فقہ زندگی

سوال: لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تقلید کا موضوع ایک کلی عنوان ہے، جس میں فروعات اور مرجع کی شرائط، جیسے اسکی اعلمیت، حیات، عدالت اور اسکا مرد ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ کیا ان شرائط کا ماخذ عقل ہے، یا یہ ابوابِ فقہ کے فطری ارتقا کا نتیجہ ہیں؟
جواب: آج کے دور کے برخلاف، جس میں علما مسئلۂ تقلید پر بہت زیادہ بحث وگفتگو کرتے ہیں، زمانۂ گزشتہ میں یہ موضوع کوئی خاص پیچیدگی نہیں رکھتاتھا۔ اس زمانے کے لوگ فطری انداز میں از خود زندہ یامردہ یا اعلمِ مطلق اور غیر اعلم کے فرق کو ملحوظ رکھے بغیر اپنے علما سے رجوع کیا کرتے تھے۔ اور صرف اسی بات پر اکتفا کیا کرتے تھے کہ جس شخص کی یہ لوگ تقلید کر رہے ہیں وہ مجتہد امورِ شریعت کا عالم اور درگاہِ الٰہی میں بطورِ حجت پیش کئے جانے کے قابل ہے۔ اور کبھی وہ بقابر تقلیدِ میت کے عنوان سے نہیں بلکہ ابتدا ہی سے مردہ عالم کی آراء سے رجوع کرتے تھے۔ تاریخی ماخذ سے پتا چلتا ہے کہ شیخ طوسیؒ کا فقہی مکتب، اس اثر کے اعتبار سے جو انہوں نے اپنے شاگردوں پر مرتب کیا تھا ان کے بعد بھی صدیوں جاری رہا۔ ظاہر ہے صرف آپ کے شاگرد ہی آپ کی اجتہادی آراء کی پابندی نہیں کرتے تھے بلکہ شیخ کی فقہی آراء کے عوامی افکار اورزندگیوں پر غلبے کی وجہ سے لوگ عملاً ان کی آراء کے پابند تھے۔
لہٰذا اس دور کے لوگوں کے حالات پر غور و خوض سے واضح ہو جاتا ہے کہ اُس زمانے میں زندہ یا مردہ عالم اور اَعلم یا غیر اَعلم کی جانب رجوع کرنے کے سلسلے میں کوئی مشکل درپیش نہ تھی۔ مرجعیتِ اعلیٰ کے تصور کی بنیاد پر اعلمیت کا مسئلہ تازہ اور نئی بات ہے۔ البتہ ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ کسی فقیہ نے اعلمیت کے مسئلے پر گفتگو نہیں کی ہے۔بلکہ جس انداز سے آج یہ مسئلہ زیر بحث آتا ہے اس صورت سے (گزشتہ ا دوار میں)اس پر بحث کا رواج نہ تھا۔
ہمارے خیال میں مسئلۂ تقلید لوگوں کیلئے کوئی مشکل نہیں تھا۔ لوگ انتہائی سادہ اورفطری طور پر اس سے سروکار رکھتے تھے۔ بالکل ”نیت“ کے مسئلے کی طرح کہ گزشتہ زمانے کے فقہا نے اس پر بحث و گفتگو نہیں کی ہے بلکہ یہ مسئلہ بعد کے فقہا جن میں شہیدِ ثانی ؒ بھی شامل ہیں کی طرف سے زیر بحث آیا ہے۔ نیت کا مسئلہ، انتہائی سادہ مسائل میں سے ہے، کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی انسان بغیر نیت کے خدا کی عبادت کرے ۔یہاں تک کہ اگر ہم انسان کو اس بات کا پابند کریں کہ وہ بغیر نیت کے خدا کی عبادت بجا لائے، تو ایسا کرنا محال ہو گا۔
ہم جانتے ہیں کہ عبادت میں نیت کا مسئلہ، قصدِ قربت کے مسئلے سے قریبی تعلق رکھتا ہے۔ لیکن بعد کے علما میں رواج پانے والے عقلانی طرز و اسلوب نے انہیں اس بات پر ابھارا کہ وہ مسائل کی عینی اور واقعی صورت دریافت کرنے سے پہلے مفروضات اور ذہنی تصورات و تخیلات کی طرف متوجہ ہونے لگے اور اس طرح فقہ و اصول میں یہ عقلی اور جدلی طرزِ عمل بہت سے سادہ فقہی عناوین کے پیچیدہ ہو جانے کا سبب بن گیا۔