Dars 8
ولایت در قرآن • آیة الله جوادی آملی
قرآن کریم میں ولایت انسان کی بحث کی تیسری فصل کا خلاصہ یہ تھا کہ ولایت کے وجود میں آنے کا اہم ترین عامل معرفت اور مخلصانہ عمل صالح ہے یہ دونوں فرینہ کی مانند ہیں اور باقی چیزیں نافلہ کی مانند - اساس ولایت سے متعلق وہ معرفت ہے کہ جس کا نتیجہ توحید، توحید صفاتی اور توحید ذاتی ہے، اس طرح سے کہ انسان سر فعل صفت اور ذات کو اللہ تعالیٰ کے فعل صفت اور ذات میں فانی پائے۔ ایسی معرفت انسان کے ولی اللہ ہو جانے کا سبب بنتی ہے لیکن وہ معرفت کہ جو نظم امکان ، حدوث یا دیگر براہین عقلی کا نتیجہ ہے اس میں یہ دم خم نہیں کہ توحید افعالی توحید صفاتی اور توحید ذاتی کا باعث بنے لہذا وہ انسان کو مقام ولایت تک نہیں پہنچاتی بلکہ زیادہ سے زیادہ عبادت یا زہد وغیرہ جیسے اخلاقی کمالات کا باعث نبی ہے۔ توحید افعالی اساس ولایت ہے الیسی معرفت کہ جو اساس ولایت ہے، کے حصول کے لیے قرآن کریم کی بعض آیات میں تدبر ضروری ہے ان میں سے ایک آیت یہ ہے: و ما بكم من نعمة فمن الله الحل - ۵۳) اس آیہ شریفہ سے مراد یہ نہیں ہے کہ تمام نعمتوں کا سرچشمہ اور مبدا پیش فقط خدا ہے، اس طرح کہ یہ نعمتیں صرف اپنی پیدائش اور حدوث میں خداوند سبحان سے منسوب ہیں لیکن اپنی بقاء کے لیے اس کی محتاج نہیں ہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ ہر وہ نعمت کہ جو اس عالم مستی میں تحقق پذیر ہوتی ہے اپنی پیدائش اور نقادونوں اعتبار سے خدا کی محتاج ہے کیونکہ ہر نعمت کا جسم و بدن اللہ تعالے کی ملک ہے اور خدا ہی اس کا مالک ہے نیز اس میں تصرف اور تسلط بھی اس کا ملک ہے کیونکہ اللہ تعالے میک ہے اور یہ تصرف و تسلط آیہ کریمہ مالک الملک کی بناء پر کہ جو تسلط و تصرف کو اسی کی ذات کے لیئے مختص سمجھتی ہے، اسی کی ملک مطلق ہے۔ یه دانش و بینش انسان کو تنبیہ کرتی ہے کہ تمام نعمتیں امانت کے طور پر انسان کو دی گئی ہیں اور وہ ان امانتوں کا امین ہے نہ کہ مالک ۔ اس لحاظ سے ان امانتوں کو جتنا جلدی ہو سکے اس کے حقیقی مالک کہ جو اللہ تعالیٰ ہے کو لوٹا دے : ان الله يأمركم ان تؤدها الامانات إلى اهلها . د تحقیق اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے ملکوں کی طرف لوٹا دیا کروں دنام - (۵۸) انسانی وجود دو ہستی ایک الہی امانت ہے اور ولایت کے بلند و بالا مقام کے حصول کی ایک شرط یہ ہے کہ یہ امانت موت سے پہلے اس کے مالک کو لوٹا دی جائے کیونکہ موت کے وقت تو وہ چاہے نہ چاہیے یہ امانت اس سے لے لی جائے گی اور زبردستی لوٹائے جانے کو ادائے امانت نہیں کہتے۔ پس جب کو چڑ ولایت کے سالک و راہی نے ہر اس چیز سے ہاتھ کھینچ لیا کہ جو اس کے اختیار میں ہے تو سرور و سردار اولیاء النبی حضرت اتم الانبیاء صلی اللہ علیہ واہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے اس حقیقت کی یوں نغمہ سرائی کرے گا کہ " لا املك لنفسي نفعا ولا ضرا یعنی کسی چیز کا بھی مالک نہیں ہوں ۔ نہ تو اصل مال کا اور نہ اس کے نفع (ونقصان) کا اور نہ ہی اس کے کسی اور فائدے کا ۔ کیونکہ انسان یا تو خود چیز کا مالک ہوتا ہے جیسے کوئی قالین خرید سے (تو اس کا مالک بن جاتا ہے، یا اس کے نفع کا مالک ہوتا ہے جیسے اگر اسی قالین کو کرائے پر لے ۔ یا نہ تو خود شے کا مالک ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے نفع کا بلکہ دیگر فوائد کا مالک بنتا ہے مثلاً اگر اسی قالین کو ماریا ہے لے۔ ان صورتوں کے علاوہ نہ تو وہ خود چیز کا مالک ہوتا ہے اور نہ ہی نفع اور نہ ہی دیگر فوائد کا۔ اللہ تعالے اپنے پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ وہ یوں " قل لا املك لنفسى ضرا ولا ننها الا ماشاء الله لكل امة اجل اذاجاء اجلهم فلا يستأخرون ساعة ولا يستقدمون " کہہ دے کہ میں اپنے نفس کے لئے کسی سود و زبان پر قادر نہیں ہوں سوائے اس کے کہ جو اللہ چاہیے، ہر امت کے لیے ایک وقت معین ہے۔ پس جب اس کا وقت آجاتا ہے تو نہ وہ ایک ساعت تاخیر اور نہ ہی تعمیل کر سکتے ہیں) دیونس - ۴۹) اگر نکرہ نہی کے ساتھ واقع ہو تو عمومیت کا مفہوم دیتا ہے یعنی میں کسی بھی چیز کا مالک نہیں ہوں۔ کمترین نفع کا حصول یا کمترین ضرر سے بچاؤ میری دسترس میں نہیں ہے یہ آیہ شریفہ قرآن میں دو جگہ پر آئی ہے۔ آیت کی ابتداء میں "قل (کیو) کی تعبیر سے مراد صرف زبانی کہنا نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالے ان آیات سے اپنے رسول کو عالم و آگاہ کر رہا ہے، اسے ذاکر و قائل نہیں بنا رہا ۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ یہ رہی وحی ہے کہ جو پہلے تیرے دل پر نازل ہوئی۔ نزل به الروح الامین على قلبك، اور اب اسے تیری زبان پر جاری ہونا چاہیئے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ قول حضرت موسی سلام اللہ علیہ کے اس قول کے منافی نہیں ہے کہ جسے قرآن نے یوں نقل کیا ہے۔ ائی لا املك الانفى داخی کیونکہ موسیٰ علیہ السلام کا یہ قول تشریعی مسائل کے ضمن میں ہے۔ موسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں : خدایا تو نے حکم دیا کہ ہم ایمان لائیں تو مجھے فقط اپنے ایمان لانے پر اختیار تھا اور میں ایمان لے آیا۔ میرے بھائی کو بھی صرف اپنے ایمان پر اختیار تھا پس وہ بھی ایمان لے آیا اور اس سے زیادہ ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں اس آیت کا معنی یہ نہیں کہ میں صرف اپنا اور اپنے بھائی کا مالک ہوں کیونکہ اس صورت میں اخی ، کو نفسی ، پر علف لینا پڑے گا جب کہ یہ احتمال بہت بعید ہے۔ قومی احتمال یہ ہے کہ "اخی " اسم " ان "یا " املک میں موجود صنمیر " انا ، پر له شهراه ۱۹۳ ۱۹۴۰ که مانده ۲۵۰ عطف ہو۔ بہر حال یہ مالکیت تشریعی لحاظ سے ہے جب کہ تکوینی پہلو سے کوئی کسی چیز کا مالک نہیں ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مالکیت کی نفی پر مبنی قول تکوینی پہلو کے بارے میں ہے۔ لہذا یہ حضرت موسی سلام اللہ علیہ کے قول سے کوئی تضاد نہیں رکھتا کہ جو تشریعی پہلو کے بارے میں ہے۔ اگر انسان معرفت کے لحاظ سے اس مقام تک پہنچ جائے تو پھر اپنے آپ کو کسی کام کا مبداء پاتا ہے اور نہ کسی اور کو، بلکہ تمام کاموں کو رب العالمین کی تدبیر کے ما تحت دیکھتا ہے بنا محمد وستائش کے لیے اس کے لب لیوں وا ہوتے ہیں: فلله الحمد رب السموات ورب الارض رب العالمين له اس آیہ کریمہ میں کلمہ رب تین مرتبہ آیا ہے کہ جو اس آیت کی خصوصیات میں سے ہے اور اس کی عظمت کی علامت ہے ایک اور نکتہ کہ جو اس آیت کریمیہ میں قابل ملاحظہ ہے یہ ہے کہ " رب العالمین کا کلمہ ربّ السموات ، اور رب الارض کے لیے بیان ہے یعنی تفسیر و توضیح ہے اور ان پر عطف نہیں ہے۔ توحید افعالی کے بارے میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے یہ راز کھل جاتا ہے کہ اللہ تعالے نے فتح مند مجاہدین کی طرف قتل کفار کی نسبت دینے کی بجائے اپنے آپ سے کیوں دی ہے۔ فلم تقتلوه ، تم نے انہیں قتل نہیں کیا د ولكن الله قتل ہوتے بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا ہے اس امر کی وضاحت یہ ہے کہ اگر ہم محاف جنگ پر ایک ایسا آئینہ نصب کریں کہ جس میں سپاہیوں کا عکس دکھائی دے اب جو عکس دیکھنے کے لئے بیٹھا ہے انھیں مخاطب کر کے کہہ سکتا ہے کہ تم جنگ نہیں کر رہے ہو بلکہ صاحب صورت لڑ رہا ہے اور کامیاب ہو رہا ہے۔ اس مثال کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ جو مجاہد محاذ جنگ پر حاضر ہوتا ہے حق تعالے کی صورت مرآتیہ ہے۔ اس لحاظ سے صحیح ہے کہ اس سے کہا جائے کہ اسے صورت حق تو نے دشمن کو شکست نہیں دی بلکہ تیرے صاحب اللہ تعالے نے یہ کام کیا ہے اور " فلم تقتلوهم میں نفی" ولكن الله قتل ہو، میں اثبات مجازی ہے حقیقی نہیں۔ البتہ حق تعالیٰ کا فعل جنگ و جہاد سے مختص نہیں ہے بلکہ تمام اچھے کام، اطاعتیں اور عبادت میں حق تعالے کا فعل ہیں جو مختلف مظاہر میں ظہور کرتا ہے البتہ معصیت ، نقص اور شر اللہ تعالے کی ساحت قدس سے دور ہیں ۔ لہذا اسکی طرف نسبت نہیں دی جاسکتی ہیں وجہ ہے کہ للہ تعالی ان کے چند گناہوں کا ذکر کرنے کے بعد فرماتا ہے۔ كل ذلك كان سيئه عند ربك مكروها . دان تمام باتوں کی برائی درجن سے منع کیا گیا ہے، تیرے رب کے نزدیک نا پسندیدہ ہے) سے اسی طرح اگر کوئی آئینہ کو ما ينظر فيها تا جو کچھ اس میں دیکھا جائے کے عنوان سے دیکھے پھر وہ آئینے میں صورت کو نہیں دیکھتا۔ جو کوئی مفرور اور خود بینی میں مبتلا ہو وہ مشاہدہ جمال حق سے محروم رہتا ہے اس سب گناہ خود بینی کی طرف لوٹتے ہیں اور ولایت الہی کے منافی ہیں۔ وہ ولایت الہی کہ توحید افعالی جس کے لازم ترین مقدمات میں سے ہے۔ بندوں کے ذمصرف غیر خداکی ملکیت نہ ماننا ہے ایک اور نکتہ یہ ہے کہ اس وقت تک یہ بات واضح ہوئی کہ غیر خدا سے ہر طرح کی ملک اور ملک کی نفی کی جائے گی اور اسے صرف خدا کے لیئے مانا جائے گا۔ جو چیز نہایت اہم ہے وہ یہ ہے کہ انسان کے ذمہ صرف دوسروں سے مالکیت کی فنی کرنا ہے اور یہ نفی مالکیت اس معنی میں نہیں کہ انسان پہلے اپنی اور دوسروں کی مالکیت کی نفی کرے پھر خدا کے لیے مالکیت قرار دے بلکہ معرفت انسان رخ آئینہ سے غبارمان کرنے کی مانند ہے اس سے اللہ کی مالکیت مطلقہ کے ظہور کا راستہ ہموار ہوتا ہے ۔ اللہ کی مالکیت اس کے وجود کی طرح مسلم اور ناقابل تغیر حقیقت ہے کہ جو مہر انسان کی فطرت اور طبیعت میں گوندھ دی گئی ہے اور ایک حق طلب انسان کی ذمہ داری یہ ہے کہ اس حقیقت کے شہود کے لیئے اپنی نگاہ بصیرت کے سامنے سے پردے ہٹائے اور حقیقت کے روح زیبا کا اپنی فطرت کے نہاں خانہ میں نظارہ کرہے۔
