درس ١
ولایت در قرآن • آیة الله جوادی آملی
اعوذ باهلل من الشيطن الرجيم بسم اهلل الرحمن الرحيم "الحمد هلل الذي هدانا لهذا وما كنا لنهتدي لوال ان هدانا "
اهلل وصلى اهلل على جميع االنبياء والمرسلين واالئمة الهداة
المهديين بهم نتولى ومن اعدائهم نت برء إلى اهلل اللہ کے فضل سے ہم اس درس میں جس نئی گفتگو کا آغاز کر رہے ہیں وہ قرآن
کریم میں والیت قرآن کے بارے میں ہے یہ گفتگو ہماری گذشتہ بحث " قرآن میں گراست انسان سے بھی مربوط ہے اور بعد کی
بحثوں کے لئے بھی راہ ہموار کرے گی۔ والیت لغت میں والیت کا معنی لغت میں قرب اور نزدیکی ہے اس کا شمار مفاہیم نبی
میں سے ہوتا ہے۔ اگر ایک چیز کسی دوسری کے ساتھ ہو جائے تو کہتے ہیں " و کیک یعنی اس کے نزدیک ہو گئی کیونکہ جب
کوئی چیز کسی شخص یا کسی شے کے نزدیک ہوتی ہے تو وہ شخص یا شے بھی اس کے نزدیک ہوتے ہیں۔ لہذا والیت اخوت کی
طرح طرفین میں مساوی نسبت سے عبارت ہے کیونکہ اس میں نسبت کے دونوں طرف ایک جیسے ہوتے ہیں۔ یہ بات باپ بیٹے کے
مابین نسبت کے برخالف ہے چونکہ باپ بیٹے میں طرفین مساوی نہیں ہوتے۔ پہلے طرح کی نسبت کو موافقة االطراف کہا جاتا ہے
اور دوسری طرح کی نسبت کو متخالفة االطراف کہا جاتا ہے۔
لہذا اگر انسان اللہ کا ولی ہو توخدا بھی اس کا ولی ہے۔ جیسے اگر خدا کسی کا ولی ہو؟ یعنی اس کے نزدیک ہو تو وہ بھی اللہ کا
ولی ہو گا کہ متوافقہ الطرفین کی نسبت کا یہی
تقاضا ہے۔
: والیت قرآن میں
قرآن میں جیں والیت کا تذکرہ ہے وہ ایک ایسے قرب خاص سے عبارت ہے کہ جو ممکن ہے ایک طرف سے حاصل ہو اور دوسری
طرف نہ ہو بلکہ ممکن ہے دوسری طرف سے دوری ہو مثًال اللہ تعالے کا فراور مومن سے نیکسان نزدیک ہے
جیسا کہ قرآن میں ہے۔ ونحن اقرب اليه من حبل الوريد " وق - سم انسان سے اس کی رِگ جان سے بھی قریب تر ہیں۔
جبکہ دوسری طرف مومن عبادات اور اعمال قربت سجاال کر خدا کے قریب ہوتا ہے اور کافر اعمال قربت کو ترک کر کے اور برے
اعمال کے ارتکاب سے اللہ سے دور ہوتا
( - ہے جیسا کہ قرآن میں ہے اولئك ينادون من مكان بعيد ، الم سجده
دوری بندہ دوہ تو ایسے میں جیسے بہت دور رہنے والوں کو صدا دی جاتی ہو۔( رف سے لہذا اگر تفاوت اور دوری ہے تو بندوں
کی طرف سے ہے خدا کی طرف سے
نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالے تو سب کے نزدیک ہے لیکن سب اللہ کے نزدیک نہیں
بلکہ بعض نزدیک ہیں اور بعض دور ۔ اشراقی اور معقولی نسبت : قرآن کریم میں جس والیت کا تذکرہ ہے وہ عام لغوی معنی
