فقہ زندگی

سوال : کیا میاں بیوی کو شادی سے پہلے کے حالات اور تعلقات اپنے شریکِ حیات سے چھپانے کاحق حاصل ہے؟
جواب : اگر ان لوگوں نے یہ شرط رکھی ہوکہ وہ اپنی شادی سے پہلے کے واقعات اور تعلقات کو بیان کریں گے تویہ شرط پوری کرناواجب ہے۔ لیکن اگریہ شرط نہیں رکھی ہو تو ان میں سے کسی کو بھی شرعی لحاظ سے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے کی گزشتہ زندگی کے متعلق جاننے کی کوشش کرے۔ اگرچہ دونوں فریقوں پرلازم ہے کہ باہمی اعتماد کی بنیادوں کو مضبوط کریں اور ان امور کے بارے میں ایک دوسرے سے گفتگو کریں جو ان بنیادوں کی مضبوطی اور ان کی مشترکہ زندگی کے استحکام کیلئے موثر ہوں۔

سوال : میں ایک بالغ لڑکی ہوں، ابھی میرے والد زندہ ہیں، حتیٰ اگر وہ زندہ نہ ہوں تب بھی کیا میرے بڑے بھائی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ مجھ پراپنے فیصلے مسلط کرے اور مجھے روک ٹوک کرے؟
جواب : بھائی کواپنی بہن پر کوئی شرعی حق حاصل نہیں، سوائے اس شرعی حق کے جوایک مومن دوسرے مومن پررکھتا ہے کہ اسے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرے، اسے وعظ و نصیحت اور ہدایت و رہنمائی کرے ۔اسی طرح باپ بھی اپنی بالغ اور باشعور(Mature )لڑکی پر کسی قسم کاشرعی تسلط نہیں رکھتا۔ سوائے اس حق اور فریضے کے جو ہر مومن، دوسرے مومن کے بارے میں رکھتا ہے، اورجو امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور نصیحت و وعظ وارشاد ہے۔ لہٰذا وہ حق جس کا بڑابھائی (یا باپ) ادعا کرتے ہیں اگروہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے دائرے سے باہر ہو، تو اسے کسی قسم کا شرعی اعتبار حاصل نہیں۔

سوال : میں نے ایک بے پردہ لڑکی کوحجاب کا قائل کیا، اوراسکاپابند کیا۔ لیکن اب جب میں اس سے شادی کرناچاہتا ہوں تو میرے گھر والے اس بہانے سے کہ اسکا پردہ مجھے دھوکا دینے کیلئے ہے، اس شادی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ جبکہ میرا خیال ہے کہ اس نے پردے کو دل سے قبول کیا ہے، اور اس پر یقین رکھتی ہے۔ اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟
جواب : اس جوان کو میری نصیحت ہے کہ اس مسئلے پر کافی غور و خوض سے کام لے۔ کیونکہ مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں جذبات و احساسات حقیقت پر غالب نہ آ گئے ہوں۔ ممکن ہے اس لڑکی نے بھی آپ سے شادی کی خاطر اپنے آپ کو آپ کی خواہش کے مطابق ڈھال لیا ہو اور شادی کے بعد جب مقصد پورا ہو جائے تو حجاب چھوڑ دے اور آپ کو دباؤ میں لے لے۔
لہٰذا ہم اس جوان سے یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ لازماً اپنے گھر والوں کی بات پر عمل کرے لیکن یہ ضرور کہتے ہیں کہ وہ ان کی باتوں پر غیر جذباتی ہو کر غور و فکر کرے۔ تاکہ مثبت نتیجے تک پہنچ کر اپنے اہلِ خانہ کو مطمئن کر سکے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ بھی اسی نتیجے پر پہنچے جس کا اظہار اسکے گھر والے کر رہے ہیں۔

سوال : میں ایک لڑکی ہوں، اور گھر کے اندر ایسا مختصر لباس پہنتی ہوں جس سے میری پنڈلیاں اور سینہ تقریباً کھلا نظر آتا ہے۔ گھر میں میرے جوان بھائی بھی ہیں، کیا میرا یہ عمل خلافِ شرع ہے؟
جواب: یہ عمل تو خلافِ شرع نہیں، لیکن اگر آپ محسوس کریں کہ آپ کا اس طرح رہنا گھر میں گمراہ کن ماحول پیداکر رہا ہے۔ بالخصوص ان غیر اخلاقی فلموں کے ہوتے ہوئے جو ممکن ہے آپ کے بھائی بھی دیکھتے ہوں اور ان میں ہیجان پیدا ہوتا ہو۔ لہٰذا آپ پر لازم ہے کہ اپنے گھر سے گمراہ کن اور تحریک انگیز عوامل کو دور رکھیں۔
افسوس کی بات ہے کہ (بعض) معاشروں میں معاملہ یہاں تک جا پہنچا ہے کہ ویڈیوز اور فلموں کے اثرات کی وجہ سے اخلاقی گمراہی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ لوگ اپنے محرموں کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کرنے لگے ہیں ۔(بیروت میں) امورِ شرعیہ کے ہمارے دفتر میں باپ اوربیٹی، بھائی اور بہن کے درمیان وحشیانہ صورت میں اور جبر و تشدد کے ساتھ ناجائز تعلقات کے قیام کے معاملات پیش ہوتے ہیں۔ یہ باتیں معاشرے کیلئے خطرے کی گھنٹی کی حیثیت رکھتی ہیں، اور معاشرے کا فرض ہے کہ وہ اپنی پوری قوت کے ساتھ ان گمراہیوں اور انحرافات کے خلاف جنگ کرے، اور ان کے انسداد کے ذرائع تلاش کرے۔انسداد اور روک تھام کے ان ذرائع میں سے ایک ذریعہ یہ ہے کہ جوان لڑکیاں اپنے گھر میں بھی ہیجان انگیز لباس پہننے اور اسی طرح کی دوسری چیزوں سے پرہیز کریں۔
سوال : عورت اپنے محرم افراد کے سامنے کس حد تک اپنا جسم کھلارکھنے کی مجاز ہے؟
جواب : عورت اپنی شرمگاہ اور جسم کے ہیجان انگیزحصوں کے سوا اپنے بدن کے تمام حصوں کو محرم افراد کے سامنے کھلا رکھنے کی مجاز ہے۔ عورت کیلئے اپنے باپ، بھائی اور چچا، ماموں کے سامنے اپنا سینہ کھلا رکھنا حرام نہیں ہے۔ لیکن کیونکہ یہ عضو ہیجان انگیز ہے اور عام طور پر اسے ایک جنسی عضو کی مانند سمجھا جاتا ہے لہٰذا عورت کیلئے ضروری ہے کہ وہ اسے لوگوں کی نگاہوں سے چھپا کر رکھے۔

