Dars 6
ولایت در قرآن • آیة الله جوادی آملی
یادآوری :
ہماری گفتگو قرآن کریم میں ولایت کے بارے میں ہے فصل سوم کہ جو طریق اثبات ولایت کے بارے میں تھی، اسے یہ بات روشن ہو گئی کہ ہر وہ عمل کہ جو انسان کو اللہ کے نزدیک کرتا ہے اثبات ولایت کا ذریعہ ہے، چونکہ بحث معنوی ہے لہذا جس چیز سے بھی مضموما تقرب اور نزدیکی کا استفادہ ہو وہ اس بحث کی حدود میں داخل ہو گئی چاہیے ده لفظ ولایت کے ساتھ ہو یا قرب اور ڈنو وغیرہ کے الفاظ کے ساتھ۔ اللہ تعالیٰ نے عبادات کو چونکہ تقریب کا ذریعہ قرار دیا ہے لہذا حصول ولایت اور ولایت کے وجود خارجی کے اثبات کے لیے بہترین ذریعہ قصد قربت سے اعمال قربت کی بجا آوری ہے اس میں حسن فعلی بھی پایا جاتا ہے اور حسن فاعلی بھی جب کہ حرام اور مکروہ جیسے بڑے اعمال کی انجام دہی یا کسی کو دکھانے اور سنانے کے لیے اعمال قربت کی بجا آوری ولایت کے وجود پذیر ہونے میں مانع ہے۔
محبت دنیا بھی ایک رکاوٹ ہے
اللہ تعالے جب تقریب کے اہم ترین راستے کا ذکر کرتا ہے تو " کلم طیب" کہ جو توحید ہی ہے کو عمل صالح کی تقویت کے ساتھ تقرب الہی کی بنیاد قرار دیتا ہے اور فرماتا
ہے:
اليه يصعد الكلم الطيب والعمل الصالح يرفعه " داسی کی طرف پاکیزہ کلمات بلند ہوتے ہیں اور وہ نیک اعمال کو رفعت
فاطر - ۱۰
عطا کرتا ہے۔) اس کے برخلاف عالم طبیعت اور عالم خاک کی طرف میلان کو راہ ولایت کی عظیم رکاوٹوں میں شمار کرتا ہے لہذا بعض ایسے افراد کے بارے میں کہ جو آیات الہی کے حامل تھے لیکن اس فیض راہی سے استفادہ نہیں کر سکے تھے فرماتا ہے : " واتل عليهم نبأ الذي أتيناه يا تنا فانسلخ منها فاتبعه الشيطان فكان من الغوين . د اور ان پر اس شخص کی خبر پڑھ دے جسے ہم نے اپنی (آیات، نشانیاں دی تھیں اور اس نے انھیں نظر انداز کر دیا پس شیطان اس کے پیچھے لگ گیا اورہ مگر یہاں
میں سے ہو گیا ۔
( اعراف - ۱۷۵)
یعنی ہم نے اس شخص کو اپنی آیات دیں لیکن وہ " اخلاد الی الارض رکھتا تھا یعنی عالم خاک سے وابستہ تھا، لہذا ہماری آیات کے سائے سے نکل گیا السلام کا لفظ اس امر کی علامت ہے کہ درونِ انسان تاریک ہے اور یہ تو فقط کچھ پر تو نور الہی ہے کہ جس نے اس کے سیاہ باطن کو چھپا رکھا ہے، اس طرح ہے کہ کوئی اگر اس پروہ نور سے نکل جائے تو اس کی داخلی تاریکی آشکار ہو جائے گی سورہ لیس میں مسلمہ کی تعبیر قابل ملاحظہ ہے : " وأية لهم الليل نسلخ منه النهار فاذا هم مظلمون
د اور ان کے لیئے رات ایک نشانی ہے۔ اس میں سے ہم دن نکالتے
ہیں ورنہ وہ اندھیرے میں ہی رہ جاتے ۔) دیں ۔ ۳۷) یعنی ہم نے ایک روشن لباس دن کے نام پر بدن فضا کو پہنا دیا ہے اس طرح سے کہ اگر یہ جامہ ہم بدن فضا سے اتارلیں تو فضا کی تاریخی ظاہر ہو جائے گی اسی طرح مینی اسرائیل کے ایک عابد کے بارے میں فرماتا ہے کہ ہم نے اس اسرائیلی عابد کے بدن کو ایک نورانی لباس پہنا دیا لیکن وہ اس جامہ سے باہر آگیا اور ظلمانی ہو گیا یعنی وہ ذاتا
حامل نور نہ تھا۔ ولوشن الرفعناه بها ولكنه اخلد الى الارض واتبع هواه - داور اگر ہم چاہتے تو اس کو ان (آیات) کی بدولت بلند کر دیتے مگر وہ تو ہمیشہ زمین کی طرف مائل رہا اور اپنی خواہش نفس کی پیروی کی) (اعراف - ۱۹۹) یعنی اگر ہم چاہتے تو اسے بلند لے جا سکتے تھے لیکن ہر کسی کو اپنی فکر د اختیار کی بنیاد پر کمال تک پہنچنا چاہیے نہ کہ جبری طور پر الہذا اس اسرائیلی کے کمال میں اخلاد
