ولایت در قرآن

گفتگو کی منطقی نظیم ، ہماری گفتگو قرآن کریم میں ولایت انسان کے بارے میں ہے اس بحث کی منطقی تنظیم یہ ہے کہ پہلے ولایت کا معنیٰ کیا جائے یعنی " الولاية ماهی : اس کے بعد اس کی اصل ہستی اور وجود کے بارے میں بحث کی جانے یعنی ۔ الولاية هل ھی یعنی آیا وہ ہے بھی یا نہیں۔ بعد ازاں ولایت کی اقسام بیان کی جائیں یعنی " الولاية كم هى ، اس سلسلے میں ہر قسم کے بارے میں حکم مشخص کیا جائے پھر ہر قسم کے لیے بعض احکام کی علت ثبوت کو واضح کیا جائے

یعنی « الولاية بمهي»

ولایت کیا ہے؟ پہلی بات یہ کہ " الولاية ما هی ، اس کا جواب

یہ ہے کہ وہ ولایت جو اتصال و قرب کے معنی میں ہے اس کا استعمال کبھی امور معنوی میں ہوتا ہے اور کبھی امور مادی و جسمانی میں۔ ایسے دو امر کہ جو ایک دوسرے کے آگے پیچھے واقع ہوں ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان دو کے مابین توالی ہے۔ دو واقعات کہ جو یکے بعد دیگرے رونما ہوں تو کہا جاتا ہے کہ ان کے مابین سوالات ہے چونکہ "وٹی ، کا معنی ہے قرب دوسرا واقعہ چونکہ پہلے کے قریب ہوتا ہے اس لیے کہتے ہیں کہ ان کے مابین " ولا " یا " موالات» یا « توالی

ہے۔ حوادث و واقعات یکے بعد دیگرے یوں رونما ہوتے ہیں جیسے کڑیاں ہوں اور یہ کڑیاں متوالی بھی ہیں۔ لہذا موالات اور توالی واقعات کے باہمی ارتباط سے عبارت ہے اور اس سے مراد ہر واقعے کا دوسرے واقعے سے قرب ہے۔ جیسے مادی و محسوس امور میں یہ موالات موجود ہے ایسے ہی یہ توالی معنوی امور میں وجود رکھتی ہے۔ دو مقدمے باہم موالی و متوالی ہوں گے تو ان کا کوئی نتیجہ ہو گا اگر ایک قضیے کا رابطہ دوسرے قضیے سے علت و معلول کے لحاظ سے ہو تو کہتے ہیں کہ ایک مقدم ہے اور دوسرا تالی ہے۔ تالی چونکہ مقدم کے بعد اور

ساتھ ہے اس لیے اس کے لیے تالی یا والی کے الفاظ استعمال کیئے گئے ہیں۔ پیم اور متوالی امور کے مابین ارتباط ضروری ہے، اگر دو چیزوں کے درمیان کوئی رابطه موجود نہ ہو جیسے انسان کے پاس پتھر پڑا ہو تو ان دونوں کے درمیان رابطہ دلائی بے معنی ہے۔ اس رابطہ و تاثیر کی دو قسمیں ہیں، یا متقابل و دو طرفہ ہوتا ہے یا یکطرفہ اگر تاثیر متقابل و دو طرفہ ہو تو موالات بھی دو طرفہ ہوگی یعنی پہلا دوسرے کا ولی ہے لیکن دوسرا بھی پہلے کا ولی۔ لیکن اگر تاثیر یکطرفہ ہو تو پہلا دوسرے کا ولی ہے لیکن دوسرا پہلے کا مولیٰ علیہ ہے ولی نہیں۔ پہلی صورت میں یہ نسبت متوافقة الاطراف ہے مثل اخوت اور دوسری صورت میں متخالفۃ الاطراف ہے جیسے علیت و معلولیت یا ابونت و بوست

ولایت ایک امراضافی ونسی ہے اگر اس میں متقابل تاثیر و تاثر بھی ہو تو اس کا تعلق متوافقہ الاطراف نسبتوں سے ہوگا کہ جس میں طرفین ایک دوسرے کے ولی ہوتے ہیں لیکن اگر تاثیر و تاثر یک طرفہ ہو تو ولایت بھی یک طرفہ ہوگی ایسے موارد میں ولایت کو واؤ پر زبر ڈال کر پڑھا جائے گا اور ولی کو والی کہا جائے گا کیونکہ ولی کا معنی والی بھی ہے اور مولی علیہ (جس پر ولایت حاصل ہو) بھی ہے۔ مولا کبھی ایسے ہی ہے لیکن والی کو خاص طور پر سرپرست کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے اور جو صاحب ولایت ہو اس پر اس کا اطلاق ہوتا ہے " هنالك الولاية الله الحق خدا

