طہارت و نجاست کے احکام
فقہ زندگی • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
سوال : آپ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ آپ کھانے پینے کی نجس ہو جانے والی چیزیں بچے کو کھلانا جائز سمجھتے ہیں؟ کیا فقہا میں سے کسی اور نے بھی ایسا فتویٰ دیا ہے؟ آپ کے پاس اس عمل کے جواز پر کونسی شرعی دلیلیں ہیں جن پر آپ نے بھروسہ کیا ہے؟
جواب : پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ نظریہ رکھنے والا میں واحد شخص نہیں ہوں، بہت سے علمائے بزرگ مثلاً آقائے خوئی وؒ غیرہ کی بھی یہی رائے ہے اور انہوں نے نا بالغ بچے کو کھانے پینے کی نجس یا نجس ہو جانے والی اشیا کھلانا پلانا جائز قرار دیا ہے، بشر طیکہ وہ اسکی صحت کے لئے مضر نہ ہوں۔
دوسرے یہ کہ نجس غذاؤں کا کھانا ہر جگہ صرف اس لئے حرام قرار نہیں دیا گیا کہ ایسی غذائیں انسانی صحت کیلئے مضر ہوتی ہیں۔ شاید اس حکم میں دوسرے اسباب بھی پیش نظر ہوں۔ بہت سی ایسی چیزیں جن کا حرام ہونا قطعی طور پر ثابت ہے، وہ انسان کی جسمانی صحت کو ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچاتیں۔مثلاً ایسا بھیڑ جسے ذبح کرتے وقت اس کی چاروں رگیں تو کاٹ دی جائیں لیکن خدا کا نام نہ لیا گیا ہو، یا اسے قبلہ رخ نہ رکھا گیا ہو، ایسی صورت میں اس کا گوشت کھانا حرام ہے، لیکن یہ گوشت (اگر کھا لیاجائے تو) انسان کی جسمانی صحت کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ یہی صورت اس وقت ہے جب بچے کا دودھ یا اسکا کھانا، خود اسکے ہاتھ سے نجس ہو جائے۔
اسے کیوں حرام قرار دیا گیا؟ اس کا رمزو راز ہمارے علم میں نہیں اور ان حرام نجاستوں کی ترکیب میں ہمیں زیاں اور ضرر کی کوئی بنیاد نظر نہیں آتی۔وہ حالات جن میں ہم حرمت کا سبب بننے والی خصوصیات سے واقف نہ ہوں، اور اس حرمت کا راز خود شریعت میں پوشیدہ ہو، اُن میں ہمارے عمل کی بنیاد خداوند عالم کے اوامر و نواہی کی اطاعت ہونی چاہئے۔ خداوندِ عالم بالغ ہونے سے پہلے بچے کے کسی عمل کا حساب نہیں لے گا، لہٰذا جس عمل کاانجام دینا بالغ شخص پر حرام ہے (حدیث کی رو سے) اسکی انجام دہی بچے پر حرام نہیں۔ البتہ اسکے باوجود بعض احتیاطوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے، جو کچھ یوں ہیں:
اوّل یہ کہ: ماہرین کی نظر میں ایسی (نجس ہو جانے والی) غذا بچے کی صحت وسلامتی کیلئے ضرررساں نہ ہو۔
دوّم یہ کہ:بچہ ایسی غذا کا اس طرح عادی نہ بن جائے کہ بالغ ہونے کے بعد اس کا ترک کرنا اس کیلئے مشکل ہو جائے۔ بہتر یہ ہے کہ خود بچے کو اس بات کا پتا نہ چلے کہ یہ غذا نجس ہے، اور نجاسات کے کھانے پینے کے حرام ہونے کا احساس اس کے اندر ایک نفسیاتی ہچکچاہٹ کی حیثیت سے باقی رہے۔
