فقہ زندگی

اعلمیت کے مسئلے میں ہم اصولی طور پر عقلا کے معمول کو (جو مسئلۂ تقلید کی بنیاد ہے) اعلم سے رجوع کرنے میں منحصر نہیں سمجھتے ۔بلکہ لوگ اپنے تمام امور میں، اُن امور سے باخبر افراد کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس سلسلے میں ان امور کے اعلم ہی سے رجوع کرنے پر اصرار نہیں کرتے۔
رہی یہ بات کہ لوگ اختلافی مسائل میں اعلم کی طرف رجوع کرتے ہیں، تو یہ صرف اس وقت ہوتا ہے جب کوئی مسئلہ ہر صورت میں حجت و دلیل کی بجائے احتیاط کا تقاضا کرتا ہو۔ہم اس امر کا مشاہدہ لوگوں کے عام طرزِ عمل میں کرتے ہیں کہ جب کوئی مرض خطرناک حدوں کو چھونے لگتا ہے، تب وہ اس سلسلے میں سب سے زیادہ ماہر طبیب سے رجوع کرتے ہیں، اور بعض اوقات سب سے ماہر طبیب کے ساتھ ساتھ، ڈاکٹروں کے ایک بورڈ کی تشکیل کی درخواست بھی کرتے ہیں۔ تاکہ بیماری کی تشخیص یااسکے علاج کے سلسلے میں مددگار بننے والے ہر قسم کے احتمال کا جائزہ لیا جائے۔ لہٰذا (اضطراری حالات کے سوا) اختلافی مسائل میں اعلم کی طرف رجوع کرنا، عقلا کی سیرت اور روش کی رو سے لازم اور ضروری دکھائی نہیں دیتا۔
یہ بات تو ہم جانتے ہی ہیں کہ شرعی مسائل کے سلسلے میں ہماری ذمے داری احتیاط پرعمل کرنا نہیں ہے، جس کے تحت ہم پر ہر صورت میں واقعی اورحقیقی حکم پر عمل کرنا ضروری ہو۔ بلکہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہمارے پاس (اپنے عمل کی) حجت یا دلیل ہو، یا حتیٰ (اسکے بارے میں) عذرِ شرعی موجود ہو۔اور یہ امور فقیہ اور پرہیز گار مجتہد کی طرف رجوع کر کے حاصل ہو جاتے ہیں۔
یہاں ایک اور نظریہ بھی موجود ہے، جو کہتاہے کہ : فَسْءَلُوْآ اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لااَا تَعْلَمُوْنَاورفَلَوْ لااَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآءِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوْافِی الدِّیْنِ
وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَہُمْ اِذَا رَجَعُوْآ اِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنکی دلیلیں، اختلافی مسائل میں اعلم کی طرف رجوع کرنے کی رائے کا احاطہ نہیں کرتیں۔ کیونکہ حجیت کی دلیل دو باہم متناقض اور متضاد آراء کو اپنے اندر شامل نہیں کرتی۔ اس بنیاد پر یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ آپ فلاں نظریے پر بھی عمل کر سکتے ہیں اور اس نظریے کے بالکل برعکس نظریے پر بھی عمل پیرا ہوسکتے ہیں۔ پس اگر حجیت کی دلیل دو باہم متضاد نظریات کو اپنے اندر شامل نہیں کرتی، تو پھر غیر اعلم کا فتویٰ (اگر وہ اعلم کے فتوے کے مخالف ہو) حجیت کا حامل نہیں ہو گا۔ قدرے
یقینی بات یہ ہے کہ (ادلّہ میں تعارض اور ٹکراؤ کے باعث سقوط کی بنا پر) معاملہ تعیین