والی ہے اور ولایت اللہ کو حاصل ہے کیونکہ وہ سرپرست ہے۔ لہذا اگر یہ تاثیر و تاثر دو طرفہ ہو تو موالات دو طرفہ ہے اور اگر یک طرفہ ہو تو رات کی بات ہے نہ ولایت کی اور اس صورت میں ایک والی ہے اور دوسرا موتی

علیہ ۔

ولایت کا وجود خارجی:

دوسرا سوال ہے " الولاية هلهی ، یعنی کیا ولایت موجود ہے یا نہیں ؟ حق بات یہ ہے کہ متقابل تاثیر و تاثر کے معنی میں اثبات ولایت آسان ہے کیونکہ انسان حلقہ نظام ہستی سے جدا کوئی موجود نہیں ہے بلکہ اس کا ارتباط دیگر موجودات سے ہے انسان آپس میں بھی ایک دوسرے سے مربوط ہے اس لحاظ سے ممکن ہے دو افراد کے مابین ولائے محبت و نصرت موجود ہو کہ جو متقابل و دو طرفہ تاثیر و تاثر سے عبارت ہے۔ ایک انسان دوسرے کا دوست یا ناصر ہے اس طرح سے کہ دونوں کو ایک دوسرے کی محبت بھی حاصل ہے اور نصرت بھی ۔ یہ ولایت یعنی محبت

ونصرت انسانوں میں موجود متقابل تاثیر و تاثر سے عبارت ہے۔

دنیا میں ولایت کے بھی اصل وجود کا اثبات کسی حد تک آسان ہے چونکہ جو شخص خود کو بہت سے امور میں عاجز و ناتوان پاتا ہے وہ ضروری سمجھتا ہے کہ کسی مدیر کی تدبیر و ولایت کے تحت ہو اور اسے اپنا سر پرست بنائے۔ لہذا ولایت کا اصل وجود بھی دنیا میں یقینی ہے ماہم بات یہ ہے کہ انسان کو چاہیئے کہ دو طرفہ ولایت ہو یا یک طرفہ سوچ سمجھ کر عمل کرے ۔ عقل دوحی کی روشنی میں ولی کے انتخاب میں سمجھ داری سے کام لے۔ قرآن کریم نے متقابل ولایت کے بارے میں فرمایا ہے کہ مونین آپس میں بھائی ہیں اور بھائیوں کو چاہیے کہ باہمی موالات کی حفاظت کریں الہندا فرماتا

ہے.

نیز یہ بھی فرمایا :

والمؤمنون والمؤمنات بعضهم اولياء بعض ( اور مومنین و مومنات آپس میں ایک دوسرے کے اولیاء ہیں) تھے۔ (1) یہ دونوں جملے ادبی اصطلاح میں خبر یہ ہیں لیکن انشاء کے لئے آئے ہیں یعنی دعوت دیتے ہیں کہ اسے مومنو! آپس میں ایک دوسرے کے بھائی بن کے رہو ، ایک دوسرے کے اولیاء بن کے رہو اور باہم ولاور رکھو ۔ چونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ انسان مومن سے بھی ولا رکھے اور غیر مومن سے بھی لہذا قرآن کریم نے ولاو کا راستہ بھی انسان کو بتایا ہے اور نفرت و عداوت کی علامتیں بھی اس کے راستے میں نصب کر دی ہیں۔ چنانچہ فرماتا

ہے

کہ یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنے اولیاء نہ بنائیں۔

بلکہ یہاں تک کہ کوئی بھی ہو کافروں میں سے کسی سے رشتہ ولایت قائم نہ

کریں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ :

"لا تتخذ واعدوى وعدوكم اولياء میرے اور خود اپنے دشمنوں کو اولیاء قرار نہ دو) - (ممتحنہ)

اور اس سے بھی بڑھ کر فرماتا ہے کہ اگر تمہارے آباء اور اولا د بھی تمہاری دینی روش پر نہ ہوں تو ان سے بھی ولائی رابطہ برقرار نہ کرو۔ اگر ابتداء تخلیہ سے نہ ہو یعنی جھوٹی اور باطل ولاؤں سے اگر نفس پاک نہ ہو تو تجلی اور تعلی تک کبھی بھی رسائی نہ ہو سکے گی۔ ابتدا میں انسان کے لئے وہ امر شخص ہونا چاہیے جس سے اُسے دوری اختیار