سوال : میرے والد زیر جامہ ( underwear)پہن کر ہمارے سامنے آجاتے ہیں۔ کیا اس عمل میں شرعاً کوئی مضائقہ ہے؟
جواب : اس حالت میں آپ کا انہیں دیکھنا حرام نہیں ہے۔ لیکن مناسب یہ ہے کہ باپ اس حالت میں اپنی لڑکیوں کے سامنے نہ آئے ۔اسی طرح بھائی کو بھی چاہئے کہ اس حالت میں اپنی بہنوں کاسامنا نہ کرے۔ کیونکہ بسا اوقات یہ حالت گمراہی کا سبب بن جاتی ہے اور اس صورت میں حرمت کا عنوانِ ثانوی اس پر لاگو ہو جاتا ہے۔

سوال : میرے والد شراب نوشی کرتے ہیں اور والدہ کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کیلئے جام تیار کریں۔ کیا میری والدہ یہ کام کر کے کسی شرعی گناہ کی مرتکب ہوتی ہیں؟ کیامیری والدہ اس کام کی انجامدہی سے انکار کر سکتی ہیں؟
جواب : اگر آپ کی والدہ کو اس بات کا خوف ہو کہ انکار کی صورت میں انہیں طلاق دے دی جائے گی، یا زد و کوب کیاجائے گا، یا اُن سے ناقابلِ برداشت بد سلوکی کی جائے گی، تو اُن کیلئے (اپنے شوہر کی)یہ بات ماننا جائز ہے۔
لیکن اگر مذکورہ باتوں کا خوف نہ ہو، تو واجب ہے کہ وہ اپنے شوہر کی خواہش ماننے سے انکار کر دیں۔ کیونکہ اولاً تو یہ عمل حرام ہے، اور ثانیاً امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اعتبار سے اس کا انکار کرنا واجب ہے۔

سوال : ہمارے والد، ہمارے سامنے اظہارِ محبت کے طور پر ہماری والدہ کے رخسار چومتے ہیں، انہیں اپنی بانہوں میں لیتے ہیں ۔کیا اس عمل میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں ہے؟
جواب : اگر اس عمل میں جنسی معنی و مفہوم نہ پایا جاتاہو، یعنی عرف کے اعتبار سے یہ عمل اپنے بیٹے یا بیٹی کے رخسار کو بوسہ دینے کی مانند معمول کی اورعام سی بات ہو، تو ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن اگر بالفرض عرف اسے ایک جنسی اور ہیجان انگیز تصرف سمجھے تو باپ کیلئے مناسب ہے کہ وہ اپنی اولاد کے سامنے اس عمل سے اجتناب کرے۔

سوال : کیا چھوٹے بچوں کو برہنا چھوڑ دینا جائز ہے؟
جواب : اگر یہ مسئلہ ایک منکرِ شرعی شمار کیاجائے تو واجب ہے کہ مائیں اس عمل سے پرہیز کریں۔ لیکن مذکورہ فرض میں ایسا نہیں ہے۔ لہٰذا یہ عمل بذاتہ حرام نہیں۔

سوال : کیا عورت کا اپنے شوہر کے دوستوں کا اپنے گھر میں استقبال کرنا جائز ہے؟
جواب : اس بارے میں ہماراخیال ہے کہ اسلامی اخلاق عورت اور اُس کے شوہر کے دوستوں کے درمیان اِس قسم کے میل جول کی ممانعت کرتا ہے۔ کیونکہ کبھی کبھی یہ عمل ایک قسم کی گمراہی کاباعث ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ آج ہمیں بہت سی ازدواجی اور اخلاقی مشکلات میں دکھائی دیتا ہے۔ بالخصوص اس وقت جب ایسے گھروں میں شادی کی عمر رکھنے والی یا دوسروں کیلئے کشش رکھنے والی جوان لڑکیاں موجود ہوں۔
ہم کہتے ہیں کہ اسلام بنیادی طور پر اجنبی عورتوں اور مردوں کے ایک دوسرے سے دور رہنے کا قائل ہے۔ اختلاط اور آزادانہ میل جول صرف اس صورت میں جائز ہے جب منفی نتائج برآمد نہ ہونے کا اطمینان حاصل ہو جائے۔ اور فی زمانہ ایسا اطمینان کم ہی حاصل ہوتا ہے۔ ہم اپنی اس گفتگو سے معاشرے میں موجود مردوں اور عورتوں کے درمیان
بد اعتمادی پیدا کرنا نہیں چاہتے بلکہ اس حقیقت اور واقعیت کا ذکر کر رہے ہیں جس کے پیش نظر ایسے مواقع پر احتیاط ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