اور تخییر(۱) کے درمیان منحصرہو جاتا ہے۔ اور عقل فیصلہ دیتی ہے کہ جس چیز کے بارے میں تعیین کا احتمال ہو اسکی جانب رجوع کیا جائے، کیونکہ جس کاحجت ہونا مشکوک ہو اس میں اصل ”عدم حجت ہونا“ ہے۔
لیکن کچھ لوگ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ تقلیدکے دلائل اختلافی موارد کا بھی احاطہ کرتے ہیں، البتہ تخییر کے طور پر۔ جب دلیل یہ کہہ رہی ہو کہ: فَسْءَلُوْآ اَہْلَ الذِّکْرِیعنی اہلِ ذکر میں سے کسی سے بھی پوچھ سکتے ہو، تو یہ خود ایک قسم کی تخییر ہے۔ مثلاً جب کہا جاتا ہے کہ انسان کا احترام کرو، تو اسکے معنی یہ ہیں کہ آپ کسی بھی انسان کا احترام کر سکتے ہیں۔ یہاں پر بھی آپ آزاد ہیں، جس مجتہد کے فتوے پر چاہیں عمل کیجئے۔ کیونکہ وہ ادلّہ جو عموم اور شمول کی صورت میں پہنچی ہیں، وہ ایک ہی درجے کی نہیں ہیں بلکہ (مذکورہ بالا مثال کی مانند) اطلاقِ بدلی کی صورت میں ہیں۔ اسی بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ دو متناقض فتووں کو تقلید کی دلیل کے تحت شامل قرار دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ فقہا نے بھی دلیل پر مبنی دو متضاد اور آپس میں ناساز گار آراء میں سے کسی ایک رائے کو اختیار کرنے سے منع نہیں کیا ہے۔ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ اس بارے میں دلیل موجود ہے، حتیٰ اگر دوسرا مجتہد اعلم بھی ہو۔
اگر کوئی اس بات کا معتقد ہے کہ اعلم اور غیر اعلم کے درمیان اختلافِ رائے کی صورت میں عقل کہتی ہے کہ اعلم کی رائے پر عمل کیا جائے، تو اسکا جواب ہم پہلے ہی دے چکے ہیں کہ عقل انسان کو اس امر کا پابند نہیں کرتی ۔جبکہ وہ دوسرا مجتہد غیر معمولی سعی و کوشش کی بنا پر کثیر علم اور وسیع معلومات کا حامل ہو۔
ان سب باتوں سے قطع نظر، خود اعلمیت کا مسئلہ پیچیدہ اور مبہم ہے۔
در حقیقت اعلم سے کیا مراد ہے؟

۱۔تعیین : دویا دو سے زیادہ صورتوں میں سے کسی ایک کا ترجیحی حیثیت کا حامل ہونا۔تخییر : دو یا دوسے زیادہ صورتوں میں سے کسی بھی ایک کو اختیار کرسکنا۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اعلم وہ ہے جو استنباط میں سب سے زیادہ قوی ہو۔پھر سوال یہ جنم لیتا ہے کہ استنباط کے معیار کیا ہیں؟
کبھی ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگوں کے خیال میں اعلم وہ شخص ہوتا ہے جو اصولی مسائل پر گہری اوردقیق نظر رکھتا ہو۔ لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ اصولی مسائل پر حد سے زیادہ توجہ بھی کبھی کبھی انسان کو فقہی مسائل کے ادراک سے دور کر دیتی ہے۔ کیونکہ فقہی مسائل میں عقلی موشگافیوں سے زیادہ ادبی ذوق کی ضرورت ہوتی ہے ۔اسلئے کہ فقہ کا بنیادی تعلق کتاب و سنت کے متون سے ہے ۔ لہٰذا ممکن ہے کہ اصول میں اعلم شخص حکمِ شرعی دریافت کرنے میں اس غیر اعلم شخص سے پیچھے رہ جائے جو عمومی فقہی ذوق و درک کا حامل ہو۔