الى الأرض ، ہی حائل تھا۔ سورۂ مبارکہ "ہمزہ میں بھی تقرب الی اللہ کی سب سے اہم رکا وٹ مال دارین
کی طرف اخلاد ہی کو قرار دیا گیا ہے:
" ويل لكل همزة لمزة الذى جمع ما لا وعدده
يحسب ان ماله اخلده »
روانے ہے ہر اس شخص پر جو جمع کی ہوس میں رہتا ہے اور گنتا رہتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ یہ جمع شدہ مال اور یہ گئی ہوئی دولت اُسے ہمیشہ کے لیے
زمین میں باقی رکھے گی۔
یہ زعم باطل اس کے ارتقاء و کمال میں حائل ہے ۔
مختصر یہ کہ اس آیت شریفہ کی بنیاد پر شرط ولایت توحید و عمل صالح ہے : اليه يصعد الكلم الطيب والعمل الصالح يرفعه
جبکہ اس میں رکاوٹ دنیا کی رغبت ہے کہ جسے ایسے مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا
ہے:
" انا قلتم الى الارض"
(توبه - ۳۸)
اخلد الى الارض
14
. فانسلخ منها "
و اخرات ۱۲)
(اعراف - ۱۷۵)
آیات میں انحصار ولایت :
بہر حال بحث کو جاری رکھتے ہوئے ہم ان آیات کا ذکر کرتے ہیں کہ جن میں یا بالمطابقت یا بالالتزالله ولایت کو اللہ تعالے میں مخصر قرار دیا گیا ہے اور دوسروں سے اس کی نفی کی گئی ہے وہ آیات کہ جو بالالتزام ولایت کو اللہ تعالے میں منحصر ثابت کرتی ہیں دو طرح کی ہیں۔ ایک وہ آیات کہ جو اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ غیر خدا سے کچھ نہیں بن پاتا۔ دوم وہ آیات کہ جن کا مفہوم یہ ہے کہ غیراللہ کی طرف توجہ نہ فقط لغو اور بے اثر ہے بلکہ زبان آور بھی ہے لہذا یہ آیات صراحت سے انسانوں کو غیر خدا کی ولایت سے ڈراتی میں اور ولایت و تدمیر کو ذات مقدس البہی کے لیے ثابت کرتی ہیں سورہ مبارکہ نساء آیت
میں فرمایا گیا ہے :
" والله اعلم باعدائكم وكفى بالله وليا وكفى بالله نصيرا " اللہ تمہارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے اور اللہ ہی دوست کافی ہے اور
اللہ ہی مدد گار کافی ہے۔) ولایت و نصرت کا فرق گذشتہ گفتگو میں بیان کیا جا چکا ہے۔ جہاں پر موٹی علیہ بچے کی طرح کچھ بھی نہ کرسکتا ہو وہ ولایت کا مقام ہے لیکن جہاں پردہ کچھ کر سکتا ہے البتہ کچھ کی در پیش ہو وہاں نصرت کا مقام ہے اللہ تعالے اپنے آپ کو نصرت اور ولایت دونوں کے لیے کافی قرار دیتا ہے لیکن یہاں صدر کا لہجہ نہیں ہے بلکہ اسان کفایت ہے یعنی خدا کافی ہے اور غیر خدا کی طرف رجوع کی کوئی ضرورت نہیں نہ یہ کہ غیر خدا کی طرف رجوع کرنے
سے خبردار رہو۔ سورۃ مبارکہ عنکبوت میں فرماتا ہے کہ غیر خدا کے بس میں کچھ نہیں۔ یہ ان آیات میں سے ہے کہ جو کہتی ہیں کہ کوئی خوف یا شوق سے بھی عبادت کرنا چاہے تو بھی غیر خدا کی طرف نہ جائے کیونکہ غیر خدا کے ہاتھ میں کوئی سود و زبان نہیں لیکن جن لوگوں کی عبادت کی بنیا د محبت الہی ہے وہ بت پرستی سے منزہ ہیں کیونکہ وہ اپنے غضب و شہوت کی ولایت سے نجات پا کر اپنے خدا سے وابستہ ہو گئے ہیں سورہ مبارکہ معنکبوت کی آیت اہم میں ارشاد ہوتا ہے: مثل الذين اتخذوا من دون الله اولياء كمثل العنكبوت اتخذت بيتا وان اوهن البيوت لبيت العنكبوت لو كانوا يعلمون"
( جو اللہ کے سوا دوسروں کو سرپرست بناتے ہیں ان کی مثال تو مکڑی کی سی ہے جس نے گھر بنایا اور بیشک سب گھروں سے بودا گھر تو مکڑی ہی
