فقہ زندگی

از: آیت اﷲ العظمیٰ سید محمدحسین فضل اﷲ

الحمد ﷲ رب العالمین والصلاۃوالسلام علیٰ سیدنا محمّد وآلہ الطیبین الطاھرین وصحبہ المنتجبین والتابعین لھم باحسان الیٰ یوم الدین، وعلیٰ جمیع الانبیاء والمرسلین۔

و بعد :

عزیزافاضل جناب استاد احمد احمد اور استاد عادل القاضی نے ہمیں ایک ایسی تفصیلی گفتگوپر راغب کیا جس کے ذریعے کچھ ان شرعی مسائل پر روشنی ڈالی جائے جوروز مرہ زندگی میں لوگوں کوپیش آتے ہیں لیکن جن کا ذکر رسالہ ہائے عملیہ میں یا تو سرے سے ہوا ہی نہیں ہے یا مجمل انداز میں ہوا ہے۔ ہم نے مومنین کے لئے اس طرح کے مسائل سے فکری اور عملی شناسائی کی ضرورت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، بالخصوص اپنے مقلدین کی ضرورت پوری کرنے کی غرض سے ان کی اس تجویز کو قبول کیا۔

اس گفتگو کے دوران ہم نے کوشش کی ہے کہ پیش کردہ سوالات کے جواب دیتے ہوئے سنتی (tradational)انداز سے دور رہیں۔ لہٰذا کہیں تو احکامِ شریعت کے اسرار کی تحلیل اور ان کی تفصیل کے ساتھ جوابات دیئے گئے ہیں اور کہیں احکام کے دلائل کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس وجہ سے یہ کتاب ایک رخ سے فقہی اور فتوائی پہلو اور دوسر ے رخ سے اسلام کے فکری پہلو کی جامع ہے۔

البتہ اگر قاری اس کتاب میں جنسی مسائل کے جوابات روایتی طور پر دیئے جانے والے جوابات سے مختلف محسوس کرتا ہے، تو اسکی وجہ یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے فقہا نے اس قسم کے مسائل کو اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے اور یہ امر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دینی تعلیمات میں جنسی مسئلہ کوئی معیوب اوربُری بات نہیں سمجھا جاتا ۔

اسی طرح فقیہ کی ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کو پیش آنے والے اور ان کے لئے پیچیدگیاں پیدا کرنے والے مسائل کا جائزہ لے کر انہیں حل کرے۔ بالخصوص ہمارے اس دور کے تمام افراد زن و مرد، بوڑھے اور بچے، جنسی مسائل کے علمی پہلو پر گفتگو کرتے ہیں۔ یہ صورتحال علمائے دین اور فقہا سے تقاضا کرتی ہے کہ اس مسئلے کو علمی گہرائی کے ساتھ پیش کریں، اسے اسلامی اخلاق سے ہم آہنگ کریں، اور جہاں اس کے بارے میں آگہی دینے کی ضرورت محسوس ہو وہاں اسکا جائزہ لیں اور اسے حل کریں۔

آخر میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس کتاب میں گفتگو کی صورت میں ہم نے اپنی جن فقہی آراء کو بیان کیاہے، وہ ہمارے فقہی فتاویٰ شمار ہوتے ہیں اور ہمارے مقلدین ان پر عمل کے ذریعے بری الذمہ ہو سکتے ہیں۔ انشاء اﷲ۔

وہ دو عزیزا فاضل جنہوں نے اس گفتگو کا اہتمام کیا اور اسے جمع و ترتیب دینے کی ذمے داری قبول کی، ہم اُن کی اِن زحمتوں پر اُن کے شکر گزار ہیں اور اُن کے لئے خداوند عالم سے زیادہ سے زیادہ جزا اور اسلام و مسلمین کی مزید خدمت کی توفیق کے طلبگار ہیں۔واﷲولی التوفیق وھوحسبناونعم الوکیل۔