سوال : کیا گھریلو تقریبات میں عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ علیحدہ رکھنا واجب ہے؟
جواب : اسلامی تعلیمات (نا محرم) عورتوں اور مردوں کے درمیان دوری کا تقاضا کرتی ہیں۔ کیونکہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ اس طرح کا اختلاط جو حتیٰ دیندار عورتوں اور مردوں میں بھی ایک سماجی رسم بن گیا ہے کبھی کبھی ازدواجی زندگی میں مشکلات و مسائل پیدا کر دیتا ہے۔
ممکن ہے مرد اپنے دوست کی بیوی میں ایسی صفات دیکھ کر جو خود اسکی اپنی بیوی میں نہ ہوں اسکی طرف راغب ہو جائے۔ بالخصوص اگر فضا اس قدر دوستانہ ہو کہ تمام رکاوٹیں اور حجاب ہٹ جائیں اور لوگ آسانی کے ساتھ ایک دوسرے سے بات چیت کا ایسا رابطہبرقرار رکھیں جیسا اپنی شریکِ حیات سے گفتگو کرتے ہیں۔
لہٰذا ہماری رائے ہے کہ ایسے ماحول اور ایسی رسم کیلئے جس کی ابھی بنیاد پڑ رہی ہے، اجتماعی تقریبات میں عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے سے جدا رکھنے کیلئے اخلاقی ضابطے معین کئے جانے چاہئیں۔

سوال : میرے والد عمر رسیدہ ہیں اور کام کرنے کے قابل نہیں، میں اپنے گھرکی واحدکفیل ہوں۔ ایک شخص نے مجھے شادی کی پیشکش کی ہے۔ کیامیرے لئے جائز ہو گا کہ میں کام کروں اور اپنی زندگی گزاروں اوراپنے گھرانے کو اس کے حال پر چھوڑ دوں؟
جواب : آپ کیلئے شادی کرنا جائز ہے۔ بالخصوص اگر آپ کو شادی کی ضرورت ہو۔ اس بات کے پیش نظر کہ آپ کے اخراجات اٹھانا شوہر کی ذمے داری ہو گی، اگرآپ کے گھرانے کے اخراجات پورے کرنے والا کوئی نہ ہو اور آپ ان کے اخراجات اٹھاسکتی ہوں، تو اگر والدین کی کفالت کرنے والا کوئی دوسرا نہ ہو تو صرف ان کی کفالت آپ پر واجب ہے۔اور اگر ایسا نہ کر سکیں تو آپ پر واجب نہیں۔ بہر صورت آپ کے شادی کرنے میں کسی قسم کا گناہ نہیں۔

سوال : کیا لڑکوں پر اپنے والدین کی کفالت کرنا واجب ہے؟
جواب : جس طرح ضرورت مند اور خالی ہاتھ بچوں کے اخراجات پورے کرنا والدین پر واجب ہے، اسی طرح قطعی طور پر ضرورت مند والدین کے اخراجات پورے کرنا بچوں پر واجب ہے۔ اس مسئلے میں لڑکے اور لڑکی، چھوٹے اور بڑے بچے کے درمیان کوئی فرق نہیں بلکہ سب ہی پر واجب ہے۔
بچے کو جسمانی سزا دینا
سوال : تربیت و تادیب کیلئے کس صورت میں بچے کی پٹائی کی اجازت دی گئی ہے؟ اوراگر والدین اس حد سے تجاوز کریں اور شدت سے کام لیں توان پر کیا واجب ہو گا؟
جواب : اسلام، بچے کو والدین کے پاس ایک امانت سمجھتا ہے۔اس نے اگر باپ کوبچے پر ولایت کا حق دیا ہے، تو اِس ولایت کے معنی بچے پر باپ کا مطلق تسلط نہیں ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ باپ جس طرح چاہے اپنے سلیقے اور مزاج کے مطابق بچے سے سلوک روا رکھے۔ بلکہ اس پر لازم ہے کہ بچے کی مصلحت کو پیش نظر رکھ کر عمل کرے۔ اسے حق نہیں کہ اس کے ساتھ اسے کسی قسم کا نقصان پہنچانے والایا مفسدہ آمیز سلوک کرے۔
باپ پر واجب ہے کہ اپنے بچے کی تربیت کرے اور وہ تمام وسائل و ذرائع کام میں لائے جو بچے کے دیندار ہونے، اسکے علم و دانش اوراخلاقِ صالحہ سے آراستہ ہونے اور دوسروں کے ساتھ اچھے برتاؤ کے سلسلے میں موثر ہوں۔
جب تک تربیت کے دوسرے ذرائع موجود ہوں، باپ کو بچے پر سختی اورجبر سے کام لینے کا حق حاصل نہیں۔ لیکن اگر تربیت کیلئے بچے کی پٹائی کے سوا کوئی چارہ نہ رہے تو تربیت کے ایک طریقے کے عنوان سے وہ اسے مار سکتا ہے۔ یعنی پٹائی بچے پر نفسیاتی اور جسمانی دباؤ ڈالنے کا ایک ذریعہ ہو۔ اس عمل کے دوران بھی حد سے تجاوز اور بے رحمی کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہئے۔
شرع مقدس نے بچے کی پٹائی کیلئے بھی ایک حد مقرر کی ہے۔ اور وہ حد یہ ہے کہ اس قدر نہ ماراجائے کہ بدن سرخ ہو جائے۔ اگر ایسا ہو جائے تو باپ گناہگار ہو گا اور اس پر دیت کی ادائیگی بھی واجب ہو گی۔
لیکن اگر کسی مقام پر بچے کو کوئی بڑاخطرہ درپیش ہو اورسخت پٹائی کے سوا، اُسے اس سے روکنے کا کوئی اور راستہ موجود نہ ہو، تو اس خطرے سے اُسے محفوظ رکھنے کی غرض سے باپ کیلئے اسے سختی سے مارنا جائز ہے۔ البتہ ان حالات میں باپ کو نہایت سوچ بچار سے کام لینا چاہئے اور یہ اطمینان حاصل کرلینا چاہئے کہ معاملہ اس خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے کہ اب اس پر لازم ہے کہ اپنے بچے کو غیر معمولی تنبیہ کرے۔ باپ کو محتاط رہنا چاہئے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ معاملہ اس پر مبہم رہ جائے اور اچھی نیت رکھنے کا باوجودوہ خطا کا شکار ہوجائے اور حلال سمجھتے ہوئے حرام کا مرتکب ہو بیٹھے۔

