تربیت اور آزادی
فقہ زندگی • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
سوال : میرے والد، میری تربیت کے بہانے، میرے تمام ذاتی معاملات، حتیٰ میرے لباس کی خریداری، میرے بالوں کے اسٹائل، میری کتابوں اور گھر میں میری واپسی کے اوقات تک میں مداخلت کرتے ہیں ۔میں محسوس کرتا ہوں کہ انہوں نے میری پوری شخصیت کو مجھ سے چھین لیا ہے، کیا انہیں یہ حق حاصل ہے؟
جواب : بنیادی طور پر تو انہیں یہ حق حاصل نہیں ہے۔ وہ اپنے بچے کو نصیحت کر سکتے ہیں اور جہاں مصلحت ہو وہاں اس پر کچھ دباؤ بھی ڈال سکتے ہیں۔ البتہ اس حد تک کہ اسکی شخصیت کچل نہ جائے اور اسکی انسانیت چھن نہ جائے۔
میں ہمیشہ بزرگوں سے کہتا ہوں کہ وہ اپنی نوجوانی اور جوانی کے زمانے کو یاد کیا کریں۔ جب آپ کے والد آپ پر زیادتی کیا کرتے تھے، آپ کی انسانیت پر قابض ہو جاتے تھے، آپ کی شخصیت اور جذبات کو کچلتے تھے اُس وقت آپ کے کیا احساسات ہوتے تھے؟ اپنے بچوں سے ویسے ہی پیش آیئے جیسے آپ چاہتے تھے کہ آپ کے بزرگ آپ سے پیش آئیں۔ البتہ اگر آپ کے بچے کو کوئی غیر معمولی خطرہ درپیش ہو تب آپ دخل اندازی کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ عمل بھی اس طرح انجام دیناچاہئے کہ آپ کے بچے کو مطمئن کر دے اور اس پر اس انداز سے دباؤ ڈالیں جو اس کی شخصیت کو مجروح نہ کرے اور اس کی پریشانی میں مزید اضافے کا باعث نہ ہو۔ کیونکہ ممکن ہے آپ اپنے طرزِ عمل سے کسی ایک پہلو کی تو اصلاح کر دیں لیکن کسی دوسرے اہم ترین پہلو کو خراب کر دیں۔
ہماری رائے میں، بزرگوں کا بچوں کے ساتھ طرزِ عمل میں سختی کواپنا اصول بنا لینا، جس طرح شرعی اشکال سے خالی نہیں اسی طرح ایک غیر عملی اور غیر حقیقی طریقہ بھی ہے۔ کیونکہ یہ طریقہ بچے کو دوغلا پن اختیار کرنے کی جانب لے جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے والد کے ساتھ منافقانہ رویہ اختیار کرلیتا ہے اور اپنے دل میں اس سے کینہ اورعداوت رکھتا ہے۔ اورممکن ہے مستقبل میں کسی وقت وہ پھٹ پڑے، اور اسکاوالد اس میں جس مضبوط شخصیت کی بنیاد رکھنے کا آرزو مند ہے، وہ بنیاد اسکی نگاہوں کے سامنے مسمار ہو جائے۔
تمام بزرگوں سے میری استدعا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے طرزِ عمل کی اصلاح اور انہیں خطرات کے منھ سے نکالنے کیلئے نرم طریقے اختیار کریں۔ جو، اِن کے ذہن کومطمئن کریں اور اطاعت کیلئے ان میں ضروری رغبت پیدا کریں۔
حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ باپ اپنے بچے کی اصلاح کی خاطر اختیار کئے گئے طرزِ عمل میں فکری اورجذباتی پہلو سے بھی استفادہ کرے اور بچے کی مادّی ضروریات اوراس کیلئے پرکشش چیزوں کی فراہمی سے بھی کام لے۔ لیکن اگر بچے کے دین اور اخلاق کو کوئی شدید خطرہ لا حق ہو اور اچھا انداز اور منفی نتائج کا سبب نہ بننے والا کوئی سخت طریقہ ہی نجات کاواحد راستہ رہ جائے، تو باپ کیلئے جائز ہے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عنوان سے بچے کی اصلاح کیلئے اقدام کرے۔ اسی طرح اپنے بچوں کے علاوہ دوسروں کے بارے میں بھی اس کا یہی فریضہ ہے۔