رہا یہ سوال کہ اعلم کا فتویٰ حکمِ واقعی سے قریب تر ہوتا ہے۔ تو اسکے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ کون ہے جو حکمِ واقعی کو جانتاہے تاکہ اسکی بنیاد پر یہ تشخیص دے کہ فلاں فتویٰ اس سے قریب تر ہے؟ اسی طرح ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایک زمانے کے غیر اعلم کا فتویٰ دوسرے زمانے کے اعلم کے فتوے کے موافق ہو اور ایک دور کے اعلم کا فتویٰ کسی دوسرے دور کے غیر اعلم کے فتوے کے موافق ہو ۔ تمام اعلم حضرات کا کوئی ایسا ثابت اور مستحکم فتویٰ موجود نہیں ہے جس کے متعلق یہ کہا جا سکے کہ وہ حکمِ واقعی سے قریب تر ہے۔
لہٰذا ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو فقہی ذوق کا مالک ہو، جس کے ذریعے وہ کتاب و سنت کو عربی قواعد اور تعبیرات کے فنی اسالیب کی شناخت کے ساتھ معروف طریقے سے سمجھ سکے اور اسلام کی اس روح سے واقف ہو جو اسکے شرعی احکام پر سایہ فگن رہتی ہے، نیز کسی حکمِ شرعی کی قرآنی مفاہیم اور سنتِ نبویؐ کے مضامین سے مخالفت کو محسوس کر سکے۔
اس بنیاد پر ہم اعلم کی تقلید کو ضروری نہیں سمجھتے۔ اگر اعلم کی تقلید لازم ہوتی غیر اعلم علما کو چاہئے تھا کہ لوگوں پر اپنے دروازے بند کر دیتے۔ کیونکہ اس طرح پھر لوگ ان کی طرف رجوع نہیں کرتے اور اگر وہ رجوع کرتے تو اعلم کی موجودگی کی وجہ سے ان کے پاس شرعی حجت اور اعتبار نہیں ہوتا۔
اسی کے ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ لوگ صرف خاص حالات میں اعلم کی جانب رجوع کرتے ہیں۔ یہ خیال کہ لوگ اعلم اور غیر اعلم کے درمیان پائے جانے والے فرق سے نا واقفیت کی وجہ سے غیر اعلم کی طرف رجوع کرتے ہیں، اس کی بنیاد یہ ہے کہ غیر اعلم کی رائے خلافِ واقع نہیں ہوتی۔
درحقیقت جب لوگ کسی ڈاکٹر یا انجینئر سے رجوع کرتے ہیں تو اس وقت ان کے درمیان پائے جانے والے اختلافِ رائے سے صرف اجمالی طور پر واقف ہوتے ہیں ۔اور اسی طرح جب وہ علما کی طرف جاتے ہیں تو ان کے درمیان اختلاف کو بھی اجمالی اورسرسری طورپر ہی جانتے ہیں۔ لہٰذ اعقلا کا طرزِ عمل، غیر اعلم سے رجوع کرنے کی تائید کرتا ہے ۔اور اس مسئلے میں عقلا کی رائے حجت کا درجہ رکھتی ہے۔ نیز اسلامی شریعت میں بھی غیر اعلم کی جانب رجوع کرنے سے نہیں روکا گیا ہے۔ لہٰذا اس سلسلے میں کوئی مشکل درپیش نہیں ۔
