جدید فقہی نظریات میں ردوبدل
فقہ زندگی • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
سوال :آپ کے وہ فتوے جو مشہور کی رائے کے برخلاف ہیں، کیا وہ آپ کی حتمی اورآخری رائے ہیں؟ یا یہ کہ اگر مستقبل میں کچھ نئے مسائل سامنے آئے یا ان کے بارے میں مزید غور و خوض ہوا توان فتاویٰ پر گفتگو کی جاسکتی ہے اوران میں تبدیلی کی گنجائش ہے؟
جواب: اس بات کا امکان موجود ہے کہ کوئی مجتہد (کتاب و سنت کی مانند) ادلّہ شرعی کی سمجھ بوجھ کی بنیاد پر جوفتویٰ صادر کرے، وہ فقہی نتائج کے تغیر کی صورت میں تبدیل ہو جائے۔اسکی صورت یہ ہے کہ اسے علم ہو جائے کہ اس نے اجتہاد میں غلطی کی ہے، یا (گزشتہ) دلائل سے متضاد اورمتصادم دلائل اسکے سامنے آ جائیں۔ کیونکہ فقیہ کا کام خدااور اسکے رسول کی طرف سے صادر ہونے والے واقعی اور حقیقی حکم کی تلاش ہے۔ لہٰذا وہ حکمِ شرعی کے بارے میں مسلسل جستجو اور اپنے اجتہادات پر پیہم نظر ثانی میں مشغول رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے جو ہمیں نظر آتا ہے کہ بعض گزشتہ فقہا نے اپنی ہی مختلف کتب میں ایک دوسرے سے مختلف فقہی آراء بیان کی ہیں۔ شہیدِ اوّلؒ کے علاوہ، معاصر فقہا میں بھی آیت اﷲ العظمیٰ سید محسن الحکیمؒ کو دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اہلِ کتاب کے موضوع پر ان کی نجاست کے فتوے کو بدل کر ان کی طہارت کا حکم دیا ہے ۔اسی طرح اُن کا فتویٰ تھا کہ صرف خانۂ کعبہ اور مقامِ ابراہیم ؑ کی درمیانی جگہ مطاف (طواف کی جگہ) ہے۔ پھر اس فتوے سے دستبردار ہو کرانہوں نے جہاں تک گنجائش ہو اس دائرے میں طواف کے جائز ہونے کا فتویٰ دیا۔
مراجعین کی بہت سی اجتہادی آراء میں اسی طرح کا رد و بدل، تغیر و تبدیلی ہوئی ہے۔ کیونکہ مرجع معصوم نہیں ہوتا۔ بعض اوقات نصوص کو سمجھنے میں اس سے غلطی ہو جاتی ہے اور کبھی قواعد کو ان کے مصادیق پراطلاق کرنے میں وہ غلطی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اور بسا اوقات تحقیق اور غور و فکر کے دوران کچھ مخالف دلیلیں اسکی نظروں سے پوشیدہ رہ جاتی ہیں۔ لہٰذا، وہ فتاویٰ جن میں اس طرح کی مشکلات پائی جاتی ہیں، ان پر نظر ثانی مجتہد کی فقہی شجاعت اور ان کے بارے میں اپنی غلطی کااعتراف اس کے حوصلے کی علامت ہیں۔
ہمارے لئے بھی اسی طرح کے مسائل پیش آئے ہیں۔ مثلاً ہم مہینے کی پہلی تاریخ ثابت ہونے کیلئے چاند کے آسمان پر پیدا ہوجانے کو کافی سمجھتے تھے۔ لیکن مزید غور و خوض اور افق پر رویتِ ہلال کے امکان پر کچھ اور دلائل حاصل ہو جانے کے بعدہم اپنے اس نظریے سے دستبردار ہو گئے اور اس بارے میں ہمارا نیا فتویٰ ہمارے استادآیت اﷲ العظمیٰ(ابوالقاسم) خوئیؒ کے فتوے کے موافق ہے۔ جو چاند نکلنے اوراسکے نظر آنے کے امکان کو پہلی تاریخ کا چاند ثابت ہونے کی راہ قرار دیتے ہیں۔ اگر ایسے ماہرین جن کا قول یقین اور اطمینان پیدا کر دے، ان دو شرائط کی شہادت دیں، تو پہلی تاریخ کا چاند ثابت ہے، حتیٰ اگرعام لوگوں نے چاند نہ بھی دیکھا ہو۔
استنباط کے مصادر
سوال : آپ قرآنِ مجید کواستنباط کا اوّلین مصدر سمجھتے ہیں اور اس سلسلے میں سنت کو اس حد تک سند قرار دیتے ہیں جہاں تک وہ کتابِ خداکے موافق ہو ۔ کیا آپ سے پہلے کچھ دوسرے مراجع اور مجتہدین بھی یہ نظریہ رکھتے تھے؟علاوہ از ایں اس روش کے مثبت پہلو کیا ہیں؟