کرنا ہے پھر اسے چاہیے کہ اپنے میلان کو کوئی جہت بخشے ۔

خدا وند عالم نے جس طرح ہرات کے مسئلے کو کبھی جملہ انشائیہ میں اور کبھی جملہ خبریہ کی صورت میں بیان کیا ہے مسئلہ توئی کو بھی کبھی انشائی اور کبھی خبری صورت

میں بیان کیا ہے...... ۲۲ دسمبر ۱۹۸۸ء بدھ کے دن چار بیچ کر نیچاس منٹ کا وقت ہوا چاہتا تھا کہ اولیاء کفر و شرق و غرب کی سپر طاقتوں) کی طرف سے صدام کو دیئے گئے بموں سے قسم کے بازار پر بمباری ہوئی کہ جو بہت سے بے گناہ شہریوں کی شہادت کا باعث بنی۔ بموں کی آواز اور حاضرین کے اللہ کی اور " جنگ رہے گی جنگ رہے گی" کے نعروں سے استاد محترم کا سلسلہ کلام منقطع ہوگیا اور درس یہیں ختم ہو گیا ۔ والحمد لله رب العالمین ۔

یاد دهانی

ہماری بحث قرآن کریم میں ولایت انسان کے بارے میں ہے۔ بحث کے لئے بہترین طریقہ منطقی روش کا لحاظ کرنا ہے کہ سب سے پہلے یہ واضح ہو کہ ولایت ہے کیا ؟ - الولاية ماهی " اس کے بعد وجود ولایت کے بارے میں بحث کی جائے کہ " الولایة ھل ھی؟ اور پھر اس کے ثبوت پر دلائل یا اس تک پہنچنے کے لئے راہ کی شناخت کی جائے کہ الولاية لم هی یا دوسرے الفاظ میں یہ دیکھنا ہے کہ ولایت کا میڈ فاعلی اور اس مقام ولایت سے حاصل شدہ سیر و سلوک کیا چیز ہے؟ اور آخر میں اس کی اقسام کے بارے میں بحث ہو کہ الولاية كوهی و نیز ان اقسام میں سے ہر ایک کے آثار اور لوازمات بھی ذکر ہونگے۔

ولایت کی ماہیت

کبھی ولایت کی حقیقت کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ولایت رواؤ کے نیچے زیر) اور ولایت (واؤ کے اوپر زیر) کے درمیان بنیادی اور نوعی اختلاف اور مغایرت پائی جاتی ہے۔ لفظ ولایت ( واؤ کے نیچے زیر) محبت ، نصرت و مدد اور اسی طرح کے دوسرے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن ولایت (واؤ پر زیبا تدبیر اور سر پرستی کے معنی میں ہے۔ ناگزیر طور پر محبت و نصرت کے معنی میں ولام کی بحث تدبیر و سر پرستی کی ولاء کی بحث سے علیحدہ اور جدا ہوگی۔ لہذا ہم بھی في المحال ان دونوں کے بارے میں جدا جدا بحث کرتے ہیں تاہم بحث کے آخر میں انشاء اللہ تعالے واضح ہو جائے گا کہ ان دونوں کا جامع حقیقی موجود ہے

اور نوعی طور پر یہ ایک دوسرے سے مختلف نہیں۔

ولائے نصرت و محبت

ماہیت ولایت کی بحث میں ہم ولاو نصرت و محبت کے بارے میں بھی تحقیق کریں گے اور ولار تدبیر و سر پرستی کے بارے میں بھی۔ ولاء نصرت و محبت سے مراد یہ ہے کہ دو چیزیں قربت کی وجہ سے ایک دوسرے کی دوست ہوں اور باہم دیگر ناصرو مدد گار ہوں ۔ یہ اسرانسانوں کے مابین بھی ہو سکتا ہے، انسان اور خدا کے درمیان بھی اور اللہ تعالے اور اس

کے بندوں کے مابین بھی ۔ یہ قربت مادی امور میں متوافقة الاطراف نسبت کی حامل ہے یعنی اگر ایک جسم دوسرے کے نزدیک ہو تو وہ دوسرا بھی اس کے نزدیک ہو گا اسی طرح اگر ایک قسم دوسرے سے دور ہو تودہ دوسرا بھی اس سے دور ہو گا لیکن روحانی امور میں ممکن ہے یہ نسبت متخالفة الاطراف ہو یعنی ممکن ہے ایک امر دوسرے کے نزدیک لیکن دوسرا اس سے دور ہو، مثلاً اللہ تعالے سب انسانوں کے نزدیک ہے چاہے وہ مومن ہوں یا کا فرجیسا کہ فرمایا گیا ہے: نحن اقرب اليه من حبل الوريد

ہم اس سے اس کی رگِ جاں سے بھی قریب تر ہیں ۔ دقی - ۱۹) مومن چونکہ اعمال قربت بجالاتا ہے اس لیے خدا سے نزدیک ہوتا ہے۔ لیکن وہ انسان جس نے اپنے آپ کو اس عامل قربت سے محروم رکھا ہے وہ

اللہ سے دور ہوتا ہے۔ قرآن حکیم میں ہے ؟

اولئك ينادون من مكان بعيد .

