والدین کی اطاعت
فقہ زندگی • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
سوال : کن صورتوں میں والدین کی اطاعت واجب ہے؟
جواب : آیاتِ قرآنی کے مطالعے کے دوران، ہم نے ان میں والدین کی اطاعت کا کوئی عنوان نہیں دیکھا۔ یعنی بچے کیلئے والدین کے حکم و فرمان کی حیثیت، خدا، پیغمبر اور اولیٰ الامر کے حکم و فرمان کی سی نہیں ہے، جو شرعی حیثیت سے واجب الاطاعت ہے۔
اسلام نے والدین کے حکم و فرمان کو بچوں کیلئے ایسا شرعی عنوان قرار نہیں دیا ہے جس کی پابندی ان پرلازم ہو۔ بلکہ اﷲ رب العزت نے بچوں کو والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کاحکم دیا ہے۔ قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر لفظ ”احسان“ استعمال ہوا ہے اور کلامِ الٰہی میں احسان کے نمونوں اور مثالوں کو بھی واضح کیا گیا ہے:
” وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلَّاآ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاط اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُہُمَآ اَوْ کِلٰہُمَا فَلااَا تَقُلْ لَّہُمَآ اُفٍاّا وَّ لااَا تَنْہَرْہُمَا وَ قُلْ لَّہُمَا قَوْلااًا کَرِیْمًا۔ وَ اخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا۔“
”اور آپ کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم سب اسکے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا ۔اور اگر تمہارے سامنے ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو جائیں، تو خبردار ان سے اف بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان سے ہمیشہ شریفانہ طریقے سے گفتگو کرتے رہنا۔ اوران کیلئے خاکساری کے ساتھ اپنے کاندھوں کو جھکا دینا اور ان کے حق میں دعا کرتے رہنا کہ پروردگار! ان دونوں پر اسی طرح رحمت نازل فرما جس طرح انہوں نے بچپنے میں مجھے پالا ہے۔“
(سورۂ بنی اسرائیل ۱۷۔ آیت ۲۳، ۲۴)
ان دو آیات سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ خداوند عالم چاہتا ہے کہ ہم اپنے والدین کے ساتھ اس انداز سے حسنِ سلوک کا مظاہرہ کریں کہ نہ اُن سے کسی طرح کی تلخ کلامی کریں، نہ بد سلوکی کے مرتکب ہوں۔ بلکہ اُن کے ساتھ کشادہ روئی، مہربانی اور خاکساری کا برتاؤ کریں۔ اوربچپنے میں انہوں نے ہماری جو خدمتیں کی ہیں، ہمارے لئے جو زحمتیں برداشت کی ہیں، انہیں ہمیشہ یاد رکھیں۔
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ قرآنِ کریم میں کہیں بھی والدین کی اطاعت کا حکم نہیں دیا گیا ہے، البتہ اسکے برعکس قرآنِ کریم میں مشرک والدین کی اطاعت نہ کرنے کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے:
” وَ اِنْ جَاہَداٰاکَ عَلآی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌلا فَلااَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًاز وَّ اتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَی۔“
”اور اگر تمہارے ماں باپ اس بات پر زور دیں کہ کسی ایسی چیز کو میراشریک بناؤ جس کا تمہیں علم نہیں ہے، تو خبردار، ان کی اطاعت نہ کرنا لیکن دنیا میں ان کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرنا اور اس کے راستے کو اختیار کرنا جو میری طرف متوجہ ہو۔“(سورۂ لقمان ۳۱۔ آیت ۱۵)
