے رغبتی سے دیکھتے ہیں اولیاء النبی ہیں البتہ زہد و ورع ولایت الہی کی علامت ہے جو کوئی بھی ولی اللہ ہو گا اہل زہد و ورع ہوگا ایسا نہیں ہے کہ جو کوئی بھی اہل زہد و ورع ہو گا ولی اللہ ہوگا۔ خلاصہ یہ کہ جو چیز دولایت کے مقام بالا تک پہنچنے کے لئے فرض اور ضروری ہے وہ خدا اور اس کے اسمائے حسنیٰ کی معرفت اور عمل میں اخلاص سے عبارت ہے۔