وہ تو ایسے ہیں جیسے دور کے مقام سے پکارے جاتے ہوں۔

جبکہ اللہ کسی سے دور نہیں ہے کیونکہ ھو معکم این ما كنتم ہے دیعنی تم جہاں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے، اللہ تعالے سے کفار کی نسبت ایسی ہے جیسے بینا سے نابینا کی نسبت۔ بیٹا نا بینا کے نزدیک ہوتا ہے لیکن نا بینا بینا سے دور ہوتا ہے، بینا نا بینا کو دیکھتا ہے لیکن نا بینا بینا کو نہیں دیکھتا حالانکہ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔

ولایت چونکہ قرب سے حاصل ہوتی ہے اس لیے بندہ کی طرف سے شروع ہونی چاہیے کیونکہ اللہ تعالے کی طرف سے چاہیے نہ چاہے یہ قرب حاصل ہی ہے اللہ تعالیٰ کہ جو بکل شئی محیط ہے سرغنی پر احاطہ کئے ہوئے) ہے معقول نہیں کہ کسی چیز سے دور ہونپس اگر انسان اس نسبت کو برقرار کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ اچھے اعمال کے ذریعے اپنے آپ کو اللہ کے نزدیک کرے، اگر اس نے اپنے آپ کو قریب کر لیا تو آغاز ولایت یعنی نصرت محبت کی راہ پالی اور اگر نزدیک نہ ہوا تو نصرت و محبت ہی اس کے نصیب میں نہ ہو گی ولایت کے بالا تر مقامات کی تو بات ہی دور کی ہے۔ نماز اور زکوۃ جیسے اعمال انسان کو اللہ کے نزدیک کرتے ہیں جیسا کہ نماز

کے بارے میں فرمایا گیا ہے ۔

الصلوة قربان كل تقيت دنماز پر ہیز گار کو خدا کے قریب کرنے والی ہے۔

نيز ز کوۃ کے بارے میں فرمایا گیا ہے :

وان الزكوة جعلت مع الصلوة قربانا له د زکوۃ کو بھی نماز کے ساتھ ساتھ اللہ کے قریب کرنے والی بنایا گیا ہے ؟ جب یہ قرب حاصل ہو جائے تو انسان اللہ کا دوست بن جاتا ہے اور اللہ بھی انسان کا دوست بن جاتا ہے، انسان دین خدا کا ناصر بن جاتا ہے جیسا کہ اللہ بھی اس کا ناصر بن جاتا ہے۔ یہ دائرہ کہ جو اولین مراحل کا حصہ ہے اس میں ولایت کا حاصل محبت و نصرت ہے " ان كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله جیسی آیات ایسی ہی دو طرفہ محبت کے بارے میں ہیں۔ مومن انسان اللہ کا ولی اور دوست ہے اللہ بھی اس کا دلی اور دوست ہے۔ ولاو نصرت کا آغاز بھی اسی مرحلے میں ہو جاتا ہے ان تنصروا الله ينصر كمر و يثبت أقدامكم یہ آیہ شریفہ ولاء نصرت کو ثابت کرتی ہے یعنی تم بھی ناصر ہو اور اللہ منصور ہے اور اللہ بھی ناصر ہے اور تم منصور ہو۔ یہ محبتیں چونکہ دائرہ فعل میں ہوتی ہیں اور ذات اقدس الہی کے مقام سے انہیں کوئی سروکار نہیں لہذا اللہ کے منصور ہونے سے کوئی اشکال پیدا نہیں ہوتا۔ اللہ کے منصور ہونے سے مراد اس کے دین کا منصور ہونا ہے اور اس کی محبوبیت سے مراد اس ذات اقدس کے کمالات کی محبوبیت ہے وگرنہ ذات خدا کا عنقائے بلند پرواز شکار سالک نہیں ہوتا۔ لہذا آغاز امر پر انسان فرائض و نوافل کی بجا آوری سے ولاہ نصرت و محبت سے ہمکنار ہوتا ہے۔ یہ ولایت اللہ تعالے کی محبت و نصرت کے معنی میں ہے اور جو کچھ بھی اللہ کے ساتھ ہے حق ہے لہذا یہ ولایت محبت حق اور نصرت حق کے معنی میں ہوگی اور اس سے خلاف نہیں ہو سکتا یعنی اللہ کی محبت و نصرت دنیا میں بھی حق ہے اور موت کے بعد بھی اس کی حقانیت ظاہر ہوگی لیکن اگر کسی نے