میں نہیں ہے کہ جسے متوافقة الطرفین والی نسبت کہا جا سکے لہذا ہم نہیں کہہ سکتے کہ اگر کوئی خدا کے نزدیک ہے تو خدا
بھی اس کے نزدیک ہے اور اگر خدا کسی کے نزدیک ہے تو وہ بھی خدا کے نزدیک ہے کیونکہ طرفین میں پیدا ہونے والے ایسے
روابط اعتباری نسبتوں میں ہوتے ہیں حقیقی نسبتوں میں نہیں اس لیے کہ اعتباری و مقولی نسبتیں دو طرف پر مبنی ہوتی ہیں۔
مثًال اگر کوئی شخص کسی دیوار کے نزدیک ہو تو وہ دیوار بھی اس کے نزدیک ہوگی ۔ قرب ایک امر نسبی ہے جس کا تعلق دو
طرف سے ہے اس میں ایک
مضان ہوتا ہے اور ایک مضاف الیہا اس طرح سے کہ ہر حکم جو ایک طرف پر لگایا جاسکے دوسری طرف کے لیے بھی ہے دیعنی
دونوں مضاف الیہ بھی ہو سکتے ہیں اور مضان بھی کیونکہ یہ ایک اعتباری نسبت ہے اور دو طرف پر منحصر ہے اور اس
میں ممکن نہیں ہے کہ ایک طرف ایک صفت کی حامل ہو اور دوسری طرف اس سے محروم ہو۔ اس کی مثال زمان و مکان کا
قرب و بعد ہے اگر کوئی موجود کسی زمان مکان کے نزدیک ہو تو وہ مکان یا زمان بھی اس کے نزدیک ہوں گے، اگر کوئی
موجود کسی معین زمان یا مکان سے دور ہو تو وہ زمان یا مکان بھی اس سے دور ہو گا لیکن اگر نسبت واقعی ہو کہ جسے نسبت
واقعی کہتے ہیں تو اس نسبت کی اساس مضاف الیہ پر استوار ہے اس میں نسبت بعد ازاں ظہور کرتی ہے اور نسبت کے زیر سایہ
معنات پیدا ہوتا ہے۔ مثًال ایک انسان اور اس کی نفسانی صورتوں کے مابین نسبت علمی موجود ہے۔
انسان عالم ہے اور یہ نفسانی صورت میں معلومات ، عالم اور ان معلومات کے درمیان نسبت علمی موجود ہے اور یہ نسبت ایک
اشراقی نسبت ہے یعنی نفس ایک اشراق و نور کے ذریعے ایک صورت کو اپنے اندر ایجاد کرتا ہے۔ چونکہ نفس کے اندر پہلے سے
کوئی چیز موجود نہیں ہوتی کہ روح اس سے مقولی و اعتباری نسبت برقرار کرے بلکہ نفس اس صورت کو خود ہی تخلیق کرتا
ہے اور جب خلق کر چکتا ہے تو وہ مضان نفس
کی تخلیق کے زیر سایہ نفس سے ارتباط قائم کرتا ہے۔
نتیجہ بحث یہ ہوا کہ نسبت دو طرح کی ہے، ایک نسبت اعتباری یا مقولی اور ایک نسبت اشراقی - نسبت اعتباری میں نسبت
طرفین کے تابع ہے اور اس میں ُاس کا ربط طرفین سے یکساں ہے۔ لیکن نسبت اشراقی میں طرفین یکساں نہیں بلکہ مضاف الیہ
اصل ہے اور مضات اضافہ و نسبت کا نتیجہ ہے اور نسبت کی برکت سے مصاف پیدا ہوتا ہے۔ بات کو ذہن سے قریب کرنے کے لیے
قرآن کریم میں موجود مسئلہ خطاب کو مالحظہ کیا جا سکتا ہے۔
اللہ تعاٰلے کے اسماء حسنی میں سے ایک ولی" ہے۔ فاهلل هو الولی ملے نہ فقط یہ کہ خدا والیت رکھتا ہے بلکہ ولی فقط خدا ہی ہے،