با لفاظِ دیگر یہ کہ، جو چیز کسی نقصان کا سبب نہ بنے اور اسے (نامعلوم اسرار) کی وجہ سے بالغ پر حرام کیا گیا ہے، اسے بچے کو اس شرط پر کھلایا جا سکتا ہے کہ وہ بچے کی ایسی عادت نہ بن جائے، جس سے بالغ ہونے کے بعد اسکا چھٹکارا حاصل کرنا دشوار ہو۔
البتہ بالغ انسان کو کھانے پینے کی نجس چیزیں پیش کرنا حرام ہے۔ کیونکہ انسان کیلئے جائز نہیں کہ وہ دوسروں کیلئے ایسے عمل کے ارتکاب کا سبب بنے کہ اگر وہ اس کی جانب متوجہ ہوتے اور اسے جانتے تو ان پر اس عمل کاارتکاب حرام ہوتا۔
لیکن اگر آپ کسی ایسے شخص کو دیکھیں جو کوئی ایسی غذا کھانے میں مصروف ہے جس کی نجاست کا اسے علم نہیں ہے، یا اس کے حرام ہونے سے وہ واقف نہیں ہے، تو آپ پر اسے اس عمل سے روکنا واجب نہیں ہے۔ کیونکہ اس صورت میں اسکے پاس اپنے جہل کا عذر موجود ہے۔
سوال : اگر کسی انسان کو اس بات کا علم ہو کہ ایک ہوٹل میں گاہکوں کو حرام غذا، مثلاً نجس کھانا یا غیر اسلامی طریقے سے ذبح شدہ گوشت فراہم کیا جاتا ہے، تو کیا اس پرواجب ہے کہ دوسروں کو بھی اس سے آگاہ کرے؟
جواب : اس موضوع کی دو صورتیں ہیں۔
پہلی صورت یہ ہے کہ: وہ شخص جو لوگوں کو حرام یا نجس غذا کھلاتا ہے، مسئلے کو صحیح طور پر نہ جاننے کی وجہ سے یہ سمجھتا ہے کہ اسکی فراہم کردہ غذا پاک ہے ۔اس صورت میں انہیں مطلع کرنا واجب نہیں ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ: لوگوں کی لاعلمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اس ہوٹل میں حرام یا نجس غذا فراہم کی جا رہی ہو ۔ اس صورت میں ہوٹل کے مالک کو اس ناجائز عمل سے روکنے اور لوگوں کو دھوکا دینے اور حرام اور نجس غذا کو حلال اور پاک غذا کے طور پر پیش کرنے والے اس ہوٹل کے خلاف اقدام کیلئے، لوگوں کو اس سے مطلع کرنا چاہئے، اور انہیں خبردار کرنا چاہئے کہ وہ وہاں نہ جائیں۔
یہ عمل ہوٹل کے مالک کیلئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی حیثیت رکھتا ہے، لوگوں کیلئے نہیں۔ کیونکہ لوگوں کو تو پتا ہی نہ تھا (کہ وہ کسی منکر کے مرتکب ہو رہے ہیں) لہٰذا ظاہر ہے کہ وہ کسی غلط عمل کے مرتکب ہوئے بھی نہیں ہیں۔ لیکن مسلمانوں کی خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ ایک مستحب عمل کے طور پر انہیں اس معاملے سے آگاہ کیا جائے اور اس عمل سے روکا جائے۔
سوال: اگرانسان کسی ایسے گوشت کے پاک اور حلال ہونے کے بارے میں شک کرے، جو کسی ہوٹل میں پکایا گیا ہو، یا اس کے دوست نے اس کیلئے تیار کیا ہو، تو اس صورت میں اس پر کیا فرض عائد ہوتا ہے؟
جواب : اگر اس ہوٹل کا مالک یا اس کا دوست مسلمان ہوں اور یہ بات معلوم نہ ہو کہ گوشت کافر کے ہاتھوں ذبح کیا ہوا ہے، اور وہ لوگ بھی گوشت کے بارے میں اس سے زیادہ نہ جانتے ہوں، تو ایسی صورت میں وہ گوشت حلال قرار دیا جائے گا۔ لیکن اگر اسے معلوم ہو کہ یہ گوشت اس سے پہلے کافر کے پاس تھا اور اس بات کا امکان دکھائی نہ دے کہ اس کا مسلمان میزبان اس گوشت کے حلال ہونے کے بارے میں مطمئن ہے، تو ایسی صورت میں یہ گوشت حرام قرار دیاجائے گا۔