موالات، قرب اور ارتباط اللہ کے علاوہ کسی اور سے قائم کر لیا تو وہاں بھی ولایت و تقرب ہوگا لیکن چونکہ غیر اللہ سے ہوگا اس لیے باطل سے ارتباط ولائی رکھتا ہو گا

کیونکہ قرآن حکیم کے مطابق : فماذا بعد الحق الا الضلال

د اور حق کے بعد سوائے گمراہی کے اور کیا ہے ) یونس - ۳۲

نیز فرمایا : " ذلك بان الله هو الحق وان مايدعون من دونه هو الباطل. دیہ اسلیئے ہے کیونکہ بلاشبہ اللہ ہی حق ہے اور جس کسی کو بھی وہ اللہ کے علاوہ پکارتے ہیں وہ باطل ہے۔) (حج - ۶۲)

دنیا میں چونکہ حق و باطل مخلوط ہے لہذا یاں حق و باطل میں تمیز نہیں ہوتی لیکن روز قیامت کہ جو روز ظهور حق ہے اور اس دن باطل کے لیئے کوئی گنجائش نہیں ہے باطل محبتوں کی اندرونی حالت کہ جو عداوت صادق اور دشمنی حق ہے ظہور کریگی اسی طرح نصرت کا ذب کا باطن بھی کہ جو مخالفت صادق ہے ظہور کرے گا اسی لیے

قرآن میں ہے :- الأخلاء يومئذ بعضهم لبعض عدو " دوست اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔) ایسا نہیں ہے کہ اس روز دشمن بنیں گے بلکہ قیامت میں ان کی دشمنی ظاہر ہوگی کیونکہ دنیا میں حقیقتا ایک دوسرے سے دشمنی کرتے تھے اور صورتا ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے لہذا یہ صوری محبت اس روز دکھائی نہیں دے گی اور حقیقی

دشمنی ظاہر ہو جائے گی ۔ الا المتقين، مگر متقین ، کیونکہ حقین کی محبت حقیقی ہے ان کا درون ان کے بیرون کی طرح حق ہے لہذا قیامت میں یہ محبتیں اسی طرح باقی رہیں گی

اور کھیل اٹھیں گی اور حد شفاعت کو پہنچ جائیں گی لہذا شروع شروع میں ولاد و قرب کا حاصل محبت و نصرت ہے چاہیے یہ ولاء اللہ سے ہو یا غیر خدا سے، فرق یہ ہے کہ اللہ سے ارتباط محبت و نصرت صادق ہے جبکہ غیر خدا سے

ارتباط محبت و نصرت کا ذب ہے۔

ماہیت ولایت قرآن کی نظر میں

بحث کے پہلے حصے و الولاية ما هی دیعنی ولایت کیا ہے؟

کے بارے میں قرآن کریم میں بہت سی آیتیں ہیں ۔ سورہ مبارکہ آل عمران کی آیت ۲۸ میں فرمایا گیا ہے : لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ د مومنین ہرگنہ کا فروں کو اپنا ولی اور دوست نہ بنائیں ۔)

یہ ممانعت اس لیے ہے چونکہ ولایت کا یہ پہلا مرحلہ کہ جس کا حاصل محبت و نصرت ہے ولایت کے اس آخری مرحلے تک جا پہنچتا ہے کہ جس کا نتیجہ سر پرستی اور تدبیر

ہے لہذا بعد ازاں ارشاد فرمایا گیا ہے: " ومن يفعل ذلك فليس من الله في شيء الا ان تتقوا منهم نفة ويحذركم الله نفسه والى الله

المصير اور جو کوئی ایسا کرے گا اسے اللہ سے کوئی سروکار نہیں سوائے اس صورت کے کہ تمہیں ان سے کسی قسم کا خوف ہو اور اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف بازگشت ہے۔

سورہ مبارکہ مائدہ کہ جس میں بہت سے مسائل ولایت موجود ہیں کی آیت

۵۱ میں فرمایا گیا ہے : ايها الذين أمنوا لا تتخذوا اليهود والنصارى اولياء بعضهم أولياء .

