Dars 14
ولایت در قرآن • آیة الله جوادی آملی
ابھی تک ہم نے تمین فصلوں میں ان عناوین کے تحت بحث کی الولایة ماهي : الولاية هل هي الولاية لو هی ؟ گویا ہم نے اس بارے میں گفتگو کی کہ ولایت کیا ہے، اس کا وجود ہے بھی یا نہیں ، نیز اس تک پہنچنے کا طریقہ کیا ہے ؟ اب ہم چوتھی فصل میں ، الولایة کربھی " کے عنوان پر گفتگو کریں گے۔ اس میں ہم ولایت کی اقسام کا ذکر کریں گے۔ اس فصل میں کودنی اور تشریعی لحاظ سے ولایت کی تقسیم کا ذکر ہوگا اور شریع ایک اعتباری چیز ہے لہذا اصل بحث میں وارد ہونے سے پہلے چند مقدمات کے ذکر کی ضرورت ہے۔ حقیقی اور اعتباری سے کیا مراد ہے۔ نظام علی میں حقیقی اور اعتباری دونوں امور شامل ہیں ۔ امور حقیقی اور اعتباری کی اللہ تعالے کی طرفت نسبت۔ ولایت - پر گفتگو کا آغاز اب ہم ان مریوینی اور تشریحی کا مفہوم ور میں: مقد منه اول : لفظ اعتبار ، کلمہ حقیقت کے بالمقابل چند اصطلاحات کے لیے استعمال ہوتا ہے : اصطلاح اول : اس اصطلاح سے وجود کے حقیقی یا اعتباری ہونے کی بحث میں استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس اصطلاح میں اعتباری ہونے سے مراد بالعرض تحقیق پذیر ہونا ہے۔ مثلاً جب کہا جاتا ہے کہ ماہیت امر اعتباری اور وجود امر حقیقی ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ تحقیق سب سے پہلے اور ذاتا وجود سے مربوط ہے اور اس کے بعد بالعرض ماہیت سے متعلق ہے ۔ اصطلاح دوم یہ اصطلاح مقولات کی بحث میں استعمال ہوتی ہے۔ وہاں پر بعض معقولات کے وجود کو وجود اعتباری کہا جاتا ہے، جیسے مقولہ اضافہ و نسبت جو طرفین اضافہ کے اعتبار سے موجود ہے۔ اصطلاح سوم : یہ اصطلاح معرفت کے باب میں اور اکات کو تقسیم کرتے وقت استعمال کی جاتی ہے۔ یہ تقسیم مدرک اور ادراک شدہ چیز کے لحاظ سے کی جاتی ہے۔ اگر مدرک ما بیات کی طرح خارج میں موجود ہو تو اس کے اور اک کو اور اک حقیقی کہتے ہیں لیکن اگر منطقی معقولات ثانیہ کی طرح ہو مثلاً کفیت و جریت یا نوع ، جنس اور فصل اتو اس کے اور اک کو اور اک اعتباری کہتے ہیں جس کا وجود صرف ذہن میں ہوتا ہے الہندا شجر اور انسان کا اور اک اور اک حقیقی ہے ، جبکہ کھیت اور نوعیت کا اور اک اور اک اعتباری ہے۔ جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا مختلف اصطلاحات میں استعمال ہونے والی یہ تقسیمات ایک دوسرے سے اس قدر مختلف ہیں کہ ایک اصطلاح میں جو اعتباری ہے دوسری اصطلاح میں حقیقی ہے مثلاً اصطلاح اول میں انسان کی ماہیت ایک امر اعتباری ہے جبکہ تیسری اصطلاح میں اس کا اور اک حقیقی ہے۔ اصطلاح چہارم : سے مذکورہ تمام اصطلاحات سے مختلف اور ان سب کے بالمقابل ہے اور یہی مورد بحث ہے۔ اس اصطلاح میں حقیقی ان موجودات سے عبارت ہے جن کے ہونے یا نہ ہونے میں انسان کا اختیاری عمل دخیل نہیں ہے جبکہ اعتباری سے وہ اشیاء اور امور مراد ہیں جو انسانی حیات کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ اس طرح سے کہ اگر انسان نہ ہو تو ان امور کی اصلاً بات ہی نہ ہو مثلاً ملکیت ، سر براہی زوجیت اور عضویت وغیرہ، گویا وہ تمام امور جو اخلاقی اور فقہی مسائل میں زیر بحث آتے ہیں۔ کیونکہ یہ فقط انسان ہے جو اپنے نظام زندگی کو چلانے کے لیے ان امور کا اعتبار کرتا ہے لہذا اگر انسان نہ ہو تو مالکیت اعتباری کا کوئی مفہوم ہے اور نہ عضویت ، زوجیت یا دیگر اخلاقی و حقوقی مسائل کا کچھ اعتبار ہے۔ جس طرح پہلے اشارہ کیا گیا اعتباریات کی یہ جو بھی اصطلاح ہمارے زیر بحث ہے۔ البتہ اس بات کی طرف توجہ ضروری ہے کہ امور کی حقیقی اور اعتباری میں تقسیم اپنے اس معنی میں جو اصول میں اور کہیں کہیں فقہ میں بھی آتی ہے، ایک فلسفی تقسیم ہے کیونکہ خود مستی (وجود) اور موجودات کے وجود کی حقیقت سے بحث فلسفے کے ذمہ ہے۔ ہاں اگر کسی شے کا خود وجود فلسفے میں ثابت ہو تو اس وجود مقید کے عوارض سے بحث علوم جزئیہ کے مسائل میں شمار ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ اصول" الموجود اما حقیقی و اما اعتباری، ایک فلسفی بحث ہے۔ یہ ثابت کرنے کے بعد کہ اور انتہاری وجود رکھتے ہیں ان علوم جزئی کے بارے میں بات کی جاتی ہے کہ جن کا محور یہ اعتباری امور میں اور اس کے لیئے ان مختلف اعتبارات کے حوالے سے کوشش کی جاتی ہے جو مختلف اعراض کے حصول کے لیے بنائے گئے ہیں۔ مقدمه دوم بچونکہ کوئی بھی ایسا امر نہیں جو اتفاقی و حادثاتی طور پر بغیر کسی سبب فاعلی کے علت و معلول کی حدود سے باہر وجود میں آجائے لہذا تمام حقیقی اور اعتباری امور ایسی ہی علت کا سہارا لیتے ہیں جو انھیں ایجاد یا ان کا اعتبار کرتی ہے ن ہے۔ مقدمه سوم : گذشتہ مباحث میں توحید ربوبی کی بنیاد پر یہ ثابت ہوا کہ ہر وہ امر جو اس عالم میں تحقق پذیر ہو اور جود و سہتی کہلا سکتا ہو، چاہے یہ امر حقیقی ہو یا اعتباری خداوند تعالے ہی کی طرف اس کی نسبت ہوتی ہے۔ مقدمه چهارم ولایت تکوینی اور ولایت تشریعی تکوین پر ولایت اور تشریح پر ولایت یعنی ولاية التكوين وولاية التشریع کی طرف ہی لوٹتی ہیں کیونکہ جس طرح پہلے گزر چکا ہے علت محلول کے لیے سر پرست اور معلول علت کے تحت تربیت اور مولی علیہ ہے ۔ لہذا اگر علت کوئی حقیقی کام انجام دے، مثلاً کرسی درخت یا انسان کو خلق کرے تو اس صورت میں علت اس امر تکوینی کی ولی یعنی وئی التکوین ہے اور اگر مالت کوئی اعتباری کام انجام دے تو اس لحاظ سے علت وتی اعتبار یا دوسرے الفاظ میں ولی التشریع ہوگی۔ اس بنا پر روح ولایت تشریعی جوقیم ولایت تکوینی ہے تشریع پر ولایت کی طرف ہی لوٹتی ہے کیونکہ خود ولایت تشریعی کوئی تشریعی اور اعتباری امر نہیں جبکہ ایک امر حقیقی ہے کیونکہ جو قانون کو بناتا ہے وہ قانون پر ولی ہوتا ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ وہ ایک اعتباری امر پر ولی ہے نہ کہ اس کی ولایت ایک امر اعتباری ہے۔ البتہ ولایت اعتباری بھی وجود رکھتی ہے ، مثلاً وہ ولایت جو شارع نے باپ کے لیے بیٹے کی نسبت قرار دی ہے۔ یہ ولایت اعتباری جو اپنی حدود میں شارع کی طرف سے مقرر کی گئی ہے اعتباری ہونے کے لحاظ سے ہرگز ولایت تکوینی کے مقابلے میں نہیں ہے بلکہ صرف وہ ملایت ولایت تکوینی کے مقابلے میں آتی ہے جس کا ولی ذاتا اور اصالتا قانون سازی کا حق رکھتا ہو نہ کہ اعتباری اور قرار دادی لحاظ سے۔ اور ایسی ولایت صرف خدا وند تعالے کی ولایت ہے جو قرار دادی نہیں ہے، جب کہ دوسری ولایتیں یعنی انبیاء اور اولیاء علیہم السلام کی قانون سازی پر دائیں سب قرار دادی ہیں۔ گذشتہ بحث سے یہ روشن ہوگیا کہ ولایت کی تشریعی اور تکوینی میں تقسیم در حقیقت ایسی تقسیم ہے جو موٹی علیہ کی تقسیم کے ضمن میں انجام پاتی ہے اگر مولی علیہ امیر تکوینی ہو تو دلی کی تکوین پر ولایت ہے اور اگر امر تشریعی ہو تو ولایت ولی سے مراد تشریع پر اس کی ولایت ہے۔ یہاں سے ارادے کی تکوینی اور تشریعی میں تقسیم کا معنی بھی واضح ہو جاتا ہے، کیونکہ ارادہ ایک صفت نفسانی ہونے کے لحاظ سے ہمیشہ ایک امر حقیقی ہے۔ البتہ یہ امر حقیقی " مراد " کے ضمن میں ارادہ تکوینی اور ارادہ تشریعی میں تقسیم ہوتا ہے کیونکہ د مراد ، کبھی تکوینی ہوتی ہے اور کبھی اعتباری۔ یہ در حقیقت ارادہ کو ارادۃ التکوین اور ارادة التشریع میں تقسیم کرنے کے معنی میں ہے۔ ارادہ تکوینی اور ارادہ تشریعی کے درمیان فرق کو روشن کرنے کے لئے نیز یہ جاننے کے لئے کہ ان دونوں کا اختلاف « مراد کی وجہ سے ہے، یہ کہا گیا ہے کہ متعلق ارادہ اگر خود انسان کا فعل ہیں مثلاً بیٹھنا، اٹھنا وغیرہ تو یہ ارادہ تکوینی ہے لیکن اگر متعلق ارادہ کیسی غیر کا فعل ہو تو یہ ارادہ تشریعی ہو گا مثلاً حکم کے ذریعے کسی دوسرے سے کوئی چیز طلب کی جائے۔ خداوند عالم کے ارادہ تکوینی اور ارادہ تشریعی میں فرق یہ ہے کہ خدا وند تعالے کا ارادہ تکوینی حتمی اور ناقابل تختلف ہوتا ہے۔ یعنی ممکن نہیں کہ خدا اپنے ارادہ تکوینی سے کسی چیز کا ارادہ کرے اور پھر وہ واقع نہ ہو۔ انما امره اذا اراد شيئًا ان يقول له كن فيكون دیقیاً امر خدا سے مراد یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے توکہتا ہے کن یعنی ہو جا نہیں ہو جاتی ہے) دئیں ۔۸۲) پوری کائنات لشکر الہی کی حیثیت سے اس کے فرمان تکوینی کی مطبع سے فقال لها وللأرض ائتيا طوعا اوكرها قالت اتنا طائعين ( حم السجدة ) قرآن کریم اس ہمہ گیر اتباع کو اسلام اور سب کے سربسجود ہونے سے تعبیر کرتا ہے۔ فرماتا ہے۔ وله اسلم من في السموات والارض . جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے اس کے حضور سرتسلیم ثم کینے ہوئے ہے د آل عمران ۸۳) ļ والله يسجد ما في السموات وما في الارض جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے اللہ کے حضور سربسجود ہے۔) وشحل - ۴۹) لیکن خدا کے ارادہ تشریعی میں مخالفت ممکن ہے، کیونکہ خدا کے ارادہ تشریعی میں اس ارادے اور خارجی فعل کے درمیان غیر کا ارادہ وعمل حائل ہو جاتا ہے۔ خدا وند کریم اس طرح کے ارادے میں مکلف انسان سے عمل چاہتا ہے اور چونکہ فسان خود مختار ہے لہذا کبھی اطاعت کرتا ہے اور کبھی سرکشی ۔ خدا کی ولایت تکوینی اور تشریعی مذکورہ مقدمات اور اصول کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ خدا ولایت حکومینی بھی رکھتا ہے اور ولایت تشریعی بھی ، اس لیے کہ توحید ربوبی کے لحاظ سے خدا ہی ہے جو اپنی ولایت کو بروئے کار لاتے ہوئے کون کائنات کا نظام چلاتا ہے اور وہی ہے جو ہمیشہ مختلف پہلوؤں سے اپنی ربوبیت استعمال کرتا ہے؟ كل يوم هو في شأن روہ ہر روز ایک نئی شان میں ہے۔) الرحمن - ۲۹ وحی کو ثابت کرنے کے بعد اور نبوت کو قبول کرنے کی بنا پر خدا ہی قانون سازی کا حق رکھتا ہے اور وہی ہے جو بنے ہوئے قانون کو پیغمبر کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ قرآن کریم جہاں قانون سازی خدا وند عالم سے منسوب کرتا ہے وہاں مثال کے طور پر یہ بھی فرماتا ہے کہ پیغمہ کو چاہیے کہ وہ ان بنے بنائے قوانین کوٹنے اور انہیں لوگوں تک پہنچائے چنانچہ فرماتا ہے : " لا تحرك به سانك لتعجل به ان علينا جمعه و قرانه تو اپنی زبان کو اس کی تلاوت میں تعمیل کی عرض سے حرکت نہ دے کیونکہ اس کی جمع آوری اور اسے پڑھانا ہمارے ذمے ہے) (قیامت ۲۰-۱۷) خدا وند کریم کی ولایت تکوینی کے بارے میں جو آیات نازل ہوئی ہیں وہ دو طرح کی ہیں۔ ان میں سے بعض آیات ولایت تکوینی اور تشریعی ہر دو کے بارے میں ہیں جبکہ بعض دوسری ولایت تشریعی سے مختص ہیں۔ من جملہ ان آیات میں سے جو ہردو کے بارے میں میں معروف آیت ، آیت الکرسی ہے: الله ولى الذين امنوا يخرجهم من الظلمات الى النور (اللہ ایمان لانے والوں کا ولی ہے اور انھیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے) (بقره - ۲۵۷) اس آیت کریمیہ میں ولایت تشریعی اس لحاظ سے شامل ہوتی ہے کہ خدا وند عالم نورانی قوانین بنا کر انسانوں کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف ہدایت کرتا ہے۔ كتاب انزلناه اليك لتخرج الناس من الظلمات الى النور باذن ربهم الى صراط العزيز الحميد» (ابراہیم ) یعنی اسے پیغمبر ! یہ قرآن تجھ پر نازل ہوا ہے تا کہ تو لوگوں کو نور کی طرف ہدایت کرے۔ پس مومنین کو نورانی کرنے کے لیے ولایت خدا احکام کو بنانے اور ان کے ابلاغ کرنے میں ہے۔ یہ احکام یا احکام تکلیفی ہیں مثلاً وجوب، حرمت، مستحب ، مکروہ یا احکام وضعی ہیں مثلاً صحیح ہونا، باطل ہونا ، طہارت ، سنجاست، وغیرہ۔ ولایت تکوینی کا اس آیت میں شامل ہونا اس جہت سے ہے کہ خداوند تعالیٰ توفیقات، میلانات اور انسان کے اندرونی جذبوں پر ولایت رکھتا ہے۔ اگر خدا وند عالم کے یہ دو فرمان : اقيحوا الصلوة وأتوا الزكوة له اور فاعلم انه لا اله الا الله واستغفر لذنبك و للمؤمنين له دیس خوب جان لے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے پس اپنے گناہوں کی معافی مانگ اور مومنین کے لیے استغفار کر) دو افراد کے لیے یکساں طور پر صادر ہوں اور پھر اس کے بعد ان دو افراد میں سے ایک کے لیے اطاعت و بندگی کی طرف کشش اور میلان حاصل ہو تو یہ درونی میلان کہ جو ایک امرتیکو بینی ہے اس کی باگ ڈور خدا وند متعال کے ہاتھ میں ہے کہ جو تکوین پر ولی ہے۔ پس مذکورہ آیہ میں قانون و فقہ پر خدا کی ولایت تشریعی بھی شامل ہے اور انسانوں کے دلوں پر اسکی ولایت تکوینی بھی۔ خدا وند عالم کی ولایت تشریعی پر دلالت کرنے والی آیات میں سے سورہ احزاب کی آیت ۳۶ بھی ہے، جس میں فرماتا ہے : . وما كان لمؤمن ولا مؤمنة اذا قضى الله ورسوله امرا ان يكون لهم الخيرة من امر هم و من يعص الله ورسوله فقد ضل ضلالاً مبينا ر اور کسی مومن یا مومنہ کے لئے مناسب نہیں کہ جب اللہ اور اسکا رسول کسی امر کا فیصلہ کر دے تو پھر اپنے اس امر میں ان کی کوئی (ذاتی) رائے دیا اختیار) رہے اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے وہ صریحا گمراہی میں مبتلا ہے ) یعنی اگر چه تکوینا سب صاحب اختیار ہیں ؟ فمن شاء فليؤمن ومن شاء فليكفر یہ وجو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر اختیارہ کرے) لیکن کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ جب خدا اور رسول کسی چیز کا حکم دیں تو وہ اس کی مخالفت کرتے ہوئے کسی اور چیز کو اختیار کرے اور ہر کوئی بھی اس کی مخالفت کرے گا وہ واضح ملالت اور گمراہی میں ہے۔ اس آیت میں ان لوگوں کی طرف کہ جو امر خدا کی مخالفت کریں عصیان و نافرمانی کی جو نسبت دی گئی ہے۔ یہ اس بات پر دلیل ہے کہ اس آیت میں خدا وند عالم کی ولایت اور فرمان تشریعی کی بات کی گئی ہے ورنہ جس طرح پہلے گزر چکا ہے خدا کی ولایت تکوینی کے مقابلے میں کسی کو عصیان و نافرمانی کی ہمت نہیں ہے۔ ایک اور آیت میں میں ولایت تشریعی کی بات ہوتی ہے سورۂ مبارکہ نما کی آیت ۹ہ ہے۔ اس میں فرمایا گیا ہے۔ د يا ايها الذين أمنوا أطيعوا الله واطيعوا الرسول و اولی الامر منكم یعنی خدا، رسول اور اولوالامر کی اطاعت کرو۔ جب توحید اور نبوت کی بحث مکمل ہو جائے تو خدا وند عالم کی ولایت تکوینی اور تشریعی کی بحث بھی مکمل ہو جاتی ہے۔ اس بات میں بھی جو کچھ ذکر ہوا ہے در حقیقت وہ فقط توجہ دلانے اور یاد دعائی کے لیئے۔ البتہ جو چیز زیادہ اہم ہے وہ انبیاء واولیائے الہی کیلئے ولایت کا ثابت کرنا ہے۔ چند مباحث کے ذریعے اس مسئلے کو روشن ہونا چاہیئے کہ کیا رسول خدا اور الله هدی یا یہاں تک کہ اولیاء میں سے مومنین کے لیے بھی ولایت ثابث ہے یا نہیں ؛ اور اگر ثابت ہے تو کیا ایک امرتشکیکی (شدت و ضعف) ہونے کے لحاظ سے مختلف درجات اور مراتب رکھتی ہے یا نہیں ؟ یہاں زیادہ تر بحث اولیاء الہی کے لیے ولایت تکوینی کے اثبات سے مربوط ہے کیونکہ خدا وند عالم کی طرف سے کسی ایسے شخص کے لئے کہ جو نبوت د رسالت پر مامور ہے ولایت تشریعی قرار دینا ایک واضح اور روشن سی بات والحمد لله رب العالمین