مرجع کے مقابل مقلدین کے فرائض
فقہ زندگی • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
سوال : حصولِ فتویٰ کے سوا مرجع کے مقابل مقلدین یاکلی طور پر پوری امتِ اسلامی کے اور کیا فرائض ہیں؟ کیا محض دینی امور اور فقہ سے واقفیت مرجع کو اس قسم کی ولایت بخشتی ہے یا اسکے لئے اسمیں دوسری شرائط کا پایا جانا بھی ضروری ہے؟
جواب: مرجعیت دو طرح کی ہوتی ہے:
کبھی مرجع صرف مفتی ہوتا ہے۔ یعنی اس کا کام فقہی دلائل کے ذریعے فقہی رائے کا استنباط (استخراج)کرنا ہوتا ہے۔ اس مقصد کیلئے فقہ میں مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی وہ احکام کے دلائل سے ان کے تمام مقدمات اور فقہی استنباط کے طریقوں کے ساتھ مکمل طور پر آشنا ہو، اور ایسے فقہی ذوق کا مالک ہو جس کی مدد سے کتا ب و سنت میں موجود دینی متون کی سمجھ بوجھ پر اس حد تک قادر ہو جیسے انہیں اہلِ زبان سمجھتے ہیں۔ لہٰذا اسے عربی زبان پر عبور کے ساتھ ساتھ، ادبی فہم کا حامل بھی ہونا چاہئے۔ کیونکہ ان متون کو سمجھنے کیلئے جس فنی پہلو کی ضرورت ہے وہ لغوی پہلو سے مختلف چیز ہے، جو الفاظ کو سمجھنے کیلئے ضروری ہوتا ہے۔
اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ زندگی کی حقیقتوں کو کھلی آنکھ سے دیکھتا ہو۔ تاکہ موضوعاتِ احکام کو حقیقی اور واقعی صورت میں درک کرسکنے کے ساتھ ساتھ موضوع کے متعلقہ حالات و شرائط کو بھی سمجھ سکے۔
مرجع کیلئے لازم ہے کہ وہ درست اور صحیح و سالم راہ سے احکامِ شرع کے استنباط کیلئے رائج افکار، درپیش مشکلات اور ان کے دینی حل کے بارے میں اسلامی معارف و علوم سے آشنا ہو، تاکہ اسکا فقہی استنباط، اسلام کے بنیادی اصول و قواعد سے ہم آہنگ ہو، جو اسلامی مفاہیم اور اقدار کے کلی خطوط کے ترجمان ہیں۔
فتویٰ دینے والے مرجع کو زبان دانی کے حوالے سے، زبان کے ہنری اور فنی اسلوب سے شناسائی کے اعتبار سے اور استنباط کے قواعد کی سمجھ اور دلائل کی معرفت کے لحاظ سے بھی اسلامی علوم و معارف کاحامل ہونا چاہئے۔ اسے انسانی حیات کیلئے اسلام کے پیش کئے گئے افکار، اقدار اور کلی خطوط سے آشنا ہونا چاہئے۔ یہ مرجعیت، مرجعیتِ تقلید ہے، جو علمی پہلو کی حامل ہے اور بعض لوگوں کے مطابق اسکی وسعت اور دامن میں ایسے امور بھی شامل ہیں جن کا مقلد محتاج ہوتا ہے اور انہیں تسلیم کرتا ہے۔
کبھی مرجعیت کا دائرہ اس قدر محدود فرض کیا جاتا ہے کہ اسے صرف رسمی طور پر دلائل کی شناخت تک منحصرکر دیا جاتا ہے اور اسکے لئے زمانے، عمومی میدانِ حیات سے ربط و تعلق اور معاشرے میں موجود بنیادی افکار سے شناسائی کو ضروری نہیں سمجھا جاتا ۔ہم مراجع تقلید کی علمی ا ور عملی سیرت میں اس حقیقت کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ البتہ ہم ایسے مراجعین پراس اعتراض کے باوجود کہ وہ عصرِحاضر کے انسان کے تقاضوں اورحالات کے بارے میں اہتمام نہیں کرتے، ان کے انتہائی احترام کے قائل ہیں۔