یہ آیت کہہ رہی ہے کہ اگر تمہارے والدین تمہیں سیدھے راستے سے بھٹکانا چاہیں اور تمہیں شرک کی طرف لے جانا چاہیں، تو ان کی اطاعت نہ کرنا۔
ہمارے خیال میں خدا کے ساتھ شرک کا جو ذکر اس آیۂ کریمہ میں کیا گیا ہے وہ ان انحرافات اور گمراہیوں کے ایک نمونے کے طور پر ہے جن کی طرف والدین اپنی اولاد کو لے جا سکتے ہیں۔ ان انحرافات میں کفر، حرام کاموں کا ارتکاب اور بچوں کی مصلحت کے خلاف امور شامل ہیں، حتیٰ بچوں کو ان سرگرمیوں سے روکنا بھی شامل ہے جو اُن کی معنوی، روحانی فکری اور دینی تقویت کا موجب ہوتی ہیں، جیسے مسجدوں میں جانے اور دینی اور علمی اجتماعات میں شرکت سے بچوں کو منع کرنا۔
حتیٰ والدین کو یہ حق بھی حاصل نہیں کہ وہ اپنے بچے کو جہاد میں شرکت سے روکیں، اگر جہاد واجبِ کفائی ہو جائے اور بچے پر واجب ہو جائے۔
یعنی آپ کو یہ حق حاصل نہیں کہ خدا کی نافرمانی کر کے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کریں۔
اسی کے ساتھ ساتھ اس آیت سے یہ مفہوم بھی حاصل نہیں ہوتا کہ جن امور میں خدا کی نافرمانی نہیں ہوتی، ان میں والدین کے اطاعت کی جانی چاہئے۔ بلکہ آیت کہتی ہے کہ : اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور اچھا برتاؤ کرو۔ لہٰذا اگروالدین اپنے بچے کوکسی ایسے کام کی ترغیب دیں جس میں اسکی مصلحت نہ ہو، مثلاً کہیں کہ فلاں لڑکی سے شادی کرو، یا اپنی بیوی کو طلاق دو، یا تعلیم کیلئے فلاں شعبے کا انتخاب کرو(جس کی طرف بچہ راغب نہ ہو) یا فلاں پیشہ اختیار کرو( جس کیلئے بچہ تیار نہ ہو) تو ایسے امور میں والدین کے حکم کی اطاعت واجب نہیں، خواہ یہ (کہنانہ ماننا) والدین کیلئے باعثِ اذیت و آزار ہی کیوں نہ ہو۔
ولی کی رضا مندی
لیکن کنواری لڑکی کی شادی کے مسئلے میں، اگربالفرض باپ کی اجازت ضروری ہے، (حالانکہ ہم اسے ضروری نہیں سمجھتے )تو اسکے معنی یہ نہیں ہیں کہ والد کی اطاعت واجب ہے۔ بلکہ اسکے معنی یہ ہیں کہ کنواری لڑکی کی شادی کی شرعی حیثیت ولی (باپ یا دادا) کی رضا مندی سے مشروط ہے۔ یہ شرط بھی ممکن ہے اس لئے ہو کہ لڑکی کو دھوکا کھانے اور اسے گمراہی میں مبتلا ہو نے سے بچایا جائے۔
سوال : میرے والد مجھے ایک لڑکی سے شادی کرنے کیلئے کہہ رہے ہیں۔ اگر میں ان کی اطاعت نہ کروں تو ممکن ہے میرے اور ان کے تعلقات خراب ہو جائیں۔ اس بارے میں میرا شرعی فریضہ کیا ہے؟
جواب: اگر آپ نے خود کو تکلیف پہنچا کر اپنے والد کی اطاعت کی تو خدا سے اس کی جزا پائیں گے، لیکن اِس مسئلے میں اُن کی اطاعت آپ پر واجب نہیں ہے۔
سوال : اگر میرے والد، میرے سفر پر جانے کے مخالف ہوں، تو کیا میرا یہ سفر، سفرِ معصیت ہو گا؟
جواب : اگر اس سفر میں آپ کی کوئی مصلحت ہو (مثلاً یہ سفر حصولِ علم کیلئے ہو) اور سفر کے دوران آپ کی جان کو کوئی خطرہ بھی لاحق نہ ہو، جس کی وجہ سے وہ آپ سے ہمدردی اور آپ کی خیر خواہی میں آپ کو اس سفر سے روک رہے ہوں، تو آپ کا یہ سفر سفرِ معصیت نہیں ہو گا۔
سوال : کیا میں اپنے والدین کے علم میں لائے بغیر ان کے مال میں تصرف کا حق رکھتا ہوں؟
جواب:جب تک والدین کی رضامندی کا علم نہ ہو، اُس وقت تک آ پ کیلئے ان کے اموال میں تصرف جائز نہیں۔لیکن اگر تصرف کے بعد ان کی رضا مندی کا علم ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن معاملات میں تصرف، مثلاً خرید و فروخت وغیرہ، تو اس صورت میں تصرف سے پہلے ان دونوں کی اجازت ضروری ہے۔