بعض ومن يتولهم منكو فانه منهو ان الله لا يهدى القوم الظالمين داے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو یہود و نصاری کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ وہ تو آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو تم سے ان کو دوست بنائے گا وہ ان میں سے ہی (شمار) ہو گا بیشک اللہ ظالم

لوگوں کی حمایت نہیں کرتا ۔

یہاں فرمایا گیا ہے کہ انہیں اپنا ولی نہ بنائیں کیونکہ اگر انہیں اپنا ولی یعنی محب، محبوب ، ناصراور منصور بنائے تو ممکن ہے کہ اس کا نتیجہ یہ نکلے کہ وہ مدبر و سر پرست کے معنی میں ولی بن جائیں لہذا اللہ تعالے انسان کو اس بڑے خطرے سے بچانے کے لیے ان سے قرب و محبت اور نصرت کی ولاد سے منع کرتا ہے۔ اسی سورہ کی آیت

۵ میں فرمایا گیا ہے : يا ايها الذين أمنوا من يرتد منكو عن دينه فسوف يأتى الله بقوم يحبهم ويج رائے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم میں جو بھی اپنے دین سے مرتد ہو جائیں تو عنقریب اللہ تمہاری جگہ ایسے لوگوں کو لے آئے گا جن سے وہ مجمیعت کرتا ہے اور جو اس سے محبت کرتے ہیں) یہ ولایت متقابل ہے کہ جس کا نتیجہ محبت متقابل ہے بندا فرمایا گیا ہے کہ اگر تم نے دین سے دوری اختیار کی تو اللہ تعالے الیوں کو لے آئے گا جو خود بھی اللہ کے محبوب ہوں گے اور اللہ بھی ان کا محبوب ہوگا اور وہ اس کے دین کی مدد کریں گے۔ اسی سورہ کی آیت ۵ میں ہے :-

" يا ايها الذين أمنوا لا تتخذوا الذين اتخذوا دينكم هزوا و لعبا من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم و

الكفار اولياء"

راسے ایمان لانے والو جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی دینی یہود ونصاری) ان میں سے ایسوں کو جنہوں نے تمہارے دین کو کھیل تالہ

سمجھ رکھا ہے، اور کفار کو دوست نہ بناؤ)

اہل کتاب اور کافروں کو اپنے اولیاء نہ بنائیں یعنی اول سے ہی ان سے رابطه دوستی قائم نہ کریں تا کہ رفتہ رفتہ اس کا انجام ولاو تدبیر و سر پرستی کا رابطہ نہ ہو جائے۔ اسی سورہ کی آیت ۵۵ میں ولایت امیر المومنین علیہ السلام کا ذکر ہے : انعا وليكو الله ورسوله والذين امنوا الذين يقيمون الصلوة ويؤتون الزكوة وهم راكعون

د بیشک تمہارے سر پرست اللہ اور اس کا رسول اور وہ ایمان والے ہیں جو کہ نماز قائم کرتے ہیں اور رکوع میں زکواۃ ادا کرتے ہیں۔) ان آیات میں اساس ولایت، ولایت تدبیر و سر پرستی ہی ہے سورہ انفال کی آیت ۷۲ میں فرمایا گیا ہے :

" ان الذين أمنوا وهاجروا وجاهدوا باموالهم وانفسهم في سبيل الله والذين ووا ونصروا أولئك بعضهم أولياء بعض والذين امنوا ولم يهاجروا مالكو من ولايتهم من شئ حتى يهاجرواوان استنصر وكم في الدين فعليكم النصر الأعلى قوم بينكم وبينهم ميثاق والله بما

تعملون بصير د بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور اپنی جانوں اور اپنے مالوں کے ساتھ جہاد کیا اور وہ لوگ جنہوں نے انہیں پناہ دی اور مدد کی وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور وہ جو ایمان لائے مگر انہوں نے ہجرت نہیں کی تمہارے ذمہ ذرا بھی ان کی سر پرستی نہیں جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں اور اگر دین کے معاملے میں وہ تمہاری مدد چاہیں تو تمہارے ذمہ ان کی مدد (کرنا ہے سوائے اس قوم کے خلاف جین کے ساتھ تمہارا کوئی معاہدہ ہو اور اللہ دیکھنے والا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔

یعنی مہاجرین و انصار آپس میں ایک دوسرے کے اولیاء ہیں لیکن جو اہل ایمان اور اہل ہجرت نہیں ہیں وہ تمہاری ولایت کے حامل نہیں ہیں نہ وہ تمہاری ولاء نصرت و محبت سے بہرہ ور ہیں اور نہ ہی ولاء تدبیر و سر پرستی سے بیہاں پر لفظ ولایت، واؤ پر زبر کے ساتھ آیا ہے کہ جو تد بیر و سر پرستی کی بھی نفی کر رہا ہے اور محبت و نصرت کی بھی البتہ کلمہ " ولایت، واؤ پر زبر کے ساتھ جو سورہ کہف میں آیا ہے ۔ هنالك الولاية الله الحق ، وہاں ولایت ہے کہ بیر و سر پرستی