دوسری قسم کی مرجعیت، رہبری یا ولایتِ فقیہ کے عنوان سے ہے۔ یہ اس وقت سامنے آتی ہے جب فقیہ اسلام کی بنیاد پر معاشرے کے اجتماعی معاملات کے ولی اورحاکم کا عہدہ حاصل کر لیتا ہے۔ اورایک ایسے حقیقت پسند فقیہ کے مقام پرفائز ہوتا ہے جو زمانے اور اسکی حقیقتوں سے آشنا ہوتا ہے اور جن امور و معاملات میں وہ مہارت نہیں رکھتا ان میں ماہرین سے رائے لیتا ہے اور معاشرے کی رہبری و قیادت کا ادارہ جو مختلف فیصلے کرتا ہے اُن پر نظر رکھتا ہے اور اُن کے بارے میں ضروری رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
قدرتی طور پر جس مرجع کو یہ مقام حاصل ہو، اسے اجتہادی طریقے پر اسلام کے بارے میں گہرا اور وسیع علم ہونا چاہئے، تاکہ وہ معاشرے اور میدانِ حیات میں اسلام کو اسکی متحرک صورت میں داخل کر سکے۔ نیز اسے تمام متغیرات، خصوصیات، گہرائیوں اور باریکیوں کے ساتھ حقائق سے آشنا ہونا چاہئے۔ کیونکہ یہ بات مشکل ہی سے قبول کی جاسکتی ہے کہ کوئی حاکم معاشرے کی خصوصیات اور حالات و ظروف سے آگاہ ہوئے بغیر اسکی رہبری پر قادر ہو۔ چنانچہ اسکے لئے ضروری ہے کہ وہ انسان، اسکی ماہیت و حقیقت اوراسکی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو جانتا ہو۔ البتہ اس مقام پر صرف علمی پہلو پر اکتفا نہیں کیا جانا چاہئے۔
اس بنیاد پر ہم معتقد ہیں کہ صرف وہ مرجع مرجعیت کی دونوں اقسام، یعنی مرجعیتِ فتویٰ اور مرجعیتِ رہبری کا حامل ہو سکتا ہے جو اجتہاد کوثابت کرنے اور تقویت پہنچانے والے وسیع اور گہرے علم و دانش کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ، اس حد تک سیاسی اور سماجی معلومات سے بہرہ ور ہو کہ ذاتی طور پر اپنے معاشرے کے اور دنیا کے مسائل و مشکلات کی گتھیاں سلجھاسکے اور جن امور میں ماہرین کی رائے کی ضرورت ہو، ان امور میں ان کی رائے کا حصول اس کیلئے ممکن ہو۔
اس صلاحیت و قابلیت کے حامل متعدد مراجعین ہونے کی صورت میں بعض اوقات رائے عامہ سے رجوع کرنا ضروری ہوجاتا ہے، یہ عمل شوریٰ کے اصول سے بھی موافق ہے۔ رائے عامہ کا اظہار واضح کرتا ہے کہ جو انسان اس عہدے پر فائز ہے اسے لوگوں کی تائید اور اعتماد حاصل ہے۔
مرجعیت کے معاملے میں بھی ایسا ہی نظر آتا ہے۔ کیونکہ مجتہد مرجعیت کی صلاحیت رکھتا ہے اور جب لوگ کسی مجتہد کی طرف رجوع کرنے لگتے ہیں تو وہ مرجع ہو جاتا ہے۔