کا ہے۔ اے کاش وہ جانتے ہوتے۔ ) جن لوگوں نے غیر خدا کو ولی بنالیا ہے ان لوگوں کے حال کو اس آیت میں اس شخص کے حال سے مشابہ قرار دیا گیا ہے کہ جس نے تار عنکبوت سے وابستگی اختیار کی ہو۔
الحق وضل عنهم ما كانوا يفترون"
ر اس وقت ہر نفس جانچ لے گا جو کچھ عمل اس نے پہلے کیا تھا اور وہ اپنے
حقیقی آقا و مولا اللہ کی طرف لوٹائے جائیں گے اور وہ جھوٹ جنہیں وہ گھڑا کرتے تھے ان سے گم ہو جائیں گے۔)
جو کچھ مشرکین جھوٹ باندھتے رہے وہ گم ہوگیا۔ مقصود یہ نہیں ہے کہ ان کے خدا تھے جو بعد میں گم ہو گئے ۔ ضلالت کا معنی اور ہے اور ضمانہ اور خانہ کا اور ضالہ ایک موجود خارجی ہے کہ جسے گم ہوتا ہے لیکن ، ضلالت " کا معنی گم ہوتا ہے۔
حکمت کے بارے میں امیرالمومنین علی علیہ السلام کا ارشاد ہے : الحكمة ضالة المؤمن
ر حکمت مومن کی گم شدہ چیز ہے ہے
یعنی حکمت و معرفت ایک حقیقی وجودی امر ہے اور مومن اپنی اس کھوئی ہوئی چیز کی تلاش میں ہے لیکن ، ضلالت ، گم ہونے کے معنی میں ہے کہ جو امر وجودی نہیں ہے۔ فرماتا ہے کہ جو جھوٹ لوگ ہم پر باندھتے تھے ملالت تھے کہ جنہیں وہ ہدایت خیال کرتے تھے اور یہ ضلالت قیامت کے دن ظہور کرے گی ۔ بہت پرستی ملالت ہے قیامت میں بہت پرست بہت نام کی کسی چیز کو نہ دیکھ پائیں گے وہ جو کچھ دیکھتے ہیں وہ پتھر و لکڑی ہے اور اس کا وہاں پر بت کے طور پر کوئی ظہور نہیں ہے کیونکہ وہ باطل تھا اور ضلالت ہے دگر یا گم ہو گیا ہے سورۂ مبارکہ حج کی آیت ۱۲ ۱۳۰ میں اسی مفہوم کو ایک اور پیرائے میں بیان کیا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے :
" يدعوا من دون الله ما لا يضره وما لا ينفعه » دوہ خدا کو چھوڑ کر انہیں پکارتے ہیں کہ جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع ) ان آیات کا مقصود و مدلول یہ ہے کہ چونکہ بیشتر انسانوں کی عبادت آگ کے خوف یا بہشت کے لالچ میں ہوتی ہے لہذا اللہ تعالے فرماتا ہے کہ یہ بہت اور ہر غیر خدا نہ تمہارا
یہ ہے کہ ہماری گفتگو زہد و عبادت وغیرہ کے بارے میں ہے کیونکہ ولایت دیگر امور کی نسبت زیادہ اہم ہے کیونکہ ولی اللہ کے اسما سنٹی میں سے ہے ولایت کا کچھ حصہ اگر انسان کو نصیب ہو جائے تو وہ " هو الولید کا مظہر ہو جائے گا۔ پھر اگر وہ دعا کرے گا تو فوراً بارش برسے گی یا معمول کے اسباب کے بغیر اسے رزق خصوصی میسر آجائے گا جیسے مریم کبری کے بارے میں قرآن فرماتا ہے " كلما دخل عليها زكريا المحراب وجد عندها رزقا رجب بھی ذکریا ان کے پاس محراب میں داخل ہوتے تو دیکھتے کہ رزق ان کے پاس موجود ہے، جب کہ عابد و زاہد وغیرہ کا اوصاف الہی اور اسماء حسنی میں کوئی حق نہیں۔ وہ کہ جو مردہ کو زندہ کر سکتا ہے اور مادہ کائنات پر اثر انداز ہو سکتا ہے" ھو الولی " کا مظہر ہے تاہم جب تک انسان معرفت و اخلاص کے ساتھ عبادت و زہد کا راستہ طے نہ کرلے۔ ھوالولی کا مظہر نہیں ہو سکتا اور اس صورت میں اس سے کچھ نہیں بن پاتا بلکہ وہ صرف عابد یا زاہد ہے اور اللہ بھی بس اس کا ناصر ہے۔ اگر چہ یہ تمام امور مقام ولایت کے حصول کے لئے ضروری ہیں لیکن کافی نہیں ہیں۔ ولایت کی بنیاد معرفت و محبت پر رکھی گئی ہے میخرت و محبت جس قدر کامل ہوگی انسان کو اللہ تعالے کی مظہریت ولایت کا اتنا ہی بلند مقام حاصل ہوگا یہ امرمخفی نہیں کہ ولایت کا زہد و عبادت وغیرہ سے فرق فصل اول سے مربوط ہے کہ جس میں مفہوم ولایت کے بارے میں گفتگو کی گئی۔