ہی مراد ہے۔

سورہ انفال کی آیت ۳ء میں مزید فرمایا گیا ہے :

" والذين كفروا بعضهم أولياء بعض "

کفار آپس میں ایک دوسرے کے اولیاء ہیں اور ایک دوسرے کی محبت و نصرت سے بہرہ ور ہیں مومنین بھی باہم اولیاء ہیں اور ایک دوسرے کی نصرت و محبت سے بہرہ ور ہیں لیکن یہ دو گروہ یکساں نہیں ہیں بلکہ معیار ولایت مرکز قرب ہی ہے اگر مرکز قرب حق ہوا تو یہ ولایت اور نصرت و محبت حق ہے اور اس کا نتیجہ برخلاف نہیں نکلے گا اور اگر مرکز قرب باطل ہوا تو یہ ولایت اور محبت و نصرت

سب باطل ہیں اور ان کا نتیجہ بر خلاف ہی نکلے گا۔

ولایت باطل کا انجام

سورۃ مبارکہ توبہ کی آیت اے میں فرمایا گیا ہے،

" والمؤمنون والمؤمنات بعضهو اولياء بعض اور مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں) اس کی علامت یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو بھلائی کی دعوت دیتے ہیں۔ " يأمرون بالمعروف وينهون عن المنكر

روہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔)

اس امر کا راز کہ ولایت منافقین باطل ہے اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے دالی محبت و نصرت کا ذب ہے سورۂ توبہ کی آیت 4 میں یوں بیان فرمایا گیا ہے "المنافقون والمنافقات بعضهم من بعض " ر منافق مرد اور منافق عور تیں آپس میں ایک ہی کچھ ہیں ؟

یعنی وہ مختلف قالبوں میں ایک حقیقت ہیں۔

" يأمرون بالمنكر وينهون عن المعروف » ایک دوسرے کو برائی کی دعوت دیتے ہیں اور اچھے کاموں سے

روکتے ہیں۔ برائی کی دعوت اور گناہ پر ابھارتا نصرت کا ذب اور محبت باطل ہے اور جس روز حق ظہور کرے گا معلوم ہو گا کہ یہ ایک دوسرے کے دشمن تھے قیامت میں ان کی عداوت ظاہر ہوگی پیدا نہیں ہوگی جو لوگ دنیا میں دوستی کے لباس میں گناہ کی دعوت دیتے ہیں حقیقتا ایک دوسرے کے دشمن ہیں قیامت میں دنیا کا یہ جھوٹا لباس اُٹھ جائے گا اور نیچے سے اخروی لباس ان کے راز ظاہر کر دے گا اور معلوم ہو جائے گا کہ یہ تو ایک دوسرے کے دشمن تھے الندا وہاں ایک دوسرے کوانت

کریں گے جیسا کہ سورہ اعراف کی آیت ۳۸ میں ہے :

كلما دخلت امة لعنت اختها

داور جو بھی ایک است داخل ہوگی تو اپنی بہن (دوسری است) پر

لعنت کرے گی۔ وہ سب دوست اور اولیاء کہ جن کا خدا سے رابطہ نہیں ہے وہ باطل سے مربوط ہیں، اور باطل سے ارتباط کا حاصل جھوٹی محبت اور کاذب نصرت کے سوا کچھ بھی نہیں پیور اگر محبت جھوٹی ہو تو عدادت سچی ہو گی اور اگر نصرت کا ذب ہو تو مخالفت صادق ہو گی نیمکن نہیں کہ عداوت بھی جھوٹی ہو اور محبت بھی معقول نہیں کہ نصرت بھی کا ذب ہو اور مخالفت بھی لہذا اگر نصرت کا ذب ہے تو مخالفت

حقیقی ہے اور اگر محبت کا ذب ہے تو عداوت صادق ہے لہذا قرآن کریم فرماتا ہے سب غیر دینی دوست قیامت میں ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے اس امر کا راز سورۂ مبارکہ تو بہ میں ہی واضح کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ یہ لوگ در حقیقت دنیا

میں ہی ایک دوسرے کے دشمن تھے البتہ سمجھتے نہ تھے :

المنافقون والمنافقات بعضهم من بعض يأمرون بالمنكر

وينهون عن المعروف ويقبضون أيديهم دمنافق مرد اور منافق عورتیں آپس میں ایک ہی کچھ ہیں وہ برائی کا حکم دیتے ہیں اور نیکی سے منع کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں بخل کرتے ہیں ) تو بہ ۔