جاری پانی
سوال :ہم جانتے ہیں کہ گھروں اورکارخانوں سے خارج ہونے والے پانی میں موجود نجاست کی مقدار مجموعی طور پر دوسری جگہوں سے آنے والے پانی سے کم ہوتی ہے۔ اس پانی کا رنگ اور ذائقہ بھی نجاست کی وجہ سے تبدیل نہیں ہوتا، بلکہ اس کے ٹھہرے رہنے، تعفن اور جراثیم کی وجہ سے بدلتا ہے۔ اس کے رنگ میں آنے والی یہ تبدیلی بھی نجاست کا رنگ نہیں ہوتی بلکہ وہ کوئی دوسرا رنگ اختیار کر لیتا ہے، جس کا مشاہدہ ہم اکثر صورتوں میں بالخصوص بڑے شہروں میں کرتے ہیں ۔لہٰذا سوال یہ ابھرتا ہے کہ آخر ہم کیوں ندی نالوں میں بہنے والے پانی کو نجس قرار دیں؟
جواب :اِس قسم کے پانیوں کی نجاست کا حکم ان کے نجاست سے مل جانے کی وجہ سے دیا جاتا ہے۔ اس قسم کے پانی کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں آبِ قلیل کی طرح نجس ہیں، اوراُن پر آبِ کُر کا حکم نہیں لگایا جا سکتا۔
کُر پانی صرف نجاست ملنے سے نجس نہیں ہوتا۔ ہاں، اگر اس کا رنگ، اس کی بو اور ذائقہ بھی بدل جائے تب نجس ہوتا ہے۔ البتہ گٹر کے پانی کے متعلق تو پتا ہی ہے کہ وہ نجس ہے۔ اسکی وجہ یا تو یہ ہے کہ یہ پانی متنجس آبِ قلیل کا حکم رکھتے ہیں یا اس وجہ سے کہ نجاست کی بنا پر ان کا رنگ، بو اورذائقہ بدل چکا ہے۔ لہٰذا انہیں نجس قرار دیا جاتا ہے۔
البتہ اگر گٹر کے پانی میں موجود نجاست کے عناصر کو ختم کرنا ممکن ہو، تواس صورت میں صفائی کے بعد یہ پانی پھر سے آبِ مطلق بن جائے گا اور اسے پاک پانی (جاری یا کُر پانی) سے ملا کے پاک کیا جا سکتا ہے۔
سوال : ایسا خشک انگور( کشمش یا منقّٰی) جسے پکایا جا رہا ہو، وہ کب نجس ہو گا، یا اپنے ساتھ پکنے والی غذاؤں کو نجس کرے گا؟
جواب : ہماری رائے میں انگور کا عرق دو تہائی حصے کے بخارات میں تبدیل ہونے سے پہلے بھی نجس نہیں ہوتا۔ البتہ پاک ہونے کے باوجود اس کا کھانا حرام ہے۔ لیکن اگر کشمش یا منقّٰی کو پانی میں ابالا جائے، تو ہماری نظر میں اسکا کھانا حرام نہیں ہے۔ کیونکہ حرمت کا تعلق انگور کے عرق کے ساتھ ہے اور جس پانی میں کشمش کو ابالا جاتا ہے وہ انگور کا عرق نہیں ہے۔ اور کیونکہ یہ پانی ابلنے کے دوران ختم ہوجاتا ہے، اسلئے ایسی غذا کا کھانا حرام نہیں ہے۔
سوال : لوگوں کے درمیان مشہور ہے کہ (نجس) زیتون کو اس کے اندر موجود تیل کی تہہ کی وجہ سے پاک نہیں کیا جا سکتا۔ اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
جواب : زیتون خواہ سیاہ ہو یاسبز، اسے پاک کیا جا سکتا ہے۔ ایسے لوگ جو زیتون کے پاک ہونے کو خارج از امکان سمجھتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ زیتون کے اندر تیل ہوتا ہے اور جس طرح پانی کے سوا دوسری سیال اشیا نجس ہونے کی صورت میں پاک نہیں ہوسکتیں، اسی طرح یہ تیل بھی پاک نہیں ہو سکتا۔ لیکن ہماری رائے یہ ہے کہ زیتون کے اندر تیل نہیں ہوتا بلکہ اس کے اندر چربی سی ہوتی ہے جسے کشید کرنے کی صورت میں اس کے اندر سے تیل نکلتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے دوسری نباتات سے تیل حاصل کیا جاتا ہے۔
