فقہ زندگی

تقلید کیلئے مرجع کا زندہ ہونا شرط نہیں ہے، کیونکہ مردہ مجتہد کی رائے پر عمل کرنے کے بارے میں عقلا کی سیرت موجود ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر دور اور خطۂ ارض سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ جو کسی مسئلے کے بارے میں جاہل ہوتے ہیں، اس مسئلے کے عالم کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔خواہ وہ عالم دسیوں برس پہلے وفات پا چکا ہو، یا زمانۂحاضر کا کوئی زندہ عالم ہو۔ کیونکہ کسی بھی علم کے ماہر اور وفات پا جانے والے عالم کی طرف رجوع کرنا غیر عاقلانہ بات نہیں ہے۔ انسان کا زندہ ہونا (یعنی صرف اس حد تک ہونا کہ اسکے پیکر میں جان پائی جاتی ہے) اسکی رائے کے حجت یا عدم حجت ہونے پر اثر انداز نہیں ہوتا۔
استنباط کے حجت ہونے کی شرط یہ ہے کہ استنباط کرنے والا شخص اپنے فن کا ماہر ہو، عالم و آگاہ ہو اور اظہارِ نظر کیلئے اجتہادی حیثیت کا مالک ہو۔ رہی بات یہ کہ بعد میں اسے کوئی بیماری لاحق ہو جائے یا وہ وفات پا جائے تو یہ حوادث اسکے نظریے پر کوئی مثبت یا منفی اثر نہیں ڈالتے۔ اسی بنیاد پر لوگ بھی مردہ مجتہد کی طرف بقابر میت کی صورت میں یا ابتداء سے تقلید کر کے رجوع کرتے ہیں۔
شاید مذکورہ استدلال کے ذریعے ہم علمائے طب وغیرہ کے متعدد نسلوں پر مرتب ہونے والے اثرات کا راز جان سکیں، کہ وہ اپنے گزشتہ علما کے علم پر اعتماد رکھتے ہیں اور اسی اعتماد کی بنیاد پر صحت اور دوسرے امور میں ان کی رائے پر عمل کرتے ہیں۔ اس صورتحال کا مشاہدہ ہم اپنے گزشتہ علما کے یہاں بھی کر سکتے ہیں، وہ اپنے سے پہلے والے ان علما کی آراء و نظریات پر عمل کرتے تھے جو عظیم علمی شان و مقام کے حامل تھے۔
اسی بنا پر ہمیں گزشتہ ادوار میں مردہ مجتہد کی تقلید کے جواز یا عدم جواز پر علما کے درمیان کسی بڑی بحث و جدال کا سراغ نہیں ملتا۔
لہٰذا ہماری رائے میں مسئلۂ تقلید ایک فطری امر ہے، ایک محض تعبدی اور شرعی امر نہیں ہے اور اس مسئلے کی بنیاد جاہل کاعالم سے رجوع کرنا ہے ۔ کیونکہ صاحبانِ عقل و دانش یہ بات مانتے ہیں کہ جو انسان علم کے کسی شعبے میں مہارت اور آگہی کا حامل ہو، اس شعبے میں اس کا کلام عقلی طور پر حجت رکھتا ہے اور اس کیلئے کسی شرعی تصدیق اور صداقت نامے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کیونکہ جو چیز عقلاً حجت ہو، وہ بہر صورت عذر کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے، خواہ درست ہو یا غلط۔
اسی طرح مرجع کے زندہ ہونے کی شرط کی کوئی بنیاد نہیں اورہم نہیں سمجھتے کہ اس شرط کا نہ ہونا اس موضوع میں کوئی مشکل پیدا کرے گا۔
بعد میں آنے والے علما کی طرف سے فقہی رائے کی حجت کیلئے مرجع کے زندہ ہونے کو شرط قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ یہ حضرات اس مسئلے میں پیچیدہ فلسفی راستے سے داخل ہوئے ہیں ۔جب ہم اس پر غور وخوض کرتے ہیں تو ان لوگوں پر رحم کھانے کے سوا کوئی راستہ نہیں پاتے۔ کیونکہ اس باب میں ان کا استدلال کسی صحیح علمی روش کاحامل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ خود سے سوال کرتے ہیں کہ کیا مردہ شخص صاحبِ نظر اور صاحبِ رائے ہوسکتا ہے؟ کیا کسی شخص کے وفات پا جانے سے اسکے اور اسکی رائے کے درمیان کوئی فاصلہ پیدا ہو جاتا ہے ؟