سوال : کیا مرد یہ دلیل دے کر کہ اسکی بیوی بچوں کو مار کوٹ کر ان کی اچھی تربیت نہیں کر رہی، اُسے اِس عمل سے روک سکتا ہے؟
جواب : عورت کو حق نہیں پہنچتا کہ و ہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر اسکے بچوں کی تادیب (تنبیہ) کیلئے انہیں زد و کوب کرے۔ لیکن تادیب اور تربیت کی غرض کے بغیر (بچوں کو) مارنا ماں اور باپ دونوں کیلئے حرام ہے۔ اور تادیب و تربیت کی غرض سے مارنے کیلئے بھی بچے کے باپ یا اسکے شرعی ولی کی اجازت ضروری ہے۔
سوال : کیا اسکول کے پرنسپل یا اساتذہ، اپنے طالبِ علموں کی تربیت کیلئے ا نہیں مار پیٹ سکتے ہیں؟
جواب : اگر بچے کے باپ یا اسکے شرعی ولی نے استاد ( teacher ) کو اس بات کی اجازت دی ہو(تو استاد ایسا کر سکتا ہے)۔ اوروہ اس طرح کہ وہ جانتے ہوں کہ بعض حالات میں بچے کو کسی عمل سے بازرکھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ لہٰذا استاد کیلئے جائز ہے کہ اگر تمام درست اور اچھے طریقے (اگر یہاں یہ تعبیر صحیح ہو تو) استعمال کرنے کے بعد بھی معاملہ اس حد تک جا پہنچے کہ مارنا ضروری ہوجائے تو شرعی حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ عمل انجام دیا جاسکتا ہے۔