کیونکہ توحید افعالی کی بنا پر معقول نہیں ہے کہ )خدا کے سوا کوئی موجود، کسی شخص یا کسی شئے کی سرپرستی کی طاقت
رکھتا ہو۔ والیت سرپرستی کے معنی میں فقط خدا سجانہ کے لیے مختص ہے اور جہاں قرآن میں شیطان اور طاغوت کے لئے والیت
کا ذکر ہوا ہے مثًال ان آیات
میں
اهلل ولى الذين امنوا .... والذين كفروا أولياؤهم الطاغوت
تو اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ شیطان اور طاغوت خدا کے مد مقابل والیت کے حامل ہیں بلکہ خود شیطان اللہ کا ایک مامور ہے
اور اگر کوئی اللہ کی والیت خاصہ کے زمرے میں نہ آئے تو اللہ تعالے شیطان کو اس شخص پر مسلط کر دیتا ہے۔ وگرنہ والیت
شیطان والیت رحمن کے متوازی نہیں بلکہ کوئی موجود بھی اللہ کے مقابل نہیں ہے کیونکہ " ال شريك له و لیس کمثله شی ہے لہذا
طاغوت شیطان یا ان جیسوں کی والیت عذاب الہی کے طور پر اللہ کی طرف سے نافذ ہوتی
لہذا اللہ تعالے اس نام سے اپنی ستائیش کرتا ہے اور اس نام سے اپنا تعارف کرواتا ہے ، فاللہ ھو الوئی، یہ وہ نام ہے کہ جو اللہ اپنے
لیے ذکر کرتا ہے اور اس سے اپنی توصیف کرتا ہے تاکہ کو چہ الہی کے مسافروں کی تشویق ہوتا کہ وہ بھی اس راہ کو طے
کریں اور اسالم کے مظہر بن جائیں اللہ کے انبیاء اور اولیاء اس نام مبارک کے منظر ہیں اسی لیے وہ انتہائی مفید شخصیات ہوتی
ہیں آپ بھی کوشش کریں کہ ھو الولی، کے مظہر بن جائیں۔ حضرت عیسی علیہ السالم والیت کے خلق کے
مظہر تھے انہوں نے فرمایا : الى اخلق لكو من الطين كهيئة الطير فأنفخ فيه
« فيكون طيرا باذن اهلل
میں تمہارے لیے مٹی سے ایک پرندے کی صورت خلق کروں گا پھر میں اس )پرندہ( میں پھونک ماروں گا اور وہ اللہ کے
حکم سے
پرندہ بن جائے گا میلہ
لیکن اگر آپ والیت فی الخلق کے مظہر نہ بن سکیں اور اولیاء اللہ کی طرح طی االرض نہ کر سکیں تو کم از کم آپ اپنے نفس
کے امور پر ولی ہو جائیں یعنی اپنی آنکھ کے دلی، اپنے کان پر ولی، اپنے وہم و خیال پر ولی اور اپنی شہرت و غضب پر ولی ہو
جائیں۔ یہ جو بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم گناہ نہ کریں لیکن ہمارے لیں میں نہیں ایسا اس لیے ہے کہ ان کی
شہوت ان کا موال بن گئی ہے جو لوگ غصے کی حالت میں اعتدال کی طاقت نہیں رکھتے ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا غصہ ہی
ان کا موال ہو گیا ہے جس کسی کے قوائے نفس میں سے کوئی قوت اس کی موال ہو جائے وہ ہرگز " هو الولی کا مظہر نہیں ہو
سکتا۔ سنی اور شیعہ دونوں سلسلوں سے چندایسی روایات پہنچی ہیں کہ جن کے مطابق جو شخص رضا و غضب ہر دو عالم میں
