Dars 11
ولایت در قرآن • آیة الله جوادی آملی
قرآن مجید میں ولایت انسان کے بارے میں بحث یہاں تک پہنچی تھی کہ انسان اگر مظہر محمد بن جائے تو مقام ولایت تک پہنچ سکتا ہے اور انسان انس نت مظہر محمد بنتا ہے جب وہ مسائل علمی میں بھی نفوذ شیطان سے محفوظ رہے سائل عملی میں بھی اس کے وسوسے سے امان میں رہے۔ اگر کسی کی فکر میں مغالطہ ہم اور خیال رخنہ اندازی نہ کرے تو وہ مسئلہ معرفت میں عقل مند اور مظہر صمد ہے۔ ی طرح اگر اس کے عمل میں ریا کاری، بناوٹ اور خود خواہی نہ ہو تو عملی اعتبار سے ں کا اندر معمور ہے اور وہ مظہر صمد - صمدنیت کا کمال تمامیت تےتعلق حصول مفہوم محمد میں ایک نکتہ یہ ہے کہ صمدیت تمامیت سے بھی وابستہ ہے اور کمال سے بھی ۔ دوسرے لفظوں میں وہی موجود صمد ہے جو عیب سے بھی نجا پائے تا کہ تمام ہو اور نقص سے بھی نجات پائے تاکہ کامل ہو ۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ عیب اور نقص میں فرق ہے۔ عیب یہ ہے کہ کوئی چیز خود اپنے اندر سے خراب ہو لیکن نقص یہ ہے کہ جو کچھ اس کے پاس ہو وہ تو صحیح ہو لیکن کچھ حصے سے محروم ہو۔ مثلاً کبھی کہا جاتا ہے کہ یہ قالین اس کمرے کے لیے معیب ہے اور الینا اس وقت کہا جاتا ہے کہ جب قالین عیب دار ہو مثلاً اس کا ایک حصہ بوسیدہ ہو۔ لیکن ناقص قالین وہ ہے جو کرے میں پورا نہ آئے، چھوٹا ہو، مگر ہر صحیح ۔ اگر کوئی شخص بعض مسائل کو ظا مبرا جانتا ہو لیکن در حقیقت ان معلومات کے بارے میں وہم، خیال اور مغالطے کا شکار ہو تو اس کا علم معیب اور عیب دار ہے لیکن اگر کوئی جو کچھ جاتا ہے اسے صحیح جانتا ہو تا ہم جتنا کچھ اسے جانتا چاہیئے نہ جانتا ہو تو اس کا علم ناقص ہے۔ لہذا اگر کوئی داخلی طور پر عیب علمی میں گرفتار ہو یا خارجی طور پر نقصی علمی میں مبتلا ہو تو وہ منظر صد نہ ہوگا۔۔ علم کی تمامیت اور کمال اب یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ انسان کیا علمی و عملی حوالے سے مظہر صمد ہو سکتا ہے ؟ دوسرے لفظوں میں کیا انسان میں یہ طاقت ہے کہ وہ اپنے عرصہ علم و عمل کو عیب و نقص سے محفوظ رکھے ؟ جواب یہ ہے کہ وہ ایک واقعیت جس کا علم نہیں ہوتا حق تبارک و تعالے کی گنہ و حقیقت ذات ہے کیونکہ یہ کسی کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی کسی سے اس کی توقع ہے۔ تاہم کامل انسانوں سے جس قدر توقع ہو سکتی ہے اور جس قدر مقدور ہے اس کا راستہ کھلا ہے ۔ ان دونوں باتوں کا ذکر امیرالمؤمنین سلام اللہ علیہ صحیح البلاغہ میں ساتھ ساتھ یوں فرماتے ہیں: " لم يطلع العقول على تحديد صفته ولم يحجبها عن واجب معرفته » یعنی واجب الوجود کی تحدید و حد بندی عقل کے بس کی بات نہیں لیکن ضروری حد تک عقل اس کی شناخت سے محروم بھی نہیں البدا حقیقت ذات حق کی شناخت ہماری ذمہ داری نہیں کیونکہ یہ محال ہے۔ اتنا ہی وجو دائرہ محدود میں نہیں سما سکتا تاہم میں قدر اس کا اور اک ضروری ہے اس کا راستہ کھلا ہے: فهو الذى تشهد له اعلام الوجوده یونکہ علامات مستی وجود واجب پر گواہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت کا حق ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالے بعض ایسے لوگوں کی مذمت کرتا ہے جنہوں نے خدا کو ایسے نہیں پہچانا جیسے پہچاننا چاہیئے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے خدا کو پہچاننا چاہیئے اس کی دلیسی شناخت نہ تنہا مقد در ہے بلکہ واقع بھی ہوئی ہے اور بعض نے اسے ویسے ہی پہنچاتا ہے جیسے پہچاننے کا حق ہے۔ اس سے مراد وہ مقدارہ ہے جو انسان کے مقدور میں ہے لہذا اسی قدر اس کی ذمہ داری ہے۔ سورۂ مبارکہ انعام کی آیت 4 میں ان لوگوں کے بارے میں جو نبوت عامر یا خاصہ کا انکار کرتے ہیں، فرمایا گیا ہے : وما قدروا الله حق قدره د جیسے خدا کو پہچانا چاہیے تھا انہوں نے نہیں پہچانا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض نے حق تعالے کو اس طرح سے پہچانا ہے جو حق معرفت ہے لیکن جو لوگ نبوت خاصہ یا عامہ کے منکر ہیں انہوں نے ایسے نہیں پہچانتا۔ " وما قدروا الله حق قدره اذ قالوا ما انزل الله على بشر من شي ، قل من انزل الكتاب الذي جاء به موسى نورا و هدى للناس تجعلونه قراطيس تبد و نها و تخفون كثيرا وعلمتم مالم تعلموا انتم ولا أباؤكم قل الله ثم ذرهم في خوضهم يلعبون اور انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسا اس کی قدر کرنے کا حق ہے جبکہ انہوں نے کہا : اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کی ۔ کہد سے کسی نے نازل کی وہ کتاب جسے موسیٰ لے کر آئے (اور جو) لوگوں کے لیے نور اور ہدایت تھی تیم نے اسے ورق ورقی کبر دیا۔ (اس میں سے) کچھ کو تو تم ظاہر کرتے ہو اور بہت کچھ چھپاتے ہو اورتم وہ کھڑکا ہے گئے ہو جو تم اور تمہارے آباء نہیں جانتے تھے۔ گہر سے اللہ پھر انہیں ان کی بیکار بحثوں کے کھیل میں محو چھوڑ دے)۔ اسی سے ملتا جلتا مفہوم سورۃ مبارکہ حج کی آیت ہے ، میں معرفت مبدا اور سشناخت توحید ربوبی کے بارے میں فرمایا گیا ہے : ما قدروا الله حق قدره ان الله لقوى عزيز اس کا مفہوم بھی یہ ہے کہ انہوں نے خدا کو اس طرح سے نہیں پہچانا جس طرح سے پہچانا چاہیے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض نے اللہ کو اس طرح سے پہچانا ہے جس طرح سے پہچانتا چاہیے۔ اسی طرح سورۂ مبارکہ زمر کی آیت 4 میں معاد کے بارے میں وما قدروا الله حق قدره والارض جميعًا قبضته يوم القيامة والسموات مطويات بيمينه سبحانه وتعالى عما يشركون دانہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق تھا۔ قیامت کے دن تمام زمین اس کے قبضہ قدرت میں ہوگی اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لیٹے ہوں گے وہ بے نیاز اور بلند و برتر ہے اس سے جس کو وہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ توحید ، معاد اور ثبوت چونکہ اصول دین ہیں اس لیے اللہ تعالے ان تین آیتوں میں بعض لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ انہوں نے خدا کو ویسے نہیں پہچانا جیسے اس کی معرفت کا حق ہے کیونکہ معرفت خدا ہی تمام اصول دین کی معرفت کا سبب غبتی ہے۔ مختصر یہ کہ میں قدر انسان کے ذمہ ہے اور جو ممکن بھی ہے، اللہ تعالے کی معرفت حاصل کرے۔ البتہ جیسے مکلفین کے درجے ہوتے ہیں اس طرح تکلیف اور ذمہ داری کے بھی درجے ہیں ایسا نہیں کہ سب کمزور حد تک اکتفا کریں بلکہ ہر کسی کے لیے جس قدر مقدور ہے وہ اسی قدر مکلف ہے، تکلیف و جوبی کے اعتبار سے یا تکلیف استحبابی کے عنوان ہے۔ عمل کی تکمیل عمل کے لحاظ سے بھی انسان کو اللہ کی ایسے عبادت کرنی چاہیئے جیسے عبادت کا حق ہے اس صورت میں اس کا دل جب خدا سے منیم ، ہو جائے گا ، یعنی محبت سے لبریز ہو جائے گا اور یہ صورت محبوب کے حضور محب کے خضوع اور انکساری کا سباب ہوگی۔ یہ مقام سب کو میسر نہیں کیونکہ سب کو ترغیب دی گئی ہے کہ ان اتفاقی سے اس مرتبے کا سوال کریں۔ دعائے کمیل میں ہے : و اجعل قلبي بحبك محيماً . ( اور میرے دل کو اپنی محبت سے لبریز فرما ) یا دعائے ابو حمزہ شمالی میں آیا ہے :- اللهم انى اسئلك ان تملأ قلبي حبا لك. دربار الہا ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میرول کو اپنی محبت سے لبریز کر دے) ایسی دعاؤں کا مقصود یہ ہے کہ میرا دل محبت حق کے اعتبار سے صمد ہو جائے۔ کیونکہ اگر دل محبت میں محمد ہو تو معرف میں بھی مظہر محمد ہوگا اور اخلاص میں بھی۔ اس لیے کہ یہ دعا مانگنے کا حکم سب کو دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ولایت کار متر سب کے لیے کھلا ہے ۔ نتیجتا مظہر صمد ہونا انسان کے ان بلند مقامات میں سے ہے جن تک سیر و سلوک کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے۔ قرآن کی آیت مبارکہ میں اس مقام کے حصول کی علامت بھی بیان کی گئی ہے۔ مندرجہ ذیل آیت کے مفہوم کی بہت ساری آیات ہیں۔ الا ان اولیاء الله لا خوف عليهم ولا هم يحزنون یعنی اولیا الہی سہراساں ہوتے ہیں نہ منگین. حزن و ملال تو جب ہے کہ انسان مخروب کو کھو دے اور اس کے فراق میں تنگین ہو جائے ، جب کہ خوف و ہراس اس صورت میں ہوتا ہے جب کوئی جانے کہ آئندہ وہ یقینا یا احتمالاً اپنے محبوب کو کھو دے گا۔ اگر کسی کا دل حب خدا سے " مقیم ہو تو چونکہ ایسے شخص کا محبوب نہ گذشتہ میں اس سے کھویا ہے اور نہ آئندہ کھوئے گا لہذا اس کی پاک ذات کے لئے نہ کوئی حزن ہے نہ کوئی خوت ۔ دین الهی ، منظر صمد قرآن کریم کی بعض آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ دین الہی جسے خدائے صمد نے بنایا ہے خود مظہر محمد ہے لہذا تمام بھی ہے اور کامل بھی اور اس کا مقصد یہ ہے کہ اس دین کو اختیار کر کے اس کی تعلیمات و احکامات کی برکت سے انسان خدائے عید کا مظہر ہو جائے۔ مندرجہ ذیل آیات اس سلسلے میں قابل توجہ ہیں۔ روزے کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے : ہے: کو اتموا الصيام إلى الليل پھر روزے کو رات تک تمام کرو۔ (بقره - ۱۸۷) حج کے بارے میں فرماتا ہے : وانموا الحج والعمرة لله » حج اور عمرہ کو اللہ کے لیے تمام کرو) (بقرہ - 194) اس سے قطع نظر اصل دین کے لیے بھی تمام و کمال کا ذکر کیا گیا ہے۔ فرماتا ه اليوم اكملت لكم دينكم واتممت علیکم نعمتی ر آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی (مائدہ (۳) یہ آیہ شریفہ اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ ایک حوالے سے دین اسلام جامع دین ہے اور جو کچھ اس میں ہونا چاہیے تھا وہ اس کا حامل ہے لہذا نام ہے اور اس کے اندر کوئی عیب نہیں ۔ دوسرے حوالے سے ثمر بخش بھی ہے اور اس کے خارج میں کوئی نقص نہیں ہے الہذا وہ کامل ہے۔ نتیجتا ایک متدین اور دین دار انسان تام بھی ہے اور کامل بھی ، کیونکہ اس صورت میں حقیقت علم بھی روح عالم سے متحد ہے اور حقیقت عمل بھی جان عامل سے۔ اس لحاظ سے وہ مظہر صمد اور مظہر ولی ہوگا۔ اللہ کے علم و قدرت کا صمدیت و ولایت سے تعلق جیسا کہ کہا جا چکا ہے اللہ کی ولایت کا سرچشمہ اس کی صمدیت ہے۔ اس امر پر قرآنی استدلال یوں ہے کہ اللہ تعالے اپنے بے کراں علم و قدرت کو اپنی ولایت شھر کی علت شمار کرتا ہے۔ سور کا مبارکہ شوری میں فرماتا ہے : و فالله هو الولى دشواری - ۹) اس کا مفہوم یہ ہے کہ ولایت اس کی ذات اقدس میں منحصر ہے۔ پھر اس امر پر استدلال کے طور پر فرماتا ہے : وهو يحي الموتى وهو على كل شئ قدير » (شوری - 9) (یعنی) کیونکہ وہ قدرت مطلقہ کا مالک ہے ولایت و سر پرستی اس میں منحصر ہے جب کہ مهرپرستی اور امر اجرائی کے لیے فقط قدرت کافی نہیں بلکہ علم بھی درکار ہے الہندا فرماتا ہے: له مقاليد السموات والارض يبسط الرزق من تشاء ويقدراته بكل شي عليم ( شوری (۱۲) یعنی آسمانوں اور زمین کا قلادہ دست خدا میں ہے " قلاوہ " سے مراد کپڑے یا کسی اور کی بنی ہوئی کوئی چیز جسے گردن میں ڈالا جاتا ہے۔ زمین و آسمان چونکہ خدا کے حضور گردن جھکائے ہوئے ہیں لہذا فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی گردن پر محیط قلا وہ دست خدا میں ہے کیونکہ وہ ہر چیز کا عالم ہے وہ جانتا ہے کہ لبسط و کشائیش کا مقام کونسا ہے اور قبض و گرفت کی جگہ کونسی ہے۔ کہاں زندہ کرنا ہے اور کہاں مارنا ہے جب یوں ہے تو " يبسُط الرزق لمن يشاء يقدر یعنی روزی کی وسعت و تنگی اس کے ہاتھ میں ہے خواہ ظاہری روزی ہو جس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور خواہ باطنی روزی ہو کہ جس کی بڑی اہمیت ہے مثلاً علم اور کمالات نفس ۔ حضرت شعیب سلام اللہ علیہ جب اپنی نبوت کا ذکر کرتے ہیں تو فرماتے ہیں: رزقنی منه رزقا حسنا داللہ نے مجھے بہت اچھا رزق عطا کیا ہے) (سود - ۸۸) اللہ تعالے بھی نبوت اور معارف البی کا ذکر کرتا ہے تو فرماتا ہے : ا هو يقسمون رحمة ربك نحن قسمنا بينهم معيشتهم الفن - ۳۲ یعنی کیا رحمت، نبوت اور معارف کی تقسیم ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے کہ جو جیسے دل میں آنے پیغمبر بنا دیں ؟ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ امر اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اس کی دلیل یہ ہے: انه بكل شي عليم» اس گفتگو کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالے کی ولایت کے اثبات کے لئے علم قدرت کی دو صد وسط کے ذریعے استدلال کیا گیا ہے، اس طرح سے کہ وہ قدیر ہے اور ہر قدیر ولی ہے الہذا وہ ولی ہے نیز وہ عظیم ہے اور مہر علیم ولی ہے بس وہ ولی ہے جو ذات بیکراں علم و قدرت سے بہرہ ور ہے یعنی عیب و نقص سے میرا ہے ہمد ہے اور اگر انسان منظہر ولی بنا چا ہے کہ جو اللہ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے اور دنیا میں کوئی کام کرنا چاہیے تو ضروری ہے کہ وہ مظہر علیم و قدیر ہو اور نتیجتاً مظہر محمد ہو۔ ولایت میں علم و عمل کا کردار ایک نکتہ جس سے غفلت نہیں کی جانا چاہیئے یہ ہے کہ ولایت الہی کے مقام مظہریت کا حصول جیسے علم و عمل پر منحصر ہے اس کی بقا بھی انہی دو سے وابستہ ہے۔ اس امر کا راز یہ ہے کہ اگر کوئی شخص سو علم و عمل کے نتیجے میں ولایت الہی کے ماتحت نہ ہو تو وہ ولایت شیطان کے ماتحت قرار پائے گا۔ کیونکہ عمل وجزا کی عینیت کی بنا پر کبھی گناه آئینہ دل کے لیے غبار بن جاتا ہے : " كلا بل رأن على قلوبهم ما كانوا يكسبون له دسیج تو یہ ہے کہ ان کے قلوب ان اعمال دید) کے سبب زنگ آلود ہیں جو انہوں نے کمائے۔ کبھی انسان پر ولایت شیطان کی صورت میں ظہور کرتا ہے۔ اس سلسلے میں سورہ انعام کی آیت ۱۲۵ میں فرمایا گیا ہے : فمن يرد الله ان يهديه يشرح صدره للاسلام و من يرد ان يضله يجعل صدره ضيقا حرجًا كانما يصعد في السماء" اللہ جس شخص کو ہدایت دینا چاہتا ہے اس کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہتا ہے اس کے سینے کو تنگ اور دشوار گزار بنا دیتا ہے گویا قبول ایمان اس کے لیے آسمان پر چڑھ گیا ہے ۔) اللہ تعالے نے ارادہ تشریعی کے ذریعے سب انسانوں کو ہدایت فرمائی ہے ۔ لهدى النَّاسُ يا " للعالمين نذيرا لے وغیرہ ۔ البتہ بعض خاص افراد کو وہ خصوصی ہدایت سے بہرہ ور کرتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کا حکم سن کر اس پر عمل درآمد کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں لہذا خصوصی ہدایت سے بہرہ ور ہیں۔ ان کے مقابل ایک ایسا گروہ ہے کہ ہدایت الہی اس تک پہنچی اور محبت اُس پر تمام ہو گئی لیکن اس نے دین الہی کو پس پشت ڈال دیا۔ اللہ تعالے بھی الیوں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے لہذا مذکورہ بالا آیت کو جاری رکھتے ہوئے فرماتا ہے : " كذلك يجعل الله الرجس على الذين لا يؤمنون " جن کی سیرت ہی عدم ایمان ہے ، اس طرح سے کہ ان کے سامنے جو بھی دلیل پیش کی جائے اسے قبول نہیں کرتے اللہ میں و ناپاکی کو ان پر نازل کرتا ہے۔ رہیں سے مراد دل کا بند ہو جانا ہے، جو اختیار کے غلط استعمال کے نتیجے میں دامن گیر ہوتا ہے۔ اگر کسی کا دل بند ہو جائے اور نور الہی اس پر نہ چھکے تو شیطان اس میں اپنا گھر بنالیت ہے۔ نہج البلاغہ میں ہے کہ حضرت امیرالمومنین نے فرمایا کہ بعض افراد کے دل میں شیطان آشیانہ بنا لیتا ہے ۔ قباضَ دَفَرح في صُدُورِ ھو، اور پھر وہاں وہ انڈے دیتا ہے اور اپنے بچوں کی پرورش کرتا ہے۔ اس کے بعد نظر باغبرُ وَنَطَقَ بِالسِنَتِ ہم شیطان ان کی زبان سے گفتگو کرتا ہے اور ان کی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ اس آیٹا کہ میہ میں بھی خدا نے فرمایا ہے: " كذلك يجعل الله الرجس على الذين لا يؤمنون وهذا صراط ارتك مستقيما قد فصلنا الأيت لقوم يذكرون . لهم دار السلام عند ربهم وهو وليهم بما كانوا يعملون " ( جو لوگ ایمان نہیں لائے خدا ان پر رحیں دنا پاکی کو اسی طرح مسلط کرتا ہے، اور (اے رسول) یہ (اسلام) تمہارے پروردگار کا دبنایا ہوا سیدھا راستہ عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے ہم نے اپنی آیات تفصیلاً بیان کر دی ہیں۔ ان کے لیے ان کے پروردگار کے ہاں امن و چین کا گھر دہشت ہے، اور دنیا میں جو کچھ انہوں نے کیا ہے ان کے عوض خدا ان کا سر پرست ہے) د انعام - ۱۲۵ تا ۰ چونکہ ان کا عمل صحیح و سالم ہے یہ ولایت خدا کے ماتحت ہیں۔ جیسے اگر کسی کامل ندر سے معیوب ہو اور باہر سے ناقص ہو تو وہ ولایت شیطان کے ماتحت ہوگا۔ اس حقیقت کی طرف بعد کی آیات یوں متوجہ کرتی ہیں : ويوم يحشر هم جميعا يا معشر الجن قد استكثرتم من الانس وقال اولياء هو من الانس ربنا استمتع بعضنا ببعض وبلغنا اجلنا الذى اجلت لنا ، قال النار مثولكم خالدين فيها الا ماشاء الله ان ربك حكيم عليم، وكذلك نوتى بعض الظالمين بعضا بما كانوا يكسبون له یعنی قیامت کے دن اللہ جنوں اور ایسے شیاطین کہ جو جنوں سے ہیں اسے فرمائے گا کہ تم بہت سے افراد کو اپنی طرف لے گئے ان کے اولیاء رانس یہ کہیں گے کہ ہم نے ایک دوسرے سے استفادہ کیا ہے لیکن اللہ تعالے فرمائے گا کہ ان فوائد کی حقیقت یہ تھی کہ ہم نے ان کاموں کے بدلے جن کا ارتکاب انہوں نے کیا تھا ایک ظالم کو دوسرے ظالم کا سرپرست قرار دیا۔نتیجہ یہ کہ چاہے ولایت الہی ہو یا ولایت شیطان دونوں میں عمل کا بہت ہاتھ ہے۔ عمل کے اس مطلق مفہوم میں علم بھی شامل ہے۔ البتہ عمل مفید جو علم کے مقابل ہے۔ علم اس میں شامل نہ ہوگا۔