سوال : کیا بالغ اور سمجھدار (mature)لڑکی، اپنے گھر والوں کی مخالفت کی صورت میں اپنی پسند کے لڑکے سے شادی کیلئے گھر چھوڑ کر جا سکتی ہے؟
جواب : ہر چند بعض فتاویٰ، لڑکی کی شادی کے سلسلے میں باپ کی اجازت کو ضروری نہیں سمجھتے، پھر بھی مشرقی لڑکیوں کو میری نصیحت یہ ہے کہ وہ اپنے گھرانے، بالخصوص اپنے والد کی
رضا مندی کے بغیر شادی نہ کریں۔کیونکہ اس قسم کی شادی مستقبل میں اسکی اور اسکے شوہر کی زندگی کو پیچیدگیوں سے دوچار کر دے گی اور بہت سی خاندانی اور ازدواجی مشکلات کاباعث ہو گی اور ازدواجی زندگی کو عدم استحکام اور بے اطمینانی کی طرف لے جائے گی۔جبکہ شادی کا مقصد جسمانی اور اجتماعی سکون و اطمینان ہے۔
لیکن اگر والدین لڑکی پر جبرکریں اور اسے اپنے کفو اور ہم پلہ شخص سے شادی کی اجازت نہ دیں اوران کا مقصد یہ ہو کہ لڑکی تاحیات ان کی خدمت کرتی رہے۔ یا والدین نے اپنی پسند سے کسی شخص کو اُس کیلئے منتخب کیا ہو اور لڑکی کو اِس کی پسند اور خواہش کے برخلاف اُس شخص کے ساتھ شادی پر مجبور کریں، یا پھر وہ دقیانوسی رسم و رواج کے اسیر ہوں (جیسے کہ بعض معاشروں میں صرف چچا زاد، یا خالہ زاد بہن بھائی کے درمیان ہی شادیاں کی جاتی ہیں) اور اپنے لڑکے یا لڑکی کی مصلحت کو مد نظر نہ رکھیں اور ان کیلئے زندگی کو اس قدر سخت کر دیں کہ ان کے پاس اس گھٹن زدہ ماحول اور خاندان کے چنگل سے نکلنے کے سوا کوئی اور راستہ باقی نہ رہے۔ اورواحدراہِ حل گھر والوں کی اجازت کے بغیر شادی رہ جائے، تو ایسی صورت میں اس قسم کی شادی میں کوئی مضائقہ نہیں ۔
یہاں زیر بحث موضوع کی مناسبت سے، گھر کے بڑوں کو میری نصیحت ہے کہ انہیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ والدین کے ساتھ زندگی بسر کرنے والے لڑکوں اور لڑکیوں کی حیثیت گھر کے مال و اسباب کی سی نہیں ہے اور نہ ہی وہ احساس سے عاری کوئی شے ہیں۔ بلکہ ان کی بھی آرزوئیں اور خواہشات ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے جوانی میں ان کے والدین کی بھی تمنائیں اور خواہشات ہوا کرتی تھیں۔ والدین سے میری درخواست ہے کہ وہ اپنے اُس وقت کے احساسات کو یاد کریں جب اُن کے ماں باپ اُن پرسختی کرتے تھے۔ اورپھر ایسی ہی آرزوئیں رکھنے والے اپنے جوان لڑکے یا لڑکی کے احساسات پر انہیں منطبق کریں۔
والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کی خواہشات کے حصول کے سلسلے اُن کی مدد کریں تاکہ وہ ایک فطری اور اطمینان و سکون سے بھرپور زندگی بسر کریں ۔شادی باپ کو تو کرنی نہیں جو اسکی بہو میں اسکے مزاج کے مطابق صفات پائی جائیں۔ اسی طرح ماں کو تو شادی نہیں کرنی کہ داماد میں پائی جانے والی صفات اس کی پسند کے مطابق ہوں۔ جوان (لڑکا یا لڑکی) شادی کرنا چاہتے ہیں۔ پس اُس کے شریکِ حیات کو اُس کی پسند اور مزاج کے مطابق ہونا چاہئے۔ کیونکہ اسے زندگی بسر کرنی ہے اور اسی کو زندگی کی گاڑی کھینچنی ہے۔
لہٰذا لڑکے یا لڑکی پر شریکِ حیات کے انتخاب کے سلسلے میں کسی بھی قسم کا سخت دباؤ ڈالنا، شفقت و محبت سے عاری ایک غیر انسانی عمل ہے۔ والدین پر ان کے بچوں کا (خواہ یہ بچے لڑکے ہوں یا لڑکیاں) حق یہ ہے کہ وہ ان کی رائے کو سنیں، اس پر بحث وگفتگوکریں اور جس چیزکو ان کی مصلحت سمجھیں اس کے بارے میں انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کریں۔ اور اگراپنی تمام تر کوشش کے باوجود انہیں مطمئن نہ کر سکیں اور ان کا لڑکا یا لڑکی یہ سمجھے کہ جس چیز کا انتخاب اس نے کیا ہے وہی بہتر ہے، تو ایسے حالات میں والدین کوچاہئے کہ اپنے ان بچوں کو تجربے کا موقع دیں، تاکہ وہ مستقبل کی ذمے داری خود اپنے کاندھوں پر اٹھائیں۔
اس تجربے کے دوران بھی والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں۔ کیونکہ اس موقع پر انہیں تنہا چھوڑنا درست نہیں ہے۔ جیسا کہ بعض والدین اپنے بچوں سے کہتے ہیں کہ :اگر تم نے ہماری بات نہ مانی تو ہمارا تم سے کوئی ناطہ نہیں رہے گا، ہم تمہاری کسی بات کے ذمے دار نہیں ہوں گے۔
ہمیں اپنے بچوں کو تجربات پر ابھارنا چاہئے، خواہ ہماری رائے نہ ماننے کی وجہ سے ان کا یہ تجربہ ناکامی سے دوچار ہی کیوں نہ ہو جائے۔ ناکامی کی صورت میں بھی ہمیں ان کی مدد کرنی چاہئے ۔تاکہ کم سے کم نقصان کے ساتھ وہ اس صورتحال سے باہر نکل آئیں۔ یہی زندگی کا دستور ہے ۔
ہم والدین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس نکتے کو سمجھ لیں کہ ان کے بچے اپنی ولادت کے ابتدائی دنوں میں ان کے وجود کا ایک حصہ تھے لیکن اب بڑے ہونے کے بعد ان کے وجود کا حصہ نہیں رہے ہیں۔ وہ ایک دوسری انسانی شخصیت اور علیحدہ افکارو خیالات، آرزؤئیں اور تمنائیں رکھنے والے انسان ہیں۔ اور والدین کو اس بات کا حق نہیں کہ وہ ان پہلوؤں میں ان پر ظلم روا رکھیں۔

سوال : میں اپنے والد کے خلافِ شریعت اعمال کی وجہ سے اپنے گھر میں رہنے کی سکت نہیں رکھتا۔ کیا میں اپنے حالات سے واقف اپنے کسی عزیز یا دوست کے گھر منتقل ہو سکتا ہوں ؟
جواب : ہم محض والدین میں سے کسی کے گمراہ ہونے کی وجہ سے ان کے بچوں کے ان سے علیحدہ ہونے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ کیونکہ یہ عمل اس حسنِ معاشرت کے منافی ہے جسے کافر، فاسق اور گمراہ والدین تک سے روا رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اﷲ رب العزت فرماتا ہے :وَ اِنْ جَاہَداٰاکَ عَلآی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌلا فَلااَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفاً(اور اگر تمہارے ماں باپ اس بات پر زور دیں کہ کسی ایسی چیز کو میرا شریک بناؤ، جس کا تمہیں علم نہیں ہے، تو خبردار ان کی اطاعت نہ کرنا، لیکن دنیا میں ان کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنا۔ سورۂ لقمان ۳۱۔ آیت ۱۵)
آیت میں مشرک والدین کا تذکرہ ہے، اس حساب سے دیکھیں تو گمراہ مسلمان والد کے مقابل آپ کا فریضہ کیا ہونا چاہئے؟
خداوندِ عالم بچوں سے چاہتا ہے کہ وہ اپنے کافر، گمراہ اور فاسق والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئیں، اِن کے ساتھ زندگی بسر کریں، اِن کے ساتھ نرمی برتیں اور محبت کے ساتھ اپنے شانوں کو ان کے سامنے جھکائے رکھیں، ان کے راہِ راست پر آنے کیلئے دعا اور کوشش کریں اوران کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اختیار کریں۔
لیکن اگر گمراہ یا کافر ماں یا باپ کے ساتھ بچے کا رہنا، بچے پر منفی اثرات مرتب کرنے اور اسکے گمراہی میں مبتلا ہونے کا باعث ہو اور اس گمراہی سے بچنے کا کوئی راستہ بھی نہ ہو، اس ماحول میں وہ دینی فرائض کی پابندی نہ کرسکے، تو ایسی صورتحال میں بعض اوقات گھر چھوڑنا جائز ہوجاتا ہے۔ بلکہ کبھی کبھی والدین سے دوری اختیار کرنا واجب بھی ہو جاتا ہے۔ان حالات میں اُسے چاہئے کہ کسی ایسی جگہ چلاجائے جہاں بغیر کسی دباؤ اورخطرے کے اپنے دینی فرائض پر عمل کر سکے۔