سوال : کیا شرعی طور پر ذبح شدہ جانور کے اندر باقی رہ جانے والے خون کا کھانا جائز ہے؟
جواب : نہیں، ایسے خون کا کھاناجائز نہیں، اگرچہ یہ خون نجس نہیں ہوتا ۔
سوال : اگر تلے ہوئے مرغی کے انڈے میں کچھ خون نظر آئے تو کیا اس خون کو علیحدہ کرنے کے بعد باقی انڈہ کھاناجائز ہو گا؟
جواب : اگرخون کسی چیز میں لپٹا ہوا ہو، اور انڈے کی زردی، سفیدی اورکھانے کی کسی چیز تک نہ پہنچا ہو تو غذا پاک ہے اور اسکا کھانا جائز ہے۔
سوال : اگر پانی یا تیل میں کوئی ایسا کیڑا نظر آئے، جو عام طور پر نجس جگہوں پر رہتا ہے، تو کیا اس پانی یا تیل کو نجس قرار دیا جائے گا؟
جواب : ایسے پانی یا تیل کو پاک سمجھا جائے گا اور اسکے اندر کسی نجاست کی موجودگی کا صرف شک ہونا لائق اعتبار نہیں۔ حیوان کا جسم صرف نجاست سے چھو جانے کی وجہ سے نجس نہیں ہوتا اور اگر نجس ہو بھی جائے تو عین نجاست کے ختم ہو جانے سے پاک ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اگر ہمیں کیڑے کے بدن سے عین نجاست کے چپکے ہونے کے متعلق معلوم نہ ہو، تو ہم اس کے نجس ہونے کا فیصلہ صادر نہیں کر سکتے۔
سوال : ایسی جگہوں پر کام کرنے، یا وہاں کھانے پینے کا حکم کیا ہے جہاں شراب اور حرام غذائی اشیا کی خرید و فروخت ہوتی ہے ؟
جواب : بنیادی طور پر تو ایسی جگہوں پر کام کرنا، یاوہاں کھانا پینا جائز ہے۔ لیکن اگر ایسے مراکز سے خریداری نہ کرنا، اور ایسے مقامات پر کام نہ کرنا، نہی عن المنکر کا ذریعہ ہو، یا مومنین کا ایسے مراکز سے ربط و تعلق، منکرات کو جاری رکھنے کے سلسلے میں ان کے مالکوں کی حوصلہ افزائی کا سبب ہو، تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے باب سے یہ عمل جائز نہیں۔
سوال : جو چیز نجس ہو جاتی ہے کیا اس میں دوسری چیزوں کو نجس کرنے کی خاصیت بھی پیدا ہو جاتی ہے؟
جواب : اگر نجس ہونے والی چیز پانی کے سوا کچھ اور ہو تو وہ دوسری چیزوں کونجس نہیں کرتی۔ نجس ہونے والی چیز بھی اگر عین نجاست سے براہِ راست چھو جانے کی وجہ سے نجس ہوئی ہو، تو احتیاط یہ ہے کہ وہ نجس کرنے کی صلاحیت بھی حاصل کر لیتی ہے۔ لیکن اگر عین نجاست سے چھو جانے کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی دوسری نجس چیز سے چھو جانے کی وجہ سے نجس ہوئی ہو، تو دوسری اشیا کو نجس کرنے کا سبب نہیں بنتی۔ لیکن وہ پانی جو عین نجاست سے نہیں بلکہ کسی بھی نجس شے سے مل جانے کی وجہ سے نجس ہوا ہو، وہ دوسری چیزوں کو بھی نجس کر سکتا ہے۔ البتہ اسکے ذریعے نجس ہونے والا تیسرا پانی احتیاطاً نجس کرنے والا ہوتا ہے۔