فقہی ارتقا میں رکاوٹ
فقہ زندگی • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
سوال : بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مردہ مرجع کی تقلید پر باقی رہنے یا ابتداء ہی سے مردہ مرجع کی تقلید کرنے کا جائز ہونا، فقہ کے ارتقا میں رکاوٹ ہو گا؟
جواب: بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس طرح کا نظریہ فقہ میں جمود اور ٹھہراؤ کا موجب ہو گا۔ وجہ یہ ہے کہ جب لوگ مردہ حضرات کی فقہی آراء کی جانب رجوع کریں گے تو زندہ حضرات میں اجتہاد کا محرک (motive)نہیں رہے گا کیونکہ وہ لوگوں کیلئے اپنے اجتہاد کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے۔ لیکن یہ خیال درست نہیں ہے۔ کیونکہ وہ محرک جو انسان کو علم و دانش کے حصول اور تحقیق وجستجو پر ابھارتا ہے، وہ ایک فطری محرک ہے، جس کا سرچشمہ کمال کی جانب انسان کا رجحان و رغبت ہے۔ کثیرتعداد میں ایسے علما ہیں جنہوں نے نا مساعد حالات، اور امکانات و وسائل کے فقدان کے باوجود علم سے رغبت کی بنا پر، یا معاشرے میں مناسب مقام کے حصول کی غرض سے یا تقربِ الٰہی کی نیت سے علم حاصل کیا ہے۔
پھر یہ کہ مردہ مجتہد کی رائے کے حجت ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اسکی رائے قطعی اور حتمی ہے۔ بلکہ مسئلے کے بارے میں اظہارِ رائے کا دروازہ کھلا رہتا ہے، تاکہ لوگوں کے پاس مردہ مجتہد کی رائے کے علاوہ زندہ فقیہ کی رائے پر عمل کا امکان بھی موجود رہے۔ بالکل اسی طرح جیسے وہ چند زندہ اور علیحدہ علیحدہ فقہی آراء رکھنے والے مجتہد ین میں سے کسی ایک کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
لوگوں کا کسی ایک یا دو مجتہدین کی تقلید کرنا دوسروں سے اجتہاد کا موقع چھین نہیں لیتا۔ اس مسئلے میں بھی زندہ اور مردہ مجتہد کے درمیان فرق نہیں۔ لہٰذا نہ بابِ اجتہاد بند ہو گا اور نہ بابِ تقلید۔
ایک اور اعتبار سے دیکھیں تو ہم بہت سے ایسے امور کاسامنا کرتے ہیں جنہیں گزشتگان نے آنے والوں کیلئے اٹھا رکھا ہے۔ نیز بہت سے ایسے جدید مسائل اٹھتے ہیں جن پر گزشتگان نے بحث و گفتگو نہیں کی ہے۔ اور اس بات نے زندہ مجتہدین کی طرف رجوع کرنے کو ایک مکمل طور پر فطری اور حقیقی امر بنا دیا ہے۔
علم و دانش سابق علما کی آراء و نظریات میں منحصر اور موقوف ہو کے نہیں رہ گیا ہے، بالکل اسی طرح جیسے زندگی کے مختلف ابعاد اور پہلو بس وہی نہیں رہ گئے ہیں جو ان کی زندگیوں میں تھے اور زندگی صرف انہی کے دائرے میں محدود ہو کے ختم نہیں ہو گئی ہے۔ ہر زمانے میں نئی فروعات، تازہ مشکلات اور نت نئے مسائل جنم لیتے ہیں، جو لوگوں کو علما سے رجوع کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ شاید حضرتِ حجت علیہ السلام کی یہ روایت اسی جانب اشارہ ہو کہ : واما الحوادث الواقعۃ فارجعوا فیھا الیٰ رواۃ حدیثنا ( پیش آمدہ حوادث کے موقع پر ہماری احادیث کے راویوں سے رجوع کرو۔ وسائل الشیعہ۔ ج ۷۔ ص ۱۴۰۔ روایت ۳۳۴۲۴)
قدیم زمانے میں جب نئے نئے مسائل سر اٹھاتے تھے، تو لوگ ائمہؑ یا علما سے ان کا حکم دریافت کرتے تھے۔ نو پیدا شدہ مسائل سامنے آنے کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا، جس میں علما کی رائے کی ضرورت رہے گی۔لہٰذا تقلید کا مسئلہ، اپنے تاریخی سفر میں کبھی جمود اور توقف سے دوچار نہیں ہو گا۔ بلکہ اسکے سامنے جدید حالات اور نئی ضروریات موجود رہیں گی۔ یہ جواب ان لوگوں کیلئے ہے جو یہ کہتے ہیں کہ مردہ مجتہد کی تقلید کا جوازجدید مسائل سے آگہی کے سلسلے میں لوگوں کی ذمے داری میں تعطل پیدا کر دے گا۔ البتہ ہم مردہ مجتہد کی تقلید کو لازم اور ضروری قرار نہیں دیتے۔ بلکہ اس کی فقہی آراء کے حجت ہونے اور اسکی تقلید کی اجازت کے قائل ہیں۔