Dars 15
ولایت در قرآن • آیة الله جوادی آملی
عرضی اور طولی ولایتوں کی نفی ولایت انبیاء اور اولیاء الہی پر بحث سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اس مسئلے کی طرف توجہ دیں کہ اگر ولایت تکوینی یا تشریعی انبیاء ائمہ حدی علیہ السلام اور دیگر اولیاء کے لیے ثابت ہو تو یہ ولایت، ولایت الہی کے مقابلے میں یعنی عرض میں ہر گنہ نہ ہوگی بلکہ اس کے طول دیعنی ضمن میں بھی نہیں ہوگی۔ کوئی بھی ولایت، ولایت الہی کے عرض میں یعنی مقابلے میں نہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ کسی کی بھی ولا سیرت اصالت اور استقلال نہیں رکھتی۔ لہذا اس طرح کی ولایت کبھی بھی اصیل اور مستقل ولایت کے عرض میں نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح دوسروں کی ولایت، ولایت الہی کے ضمن میں یعنی طول میں بھی نہیں ہوسکتی۔ اس کی علت یہ ہے کہ خدا کہ جو احد" و " ضمر ہے، کی ولایت بے حد و حصر ہے اور چونکہ یہ ہے حد ہے لنڈا کسی خاص حصے میں محدود نہیں ہو سکتی کہ اس حصے اور اس حد کے بعد کسی اور ولی کی ولایت کی نوبت آئے۔ وہ صمد ہے اور محمد کبھی بھی غیروں کے لیے خلا باقی نہیں رکھتا چہ جائیکہ وہ غیر دوسرے رہنے پر واقع ہو : لله المشرق والمغرب فاينما تو تو افشر وجه الله ر شرق و غرب سب خدا کے لیے ہے پس جس طرف بھی نظر کرو گے اسی کا رخ دیکھو گے)۔ (بقرہ - 10) هو معكم اينما كنتم (عید) روہ آپکے ساتھ ہے چاہے آپ جہاں بھی ہوں۔ هو الذى في السمااله وفي الارض الله (زخرت (۸۴) وہ آسمان میں بھی خدا ہے اور زمین میں کبھی ، بغیر اس کے کہ اس کی خدائی" کی حدود پر آسمان وزمین کا کوئی رنگ پڑے یا گر د پڑے۔ مع كل شئ لا بمقارنة» (نهج البلا نه خطيه اقول روہ ہر چیز کے ساتھ ہے بغیر اس کے کہ کسی کے ساتھ ملا ہوا ہوں۔ ولایت الہی کا ظہو اور اسکی تجلتی جب ولایت النبی کے عرض میں یا اس کے طول میں ولایتوں کی نفی ہوگئی تو اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ ہم ان ولایتوں کو کہ جو دوسروں سے منسوب میں مظہر ولایت خدا کہیں ۔ یعنی ہر ولی کی ولایت چاہے وہ تکوینی ہو یا تشریعی در حقیقت مظہر ولایت الہی ہے ، اس لحاظ سے کہ وہ شخص مجالی محل تجلی) ہے اور خداوند عالم کی ولایت اس میں اپنی تجلی کرتی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں اللہ کی تجلی کے بارے میں یوں حمدو ثنا کرتے ہیں : الحمد لله المتجلى لخلقه بخلقه (قطبه ۱۷) یعنی حمد اس خدا کی جس نے اپنی مخلوق کے لیے مخلوق کے ذریعے تجلی کی۔ ولایت الہی کے ظہور اور اس کی تجلی کے لیے بہترین مثال آئینے کی ہے کہ جو کچھ اس کے سامنے قرار پائے اس میں منعکس ہوتا ہے، آئینہ ان اشیاء کے لیے محلی ہے جو اس کے سامنے ہوتی ہیں۔ آئینے میں موجود صوررت کا جب صاحب صورت سے مقابلہ کیا جائے اور سوال کیا جائے کہ آئینے والی صورت کا کام کیا صاحب صورت کے کام کے عرض میں ہے یا طول میں، تو ممکن ہے ابتداء میں یہ کہا جائے کہ یہ کام صاحب صورت کے عرض میں نہیں بلکہ طول میں ہے۔ لیکن جب دشت نظر کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ در حقیقت آئینے میں تو کوئی چیز ہے ہی نہیں کہ صاحب صورت کے ضمن میں وہ کوئی کام انجام دے جو کچھ آیئنے میں ہے وہ صاحب صورت کے لیے صرف ایک علامت اور نشانی ہے اور صرف اس کی نشاندہی کرتی ہے۔ توحید افعالی کی بنیاد پر یہ کائنات مظہر حق ہے اور قرآن کریم کی ظریف تعبیر کے مطابق آیت حق ہے ۔ آیت اور نشانی کے پاس اپنا کچھ نہیں ہوتا کیونکہ اگر کی خصوصیت کے اعتبار سے اس کے پاس اپنا کچھ ہو تو اس خصوصیت میں وہ آیت اور علامت نہ ہوگی بلکہ حجاب ہو گی ، جب کہ عالم اپنی سرشان میں آیت الہی ہے اور کائنات میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو کسی بھی جہت سے حجاب ہوا اور آئینہ احق نہ ہو۔ البتہ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ آئینے سے مراد یہ نہیں ہے کہ عرف میں اسے آئینہ جانا جائے۔ عرف میں جسے آئینہ کہا جاتا ہے وہ تو شیشے کا ہوتا ہے جسے خاص کمیت اور کیفیت کے تحت مختلف شکلوں میں بنایا جاتا ہے شیشے کا جسم در حقیقت بالقوہ آئینہ ہے اور آئینہ بالفعل کہ جو حقیقی آئینہ ہے وہی صورت سرآمیہ ر آئینے کے اندر والی صورت) ہے جو صاحب صورت کی نشاندہی کرتی ہے سراب کی طرح صورت مرآتیہ بھی نشاندہی کے علاوہ کوئی حقیقت نہیں رکھتی البتہ اس میں اور سراب میں فرق یہ ہے کہ سراب جھوٹ ہوتا ہے جبکہ آئینہ سچ اور درست چیز منعکس کرتا ہے۔ خلقت کے ضمن میں اللہ تعالے کے ظہور و تجلی کے بارے میں جو کچھ ذکر ہوا اس سے پتا چلتا ہے کہ علوم عقلی کی کتابوں میں علت و معلول کے نظام کو روشن کرنے کے لیے جو مباحث پیش کی جاتی ہیں وہ صرف تعلیم و تعلیم میں سہولت کی خاطر ہیں ہر اور فقط مقام اثبات پر دلالت کرتی ہیں نہ کہ مقام ثبوت پر ۔ کیونکہ ان کتابوں میں تبدار میں معمولی علتوں سے بحث شروع ہوتی ہے اور پھر انہی کے ضمن میں علل نقیبی اور وہاں سے علة العلل کہ جو مسبب الاسباب ہے ختم ہوتی ہے ۔ لیکن البیات میں کیونکہ بحث کا آغاز مخصوص معنی میں علت اول اور اس کے اوصاف سے ہوتا ہے اس لیے اس کے اہم ترین اوصاف میں سے ایک وصف جو ثابت کیا جاتا ہے وہ اس کا لا محدود ہونا ہے۔ اس کے اس وصف کے ثابت ہو جانے کے ساتھ ا حضرت حق تعالٰی کا دامن کبر بائی ان تمائم نقائص سے مبرا و منزہ قرار پاتا ہے جو محدود ہونے کی صورت میں اس پر عارض جو سکتے ہیں۔ چنانچہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں؟ مَنْ حَدَّهُ فَقَد عَدَهُ وَ مَنْ عَلَّهُ فَقَدْ أَبْطَلَ أَزَلَهُ جس نے اسے (حق تعالٰی کو محدود جاتا تو گویا وہ اس کے تعدد کا قائل ہو گیا۔ اور جو اس کے تعدد کا قائل ہو گیا، گویا اس نے اس کے ازلی ہونے کو باطل ٹھہرایا " مقام ثبوت میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ علت اولی نا محدود ہونے کی بنا پر ہستی کے تمام سلسله مراتب میں حضور رکھتی ہے اور اس سلسلہ ہستی کی کوئی بھی فرد علت اولی کے عرض دمقابل) یا طول ( تسلسل ہیں نہیں ہے۔ قیامت حضرت حق کی ولایت کے ظہور کا مقام جس مقام تک ایک حکیم اور فیسون آخر کار پہنچتا ہے اور جو تہذیب نفس کے ساتھ اللہ تعالٰی سے کمال انقطاع کے مقام کا طالب ہے " انهى هَبْ لَى كَمَالَ الاِنْقِطَاع اليك لا یا جیسے پانی میں ڈوبتا ہوا کوئی شخص جو تمام اسباب اور ظاہری علل سے منقطع ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کو خلوص نیت کے ساتھ پکارتا ہے اور دعوا اللهَ مُخْلِمِينَ لَهُ الدِّينَ" کا مصداق بنتا ہے، یعنی اگر کوئی شخص (مذکورہ دو صورتوں یعنی ، برہان یا مشاهده و دیدار کے ذریعے حق تعالیٰ سبحانہ کی ولایت مطلقہ کو نہیں پا سکا تو ممکن ہے کہ وہ دنیوی فیتوں سے گزرنے کے بعد اس حقیقت کو پالے کہ : " هُنَالِكَ الْوَلَايَةُ لِلَّهِ الْحَقِّ" سورہ کہف میں اس شخص کے بارے میں کہ میں کا باپ خطر ہے سے دو چار ہے فرمایا گیا ہے : " احيط بشمره فاصح يقلب كفيه على ما انفق فيها وهي خاوية على عروشها و يقول ياليتني لم اشرك بربي اجيدا ولم تكن له فئة ينصرونه من دون الله وما كان منتصرا له اور اس کا پھل گھیرا گیا رفت رسیدہ ہوا) اور وہ اس پر ہاتھ ملنے لگا جو اس نے اس پر خرچ کیا تھا اور وہ (دباغ) بالکل تباہ و برباد ہو گیا اور کہنے لگا اے کاش میں نے کسی کو اپنے رب کا شریک نہ بنایا ہوتا اور اللہ کو چھوڑ کر اب کوئی جماعت نہ تھی کہ اس کی مدد کرتی اور نہ ہی وہ اپنے آپ کو بچا سکا) یعنی جب غیر خدا سے ولایت سلب ہو گئی اور جب نہ خود وہ کسی سے انتقام لے سکا اور نہ کوئی اس کی مدد کو آسکا، تو پھر وہ سمجھا کہ : هنالك الولاية الله الحق » (کمت - ۴۴) ولایت اللہ سے مختص ہے۔ اگر اس مرحلے میں بھی کوئی ولایت الہی کو نہ پائے تو پھر وہ برزخ اور قیامت کے سنگین حوادث کے بعد ولایت خدا کو پائے گا اور سمجھے گا کہ ان الله هو الحق المبين بہر حال اگر یہ آگا ہی دنیا کے تلخ حوادث کے ذریعے جسکی مثال سورہ کہف میں بیان ہوئی ہے، حاصل ہو جائے تو ایمان کے حصول اور کفر کی تلافی کا امکان باقی رہتا ہے لیکن اگر اُخروی حوادث کے نتیجے میں حاصل ہو تو پھر اس پر ایمان کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ، اس معنی میں کہ قیامت میں کافرولایت حق کا مشاہدہ کرتا ہے لیکن اس پر ایمان نہیں لا سکتا۔ اسی وجہ سے قیامت کا ایک نام یوم حسرت قرآن میں ولایت الہی کی لا محدودیت جیسے قرآن کریم میں الوہیت کے بارے میں دو طرح سے ذکر ہے ولایت کے بارے میں بھی دو پیرایوں میں بات کی گئی ہے۔ الوہیت کے ذکر میں ایک دفعہ اسے اللہ میں منصر قرار دیا گیا ہے اور دوسری دفعہ غیر خدا سے الوہیت کی نفی کی گئی ہے۔ ولایت کے بارے میں بھی ایک دفعہ اسے اللہ میں منحصر قرار دیا گیا ہے اشلاً سورہ شورٹی کی آیت 9 میں ارشاد ہوتا ہے :۔ - فالله هو الولى. اور اسی سورت کی آیت ۲۸ میں ہے ! وهو الولى الحميد . جبکہ دوسرا انداز یہ ہے کہ غیر خدا سے ہر طرح کی ولایت کی نفی کی گئی ہے شیدا سجدہ آیت ہم میں ہے : الله الذي تخلق السموات والاض وما بينهما في ستة ايام شهر استوى على العرش ما لكم من دونه من ولى ولا شفيع ، (اللہ ہی وہ (ذات اقدس) ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو اور جو کچھ ان دونوں کے مابین ہے اسے چھ دنوں میں خلق کیا پھر عرش پر جلوہ فروند ہوا۔ تمہارا اس کے سوا کوئی سر پرست و شفیع نہیں۔) وہ دلائل جن میں اللہ تعالے کے لئے ولایت کے اثبات کا انداز اپنایا گیا ہے ان کی طرف قبل ازیں اشارہ کیا جا چکا ہے، ہر چند کہ ولایت کو اللہ میں منحصر کرنے کا لازمہ غیر خدا سے ولایت سلب کیا جانا ہے لیکن اس حوالے سے بھی چند دلہ وارد ہوئی ہیں ، اب ہم ان کا ذکر کرتے ہیں : بربان اول اس کا ذکر سورہ کہف کی آیت ۵۰ اور اہ میں ہے۔ ه افتتخذونه وذريته اولیاء من دونی و هر یکم عدو بس للظالمين بدلا ما اشهدتهم خلق السموات والأرض ولا خلق انفسهم (تو کیا تم مجھے چھوڑ کر اسے اور اس کی ڈرتیت کو دوست بناتے ہو ؟ حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں۔ (افسوس ظالموں نے کیا ہی برا بدل اختیار کیا ہے۔ میں نے انہیں آسمانوں اور زمینوں کی خلقت پر گواہ نہیں بنایا تھا اور نہ ہی ان کی اپنی خلقت پر ) اس بربان کی حد وسط علم ہے کیونکہ ولی وہ ہے جو موٹی علیہ (تحت ولایت) سے باخبر ہو۔ لہذا جو دوسروں سے بے خبر ہے وہ ان کا دلی نہیں ہو سکتا۔ مندرجہ بالا آیات میں فرمایا گیا ہے کہ جو اس نظام (کائنات کی خلقت کے وقت حضور و شہود نہ رکھتے تھے (یعنی موجود نہ تھے، وہ اس نظام سے آگاہ بھی نہیں ہیں لہذا ہرگز اس کے دلی نہیں ہو سکتے اور اگر ولایت کا دعوی کریں بھی تو جھوٹے ہیں۔ بربان دوم : سورہ کہف کی آیت الہ میں اس بر بان کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے: و ما كنت متخذ المصلين عضدا. اور میں گھرا ہوں کو اپنا بازو بنانے والا نہیں۔) بربان دوم کی حدوسط قدرت ہے کیونکہ ولی وہ ہے جو اپنے ماتحت ولایت کا نظام چلانے کی قدرت رکھتا ہو ۔ جھوٹے اولیاء کیونکہ خلقت میں پروردگار کے مددگار نہیں تھے اور آفرینش میں ان کا کردار نہیں تھا، اس لیے وہ ہرگز ولی نہیں ہو سکتے ۔ وہ سب لوگ جنہوں نے جھوٹے اولیاء کے حضور گردن جھکا رکھی ہے ان کے لیے یہ دو بر بان تام و مکمل ہیں ۔ یعنی ان کے لیے بھی جنہوں نے شیاطین کو اپنا ولی بنایا ہے اور ان کے لیے بھی جوستاروں اور ملائکہ کو ارباب متفرقہ کی حیثیت سے پوجتے ہیں، یہ دو بر بان حق تعالے کی محبت بالغہ ہیں۔ لہذا سورہ کہف کی مذکورہ آیت سے قبل اور بعد کی آیات میں فرمایا گیا ہے کہ انسان یا دلیل سے سمجھ جائے اور یا ماسوار اللہ سے منقطع ہو کر مشاہدہ کرے کہ ولایت حضرت حق سے مختص ہے ، هنالك الولاية الله الحق یا پھر دنیا دی اور برزخی سختیوں کے نتیجے میں یہ حقیقت آشکار ہو جائے۔ بربان سوم و چهارم : کبھی انسان اپنے اوپر اختیار کی باگ ڈور بتوں کے سپرد کر دیتا ہے اور کبھی اپنے آپ کو مطلق العنان سمجھتے ہوئے خیال کرتا ہے کہ اپنے نظام کو چلانے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس صورت میں بھی وہ ایک ایسا بت پرست ہے جس کا نظام نفسانی خواہشات کہ جنہوں نے اس کے تبکرہ کو بھر رکھا ہے، کے ماتحت چلتا ہے وہ تمام افراد جنہوں نے اپنا نظام حیات غیر خدا کے سپرد کر رکھا ہے اور سمجھتے ہیں کہ غیر پر بھروسہ کر کے وہ اپنے لیسے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں یا اپنے آپ سے ضرر دور کر سکتے ہیں، ان کے خلاف استدلال کے لیے قرآن سورہ رعد کی آیت ۱۶ میں فرماتا ہے: قل من رب السموات والارض قل الله یعنی اُن سے پوچھنے کہ آسمانوں اور زمینوں کا نظام کون چاہتا ہے اور جو کران کے پاس کوئی قانع کنندہ جواب نہیں ہے تو آپ خود ہی جواب میں کہہ دیں اللہ اور یہ وہی جواب ہے جس کا اقتضا ان کی فطرت کرتی ہے۔ وہ ارباب متفرق میں گرفتار میں اگر چہ اللہ تعالے کو رب الارباب اور خالق مانتے ہیں لیکن جزوی ربوبیت کی بغیر خدا کی طرف نسبت دیتے ہیں سورہ لقمان میں مشرکین مکہ کے بارے میں ذکر ہے کہ وہ خالقیت خدا کا اقرار کرتے ہیں : ولئن سألتهم من خلق السموات والارض ليقولن الله یعنی اگر آ، ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے خلق کیا ہے تو کہیں گے ، اللہ نے۔ (لقمان - ۲۵) (زمر ۳۸) لیکن سورہ رعد کی وہ آیت جو ہماری موضوع بحث ہے اللہ تعالے کی ربوبیت کو بیان کرتی ہے کیونکہ یہ ربوبیت ہی ہے تو مسئولیت کا باعث بنتی ہے۔ مذکورہ آیت میں قرآن کریم غیر خدا سے سلب ولایت پر استدلال کو یوں پیش کرتا ہے۔ قل أفا تخذته من دونه اولياء لا يملكون لا نفهم نفعا ولا ضراء یعنی تم نے خدا کی جگہ دیگر ایے اولیاء اختیار کر رکھے ہیں جو نہ تو نفع بخش ہیں اور نہ ہی وضع ضرر کر سکتے ہیں۔ اس کی توضیح یہ ہے کہ وہ لوگ جو جھوٹے اولیاء کی پرستش کرتے ہیں یا تو خون کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں یا شوق کی بنا پر اور یا پھر آزدانہ طور پر یعنی ان کی عبادت خون و شوق سے خالی ہے اور وہ ہر گز اندرونی یا بیرونی تہوں کی پرستش جلیسی ذلت میں مبتلا نہیں ہوتے ۔ مذکورہ گروہ کی عبادت چونکہ خون یا شوق کی بنا پر ہوتی ہے الہذا قرآن کریم ان کے خلاف استدلال کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم اس کی عبادت میں مصروف ہو جس سے تمہیں توقع ہے کہ وہ تمہارے لیے نفع بخش ہوگا یا وقع مر کرے گا ۔ حالانکہ ان دونوں میں سے وہ کسی پر قادر نہیں۔ یہ دو برہان منطقی قیاسوں کی چار صورتوں میں سے دوسری صورت میں بیان کیے گئے ہیں اور وہ اس طرح کہ بہت نفع بخش یا ضرر رساں نہیں ہیں اور خدا وہ ہے جو نفع بخش اور ضرر رساں ہو اس بت خدا نہیں ہیں۔ یہ دو استدلال اندرونی بیتوں کی نفی کے لیے جاری ہوتے ہیں اس لیے کہ قرآن کریم ایک اور جگہ پر ایسے لوگوں کو جو گمان کرتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے امور چلا رہے ہیں فرماتا ہے اسے رسول ! انہیں کہہ دیجئے : م لا املك لنفسى نفعاً ولا ضرا » (اعراف - ۱۸۸) یعنی نہ فقط میں بلکہ کوئی بھی انسان اپنے نفع و ضر پر قادر نہیں۔ سورہ رعد کی آیت ۱۲ میں مذکورہ دو استدلال کے بعد اساس استدلال کی طرف لوٹتے ہوئے فرماتا ہے : قل هل يستوى الاعمى والبصير، ام هل تتوى الظلمات والتورام جعلوا الله شركاء خلتو حلقه قتشابه الخلق عليهم قل الله خالق كل شئ وهو الواحد القهار یعنی مومن اور غیر مومن کی مثال نابینا اور جینا یا خدمات اور نور کی طرح ہے۔ کیا خدا کے علاوہ بھی کوئی خالق ہے یا کیا اس کا غیر کسی کام پر قادر ہے کہ جو اشتباہ کا باعث بنتا ہو اور گمان ہوتا ہو کہ اسکے علاوہ کوئی اور مخلوق کی پرورش اور ان کے نظام کو چلانے پر قادر ہے؟ اے پیغمبر ان سے کہہ دیجئے کہ خدا ہی ہر چیز کا خالق ہے۔ اس اصول کو مشرکین اور مشینوں نے بھی قبول کیا ہے کہ خدا خالق ہے جس چیز کا وہ انکار کرتے تھے اور یہ انکار ہی ان کے لیے اشتباہ کا باعث بنتا تھا وہ بعد کا حملہ ہے کہ فرماتا ہے : وهو الواحد القهار یعنی خدا وحدت قاہرہ رکھتا ہے۔ اگر اس کی وحدت ، وحدت قاہرہ ہو تو اس کے ضمن میں کوئی غیر نہیں ہو سکتا کہ انسان استبا با اس غیر کو دفع منزر کے لیے یا حصول منفعت کے لیے ولی اور رب کے عنوان سے ولایت کے لیے قبول کرے۔ والحمدلله رب العالمین