جواب : تمام مجتہدین جس طرح قرآنِ کریم سے رجوع کرتے ہیں اسی طرح سنت سے بھی رجوع کرتے ہیں ۔اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اگر کوئی روایت قرآن کے مخالف ہو، تو اسے رد کر دینا چاہئے۔ البتہ ان میں سے بعض لوگوں سے ہمارا اختلاف قرآنِ کریم سے استدلال کرنے کے طریقے پر ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ آیاتِ قرآنی جیسے : فَاِمْسَاکٌ م بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌم بِاِحْسَانٍ(یا نیکی کے ساتھ روک لیا جائے گا، یا حسنِ سلوک کے ساتھ آزاد کر دیا جائے گا۔ سورۂ بقرہ ۲۔ آیت ۲۲۹) اورآیۂ کریمہ: وَ لَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِص وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ(اور عورتوں کو بھی دستور کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔ البتہ مردوں کو ان پر فوقیت حاصل ہے۔ سورۂ بقرہ ۲ ۔ آیت ۲۲۸) اور اسی طرح آیۂ کریمہ: یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِط قُلْ فِیْہِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِز وَ اِثْمُہُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا(یہ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو کہہ دیجئے کہ ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے اور بہت سے فائدے بھی ہیں لیکن ان کا گناہ فائدے سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔ سورۂ بقرہ ۲۔ آیت ۲۱۹) اور دوسری متعدد آیات بعض شرعی فتاویٰ کی بنیاد ہیں۔ لیکن دوسرے فقہا ہماری اس رائے کے قائل نہیں ۔ اسی طرح ہمارانظریہ ہے کہ احکام کے استنباط میں قرآنِ مجید کو بنیادی مقام حاصل ہے۔ لہٰذا جب وسعت و تنگی کے اعتبار سے سنت میں اختلاف دکھائی دے، تو لازماً سنت کو قرآنِ مجید کی کسوٹی پر پرکھا جائے ۔
ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ دوسرے فقہا کی روش سے ہماری روش کا امتیاز یہ ہے کہ ہم قرآنِ کریم سے استدلال کرتے ہیں ۔بلکہ ہم بھی اپنے اجتہادات میں فقہا کے اسی معمول کی پیروی کرتے ہیں اور قرآنِ کریم اور سنت سے استدلال کرتے ہیں۔ ہم نے اجتہاد کی یہ روش اُنہی سے سیکھی ہے۔لیکن ممکن ہے کہ ایک مجتہد کا استنتاج (نتیجہ اخذ کرنا) دوسرے مجتہد کے استنتاج سے مختلف یا مخالف ہو۔ کیونکہ ایسے بہت سے امور ہیں جنہیں گزشتگان نے آئندہ آنے والوں کیلئے چھوڑرکھا ہے۔
شرعی گنجائشیں
سوال : کیا احکام کو آسان بنانا، یا شرعی رخصتوں پر عمل، فقہی لحاظ سے معیوب بات نہیں ہے؟ ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے لئے شریعت میں سہولت و آسانی (سماحت) کے مفہوم کی وضاحت فرمائیں؟
جواب: دین کی عمومی پالیسی کے بارے میں گفتگو کرنے والی آیاتِ قرآنی کا مطالعہ اور اُن کا تجزیہ و تحلیل، ہم پر واضح کرتا ہے کہ ان آیات میں نہایت وضاحت کے ساتھ، صاف الفاظ میں دین کے آسان ہونے اور اس کے سخت نہ ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان آیات میں شریعت میں حرج (سخت مشقت) کی نفی کی گئی ہے۔مثلاً یہ آیت کہ : وَ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ( اور دین میں تمہارے لئے کوئی زحمت نہیں قرار دی ہے۔ سورۂ حج ۲۲۔ آیت ۷۸) اور: یُرِیْدُ اﷲُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لااَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ (خدا تمہارے بارے میں آسانی چاہتاہے، تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا۔ سورۂ بقرہ ۲ ۔ آیت۱۸۵) یا اﷲ رب العزت کا یہ قول کہ : اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِنجِیْلِز یَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہٰہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبآءِثاَا وَ یَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ
وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْہِم (جو لوگ رسولِ نبی امی کا اتباع کرتے ہیں اور جس کا ذکر اپنے پاس توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں کہ وہ نیکیوں کا حکم دیتا ہے اوربرائیوں سے روکتا ہے اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتا ہے اور خبیث چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے اور ان پر سے احکام کے سنگین بوجھ اور قید و بند کو اٹھا دیتا ہے۔ سورۂ اعراف ۷۔ آیت ۱۵۷)
اگر سنت پر بھی ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو مذکورہ آیات سے ہم آہنگ احادیث نظر آتی ہیں ۔مثلاً یہ معتبر حدیثِ رسولؐ : اتیتکم بالشریعۃ السھلۃ السمحۃ (میں تمہارے لئے آسان اور غیر مشکل شریعت لے کر آیا ہوں ۔ وسائل الشیعہ۔ ج ۸۔ ص ۱۱۶۔ روایت۱۰۲۰۹) اسی طرح آسانی اور سہولت پر مبنی فقہی قواعد بھی دکھائی دیتے ہیں جیسے اصالۃ الطھارۃ(ہر شے کو بنیاد ی طور پر پاک سمجھنا)کے مطابق : کل شیء طاھرحتیٰ تعلم انہ قذر (ہر چیز اس وقت تک پاک ہے جب تک اسکی ناپاکی کا علم نہ ہو۔ وسائل الشیعہ۔ ج ۱۔ ص ۱۴۲۔ روایت ۳۵۱) اسی طرح اصالۃ الحل(ہر شے کو بنیادی طور پر حلال سمجھنا) جو کہتی ہے کہ : کل شی ء حلال حتیٰ تعرف الحرام فیہ بعینہ فتدعہ ( ہر چیزحلال ہے، جب تک واضح طور پر اسکے حرام ہونے کا علم نہ ہو جائے، ایسی صورت میں اس سے اجتناب کرو) اور قاعدۃ الصحۃ (صحیح ہونے کا قاعدہ) جس کے مطابق: کل شیء صحیح من معاملۃ اوغیرھا مما یتصف بالصحۃ والفساد حتیٰ یثبت فسادہ (معاملات یا غیر معاملات میں سے کوئی بھی چیز جو صحیح یا غیر صحیح ہوسکتی ہے، اس وقت تک درست اور صحیح ہے جب تک اس کا غیر صحیح ہوناثابت نہ ہو جائے۔ وسائل الشیعہ۔ ج۸۔ ص ۲۳۷۔ روایت ۱۰۵۲۴) اسی طرح قاعدۃ الفراغ والتجاوز (کسی عمل سے فارغ ہو جانا، یا اسے انجام دے چکنا) لہٰذاحدیث میں آیا ہے کہ : اذا خرجت من شیء ثم دخلت فی غیرہ فشکک لیس بشیء (جب کسی عمل کو انجام دینے کے بعد دوسرے عمل کی انجامدہی میں مشغول ہو جاؤ، تو پہلے عمل کی صحیح انجامدہی کے بارے میں ہونے والے شک کا کوئی اعتبار نہ کرو) اور لا شک لکثیرالشک (کثرت سے شک کرنے والے کا شک بے اعتبار ہے)۔نیز احکامِ شک جو انسان کو شک کی سختی اور مشقت سے نجات کیلئے عملی راہِ حل تلاش کرنے پر ابھارتے ہیں اور اسی طرح وہ تمام مباحات جن کا اسلام نے اعلان کیا ہے: اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ(آج تمہارے لئے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔ سورۂ مائدہ ۵۔ آیت ۵) کے بارے میں بھی روایات موجود ہیں۔
لہٰذا پتا چلتاہے کہ آسانی اور شرعی رخصتیں دین اسلام کا بنیادی اصول ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رخصت کو فقہی ذہنیت بنا لیا جائے، اوراس کی بنیاد پر مصادرِ اجتہاد (قرآن و سنت) سے سند حاصل کئے بغیر، اور ان سے استدلال کئے بغیر آسان آسان احکام صادر کئے جائیں۔بلکہ لازم ہے کہ آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبویؐ میں غور و خوض کیا جائے، اور ان ادلّہ کی رو سے جو از یا حرمت کا فتویٰ دیا جائے۔
ہم نے بعض مقامات پر رخصت اور جواز کے جو فتوے دیئے ہیں، ان تمام کیلئے ہمارے پاس فقہی شرعی دلائل موجود ہیں اور احکامِ شرعی میں ہم نے صرف رخصت اور جواز ہی کے عنوان کو پیش نظر نہیں رکھا ہے۔ کیونکہ تنہایہ عنوان حکمِ شرعی کی دلیل نہیں بن سکتا۔
ہم بارہا اعلان کر چکے ہیں کہ ہم اپنے صادر کردہ اس قسم کے آسان فتووں کے بارے میں گفتگو اور مکالمے کیلئے تیار ہیں۔اور ہر قسم کی ایسی علمی تنقید کا استقبال کریں گے جو استدلالی انداز کی حامل ہو، اور جس میں شور و غوغا اور الزام تراشی نہ ہو۔