سوال : اگر میرے والد بخیل ہوں، تو کیا میں اپنے ضروری لوازمات کی خریداری کیلئے ان کے مال میں سے، ان کی اجازت کے بغیر کچھ رقم لے سکتا ہوں؟
جواب :اگر ایسے اخراجات ہوں جن کی ادائیگی ان پر واجب ہو اور جو آپ کیلئے ضروری ہوں، تو حاکمِ شرع کی اجازت سے آپ کیلئے ایسا کرنا جائز ہو گا۔
سوال :کیااپنے والد کے ساتھ سودی لین دین جائز ہے؟
جواب :ا حتیاطِ واجب یہ ہے کہ اس عمل سے گریز کیا جائے، کیونکہ اس عمل کے جواز پر دلالت کرنے والی روایات ضعیف ہیں اور اس مسئلے کے بارے میں جس اجماع کا دعویٰ کیاجاتا ہے وہ بھی تعبدی نہیں ہے۔
سوال :اگر میرے والد کسی مسئلے میں اپنی مخالفت کرنے کی وجہ سے، مجھے وراثت سے محروم کر دیں، تو کیا ان کا یہ عمل شرعی اعتبار کا حامل ہو گا؟
جواب :وراثت سے محروم رہنے کی عام طور پر یہ دو صورتیں ہوتی ہیں:
پہلی صورت یہ ہے کہ: باپ اپنی زندگی اور صحت و سلامتی کے زمانے میں، کسی مال کو اپنی کسی اولاد یا فلاحی ادارے کی قطعی ملکیت میں دے دے۔ ایسی صورت میں کوئی وراثت باقی ہی نہیں رہتی کہ کوئی اس سے محروم رہے۔
اگر منتقلی کی کچھ کارروائی اسکے مرض الموت کے زمانے میں انجام پائی ہو، تو اس کے بارے میں دو نظریات ہیں۔ پہلا نظریہ یہ ہے کہ وہ اپنے اموال کے ایک تہائی حصے کے سوا بقیہ مال پر(اسے فروخت کرنے یا بخشنے کے) تصرف کا حق نہیں رکھتا۔
لیکن ہمارا نظریہ یہ ہے کہ مریض شخص، اپنے مرض الموت کے زمانے میں بھی اسی طرح اپنے مال میں تصرف کر سکتا ہے، جس طرح وہ اپنی صحت وسلامتی کے زمانے میں تصرف کرتا تھا۔اور اسکا تصرف کرنا صحیح بھی ہے۔ اور اسے اس سلسلے میں ورثاء کی رضا مندی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور اس حالت میں اگر وہ کسی کو وراثت سے محروم کر دے تو اسے بھی شرعی حیثیت حاصل ہے۔ کیونکہ شرعی اصول یہ ہے کہ :الناس مسلّطون علی اموالھم (لوگ اپنے اموال پر تسلط کا حق رکھتے ہیں)۔لہٰذا وہ بھی اپنی حیات میں اپنے اموال پر تسلط کا حق رکھتا ہے، اور جیسے چاہے اپنے اموال پر تصرف کر سکتا ہے، جسے چاہے بخش دے اورجسے چاہے محروم کر دے۔
لیکن اگربالفرض باپ وصیت کر ے کہ اسکی موت کے بعد اسکے ترکے میں رہ جانے والے مال کو اسکے گھرانے کے کسی ایک یا ایک سے زیادہ افراد کے حوالے کیا جائے اورایک کو وراثت سے محروم رکھا جائے، تو اسکی یہ وصیت اسکے ترکے کے صرف ایک تہائی پر لاگو ہو گی، بقیہ دو تہائی حصے پر لاگو نہیں ہو گی۔کیونکہ ایک تہائی سے زیادہ مال کے بارے میں وصیت ورثاء کی اجازت کے بغیر درست نہیں ہوتی۔ لہٰذا اگر ورثاء اجازت نہ دیں تو وراثت میں سے ہر ایک کا حصہ دیا جائے۔
سوال : کیا دوسروں کے سامنے اپنے گھرانے کے مسائل اور پوشیدہ معاملات کا تذکرہ کرنا غیبت شمار ہوتا ہے؟
جواب : قدرتی بات ہے کہ اگر والدین نے اس پر کوئی ظلم نہ کیا ہو، تو یہ عمل نہ صرف غیبت ہے بلکہ بہت زیادہ گناہ کا باعث بننے والی غیبت ہے۔ کیونکہ جن والدین نے اسے پالا پوسا ہے، یہ اُن کے اسرار فاش ہونے کا موجب ہے۔ یہ عمل والدین کی بے عزتی اورانہیں دوسروں کی نظروں میں گرانے کا سبب ہے۔