دوسرا نکتہ جومعروضی لحاظ سے اعلم کی تقلید کے عملی پہلو میں پایا جاتا ہے، وہ امتیاز کرنے والے عوامل کے ذریعے بالکل ٹھیک ٹھیک اعلم کی شناخت میں موجودمشکل ہے۔ بالخصوص جبکہ ہر مجتہد کچھ ایسی خصوصیات اور امتیازات کامالک ہوتا ہے جو دوسروں میں نہیں پائی جاتیں۔ اس لئے کوئی ایسا شخص تلاش نہیں کیاجا سکتا جو مطلق طور پرا علمیت کے تمام پہلوؤں اورعناصر کا حامل ہو۔ لہٰذا وہ لوگ جو کسی ایک یا دوسرے مرجع کی مرجعیت کی تبلیغ کرتے ہیں، وہ یا تو فقہی پہلو سے متاثر ہوتے ہیں یا خود اپنی ترجیحات اوررجحانات کے تابع ہوتے ہیں، اورکبھی کبھی بعض مراجع کی تبلیغ ذاتی لگاؤ یا سیاسی و اجتماعی ثانوی عناوین کے تابع ہوتی ہے، جو اعلم کی تقلید کو ایک حد تک غیر واقعی اور غیر عملی بنادیتی ہے۔
تقلید میں تبعیض کا جواز
جہاں تک تقلید میں تبعیض کے جوازکی بات ہے، توصرف ہم ہی یہ نظریہ نہیں رکھتے بلکہ بعض دوسرے حضرات جو اعلم کی تقلید کے واجب ہونے کے قائل ہیں، اس بات کے بھی معتقد ہیں کہ اگر چند مجتہدین ایک ہی مرتبے پر فائز ہوں، یعنی اعلمیت کے رتبے کے حامل ہوں اور ان میں سے کوئی ایک دوسرے سے زیادہ اعلم نہ ہو لیکن یہ سب اجتماعی طور پر دوسروں سے اعلم ہوں، تو جس شخص پر تقلید واجب ہے اسے اختیار حاصل ہو گا کہ ان میں سے کسی کی بھی کسی مسئلے میں تقلید کرے۔کچھ لوگوں کاخیال یہ بھی ہے کہ اس صورت میں احتیاط کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔(۱)
اس بنیاد پر، اگر ہم غیر اعلم کی تقلید کو جائز سمجھتے ہوں، یا ہمارے سامنے کچھ ایسے علما ہوں
جن میں سے کوئی دوسروں سے زیادہ اعلم نہ ہو، تو ہماری رائے یہ ہے کہ ان میں سے کسی کی بھی تقلیدکی جا سکتی ہے ۔کیونکہ یہ ایک ایسی عاقلانہ روش ہے جس میں عام طور پر احتیاط کی ضرورت نہیں ۔جیسے کہ اسلامی شریعت بھی احتیاط کی راہ نہیں دکھاتی۔ بلکہ کبھی کبھی فقیہ اپنے فقہی ذوق کی مدد سے روایات میں موجود باہم متضاد احکام میں سے کسی ایک حکم کو اختیار کرتا ہے کیونکہ تخییر (یعنی مختلف آراء میں سے کسی ایک رائے کو اختیار کرنا) ایک فقہی اصول ہے۔ اوروہ روایات اس کے سوا کوئی اورخصوصیت نہیں رکھتیں کہ ایک ایسے شرعی مضمون کی حامل ہوتی ہیں جو مکلف کے اعمال سے تعلق رکھتا ہے۔ اور اگر تمام مسائل میں تخییر ممکن ہو تو یقینی طور پر بعض مسائل میں حجیت کے پائے جانے کے لحاظ سے ممکن ہو گی۔ لیکن اسکے باوجود کسی مکلف کیلئے احتیاط پر عمل کرنے میں کوئی حرج اور ممانعت نہیں ہے۔
البتہ مشکل اس مقام پر پیش آتی ہے جہاں فقہا کے درمیان نزاع و اختلاف پایا جاتا ہے اور وہ مشکل یہ ہے کہ : کیا ایسے شخص کیلئے احتیاط کرنا جائز ہو گا جو اجتہاد اور تقلید کے مسئلے کو ہی چھوڑ بیٹھا ہو؟۔۔ بالخصوص اس وقت جبکہ کچھ ایسے مسائل پیش آئیں جن میں احتیاط پر عمل کے جائز یا ناجائز ہونے کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلافِ رائے پایا جاتا ہو۔