جبکہ اس قسم کے سوالات مسئلۂ تقلید پر کسی قسم کا اثر مرتب نہیں کرتے۔ کسی کی روح اور اسکی رائے ایک ساتھ باقی رہتی ہیں یا نہیں؟یہ وہ مسئلہ ہے جو کسی بھی صورت میں اسکے اجتہادات سے کہ جو اسکے علم و آگہی اور فقہی فہم و ادراک سے وابستہ ہیں تعلق نہیں رکھتا۔ اس لئے کہ فقہی رائے کے اظہار کے بعد اس پر حوادث کا گزر جانا، اسکی رائے کی وقعت اوراہمیت کو ختم نہیں کر دیتا۔ کیونکہ مجتہد کی رائے اسکے اجتہاد کے وقت اسکی رائے ہے، جو محض اسکے قوائے بدن کے غیر فعال ہو جانے اور اسکی عقل و احساس کے ختم ہو جانے سے ختم نہیں ہو جاتی۔ اگر ایسا ہو تو پھر جب فقیہ سویا ہوا ہو تو اس وقت اسکی رائے کی تفسیر کیسے کریں گے؟ اسی طرح اس فقیہ کی رائے کے حجت ہونے کی تفسیر کیونکر کریں گے جومشکل اورپریشان کن حالات میں اپنے ہوش و حواس اور حافظہ کھو بیٹھتا ہے ۔
ہم جانتے ہیں کہ بہت سے علما، جنہوں نے بے حساب مسائل پر اجتہاد کئے ہیں، کبھی کبھی اپنی اجتہادی رائے بھول جاتے ہیں اور جب اُن سے اِن کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو اپنی تحریروں کا مطالعہ کرتے ہیں کیونکہ اپنی تمام آراء کوایک وقت میں اپنے ذہن میں نہیں رکھ سکتے۔
قرآنِ کریم کہتا ہے : فَسْءَلُوْآ اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لااَا تَعْلَمُوْنَ(اگر تم نہیں جانتے ہو، تو جاننے والوں سے دریافت کرو۔ سورۂ نحل ۱۶۔ آیت ۴۳) فَلَوْ لااَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآءِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَہُمْ اِذَا رَجَعُوْآ اِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنَ(تو ہر گروہ میں سے ایک جماعت اس کام کیلئے کیوں نہیں نکلتی کہ دین کا علم حاصل کرے اور پھر جب اپنی قوم کی طرف پلٹ کر آئے تو اسے عذابِ الٰہی سے ڈرائے کہ شاید وہ اسی طرح ڈرنے لگیں ۔ سورۂ توبہ ۹۔ آیت ۱۲۲)
ان آیات سے پتا چلتا ہے کہ شریعتِ الٰہی کے عالم سے سوال کرنے والے کو جو جواب ملتا ہے، وہ اس پر حجت ہوتا ہے، اور وہ اس جواب سے دوسروں کو بھی آگاہ کرسکتا ہے ۔ اسی طرح عذابِ الٰہی سے ڈرانے والے کی گفتگو سننے والے کیلئے بھی اس گفتگو سے اپنی زندگی میں استفادہ کرنا اور اس گفتگو کو اپنے اہل و عیال اور دوسروں کیلئے نقل کرنا فطری بات ہے۔ ہر چند عذابِ الٰہی سے ڈرانے والا وہ شخص وفات پا چکا ہو۔
ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی عاقلانہ روش میں زندہ ہونے کی شرط کی کوئی گنجائش نہیں اور فقہی روش بھی کوئی علیحدہ اوریکسر جدا روش نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں عذر و حجت کی خصوصیت کے سوا کوئی اور خصوصیت نہیں۔اور عذر و حجت رکھنے کامسئلہ ایک ایسی چیز ہے جس پر صاحبانِ عقل ودانش زندگی کے تمام امور میں متوجہ رہتے ہیں۔
البتہ ہم ایسا نظریہ اور یہ رائے رکھنے والے پہلے شخص نہیں ہیں۔ بہت سے بزرگ اور چوٹی کے علما، جیسے کتاب ”قوانین الاصول“ کے مولف محقق قمی (میرزا ابوالقاسم گیلانی) بھی اس بات کے معتقد تھے کہ مردہ مجتہدکی تقلید پر باقی رہنے یا ابتداء ہی سے مردہ مجتہد کی تقلید کرنے، ہر دو صورتوں میں مردہ مجتہد کی رائے حجت ہے۔
اگر کچھ لوگ اس مسئلے کے بارے میں اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں، تو ان کیلئے ہمارا جواب یہ ہے کہ یہ اجماع کا مقام ہی نہیں۔ کیونکہ علمائے ماسبق کی کتب میں اسکا بنیادی مسئلے کے بطور ذکر ہی نہیں کیا گیا ۔ ہمارے خیال میں اس مسئلے کو بعد کے علما نے فلسفی اسلوبِ تفکر کے زیر اثر( اسکی بغیر کسی درست بنیاد کے) فقہی اجتہاد کے دائرے میں داخل کر دیا ہے ۔ لہٰذا ہماری رائے میں مردہ مرجع کی تقلید جائز ہے۔ خواہ بقابر میت کی صورت میں ہو، خواہ ابتداء سے اس کی تقلید کی صورت میں۔