سوال : بچہ کس وقت ممیز ہوتا ہے اور ایک ممیز بچے کوجو حدود و قیود ملحوظ رکھناچاہئیں وہ کیا ہیں؟
جواب : ممیز بچہ وہ ہے جوشعوروآگہی اورجسمانی صلاحیت کے اعتبار سے اس مقام پر پہنچ چکا ہو جہاں وہ انسان کی شخصیت میں موجود جنسی پہلو کو محسوس کرنے لگے اور جنسِ مخالف کو چھو کر یا اسے دیکھ کر اس سے متاثر ہونے لگے اور اس میں جنسی خواہش پیدا ہو ۔
شاید ممیز بچے کی قریب قریب یہی تعریف ہو۔ ممیز بچے کے بارے میں اثباتی پہلو رکھنے والے بعض احکام کا ذکر بھی ہوا ہے۔ مثلا اسکی شرعی عبادات، بقول علما کے نماز، روزہ اور حج کی مانند اسکی عبادات درست ہیں۔ نیز اگر اس کے بعض معاملات معمول کی صورت سے انجام پائیں تو مستقل طور پر معتبر ہیں۔
اس کے بعض احکام سلبی پہلو کے حامل بھی ہیں ۔مثلاً اس کا دیکھنا اورچھونا۔ کیونکہ ان کا تعلق بلوغ سے متعلق قوانین سے ہے۔اور دلائل کی رو سے جب تک بچہ بالغ نہ ہو جائے اس پر کوئی فریضہ عائد نہیں ہوتا۔ لہٰذا ممیز بچے کا نا محرم عورت کو بغیر حجاب کے دیکھنا اور اس سے مصافحہ کرنا جائز ہے۔ اس بارے میں موجود عام دلائل اس حکم کی بنیادہیں۔ لیکن بعض فقہا کی رائے ہے کہ شرع کے مزاج کا تقاضا ہے کہ انسان کو ہر اس جگہ سے دور رکھا جائے جو اس کے گمراہ ہونے اوراس کی نفسانی خواہشات بھڑکانے کا موجب ہو، چاہے یہ انسان ابھی کمسن ہی کیوں نہ ہو۔ حتیٰ بعض فقہا کا خیال ہے کہ یہ مسئلہ بڑوں سے زیادہ بچوں کیلئے حساس ہے ۔کیونکہ اس کابے حجاب عورت کو دیکھنا، یا اس کو چھونا بعض اوقات اس کے جنسی احساسات کو ایک پیچیدہ شکل میں بھڑکاتا ہے اور اس کی زندگی پر برے اثرات مرتب کرتا ہے۔
اس مسئلے میں بعض فقہا کی رائے اس آیت سے ماخوذ ہے : اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوْا عَلٰی عَوْرٰتِ النِّسَآءِ (اور وہ بچے جو عورتوں کی پردے کی بات سے واقف نہ ہوں ۔ سورۂ نور ۲۴۔ آیت ۳۱)۔اس آیت کے زیر اثر فقہا اِس مسئلے میں ان بچوں کے بارے میں احتیاط کے قائل ہیں جو خواتین کے پردے کی بات (یہ مونث کی جنس سے آگہی کے بارے میں کنایہ ہے )سے واقف ہو جاتے ہیں۔ ہم بھی اسی احتیاط کی جانب مائل ہیں۔ اگرچہ اس بارے میں ہم نے فتویٰ نہیں دیا ہے۔