اسی معمول پر ایسا مجتہد جس میں رہبری اور قیادت کے عناصر اور شرائط پائی جائیں (نظریۂ ولایتِ فقیہ کی رو سے) وہ ولئ فقیہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جبکہ لوگ اسکا انتخاب کریں، اسکی تائید کریں۔ اس صورت میں وہ شخص فقہی مفہوم میں ”ولئ مسلمین“ ہو جاتا ہے۔
یہ شرط حقیقت پر مبنی ہے، کیونکہ قدرتی بات ہے کہ جس شخص کواپنی قیادت اور قیادت ومرجعیت کی صلاحیت کے بارے میں عوامی اعتماد حاصل ہو وہ درحقیقت اپنے آپ کو دوسروں پر مسلط نہیں کرتا۔
مشہور کی مخالفت
سوال : بعض افاضل کے بقول آپ مشہور کے مخالف ہیں۔ مشہور کے کیا معنی ہیں؟ معین اصول کے تحت کیا مشہور کی مخالفت معیوب اور ناپسندیدہ سمجھی جاتی ہے؟
جواب: مشہور، فقہا کی وہ اکثریت ہے جن کی کسی ایک فتوے کے بارے میں یکساں رائے ہو۔یہ اتفاقِ رائے متاخرین کے یہاں بھی نظر آتا ہے جسے ” مشہورِ متاخرین“ کہا جاتا ہے۔
اصولیوں کے درمیان معروف ہے کہ کسی فتوے کی شہرت بذاتہ حجت نہیں ہوتی ۔یعنی وہ کسی ایسے حکم کے استدلال کی بنیاد نہیں بن سکتی جو کتاب و سنت سے شرعی دلیل نہ رکھتا ہو۔لیکن ان کے علم پراعتماد، ان کے فقہی مقام و منزلت کے احترام اور ان کے گرد خاص حالات و عوامل کے حصار نے نفسیاتی لحاظ سے ان کی مخالفت کو ممنوع اور مردود کردیا ہے ۔ اس حد تک کہ گویا قولِ مشہور کا مخالف فقاہت کی راہِ مستقیم سے بھٹک گیا ہے۔لیکن ہمارے پاس قولِ مشہور کیلئے کوئی فقہی بنیاد نہیں ہے۔ کیونکہ فقہائے مشہور کا احترام (جس کالازمہ ان کے اجتہادی فہم و ادراک پر غورو تامل اور علمی تنقید ہے) اوران کی آراء(جنہیں تاریخی اورفقہی تقدس کی بنا پر بلا بحث و گفتگو قبول کر لیا گیا ہے) کو بلاچوں و چرا مان لینا دو علیحدہ باتیں ہیں۔
ہم معتقد ہیں کہ فقہائے مشہور کی آراء کی مخالفت میں عجلت سے کام نہیں لینا چاہئے کیونکہ ان کامعروف علمی مقام ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ان حضرات کے پاس اپنے فتاویٰ کیلئے لازماً مضبوط دلائل ہوں گے۔ لیکن ساتھ ہی ہمیں اس نکتے پر بھی متوجہ رہنا چاہئے کہ مشہور فقہا نے بھی (مشہور فتاویٰ کے سوا) بہت سے فتاویٰ میں ایک دوسرے کی مخالفت کی ہے اور ایک دوسرے کی آراء پر تنقید کی ہے۔ پس پھر ہمیں کیوں مشہورفتاویٰ میں ان کی مخالفت کا حق نہ ہو۔ جبکہ ان کے دلائل ہمارے سامنے ہیں اور ان دلیلوں میں کمزوروضعیف ہر قسم کی دلیلیں شامل ہیں۔ یہ فقہا بھی خطاؤں سے معصوم نہ تھے اور ان کی فقہی آراء پر بھی علمِ فقہ کااختتام نہیں ہوگیا ہے۔
سوال : آپ کے بعض جدید فتاویٰ کی نظیر کچھ سابقہ علما، فقہا اور مراجعین کے فتاویٰ میں نظر آتی ہے۔ کیا آپ ان میں سے کچھ مثالوں کی وضاحت کر سکیں گے؟
