بیوی کو طلاق کا حق
فقہ زندگی • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
سوال : دنیا کے مختلف حصوں میں ایسے گھرانے بھی پائے جاتے ہیں جو فقر وغربت کی وجہ
۱۔ احتیاطِ واجب اس مقام پر ہوتا ہے جہاں مجتہد کے پاس کسی مسئلے کی حرمت کیلئے مکمل دلیلیں موجودنہ ہوں لیکن اس مسئلے پرعمل یا ترکِ عمل کی شہرت ہو اور مجتہد کے پاس شہرت کے خلاف کوئی دلیل نہ ہو۔ مثلاً کہتے ہیں کہ احتیاطِ واجب یہ ہے کہ (اگر کہیں انعقاد ہوتا ہو تو) نمازِجمعہ میں شرکت کی جائے۔ یا احتیاطِ واجب یہ ہے کہ انسان داڑھی نہ مونڈے۔ احتیاطِ واجب کا فتویٰ دینے والے مجتہد کا مقلداس مسئلے میں دوسرے مجتہد کی جانب رجوع اوراسکی رائے پرعمل کرسکتا ہے۔
سے اپنے بچوں کو بیچ دیتے ہیں۔ کیا یہ خرید و فروخت جائز ہے؟ بالخصوص اگر کوئی ان بچوں کو اپنی خدمت کیلئے خریدے؟ اگرجائز ہے، تو کیایہ لڑکا اور لڑکی، غلام یا کنیز سمجھے جائیں گے؟
جواب : یہ لین دین حرام اور باطل ہے ۔کیونکہ ماں یا باپ کواپنے بچے دوسروں کو بیچنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ بالخصوص جب انہیں خریدنے والے کفار ہوں اوروہ بچوں کو کافر بنا دیں۔ اگرخریدار مسلمان ہوں، تب بھی ماں یا باپ کو یہ حق حاصل نہیں۔ اسی طرح آزاد بچے کو بیچا نہیں جاسکتا، جیساکہ بعض لوگوں کا خیال ہے اور وہ اسلام میں غلامی کے قانونی ہونے کی بات کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے اس تصور کے برخلاف ہمارے یہاں غلام فروشی کا کوئی بازار نہیں پایا جاتا۔ غلامی کے اسباب و محرکات ہوتے ہیں۔ انسان کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو یا اپنی اولاد کو بیچ ڈالے۔ کیونکہ آزاد انسان آزاد ہی رہتا ہے۔ لہٰذا ایسے بچے اسی طرح آزاد رہیں گے غلام نہیں بنیں گے۔ نیز وہ اپنے خریدار کی اولادبھی نہیں بنیں گے۔ اسلام ایسے بچوں کو اولاد شمار نہیں کرتا: وَ مَا جَعَلَ اَدْعِیَآءَکُمْ اَبْنَآءَکُمْ(اور نہ تمہاری منھ بولی اولاد کو اولاد قرار دیا ہے۔ سورۂ احزاب ۳۳۔ آیت ۴)۔ لہٰذااپنی اولاد کو بیچنا جائز نہیں ہے اور اِس قسم کا لین دین بھی باطل ہے۔ اِس لین دین میں جو مال یامعاوضہ وصول کیا جائے گا وہ بھی حرام ہوگا۔
البتہ اِس سلسلے میں بعض خصوصی شرائط (Conditions)بھی پائی جاتی ہیں۔ مثلاً اگر والدین اپنے بچے کی تعلیم و تربیت اوراس کی دیکھ بھال کیلئے مالی استطاعت نہ رکھتے ہوں اور وہ یہ بات جانتے ہوں کہ کچھ لوگوں کو پرورش کیلئے ایک بچے کی ضرورت ہے، اور وہ اسکی حفاظت، نگہداشت اور نشو ونما کر سکتے ہیں، اسکے ساتھ ساتھ وہ بچے کا نسب بھی محفوظ رکھیں گے اور مستقبل میں اس کے دین و ایمان کو بھی کوئی خطرہ لاحق نہ ہو گا، تو ایسی صورت میں والدین کیلئے اپنا بچہ ایسے لوگوں کے سپرد کرناجائز ہے۔ اور کیونکہ انہوں نے اپنے بچے کو تربیت کیلئے ان کے حوالے کیا ہے، اس لئے اس کے عوض ان کا کچھ رقم وصول کرنا بھی جائز ہے۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ان کے درمیان بچے کی خرید و فروخت انجام پائی ہے۔نیز مذکورہ رقم بھی بچے کی قیمت نہیں ہے۔
البتہ اگر اس لین دین کامقصد اپنی اولاد کو کفر، گمراہی اور بربادی کے ماحول سے نکالنا اور نجات دلانا ہو، اوراس عمل سے نقصانات جنم نہ لیں اور کوئی شرعی رکاوٹ بھی نہ ہو، تو یہ عمل جائز ہے، لیکن خرید و فروخت کرنا باطل ہے۔
اس کے باوجود اگر مذکورہ عالی نیت اور بلند مقصد کا حصول (اگرچہ ظاہری طور پر ہی سہی) خرید و فروخت ظاہر کرنے سے وابستہ ہو، تو بچوں کو ان حالات اور ماحول سے نجات دلانے کیلئے اسے خرید و فروخت کی شکل دینا جائز ہے۔ البتہ بچے کا نسب اسی طرح محفوظ رہنا چاہئے اور اس کا نسب کسی اور کو منتقل کرنا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح بچے کی آزادی بھی محفوظ رہنی چاہئے، وہ نہ غلام بنایا جائے اور نہ ہی اس سے خدمت لی جائے۔