سوال : بعض لوگوں کی رائے ہے کہ گھر کی صفائی ستھرائی، بچوں کی تربیت اورکھانا پکانا عقدِ ازدواج کی ضمنی شرط ہے، جس کی عورت کو پابندی کرنی چاہئے اور یہ کہنا درست نہیں ہے کہ عورت اپنے شوہر کے صرف ایک خاص حق کے بارے میں مکلف ہے۔ اس بارے میں آپ کی رائے کیاہے؟
جواب : یہ معاملہ، جیسا کہ ہمارے استاد آقائے خوئیؒ تاکید فرماتے تھے (عقدِ نکاح کی) ضمنی شرط نہیں ہے۔ کیونکہ عام دستور ہے کہ عورت انتہائی خوشی، رغبت اور بغیر کسی صلے کی تمنا کے یہ کام انجام دیتی ہے۔ کیونکہ عورت یہ محسوس نہیں کرتی کہ اس کا یہ کام کرنااُس مزدور کے کام کی مانند ہے جو معاہدے کی بنیاد پر اپنے مالک کیلئے کام کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عورت یہ تمام کام اخلاقی طور پر اپنے شوہر کی خدمت اور ایثار کے جذبے کے تحت انجام دیتی ہے ۔اسی طرح جیسے شوہر بھی اپنی زوجہ کیلئے بہت سی ایسی خدمات انجام دیتا ہے جواس کے شرعی فرائض میں شامل نہیں ہیں۔
ہاں، اگر خاص قرائن یا عقد سے پہلے رکھی جانے والی شرائط اوراس بارے میں ہونے والے مذاکرات اس بنیاد پر ہوں، اور عقد بھی ان دونوں کے اتفاق کی بنیاد پر ہو، یا لوگوں میں عرفِ خاص بھی اس پردلالت کرے، یعنی صیغۂ عقد سے اس مفہوم کی پابندی بھی سمجھ میں آتی ہو، تب یہ بات درست ہے۔ مثلاً جب عورت کہے کہ زوّجتک نفسی یا اسکا وکیل یہ کہے کہ زوجتک موکلتی تو یہ کہنا ایساہوجیسے وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ بشرطیکہ (عورت) ان تمام کاموں کی پابندی کرے گی جو ایک عورت گھر میں انجام دیتی ہے۔
جس آیت میں عورت کو دودھ پلائی کے معاوضے کی ادا ئیگی واجب قرار دی گئی ہے، وہ کہتی ہے کہ : فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَکُمْ فَاٰاتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّج وَ اْتَمِرُوْا بَیْنَکُمْ بِمَعْرُوْفٍ (اوراگر وہ تمہارے بچوں کو دودھ پلائیں تو انہیں ان کی اجرت دو، اور اس مسئلے کو آپس میں احسن طریقے سے طے کرو۔ سورۂ طلاق ۶۵۔ آیت ۶)۔ اس آیت سے ظاہر ہوتاہے کہ بچے کودودھ پلانا اسلام میں عقدِ ازدواج کی ضمنی شرط نہیں ہے، جس کی پابندی عورت کیلئے ضروری ہو۔اگر یہ ضمنی شرط ہوتی توعورت کودودھ پلانے سے گریز کا حق حاصل نہیں ہوتا۔
اس کے باوجود ماں کے اپنے بچے کو دودھ پلانے کا مسئلہ تاریخ میں عام طور پر رائج مسائل میں سے ہے، جو تمام ہی معاشروں میں ماں اور بچے کے تعلق کے مابین موجود رہا ہے۔ لہٰذا ہماری رائے یہ ہے کہ عورت کی طرف سے انجام دیئے جانے والے یہ اعمال عقدِ نکاح کی ضمنی شرط نہیں ہیں ۔کیونکہ در حقیقت جو بات رائج ہے وہ یہ ہے کہ عورت کسی معاہدے کی پابندی کی خاطر نہیں بلکہ اپنی خوشی سے اپنے بچے کو دودھ پلانے کی پابندی قبول کرتی ہے۔(۱)
بیوی کو زدو کوب کرنا
سوال : اگر عورت کو اس کا شوہر ناحق زدو کوب کر رہا ہو، تو کیا وہ بھی جواب میں اپنے شوہر کو مارسکتی ہے؟ کن مقامات پر شوہر اپنی بیوی کو زدو کوب کرسکتاہے؟
جواب :اگر کوئی عورت پر ظلم کرے، توعورت کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، خواہ یہ ظلم کرنے والا اس کا شوہر ہو یا کوئی اجنبی شخص۔ کیونکہ اپنے دفاع کا حق شرعی لحاظ سے جائز اور ثابت ہے۔ لہٰذا اگر کسی بیوی کاشوہر اسے ناحق زدو کوب کر رہا ہو، تو شرعی لحاظ سے بیوی کو بھی اسے ویسا ہی جواب دینے کا حق حاصل ہے۔ اگرچہ ہم عائلی زندگی کی بقا اور حفاظت کی خاطر عورتوں کو اس عمل کی سفارش نہیں کرتے، ماسوا اس کے کہ حالات اس ردِّ عمل کا تقاضا کریں۔
مثلاً جب وہ اپنی جان خطرے میں محسوس کرے، تو اس پراپنی جان کی حفاظت لازم ہے۔
اب رہی شوہر کے اپنی بیوی کو زدو کوب کرنے کی بات، تو سوائے ایک موقع اورمقام کے مرد کو اپنی بیوی کو زد و کوب کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اور وہ موقع وہ ہے جب بیوی اپنے شوہر کو اس کے جنسی حق سے محروم رکھے۔ اس صورت میں بھی اگر شوہر کا بیوی کو نصیحت کرنا، اس سے دوری اختیار کرنا اور اسی طرح کے دوسرے ذرائع، موثر ثابت نہ ہوں، تب شوہر اپنی بیوی کو زد و کوب کرسکتا ہے۔ جیسا کہ خداوندِ عالم نے قرآنِ کریم میں فرمایا ہے :