محمد حسین فضل اﷲ

ذوالحجہ ۱۴۱۷ھ

عرضِ ناشر

حرکت زندگی کی علامت ہے، اور اسلام دین زندگی۔اسلام کا مقصد زندگی کو الٰہی رخ دینااور اسے خدا کی پسند کے مطابق بنانا ہے۔

اسلامی تعلیمات میں پوری انسانی زندگی کا احاطہ کیا گیا ہے، اسکے ہر پہلو کے لئے اصول و قوانین فراہم کئے گئے ہیں اور ان میں انسان کی تمام ضروریات کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔

انسانی زندگی میں ہر دم نئے مسائل، نئی پیچیدگیاں اوراورنت نئے سوالات جنم لیتے ہیں، جبکہ قرآن و سنت کی نصوص محدود ہیں، یہی وجہ ہے کہ اسلام کی جانب سے متحرک زندگی کی مسلسل رہنمائی کے لئے اجتہاد کی ضرورت پیش آتی ہے۔

مجتہد آیاتِ قرآنی کے فہم و ادراک اور احادیثِ معصومین ؑ میں غور و فکر کے ذریعے نو پیدا شدہ مسائل کے لئے احکام کا استنباط(استخراج)کرتا ہے۔

لہٰذا مجتہد کے لئے لازم ہے کہ وہ قرآن و سنت پر عبورکے ساتھ ساتھ معاشرے کے چلن، اُس میں اٹھنے والے مسائل اور اُسکی ضروریات پر مسلسل نظر رکھے اور زندگی کے ہر میدان میں اسلامی تعلیمات کے مطابق انسانوں کی رہنمائی کا اہتمام کرے۔

آیت اﷲ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اﷲکا شمار ایسے ہی مجتہدین میں ہوتا ہے۔آپ اُس دور میں نجفِ اشرف میں شہید سید محمد باقر الصدر علیہ الرحمہ کے قریبی ساتھیوں اور اُن کے ہمراہ و ہمرکاب رہنے والوں میں سے ہیں جس دور میں شہید صدر ؒ عراق میں اسلام کی اجتماعی اور سیاسی تعلیمات کی اساس پر ایک فکری اور سیاسی تحریک کی داغ بیل ڈال رہے تھے، جس کا مقصد اسلام کو مساجد و مدارس کی چہار دیواری سے نکال کرمعاشرے میں رائج اور نافذ کرنا تھا۔۱۹۶۶ء میں لبنان آجانے کے بعد آقائے فضل اﷲ نے وہاں کئی جوان نسلوں کو اسلام کی انقلابی تعلیمات سے روشناس کرایا اوربعد از آں حزب اﷲ لبنان کی بنیاد رکھی۔

دورِ حاضر میں اٹھنے والے نت نئے مسائل کے بارے میں اسلامی موقف کی توضیح و تشریح اور امتِ اسلامیہ کے خلاف استعما رکی فکری، ثقافتی اور سیاسی ریشہ دوانیوں پرکڑی نگاہ اور اُن کی چارہ جوئی کے لئے اقدامات آقائے فضل اﷲ کی امتیازی خصوصیات ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آپ مسائل کوایک وسیع افق(large horizon) سے دیکھتے ہیں، اس دوران بہت سے جوانب آپ کے پیش نظر ہوتے ہیں۔اسی بنا پر خاص کر جب آپ کسی ایسے مسئلے کا حل بیان کرتے ہیں جو مسلمانوں کی اجتماعیت سے تعلق رکھتا ہے، تو اس میں اسلام و مسلمین کی عظیم مصلحت اور مفاد بھی آپ کے پیش نظر ہوتا ہے۔

زیر نظر تالیف، جومختلف موضوعات پر آقائے فضل اﷲ کی خدمت میں پیش کئے گئے سوالات اور ان کے جوابات پر مشتمل ہے، اس میں آپ کی مذکورہ تمام خصوصیات موجزن نظر آتی ہیں۔امید ہے قارئین مطالعے کے بعد اپنے تاثرات، مشوروں اور قیمتی رہنمائی سے دریغ نہیں فرمائیں گے۔