جواب: تمام انسانوں (حتیٰ کفار) کے طاہر ہونے کے بارے میں ہمارا نظریہ شہید سید محمد باقرالصدرؒ کے نظریے سے موافق ہے۔ البتہ انہوں نے اپنے فتوے میں کفار (کی پاکیزگی) کے بارے میں احتیاط کوترجیح دی ہے ۔
ابتداً مردہ مجتہد کی تقلید کے بارے میں ہماری رائے محقق قمی (صاحبِ قوانین) اور دیگر فقہا کی رائے سے ہم آہنگ ہے، جو اسے اصولی تقاضا تو سمجھتے ہیں لیکن اس (کے جواز) کے بارے میں فتویٰ دینے کی جرات نہیں رکھتے۔
جوئے میں استعمال ہونے والے آلات و وسائل سے (بغیر بازی لگائے) کھیلنے کے جائز ہونے کے بارے میں ہماری رائے معاصرفقیہ سید احمد خوانساری (صاحبِ جامع المدارک) کی رائے کے موافق ہے۔
عورت کی خودلذتی (استمنا) کے جائزہونے کے بارے میں ہم ان تمام فقہا کی رائے سے متفق ہیں جو اس عمل کی حرمت (اسکے حرام ہونے) کو منی کے اخراج سے وابستہ قرار دیتے ہیں۔ آیت اﷲ ابوالقاسم الخوئی نے کتاب منیۃ المسائل (ص۱۲۹) میں عورت کی خود لذتی کے حرام ہونے کے بارے میں کئے گئے سوال کے جواب میں اس بات کی وضاحت کی ہے ۔آپ کا جواب یہ ہے کہ: عورت کی خودلذتی (استمنا) اگرمنی نکلنے کاباعث بنے تو یہ عمل حرام ہے۔ البتہ اس جانب توجہ رہے کہ بعض ماہر اطباء(doctors) کا کہنا ہے کہ عورت میں سرے سے منی ہوتی ہی نہیں ہے (۱)۔ یہ امر ہمارے لئے لازم کرتا ہے کہ ہم عورت کی منی کے بارے میں بیان کی جانے والی احادیث کی تفسیر و تاویل کریں، یا یہ کہ اس مسئلے کو ماہرین کے سپرد کر دیں، تاکہ وہ اس بارے میں اپنی رائے بیان کریں ۔اور اگر یہ بات ثابت ہو جائے کہ عورت میں بھی منی ہوتی ہے، تو اس صورت میں عورت اور مرد کے حکم میں اشتراک کی بنیاد پر اس عمل کی حرمت کا نظریہ قابلِ قبول ہے۔
داڑھی کاٹنے کے جوازکے بارے میں ہماری رائے مرحوم شیخ عباس رمیثی( نجفِ اشرف کے عالم دین جو اپنے علم و فقاہت میں مشہور تھے) اوراپنے استاد آقائے خوئیؒ سے
۱ ۔ کتاب کے آخر میں شامل ضمیمے کو دیکھئے۔
ہم آہنگ ہے۔(۱) البتہ آقائے خوئی ؒ نے اس کی حرمت کا فتویٰ نہیں دیا اور اس کی حلیت کا فتویٰ دینے سے بھی وحشت زدہ تھے۔ اس عمل کی حرمت پر دلیل نہ رکھنے کی وجہ سے انہوں نے اس کے بارے میں احتیاطِ واجب کا فتویٰ دیا ۔بعض معاصر علما نے بھی اس عمل کو ترک کرنے میں احتیاط کو مناسب سمجھا ہے اور اس کے حرام ہونے کا فتویٰ نہیں دیاہے۔
اسی طرح ہمارے اور فتاویٰ بھی ہیں جن میں ہماری رائے بعض معاصر (۲) فقہا کی رائے سے ہم آہنگ ہے۔
سوال: غیر رائج اورغیر مشہور فقہی آراء و نظریات کے خلاف ظاہر ہونے والا ردِّ عمل کیا مشہورفقہی آراء کے عادی ہوجانے یا ان سے لگاؤ کا نتیجہ ہے ؟ کیا یہ ردِّ عمل بجا ہے؟ یا اس سے صرف (غیر مشہورآراء کا اظہار کرنے والے) افراد کو بدنام کرنا مقصود ہوتا ہے؟