۱۔ یعنی ہمارے معاشروں میں پائی جانے والی حقیقت یہ ہے کہ ماں جب اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے تواُس کا یہ عمل اس مزدور کے کام کی مانند نہیں ہوتا جو اس کی اجرت چاہتا ہے۔ بلکہ وہ یہ کام بلا معاوضہ انجام دیتی ہے۔
وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوزَہُنَّ فَعِظُوْہُنَّ وَ اہْجُرُوْہُنَّ فِی الْمَضَاجِع
ِ وَ اضْرِبُوْہُنَّ(اورجن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں خطرہ ہے انہیں موعظ کرو، انہیں خواب گاہ میں الگ کر دو، اور (پھر بھی اثر نہ ہو تو انہیں) زدو کوب کرو۔ سورۂ نساء ۴۔ آیت ۳۴)
البتہ زدو کوب بھی صرف اتنا کیاجائے جودیت کا موجب نہ ہو۔ یعنی نہ تو بدن پر نیل پڑے، نہ خون نکلے اور نہ ہی کوئی ہڈی ٹوٹے۔ یہ زدو کوب کرنا بھی بے رحمی کے ساتھ نہ ہو، بلکہ ہلکی اور تادیبی مار ہو جو عورت کی نافرمانی کا علاج ہے۔جسمانی سزا کا یہ طریقہ نفسیاتی، ذہنی اور فکری علاج سے مایوس ہونے کے بعد اختیار کرنا چاہئے۔
اس طرح کے حکم کی بنیاد شاید یہ ہو کہ اس سرکشی اور نافرمانی کی وجہ سے مرد کا بنیادی ترین ازدواجی حق (جنسی لذت کا حصول) ضائع ہوتا ہے۔ یہی جنسی لذت ہے جو میاں، بیوی کو گمراہی سے محفوظ رکھتی ہے ۔اس قسم کے معاملات میں حاکمِ شرع سے رجوع نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی عدالت میں اسکی شکایت کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ قاضی عورت کو اپنے شوہر کے ساتھ جنسی روابط پر مجبور نہیں کر سکتا۔اس لئے کہ یہ عمل دوستانہ اور محبت اور الفت سے معمور فضا میں انجام پاتا ہے۔ پس کیونکہ شوہر کی حق تلفی ہوتی ہے، لہٰذا وہ اس طرح اپنی بیوی کوآمادہ کرسکتا ہے۔

سوال : کیا آپ یہ بات محسوس نہیں کرتے کہ ازدواجی تعلقات کی ماہیت زبردستی اور زدوکوب کرنے سے مطابقت نہیں رکھتی؟
جواب : یہاں ایک اہم مسئلہ پایاجاتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اگر عورت بیماری، کسی سخت مشکل، ناتوانی اور اسی قسم کے دوسرے اسباب کی وجہ سے مباشرت سے گریز کر رہی ہو، تو صاف ظاہر ہے کہ وہ کسی حرام کی مرتکب نہیں ہوئی ہے۔ لیکن اگروہ معمول کی حالت میں ہو، اور اس کے شوہر کو شدید خواہش ہو اور عورت اسے تناؤ اور پریشانی میں مبتلا رکھنا چاہتی ہو، تواس نے اپنے عہد و پیمان سے خیانت کی ہے اور قدرتی طور پر یہ امر مرد کی گمراہی اور ازدواجی فضا کی خرابی پر منتہی ہو گا۔(ایسے حالات میں) عورت کو زدو کوب کرنے کی اجازت دو برائیوں (علیحدگی یاسزا) میں سے چھوٹی برائی ہے۔ لہٰذا وہ عورت جسے اپنی قدر و قیمت کا احساس ہوتا ہے اور اپنے شوہر کی خواہشات، تمایلات اور کیفیات کو جانتی ہے، وہ اپنے شوہر کو اس مقام تک نہیں پہنچنے دیتی جہاں وہ اُسے زدوکوب کرے اور اُس کے ساتھ سختی سے پیش آئے۔ کیونکہ وہ اپنی ازدواجی زندگی کوا چھے انداز سے چلانا جانتی ہے۔ ایسی عورت اگرکبھی اپنے شوہر کو کسی چیز سے روکناچاہتی ہے تو ایسی محبت اور حسنِ رفتار کے ساتھ اسے روکتی ہے کہ اس کی زندگی اور شخصیت کو نقصان نہ پہنچے۔
یہ مسئلہ عام اور طبیعی حالات سے تعلق نہیں رکھتا کہ اس کے ازدواجی تعلقات کے ساتھ ناساز گار ہونے کی بابت گفتگو کی جائے، ایسے تعلقات جن کیلئے جسمانی، جذباتی اور روحانی ہم آہنگی اورپیار و محبت پر مبنی مخلصانہ اور دوستانہ فضا ضروری ہے۔
عورت کو زد و کوب کرنا، ایک طبیعی اور عام حالت نہیں ہوتی بلکہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے، اور وہ بھی ایک ایسی پیچیدہ مشکل کے علاج کیلئے جس کا نتیجہ ممکن ہے ازدواجی زندگی کے خاتمے کی صورت میں برآمد ہو۔
اس مشکل کے حل کے چند راستے ہیں:
ایک راستہ یہ ہے کہ عورت کو طلاق دے دی جائے۔ یہ عمل خود اِس کیلئے، اِس کے بچوں کیلئے اور اِس کے شوہر کیلئے بھی مشکلات پیدا کرنے کا باعث ہے۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ مرد اپنی اس خواہش کی تسکین کیلئے گھر سے باہر کوئی صورت تلاش کرے ۔یہ راستہ ازدواجی بندھن اورعائلی زندگی کی سلامتی پر منفی اثرات مرتب کرے گا۔
تیسرا راستہ یہ ہے کہ شوہر اس صورتحال کو برداشت کرے اور نفسیاتی دباؤ کی حالت میں زندگی بسر کرے ۔ظاہر ہے یہ راستہ بھی منفی نتائج پر ختم ہو گا۔
لہٰذا فکری اورنفسیاتی تفاہم پر مبنی وعظ و نصیحت کے طریقے سے نا امید ہو جانے کے بعد ہی مار پیٹ اور زد و کوب کرنے کی نوبت آتی ہے۔ صلح وآشتی پر مبنی ان راستوں کے بعد
زد وکوب کرنا ہی وہ واحد راستہ رہ جاتا ہے جو خاندان کو تباہی سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