اپنا مالک ہے
وہ اہل سعادت میں سے ہے۔ ایسی روایات اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ایسے لوگ کم از کم اپنی نفسانی خواہشات میں " ھو
الولی" کا منظر ہوتے ہیں انسان کو جو کم از کم والیت حاصل کرنا چاہیے یہ ہے کہ اپنی آنکھ ، کان اور دیگر قوتوں کا موال ہو
جائے ہر چیز کہ جو
آنکھ چاہیے اسے نہ دیکھے بلکہ ہر چیز کہ جو وہ چاہیے آنکھ اسے دیکھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہا کہ وسلم سے ایک روایت
مروی ہے کہ آپ نے فرمایا أعطوا اعينكم حظها من العبادة " آنکھوں پر والیت
اپنی آنکھوں کو عبادت میں سے حصہ دو
عرض کیا گیا۔
کی ایک حدیث ۔
وما حظها من العبادة يا رسول اهلل ، کہ عبادت سے ان کا کیا حصہ ہے
تو رسول اکرم )ص( نے فرمایا
النظر في المصحف والتفكر فيه واالعتبار عند عجائبه له اس کا مفہوم یہ ہے کہ قرآن اور قرآن سے اخذ کی گئی علمی کتب کا"
مطالعہ اور ان میں غور و فکر کرنا آنکھ کے حق کی ادائیگی ہے۔ ایسی آنکھ صاحب چشم کی والیت میں ہے اور وہ اس کا موال
ہے۔ لیکن اگر کوئی اپنی آنکھ کو اس آیت کے تابع نہ بنا سکے
قل للمؤمنين يغضوا من أبصارهم "
مومنین سے کیئے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھیں ہے انکھیں نیچے آنا ۔
تو اس کی آنکھ اس کی مولی ہے اور وہ اس کا مملوک ۔
لہذا نفس سے با ہر حصوِل والیت اگرچہ بہت مشکل ہے لیکن نفس پر والیت کا حصول سب پر الزم ہے تاہم یہ بھی کوئی آسان کام
نہیں ۔
پس اللہ تعالے کے اسماء حسنی میں سے ایک ولی ہے جیسا کہ اس آیہ کریمیہ میں
آیا ہے۔
ہے۔
ام الخذوا من دونه اولیاء فاهلل هوالولی کیا انہوں نے اس اللہ کو چھوڑ کر دوسرے ولی بنا لیے ہیں حاالنکہ
اللہ ہی سر پرست ہے بیہ
اس کی دلیل اسی آیت کے دوسرے حصے میں یوں ذکر کی گئی ہے۔ " وهو يحي الموتى وهو على كل شيء قدير اور وہی مردوں کو
زندہ کرتا ہے اور وہ ہر شے پر قادر ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ زندگی اسی کے ہاتھ میں ہے اور وہی قادر مطلق اور ولی
جو انسان تہذیب نفس کی کوشش کرتا ہے یہ امر اس کے لیے ظاہر ہے لیکن دوسروں کے لیے یہ معنی خطرے کی حالت میں ظاہر
ہوتا ہے یعنی انسان سمجھتا ہے کہ جسے وہ اپنا سمجھتا تھا وہ اس کے درد کی دوا نہیں کرتا اور دوسرے بھی کچھ نہیں
کر سکتے۔ لتے ۔ یوم خطر معلوم ہوتا ہے کہ
. هنالك الوالية اهلل الحق
اور یہاں سر پرستی تو اللہ ہی کی ہے کہ جو حق ہے۔ والیت مولویت اور سرپرستی کے معنی میں ہے سورہ کہف میں مذکورہ
آیت