میں اس بات کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا کہ بچے اپنے بزرگوں کے مقابل آزادئ مطلق کے حامل ہوں، اوران کے خلاف شورش اور سرکشی کریں۔ لیکن بزرگوں سے یہ کہنا پسند کرتا ہوں کہ سخت گیری، نرمی اور تربیت ان مسائل میں سے ہیں جن میں مقصود و مراد ایک عملی نتیجے کا حصول ہوتا ہے۔ جبکہ سختی اور جبر ہمیں نامطلوب اور منفی نتیجے تک پہنچا دیتا ہے۔ بعض لوگوں کی مشکل یہ ہے کہ وہ کام کے آغاز کے بارے میں سوچتے ہیں لیکن ہم کام کے نتیجے اور انجام کے بارے میں سوچتے ہیں۔
ایک روایت میں رسولِ کریم ؐ سے نقل ہوا ہے کہ ایک جوان نے آپ ؐسے نصیحت کی درخواست کی۔ آپ ؐ نے اس سے تین مرتبہ پوچھا کہ :اگر میں تمہیں نصیحت کروں تو کیا تم میری نصیحت پر عمل کرو گے؟ تینوں مرتبہ جوان نے مثبت جواب دیا۔ یہ جواب سننے کے بعد آنحضرت ؐنے اس سے فرمایا : میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ جب کسی کام کا ارادہ کرو، تو اسکے انجام کے بارے میں غور وفکر کرو۔ اگر تمہیں راہِ راست کی طرف لے جا رہا ہو تو اقدام کرو اور اگر گمراہی کا موجب نظر آ رہا ہو تو اس سے پرہیز کرو۔ (وسائل الشیعہ۔ ج۱۵۔ ص ۲۸۱۔ روایت ۲۰۵۱۶)
ہم مسئلے پر اسکی شکل و صورت اور اسکے ظاہری پہلو کو پیش نظر رکھ کر نہیں سوچتے، بلکہ اس کے مواد اوراسکے مضمون کی بنیاد پر اس پر غور و فکر کرتے ہیں ۔بعض لوگوں کی مشکل یہ ہے کہ وہ صرف ظاہری شکل و صورت کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نتیجے کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ایسے لوگ کیونکہ نتیجے کو اہمیت نہیں دیتے اس لئے اس سے غفلت برتتے ہیں اور اس انداز سے عمل کرتے ہیں کہ گویا ان کے اعمال قطعی اور یقینی نتائج کے حامل ہیں۔
اس مقام پر ہم بزرگوں کو جس نکتے کی جانب متوجہ کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ بعض طرزِ عمل بچوں میں ایسی پیچیدگیوں کا سبب بنتے ہیں جو انہیں زندگی میں ناکام و نامراد اور پچھڑا ہوا بنا دیتی ہیں اور ان کی نفسیاتی حالت اور دوسروں سے تعلقات میں منفی اثرات مرتب کرتی ہیں اور دوسروں کے سامنے ان کے احساس کمتری میں مبتلا ہونے کا سبب بنتی ہیں۔
لہٰذا بزرگوں کو چاہئے کہ بچپنے ہی سے اپنے بچے کی تربیت کا آغاز اس نکتے سے کریں کہ یہ (بچہ) صرف ایک مادّی پیکر نہیں ہے، جسے وہ اپنا تابع بنانا چاہتے ہیں بلکہ یہ روح، عقل، فکر اور احساس و شعور کا بھی مالک ہے۔ لہٰذا انہیں چاہئے کہ اپنے بچے کے ساتھ طرزِ عمل کا انتخاب کرتے ہوئے اِن تمام امور کو بھی ملحوظ رکھیں۔