۱۔ تقلید میں تبعیض سے مراد یہ ہے کہ ایک مقلِّدکچھ مسائل میں کسی ایک مرجع کی تقلید کرے اور کچھ مسائل میں کسی دوسرے مرجع کا مقلِّد ہو۔
مثال کے طور پر فقہا نے اپنی فقہی مباحث میں اس مسئلے کو اٹھایا ہے کہ جہاں ممکن ہو وہاں نیت کے ساتھ یقین شرط ہے یا نہیں؟
کیا اعمال، بالخصوص عبادی اعمال کی انجامدہی کیلئے لازم ہے کہ ان کے ساتھ وجوب یا استحباب کا قصد کیا جائے؟ یاان کے وجوب یا استحباب کا صرف احتمال ہونا کافی ہے؟ یا اگر احتیاط نے کسی عمل کو دُہرانے کا تقاضا کیا ہو جبکہ وہ اس وقت کسی کی تقلید کر سکتا ہے اور تقلید کی بنیادپر عمل کو ایک ہی مرتبہ انجام دے سکتا ہے، یا پھر اگر وہ مجتہد ہونے کی صورت میں اجتہاد کرے، حکم کو دریافت(discover ) کرے تو کیا اسکے لئے احتیاط پر عمل کرنااور اس عمل کو دُہرانا جائز ہو گا؟
لہٰذا تقلید کے بعض فرعی مسائل شرعی اور غیر شرعی اعتبار سے متنازع ہیں۔ اس صورتحال میں انسان کیلئے ضروری ہے کہ یا تو وہ مجتہد ہو یا کسی ایسے مجتہد کی تقلید کرتا ہو جس نے اس مسئلے میں احتیاط کے جواز کا فتویٰ دیا ہو۔
کچھ جگہوں پر احتیاط بھی احتیاط پرعمل کو ترک کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ کیونکہ اس صورت میں احتیاط پر عمل میں حرج ہے۔
ممکن ہے وہ عام افراد جو خاطر خواہ علم نہیں رکھتے، تمام امور میں احتیاط پر عمل نہ کر سکیں۔ کیونکہ اسکے لئے اُن کا احتیاط پرعمل کے مقامات سے واقف ہونا ضروری ہے۔ بنیادی طور پر ایسا احتیاط جو ہر حال میں حقیقت کو محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہو، (یعنی جس سے عمل کے صحیح طور پرواقع ہو جانے کا یقین پیداہوجائے )اُس میں کوئی مضائقہ نہیں اور وہ جائزہے ۔لیکن یہ عملی لحاظ سے کبھی کبھی مشکل پیدا کر دیتا ہے۔

سوال: کیاایسے شخص کی رائے پر عمل کرناجائز ہو گا جو فقہ کے کسی ایک باب مثلاً اقتصاد کا ماہر ہو، اگرچہ یہ ماہر عام لوگوں کی نظر میں ایک عالمِ دین شمار نہ کیا جاتا ہو؟
جواب : کسی میدان میں ماہر کوئی شخص رسمی طور پر عالمِ دین یا مرجع شمار کیا جاتا ہے یا نہیں، اس مسئلے کا رسمی پہلو اہمیت کا حامل نہیں۔ بلکہ اہم ترین بات اس کا اس رسمی علم کا حامل ہونا ہے جس کے تحت وہ اجتہاد کے درجے پر فائز ہو اوراہلِ خبرہ ( فن کے ماہرین) میں شمار کیا جاتا ہو۔ یعنی ان لوگوں میں سے ہو جو اپنی رائے پر عمل کر سکتے ہیں اور دوسرے بھی ان کی رائے کی جانب رجوع کر سکتے ہیں۔
اگر انسان مطالعے، بحث و گفتگو اور تحقیق کے ذریعے اجتہاد کے مرحلے پر پہنچ جائے، تو اسکے لئے کوئی حرج نہیں بلکہ (اگر احتیاط پرعمل نہ کرنا چاہے تو) اس پر واجب ہے کہ اپنی فقہی رائے پر عمل کرے، اور اگر دوسرے لوگ بھی اس میں ایک مُقَلَّد (یعنی جس کی تقلید کی جاتی ہے) کی صفات پائیں تو جن مسائل میں تقلید کی جاتی ہے ان میں اسکی تقلید کر سکتے ہیں۔