جواب؟ ہمارے خیال میں اکثر منفی ردِّ عمل طویل مدت سے رائج ان مشہور نظریات سے بعض لوگوں کے لگاؤ اور ان کا عادی ہوجانے کا نتیجہ ہے ۔نیز ا س طرح کے ردِّ عمل کے پیچھے بعض اوقات خاص اغراض و مقاصد بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ تیسرا عامل یہ ہے کہ ایسے ردِّ عمل کا اظہار کرنے والے لوگوں کو فقہ میں آنے والے تغیر و تبدل اور اس کے تاریخی مراحل کا علم بھی نہیں ہوتا۔
عناوین ثانوی
سوال : علمِ اصول کے مطابق عنوانِ ثانوی عنوان اولی پرحاکم ہے ۔جبکہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ
عام طور پر مقلدین، احکام و فتاویٰ میں صرف عنوانِ اولی پرعمل کرتے ہیں۔ کیا آپ مصادیق اور مثالوں کے ذریعے اس اعتراض کی وضاحت کر سکتے ہیں؟
۱۔ منھاج الصالحین از سید علی سیستانی ۔ ج ۲۔ ص ۱۳۔ م ۴۳
۲۔ حوالۂ سابق۔ ج ۲۔ ص ۱۸۔م ۴۶
جواب :حکمِ اولی وہ حکم ہے جو موضوع کے ذاتی عنوان پر اسکے طبیعی وجود کے اعتبار سے ثابت ہوتاہے، جیسے شراب کا حرام ہونااور پانی کا مباح ہونا۔ جبکہ حکمِ ثانوی، وہ حکم ہے جو خارجی یا عارضی عنوان کے اطلاق کے لحاظ سے ایک موضوع سے تعلق پیدا کرلیتا ہے۔ جیسے وہ احکام جو جبر، سختی ودشواری اور دوسروں کو ضرر پہنچنے کی صورت میں موضوعات پر منطبق کئے جاتے ہیں۔ اس طرح کے عناوین بعض اوقات حکمِ اولی کو بدل دیتے ہیں۔ مثلاً مجبوری و لاچاری کی حالت میں شراب نوش کر لینا(جبکہ انسان کی جان بچنا شراب پینے پر موقوف ہو) نہ صرف جائز ہو جاتا ہے بلکہ واجب ہے۔ اسی طرح اگر پانی کا پینا انسان کی موت کا باعث نظر آئے تو اسے پینا حرام ہے ۔
بہت سے مباح اورجائز امور اس صورت میں حرام ہوجاتے ہیں جب ان سے کسی مومن شخص، یا مذہب کی توہین ہوتی ہو، یا ان سے لوگوں کو نقصان پہنچتا ہو۔ ان امور کی کچھ مثالیں بعض ان اعمال میں نظر آتی ہیں جو عزاداری کے مراسم میں داخل ہو گئے ہیں ۔جیسے قمہ زنی، زنجیر زنی اگرچہ عنوانِ اولی کے تحت حلال ہیں۔کیونکہ بعض فقہا کسی کا اس حدتک اپنے آپ کو نقصان پہنچانا حرام نہیں سمجھتے جو اسکی ہلاکت کا باعث نہ ہو، لہٰذا ان کی رائے کی بنیاد پر یہ اعمال عنوانِ اولی کے تحت توحلال ہیں، لیکن اگر ان سے مذہبِ شیعہ کی توہین ہوتی ہو، اوردوسروں کے اس مذہب کا مذاق اڑانے کا باعث ہوتے ہوں، اوراغیارا سے شیعوں کی دقیانوسیت قرار دیتے ہوں اور اسی طرح ان کے مستحب ہونے یا واجب ہونے پر بھی کوئی خاص دلیل موجود نہ ہو، تو ممکن ہے عنوانِ ثانوی کے تحت یہ اعمال حرام ہوں۔
حکمِ ثانوی اپنے مقام پر ویسے ہی حکمِ خدا ہے جیسے حکمِ اولی اپنے مقام پر حکمِ الٰہی ہے۔ اورہم پر ہر جگہ حکمِ خداکی پیروی لازم ہے۔ شرعی دلائل کے اطلاق کے لحاظ سے حکمِ ثانوی کے مقام کی تشخیص میں کافی غور و خوض اور توجہ کی ضرورت ہے۔