سے پہلے کی آیات یوں ہیں: واحيط بثمره فاصبح يقلب كفيه على ما انفق فيها وهي خاوية على عروشها و يقول ياليتني لم اشرك برتى
احدا ولم تكن له فئة ينصرونه من دون اهلل
وما كان منتصرا هنالك الوالية اهلل الحق « اور اس کا پھل آفت رسیدہ ہوا اور وہ اس دمخنت و سرمایہ پر ہاتھ ملنے لگا جو کہ اس
نے اس پر خرچ کیا تھا اور وہ )باغ( بالکل تباہ و برباد ہوگیا اور وہ کہنے لگا ہائے افسوس۔ اے کاش میں نے اپنے رب کو کسی کا
شریک نہ بنایا ہوتا اور اللہ کے سوا اس کے لیے کوئی جماعت ایسی نہ تھی جو اس کی مدد کرتی اور نہ وہ خود اپنے آپ کو
)عذاب( سے بچا سکا اور یہاں بچی سرپرستی تو اللہ ہی کے لیے ہے لے
یعنی اس سرمایہ دار سے جو کچھ بھی کہا گیا اس نے کوئی نصیحت قبول نہ کی اور آخر کار ایک دن اسے ایسا دیکھنا پڑا کہ
جب اندوه و غم کی شدت سے اپنے ہاتھ ملتا تھا۔ جو کچھ سرمایہ اس باغ پر اس نے صرف کیا تھا وہ ایک دم اس کے ہاتھ سے
جاتا رہا کوئی اس کا معین و مددگار نہ تھا۔ خود اس کے بس میں بھی نہ تھا کہ نتقام لے سکے جب یہ واضح ہوگیا کہ وہ اپنی
مدد کر سکتا ہے اور نہ انتقام لے سکتا ہے اور شر وہ دوسروں کی مدد سے کوئی فائدہ اٹھا سکتا ہے تو اس وقت وہ سمجھا کہ "
هنالك
الوالية اهلل الحق
ظهر حقیقت
:
هنالك کا یہ مطلب نہیں کہ جب باغ جل گیا اور سب طاقت والے چلے گئے تو پھر اللہ کی نوبت آئی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ -
وہ شخص اس نکتے کو تب سمجھا۔ ایسا نہیں ہے کہ والیت النبی کی بھی باری آتی ہو بلکہ آیت مبارکہ کا معنی یہ ہے
کہ
َلى
ِهلِل ُسْبَحاَنُه َوَتَعا
ُمْنَحِصَرٌة
اَّمَة
َّت
َة ال
ِوالَي
َهَراَن ال
اِلَك َت ْظ
هَن
یعنی اب ظاہر ہوا کہ ساری کی ساری والیت اللہ تبارک و تعالے میں
منحصر ہے۔
: نہ یہ کہ
اِلَك َتْحدُت الوالية "
ُهَن
:یہ بات سورہ نور کی اس آیت مبارکہ کی طرح ہے
بقيعة" و وہ لوگ جنہوں نے کفر اختیار کیا ان کے اعمال بیابان میں سراب
کی طرح سے ہیں ، نور ۳۹۰
قیعہ " و " قاع ، چٹیل بیابان کے معنی میں ہیں جب بیابان کھال ہو تو حد نظر بیح ہو گا ایسے میں انسان کو سرافق میں صاف
پانی چپکتا نظر آئے گا اوراگر انسان پیاسا ہو گا تو اس کی طرف دوڑے گا لیکن ایک عاقل انسان جانتا ہے کہ یہ سراب ہے آپ نہیں۔
اسی طرح اگر کوئی پیاسا نہ ہوگا تو اگرچہ وہ سراب کو آپ سمجھے لیکن اس کی طرف جائے کا نہیں کافر اس پیاسے کی مانند
ہے جو سراب کو آپ سمجھے اور اس کی طرف دوڑ پڑے اور جب اس تک پہنچے تو اسے کچھ دکھائی نہ دے ایسے میں وہ اللہ کو
پاتا ہے۔ اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ اس حال میں وہ سمجھتا ہے کہ خدا اس کے ساتھ تھا نہ یہ کہ خدا اسے وہاں ملتا ہے اور قبل