مرجع کی صفات
سوال: جس مرجع کی تقلید جائز ہے، اسکی صفات اور شرائط کیا ہیں؟
جواب: مرجع کیلئے بنیادی شرط، اس میں اجتہاد کی قدرت کے ساتھ ساتھ فقہ کے میدان میں مسلسل محنت ہے، جو اسکی سمجھ بوجھ کو جلا بخشتی ہے۔ البتہ صرف اجتہاد اور عدالت کا پایا جانا، جو مجتہد پر انسان کے اطمینان و اعتماد کا سبب ہے، کافی نہیں ہے۔ دوسری شرائط میں اسکا مرد ہونا، آزاد ہونااورحلال زادہ ہونا بھی شامل ہیں، جو تقلید کے حوالے سے علمی لحاظ سے موثر نہیں لیکن مرجع کی اجتماعی حیثیت پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ شاید ان میں سے زیادہ تر شرائط احتیاط پر مبنی ہیں۔

سوال : کیا آپ مُقَلَّد ( یعنی جس کی تقلید کی جائے) کیلئے مرد ہونا شرط سمجھتے ہیں؟
جواب : اگر مسئلۂ تقلید کا تعلق اس بات سے ہے کہ جاہل عالم کی پیروی کرے، توعالم مرد اور عالم عورت میں کوئی فرق نہیں۔ البتہ مرد کا عورت کی تقلید نہ کرنا ایک حد تک مسلم سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ہماری نظر میں اسکی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے۔ بلکہ اسکا سبب ماضی کے معاشرتی حالات ہیں، جن میں لوگ عورت کو حقارت کی نظرسے دیکھتے تھے، اور اسے فقہی ذمے داریاں اٹھانے کے سلسلے میں ناتواں سمجھتے تھے ۔شاید اس امر کی ایک دلیل تاریخ میں عورت کی مرجعیت کا سراغ نہ ملنا بھی ہو۔ جبکہ ان میں سے کوئی بھی عامل عالم عورت کی جانب مرد کے رجوع نہ کرنے کی اطمینان بخش دلیل نہیں ہے۔

سوال: کیا مرجع کی عدالت اور امامِ جماعت کی عدالت اور عدالت میں پیش ہونے والے گواہ کی عدالت کے درمیان کوئی فرق ہے؟
جواب: ہم ان کے درمیان کسی فرق کے قائل نہیں۔ لیکن ہم آج کل دیکھ رہے ہیں کہ جن شرائط کے لوگ امامِ جماعت کی عدالت کے بارے میں قائل ہیں، ان میں بھی شدت سے کام لیاجاتا ہے، یہاں تک کہ یہ شرائط فتویٰ دینے کی بنیادقرار دی جاتی ہیں۔کچھ لوگوں کی کوشش ہے کہ کیونکہ مرجع لوگوں کے اموال و حقوقِ شرعیہ اور عزت و ناموس کے سلسلے میں ذمے دار ہوتا ہے، لہٰذا اسکے لئے زیادہ سے زیادہ سخت شرائط مقرر کی جائیں۔ ان شرائط کا تقلید اور افتا کے لحاظ سے مرجع کی مرجعیت سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ انہیں ان اہم ذمے داریوں کے اعتبار سے ملحوظ رکھا جاتا ہے جو مراجعین پرلوگوں کے اموال، آبرو اور ان کے خون کے بارے میں عائد ہوتی ہیں۔ مندرجہ بالا ذمے داریوں کی بنیاد پر ممکن ہے لوگ امامِ زمانہؑ کے نائب کے طور پر دینی مسائل میں قیادت اور دوسرے امور میں رہنمائی کیلئے مرجع کی جانب رجوع کریں۔