یہی بات توحید کے بارے میں اور کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کے معنی کی تحلیل میں کہی جاسکتی ہے یہ کلمہ طیبہ دو جملوں اور دو جدا جدا قضیوں میں تحلیل ہو سکتا ہے، ایک نئی طاغوت کے بارے میں اور ایک اثبات حق کے بارے میں میقام روح انسان مقام تو حید ہے۔ خدائے یکتا کا حضور و ظہور سب انسانوں کی فطرت میں ہے اس لحاظ سے الا یہاں غیر کے معنی میں ہے اور اس کلمۂ طیبہ کی بازگشت صرف ایک قضیہ کی طرف ہے کہ جس کا نتیجہ مقتضائے فطرت ہی کو ثابت کرتا ہے اور مراد یہ ہے کہ اس خدا تعالے کے علاوہ کوئی اور خدا نہیں کہ جسے انسان کی فطرت پالیتی ہے اللہ کی مالکیت کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے اللہ تعالے اپنے رسول سے کہتا ہے کہ تو کہہ دے کہ تحریک اور اور اک کی قوتوں میں میری کوئی مالکیت نہیں اور اسی طرح ذات ، وصف اور اپنے فعل میں بھی میری کوئی مالکیت نہیں ہے۔ نہ اپنے وجود کے کسی جز کا بالاستقلال تقسیم شدہ کسی حصے کا مالک ہوں اور نہ اس میں میری کوئی غیر تقسیم شدہ ملکیت ہے نہ رہن کی صورت میں اس میں میرا کوئی حق ہے اور نہ کسی اور صورت میں ۔ میری ہستی کا مطلق مالک، مالک آسمان و زمین ہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ایک انسان سالک کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ حرم دل کو غیرف کی نجاست سے پاک کرے اور اپنے صحن وجود کو مہر غاصب کی دست برد سے محفوظ رکھے تاکہ انوار البہی اور حق تعالے کی تدبیر و ربوبیت کے جلوہ فگن ہونے میں کوئی رکاوٹ حصول ولایت کیلئے ہدایت رسول اکرم" اس سلسلے میں پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ اقوال و مواعظ کہ جو الہور تے اللہ علیہ سے فرماتے تھے ہماری راہنمائی کرتے ہیں لیے ابو الاسود کہتے ہیں کہ میں ابوذر سے ملاقات کیلئے ربذہ گیا جہاں وہ جلا وطن کیئے گئے تھے۔ اس ملاقات میں انہوں نے میرے لیے یہ حدیث نقل کی فیرمایا " ایک روز میں مسجد نبوی (ص) میں داخل ہوا کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیر المومنین علی ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ میٹھے ہیں اور ان دونوں بزرگواروں کے علاوہ کوئی اور موجود نہیں ہے میں نے موقع کو غنیمت جانا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کی : " بابي انت واقى اوصنى بوصيّة ينفعني الله تعالى بها " دمیرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں مجھے کوئی ایسی نصیحت فرما ہیئے کہ جس سے اللہ تعالے مجھے فائدہ عطا کرے؛ رسول اللہ نے فرمایا : نعم (بجا ہے) پھر فرمایا : یا اباذر انك منا اهل البيت داے ابوذرا تو ہم اہل بیت میں سے ہے ہے " والي اوصيك بوصية فاحفظها فانها جامعة لطرق الخير وسيله فانك ان حفظتها كان لك بها كفلان له د میں تجھے ایک خاص وصیت کرتا ہوں اسے اچھی طرح سے یاد کرلے۔ یہ وصیت بھلائی کے راستوں کی جامع ہے اگر تو نے اسے پتے باندھ لیا تو پھر تمہارے لیے کفلان (دو حصے) ہیں ) مزید فرمایا : یا ابا ذر ا عبد الله كانك تراه یعنی تیری عبادت معرفت شہودی کی بناء پر ہو۔ اس طرح سے عبادت کر کہ گویا تو خدا کو دیکھ رہا ہے۔ فان كنت لا تراه فانه يراك دپس اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ لہذا یا تو شاہد ہے یا مشہود اور مہر دو حالت میں تو اہل شہود ہے کیونکہ با تو الیا شاہد ہے کہ جو مشاہدہ کر رہا ہے اور اس صورت میں تیرا شاہد ہونا تیرے لیے مشہور ہے اور یا تو الیسا شاہد ہے کہ جو مشہور ہے اور اس حالت میں تیرا مشہود ہونا تیرے لیے مشہور ہے اور یہ بھی ایک طرح کا شہود ہے۔ واعلم ان اول عبادة الله المعرفة به رجان لے کہ اللہ کی پہلی عبادت اس کی معرفت ہے، لے اس کے بعد معرفت خدا کے بارے میں آپ نے فرمایا : فهو الاول قبل كل شيء فلا شيء قبله والفرد فلا ثاني له والباقي لا الى غاية ، فاطر السموات والارض وما فيهما وما بينهما من شيء وهو اللطيف الخبير وهو على كل شيء قدير اگر ھو الا ول ہے تو ہر چیز کے آغاز میں شہود حق کے علاوہ کچھ نہیں اور اگر " هو الآخر، ہے تو ہر کام کا انجام بھی شہود حق کے سوا کچھ بھی نہیں اگر ھو الظاهر» ہے تو انسان جو کچھ بھی مشاہدہ کرتا ہے حق تعالے کے آثار جلال و جمال کے سوا کوئی اور چیز نہیں، اگر " هو الباطن ہے تو انسان اپنے آپ میں یا کسی اور میں راز دروں کے نام پر جو کچھ دیکھتا ہے وہ بھی بطونِ حق کے سوا کچھ بھی نہیں البتہ یہ بات اللہ کے مقام فیض سے مربوط ہے ورنہ ذات مقدس الہی کے مقام تک کسی کی دسترس نہیں۔ امیر المومنین فرماتے ہیں: لا يدركه بعد الهمم ولا يناله غوص الفتن نہ بلند پرواز ہمتیں اسے پا سکتی ہیں اور نہ عقل و فہم کی گہرائیاں اس کی تہہ تک پہنچ سکتی ہیں (نہج البلاغہ خطبہ اول) مقام ذات نہ کسی فلسفی کے برہان کا مفہوم ہے اور نہ کسی عارف کی ریاضت کا مشہور جو کچھ ظہور رکھتا ہے اور جو کچھ دسترس میں ہے وہ حق تعالے کا فیض ، اس کے آثار اور اس کی صفات ہیں ۔ مذکورہ حدیث میں رسول اللہ (ص) فرماتے ہیں کیونکہ کوئی چیز اس سے قبل نہیں ہے اور نہ کوئی چیز اس کے ساتھ ہے اور نہ ہی کوئی چیز اس کے بعد ہے لہذا وہ " فاطر السموات والارضت و مافیہا دوما بینا ہے ہے۔ اس لیے کہ مباد کسی کو حلول یا اتحاد کا تو تم ہو جائے مزید فرمایا " وهو اللطيف الخير وهو على كل شئ قديري اس حصے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جوصفات بیان کی ہیں قرآن کریم میں اللہ تعالے میں ولایت کو منصر ثابت کرنے کے لیے تو کچھ بیان کیا گیا ہے ہم آہنگ ہیں اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی آغاز کلام سے یہ بات ثابت کرنا چاہتے تھے۔ فالله هو الولی، میں اللہ تعالے میں جو انحصار ولایت کا ذکر ہے اس کی دلیل کے طور پر قرآن کریم فرماتا ہے : " وهو يحي الموتى وهو على كل شيء قدير» (شولی (۹) یعنی زندہ کرنا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور جو زندہ کرنے والا اور حیات بخش ہے وہ ولی ہے پس اللہ ولی ہے اور اسی طرح سے قدرت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور جو قدیر ہے دہ ولی ہے بس خدا ولی ہے: وما اختلفتم فيه من شيء فحكمه الى الله (شوری: ۱۰) وہ حکم ہے اور جو حکم ہے وہ دلی ہے پس اللہ ولی ہے۔ اس کے بعد کی آیات یہ ہیں : " فاطر السموت والارض جعل لكم من انفسكم ازواجا و من الانعام ازواجا يذر وكم فيه ليس كمثله شيء و هو السميع البصير له مقاليد السموت والارض يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر انه بكل شيء عليم د وہ آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے۔ اس نے تمہارے لیے تمہارے ہیں نفوس میں سے جوڑے بنائے اور چھ پاؤں میں سے (ان کے) جوڑے بنائے۔ (اس طرح) وہ تمہاری افزائش نسل کرتا ہے۔ کوئی شے اس کی مثل نہیں اور وہ سنے والا دیکھنے والا ہے. وہی آسمانوں اور زمین کی گنجیوں کا مالک ہے۔ وہ جس کے لیے چاہتا ہے رزق میں کشادگی کرتا ہے اور (جس کیلئے چاہتا ہے ، تنگی کرتا ہے۔ بیشک وہ ہر شے کا جاننے والا ہے.) (شوری - ۱-۱۲) یہ سب مذکورہ عناوین اس برہان کے لیے جد وسط ہیں کہ جس کا نتیجہ ولایت کو اللہ تعالے میں منحصر قرار دیتا ہے۔ حضرت ابو ذر سے گفتگو کرتے ہوئے بعد ازاں آپ نے اپنی رسالت اور اہل بیت علیہم السلام کی محبت کا ذکر فرمایا کہ جن پر ایمان لانا مبانی دین کی معرفت کے تتمہ کے طور پر نہایت اہمیت کا حامل ہے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے رسول اللہ (ص) نے فرمایا : " يا اباذر ليكن لك في كل شيء نية حتى فى الثوم والأكل " داے ابو اور تمہیں چاہیئے کہ سرا سر میں نیت کو ہ نظر رکھو، نیند میں بھی اور کھانے میں بھی ) کیونکہ اگر کوئی راہ ولایت پر چلنا چاہتا ہو تو اسے نہ فقط عبادات کے مسائل میں بلکہ تمام مسائل میں نیت کو ملحوظ رکھنا چاہیئے جو شخص حرام غذا سے اپنے آپ کو آلودہ کرے اور پر خور ہودہ نیت قربت نہیں کر سکتا جو شخص سونے کے آداب کو ملحوظ نہ رکھتا ہو، نہ رو بہ قبلہ ہوتا ہو نہ سوتے وقت وضو کرتا ہو اور نہ بستر خواب پر وارد دعائیں پڑھتا ہو۔ وہ نیند کیلئے قصد قربت نہیں کر سکتا۔ رسول اللہ نے یہ بھی فرمایا : اے ابو ذر قرآن پڑھتے ہوئے اپنی آواز کو آہستہ رکھو اور قرآن کی تلاوت خضوع و خشوع سے کرد. مزید فرمایا : يا اباذر اذا تبعت الجنازة فليكن عقلك فيها مشغولا بالتفكر والخشوع واعلم انك لاحق اسے اور تشیع جنازہ کرتے ہوئے اپنی عقل کو سوچ وفکر میں مشغول رکھ اور جان لے کہ تو بھی اس سے ملحق ہو گا ۔ پھر فرمایا : " یا ابا در کمتان مقتصدتان في تفكر خير من قيام ليلة والقلب ساه غور و فکر کے ساتھ دو رکعت نماز اس قیام لیل سے بہتر ہے کہ جس میں دل غافل ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یہ فرمودات معرفت و اخلاص کہ جو ولایت کے دو رکن ہیں، ولایت کے حصول کیلئے الہی راہنمائی ہیں اور اس راستے میں انسان کی مدد کرتے ہیں۔ والحمد لله رب العالمین