البتہ اگر والدین اپنے بچے پر ظلم و ستم روا رکھتے ہوں۔ مثلاً اسے مارتے پیٹتے ہوں، اس کے ساتھ بد سلوکی کرتے ہوں، تو ایسی صورت میں بچے کودوسروں کے سامنے اپنادردِ دل بیان کرنے کی اجازت ہے۔ کیونکہ قرآنِ کریم میں ہے کہ: لااَا یُحِبُّ اﷲُ الْجَہْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ(اﷲ مظلوم کے سوا کسی کی طرف سے بھی علیٰ الاعلان برا کہنے کو پسند نہیں کرتا۔ سورۂ نساء ۴۔ آیت ۱۴۸)
لیکن احتیاط یہ ہے کہ انسان ایسے مسائل کا ذکر صرف اُن افراد کے سامنے کرے جو اس پرماں باپ کی طرف سے کئے جانے والے مظالم کا خاتمہ کر سکتے ہوں۔ لیکن مشکلات پیش آنے کی صورت میں انسان جس نفسیاتی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے صرف اس سے چھٹکارے کیلئے یہ پیٹھ پیچھے گفتگو شرعاً جائز نہیں۔ بھائی بہنوں کی غیبت کا حکم بھی یہی ہے۔
سوال : میں اپنے والد کے تجارتی ادارے میں کام کرتا ہوں۔ کیا مجھے بھی وہاں کام کرنے والے دوسرے کارکنوں کے برابر اجرت طلب کرنے کا حق حاصل ہے؟
جواب : آپ بھی اجرت کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کو اتنامال ملے جس سے آپ کے اخراجات پورے ہو جائیں تو پھروالد پر آپ کاخرچ اٹھانا واجب نہیں ہوگا۔ بالفاظِ دیگر جب تک آپ اپنے والدکے محتاج ہیں، اس وقت تک آپ کی ضروریات پوری کرنا ان پر واجب ہے۔ آپ کے والد کو یہ حق نہیں کہ وہ آپ کے جواخراجات برداشت کر رہے ہیں ان کے عوض آپ کو اپنے پاس کام کرنے پر مجبور کریں۔ البتہ آپ اپنے والد سے بات چیت کے ذریعے اس خرچ کی مقدار معین کر سکتے ہیں جو اجرت کی صورت میں ان سے وصول کرتے ہیں۔ اور مثلاً اس میں اضافہ کرا سکتے ہیں۔ والد کو اس بات کا حق نہیں ہے کہ وہ اس بارے میں آپ پردباؤ ڈالیں اور آپ کو اپنے پاس کام کرنے پر مجبور کریں۔ آپ چاہیں تودوسری جگہ کام کر سکتے ہیں۔
بہر صورت کوئی باپ اِس بات کو جواز بنا کر اپنی عاقل، بالغ اولاد کو اپنے پاس کام کرنے پر مجبور نہیں کرسکتاکہ وہ اُس کے کام کرنے کے عوض اسکا خرچہ برداشت کرتا ہے ۔ کیونکہ کام کے عوض خرچے کی ادائیگی ایک طرح کا لین دین ہے، جو حساب و کتاب اورمعاہدے کا محتاج ہے۔ لیکن اگر بچہ چھوٹا (نابالغ) اور باپ کی زیر پرستی ہو، تو باپ بچے کی مصلحت (اورمفاد) کودیکھتے ہوئے اسے اپنے پاس کام کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ کام بچے کی مصلحت اور مفاد میں نہ ہو تو پھر باپ کا یہ عمل جائز نہیں۔
سوال : کیا والدین کا اپنے بچے کے راز جاننے کیلئے اسکی الماری اور درازوں کی تلاشی لینا جائز ہے؟
جواب : ماں، باپ، بہن، بھائی اوربیوی کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ان الماریوں اور درازوں کی تلاشی لیں جن میں انسان اپنی ذاتی اور نجی اشیا محفوظ رکھتا ہے۔
با لفاظِ دیگر ہر شخص کے خفیہ معاملات دوسروں کیلئے علاقۂ ممنوعہ ہیں(سوائے اس صورت میں کہ جن معاملات کو وہ خفیہ رکھ رہا ہے ان سے اسکی گمراہی کا خطرہ ہو) اگرچہ یہ دوسرے لوگ اسکے انتہائی قریبی رشتے دار ہی کیوں نہ ہوں، اور وہ خود غلطی ہی پر کیوں نہ ہو ۔ چنانچہ کسی کے ذاتی خطوط کھول کر پڑھنا جائز نہیں۔ سوائے اس صورت میں جب اس بات کا خطرہ پایا جائے کہ اس قسم کے روابط کی وجہ سے اسکا دین یا اسکا اخلاق برباد ہو جائے گا۔