ْم
نُت
ُك
ُم اْيَن َما
«ازیں وہ اس کے ہمراہ نہ تھا کیونکہ ُهَو َمَعُك
( یم جہاں کہیں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے ، حدید - م
یا
هو الذي في السماء اله وفي االرض اهلل "
آسمان میں بھی وہی اللہ ہے اور زمین میں بھی وہی اللہ ہے۔ )زخرف - سہو( اسی طرح کی دیگر آیات بھی ہیں۔ لہذا یہ جو
سورہ کہف میں فرمایا گیا ہے کہ جس دن دولت مند انسان اپنا مال کھو بیٹھے اس دن " هنالك الوالية اهلل الحق
اس معنی میں نہیں کہ اس وقت دوسروں کی والیت ختم ہو گئی اور خدا کی والیت وجود میں آگئی بلکہ اس معنی میں ہے کہ
والیت خدا اس شخص کے لیے ظاہر ہوتی ہے اور اسی طرح سورہ نور میں " و وجد اللہ عندہ ، سے مراد یہ نہیں ہے کہ خدا ُاس
وقت حضور و ظہور رکھتا ہے کیونکہ خدا تو تمام حاالت میں حضور رکھتا ہے
نُتو بہر حال فرق یہ ہے کہ انسان کبھی اسے دیکھتا ہے اور کبھی نہیں دیکھتا۔ یہ امر اس بات کی عالمت ہے
ُك
ْيَن َما
َأ
ْم
ُهَو َمَعُك
کہ یہ والیت نسبت اشراقی ہے اور متولی کی طرح دو طرف سے وابستہ نہیں ہے بلکہ فقط مضاف ا الیہ سے وابستہ ہے۔ معیت کا
بھی یہی حال ہے کبھی یہ اعتباری ہوتی ہے مثًال یہ کہ دو افراد ایک جگہ معیت رکھتے ہوں یا دو عضو ایک ہیت اور ایک اسرا
اعتباری کے تحت اکٹھے ہوں ایسی معیت دونوں طرف سے یکساں ہوتی ہے۔ زید امر کی معیت میں ہے اور امر بھی زید کی معیت
میں ہے۔ لیکن تکوینی لحاظ سے معیت یک طرفہ ہوتی ہے خدا معیت رکھتا ہے لیکن کافر تنہا ہوتا ہے اور جب کوئی خطرہ آپہنچتا
ِهلِل الَحِّق ، اور جب سراب تک پہنچتا ہے سووجد اللہ عندہ ، پھر اپنے آپ کو خدا کے ساتھ پاتا ہے
ُة
َوالَي
ْل
ہے تو پھر کہتا ہے " هناِلَك ا
اور خدا کو اپنے ساتھ دیکھتا ہے۔
نتیجه مسخن مختصر یہ کہ قرب کے معنی میں والیت دو طرح کی ہے یہ قرب اعتباری کریں کی نسبت اپنے متوالیوں اور حاملین
سے ایک جیسی ہوتی ہے " قرب حقیقی کہ میں کا حال دیگر اشراقی و حقیقی نسبتوں اور اضافتوں کا ساہے ان میں اضافہ کی باگ
ڈور مضاف الیہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور مضاف اس کے تابع ہوتا ہے ۔ معیت و
والیت وغیرہ کی بھی یہی کیفیت ہے۔ اللہ تعالے کے اسماء حسنی میں سے ایک ولی ہے انسان کو چاہیے کہ وہ
کوشش کرئے اگر چہ اس کے اپنے نفس کی حدود تک ہی ہوا اسالم کا مظہر بن جائے تاکہ وہ اس طریقے سے مقدمات طے کرلے، اپنی
ذات سے باہر آ جائے اور وسیع
تر عالقے کا ولی ہو جائے۔
.والحمد هلل رب العالمين