اسلامی معاشرے کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں، عوام سے انہیں کوئی سرکار نہیں ہوتا اور ایک دوسرے کو برائی کی تشویق کرتے ہیں ، منکر کی دعوت دینا اور معروف سے روکتا واقعا دوستی کے لبادے میں دشمنی ہے۔

ولایت حق اور ولایت باطل میں امتیاز

ولایت حق اور ولایت باطل میں فرق کا معیار مولا ہی ہے اگر مولا خدا ہے تو دلایت حق ہے اور اس کے تمام نتائج بھی حق ہیں اور اگر مولا غیر خدا ہے تو ولایت باطل ہے اور اس کے سارے نتائج بھی باطل ہیں اسی لیے اللہ تعالے فرماتا ہے کہ عالم میں دو سے زیادہ مول نہیں ہیں، ایک مولا خدا ہے اور دوسرا آگ۔ آگ کا فروں اور منافقوں کی مولا ہے " ماورکم النارجي مولكم" (حدید - ۱۵) تم ولی نار تھے اور خیال کرتے تھے کہ زید و عمر کے ولی ہو لیکن قیامت میں کہ جب حقیقت ظہور کرے گی تو پتہ چلے گا کہ تم تو ولایت نار کے ماتحت تھے۔ تم ولی نار ہو گئے ہو اور نار تمہاری ولی ہو گئی ہے۔ تم نے آگ جلائی اور اگ نے بھی تمہاری مدد کی تمہیں مشتعل کیا اور جلا ڈالا اس وقت تم متوجہ نہ تھے کہ

ولایت نار کے ماتحت ہو وبئس المصير، جب کہ اللہ مومنین کا مولا ہے نعم المولى ونعم النصیر» (وہ کتنا اچھا مولا ہے اور کتنا

اچھا مددگار) - (انتقال - ہم)

اللہ تعالے نے مختلف انداز سے ان دو مولا کا ذکر کیا ہے سورۂ مبارکہ می

کی آیت ۱۵ میں ارشاد ہوتا ہے:

" فاليوم لا يؤخذ منكم فدية ولا من الذين كفروا ما وابكم النار هي مولكم وبئس المصير

اپس آج کے دن نہ تم سے اور نہ ہی ان سے جنہوں نے کفر اختیار کیا کوئی فدیہ لیا جائے گا تمہارا ٹھکانا آگ ہے وہی تمہاری مالک ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے۔

تمہارے لیے بری تبدیلی آئی سنار بری مسیر ہے ، مصیر کا لفظی معنی ہے ہونا " صیووت یعنی تم برے ہو گئے یہ خود تم آگ بن گئے یہ " مصير ص سے ہے اس سے نہیں کہ انسان گمان کرے کہ اس کی سیر یا سفر نار کی طرف ہے۔ بلکہ در حقیقت وہ خود آتش ہو رہا ہے لہذا قرآن کریم کی بعض آیات اس

طرح سے ہیں : فَأَمَّهُ هَاوِيَةٌ وَمَا ادريكَ مَاهِيَة نَارٌ حَامِيَةٌ ، رقارعه، ۹ تا ۱ فرمایا کہ یہ لوگ اپنی ماں یعنی آگ کے تحت تدبیر ہیں جیسے ماں بچے کو غذا دیتی ہے اور اپنے دامن میں اس کو پالتی ہے۔ یہ بھی فرزند نماز میں ناران کی تدبیر کرتی ہے بعد کی گفتگو میں واضح ہوگا کہ بعض لوگ واقعا تد بیر آتش کے ماتحت کیا

اور بعض واقعا خدا تعالے کی تدبیر کے ماتحت ہیں۔

پہلے مرحلے کی بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ ولاء چونکہ قرب کے معنی میں ہے

لہندا اگر کوئی موجود حق کے قریب ہوا تو آثار حق اس میں ظاہر ہوں گے اور اس کا حاصل محبت صادق اور نصرت صادق ہے اور اگر کوئی باطل کے نزدیک ہوا تو یہ ولاء باطل ہے اور اس کا حاصل محبت و نصرت باطل ہے محبت و نصرت باطل کا معنی یہ ہے کہ اگر ظاہر میں محبت و نصرت ہے لیکن باطن میں عداوت و مخالفت ہے اور روز قیامت کہ جو حق و باطل کے مابین امتیاز کا مقام ہے، وہ درونِ باطل بیرون حق نما سے جدا ہو جائے گا، وامتازوا اليوم ايها المجر مون

رائے مجر مو ! آج کے دن جدا ہو جاؤ ) نیس ۔ وہ اس وقت یہ مجرم آتش میں داخل ہوں گے۔

والحمد لله رب العالمين